![]() |
"رخسانہ اور پرانا خالی مکان – ایک سچی اور خوفناک محبت کی کہانی" |
کمرے میں میرے سوا کوئی نہ تھا اس کے باوجود کسی مرد کی انگلیاں میرے بالوں کو سہلا رہی تھیں لیکن وہ مرد مجھے نظر نہیں آ سکتا تھا کیونکہ وہ بدروح تھا اور اسے مرے ہوئے ایک سو سال گزر چکے تھے اس کی روح آئی تو میرا کمرہ سرد ہو گیا تھا کواڑ ہلے تھے اور میں نے اس کی دبی دبی سی ہنسی سنی تھی تھی میں ان پڑھ اور گوار نہیں بلکہ ایک تعلیم یافتہ استانی ہوں آج تک میں یہ واقعہ بتانے سے اس لیے گریز کرتی رہی ہو کہ سننے والے مجھے پاگل سمجھیں گے مگر اب میں یہ راز اگل دینا چاہتی ہوں کہ میں نے اسی بدروح سے شادی کر لی تھی میرا نام رخسانہ ہے میرا جیتا جاگتا منگیتر فوج میں تھا اور تین برسوں سے اقوام متحدہ یعنی یونائٹڈ نیشنز کی امن فوج میں شامل کویت میں مقیم تھا اس کا نام عادل ہے اور اب میں اس کی بیوی ہوں ان دنوں میں اس کی غیر حاضری میں اس کے منگنی کی انگوٹھی پہنے رکھتی تھی مجھے عادل سے بے پناہ محبت تھی بے لوث اور پاکیزہ اور والہانہ محبت ۔میں شہر کے سکول میں پڑھایا کرتی تھی اور شادی کے لیے اچھے خاصے پیسے جمع کر لیے تھے عادل کے خط آتے رہتے تھے اس کے واپس آنے میں ابھی کچھ عرصہ باقی تھا۔
میں سدا سے انتظار میں تھی کہ وہ آئے اور ہم شادی کر لیں دنیا میں عادل کے سوا میرا تھا ہی کون ماں باپ تو میرے بچپن میں ہی مر چکے تھے میں نے شہر سے دور دیہاتی علاقے میں کرائے کا مکان لینے کا فیصلہ کر لیا کیونکہ شہر کے شور شرابے اور مصنوعی زندگی سے میری طبیعت اکتا گئی تھی کہ کرائے پر مکان لینے کے لیے میں نے ایک پراپرٹی ایجنٹ سے رابطہ قائم کیا اس نے شہر سے 10 میل دور میرے لیے ایک پرانا سا مکان دیکھا اور مجھ سے بات کر کے مالک مکان سے معاملات طے کر لیے پھر میں مکان دیکھنے کے لیے وہاں پہنچی مالک مکان اس مکان کو فروخت بھی کرنا چاہتا تھا لیکن ابھی میں کرایہ پر ہی رہنا چاہتی تھی ارادہ تھا کہ عادل واپس آئے گا تو کوئی مناسب مکان خرید لیا جائے گا مجھے مکان کا جو کرایہ بتایا گیا تھا وہ مزے کا خیز حد تک کم تھا میں نے سنا تو میری ہنسی چھوٹ گئی ایجنٹ نے کہا کہ گاؤں کے مکانوں کی کرائے اس لیے بھی کم ہوا کرتے ہیں کہ شہر کو چھوڑ کر یہاں کون رہنے آتا ہے لیکن ایجنٹ کو یہ معلوم نہ تھا کہ میں شہر سے بھاگ کر اس چپ چاپ سے فضا اور معصوم سے ماحول میں پناہ لینے آئی ہوں اس مکان کے قریب تر جو مکان تھا وہ میل ڈیڑھ میل کے فاصلے پر تھا میں یہ مکان عادل کے لیے لے رہی تھی مجھے اس سے بے پناہ محبت تھی اور ہم شادی کر کے ہنگاموں سے بہت دور رہنا چاہتے تھے عادل دیہات میں ہی پلا بڑا تھا مجھے امید تھی کہ وہ اس ماحول کو بے حد پسند کرے گا میں نے تو عمر شہر میں گزاری تھی میرے ماں باپ بچپن میں ہی فوت ہو چکے تھے اور میری پرورش میری خالہ نے کی تھی خالہ خاموش پسند عورت تھی وہ مجھے زیادہ بولنے نہیں دیتی تھی اس نے مجھے بڑے پیار سے پالا تعلیم دلائی اور مجھے قدیم زمانے کی پراصرار کہانیاں پڑھنے کا بڑا شوق تھا میں نے ایک کتاب میں اسی قسم کے مکان کے متعلق ایک کہانی پڑھی تھی جو مجھے بہت اچھی لگتی تھی یہ کہانی بھی پراصرار تھی جب مجھے ایجنٹ نے یہ مکان دکھایا تو مجھے یوں محسوس ہوا جیسے وہ کہانی اسی مکان کے متعلق تھی شاید کہانی کا اثر تھا کہ مجھے یہ مکان جانا پہچانا لگا جیسے میں اس مکان میں کبھی رہ چکی ہوں۔
ایجنٹ نے مکان کا تالا کھولا اور چابی مجھے دیکھ کر نہ جانے کہاں چلا گیا میں اندر اگئی باہر سے مکان جس قدر اچھا لگا تھا اندر سے دیکھ کر مجھے اتنی ہی بو سی آئی دیواریں اور فرش نہ مولود تھے فرنیچر بوسیدہ اور دیواریں زمانہ قدیم کی اداس اداس کہانیاں سنا رہے تھے ان میں سے کوئی بھی چیز یہاں کی ملکیت نہیں ہے نہ جانے کون رکھ گیا ہے میں نے بلند آواز سے کہا مگر دوسرے ہی لمحے میں چونک کر سہم گئی کیونکہ کمرے میں کسی مرد کی دبی دبی سی ہنسی سنائی دی اس کے ساتھ ہی مجھے قدموں کی چاپ بھی سنائی دینے لگی میں نے ادھر ادھر دیکھا اور سوچا کہ ایجنٹ ہوگا لیکن وہاں میرے سوا کوئی نہ تھا ہنسے کی آواز کے گونج ابھی تک کمرے میں بھٹک رہی تھی یہ وہم نہیں تھا تا ہم میں نے اپنے دل کو تسلی دے کر سنبھال لیا کہ قدیم مکانوں میں بسی آوازیں اکثر سنائی دیتی ہیں جو دراصل انسانی نہیں ہوتی میں نے خیال کیا کہ ہو سکتا ہے کسی کونے کھدرے میں کوئی بلی یا کتا بچوں سے کھیل رہا ہو برامدے میں لکڑی کا زینہ تھا میں زینے چڑھ کر بالائی کمرے میں آگئی اوپر دو بڑے کمرے اور ایک سٹور روم تھا جس میں کچھ کباڑ بکھرا پڑا تھا میں واپس نیچے آئی اور مکان کا غور سے جائزہ لیا فرش پرانے زمانے کے خوبصورت ٹائلوں کا تھا انگیٹی نہایت خوبصورت تھی اور دروازے کی کھڑکیوں کے کواڑوں پر بیل بوٹے کھدے ہوئے تھے چھت پر بھی گلکاری کی ہوئی تھی یوں لگتا تھا جیسے کسی نے یہ مکان بڑے پیار سے یا کسی کے پیار کی خاطر تعمیر کیا تھا ہر چیز سے یہاں کے رہنے والوں کی خوش ذوقی ظاہر ہو رہی تھی وہی مکان جو چند لمحے پہلے اداس اداسہ نظر ایا اب شگفتہ اور ہنستا مسکراتا دکھائی دے رہا تھا۔
میرے ذہن میں تبدیلی کیوں آئی تھی میرے پاس اج بھی اس سوال کا کوئی جواب نہیں مکان کے قدیمی دلکشی مجھے حسن وعشق کی وادیوں میں لے گئی میں نے فیصلہ کر لیا کہ میں اسی مکان میں رہوں گی اور عادل کے لیے اسے اور بھی زیادہ دل کش بناؤں گی اتنےمیں ایجنٹ نظر آیا اور میں اس کے طرف دیکھنے لگی اس نے میری طرف دیکھتے ہوئے کہا میں چاہتا ہوں کہ آپ پھر سوچ لیں میں آپ کو شہر میں تھوڑے کرائے پر اچھا مقام دلا سکتا ہوں مجھے شک ہے کہ یہ مکان آسیب زدہ ہے میں نے چونکتے پوچھا او اس شک کی کیا وجہ ہے کہنے لگا دراصل یہ مکان 100 سال پرانا ہے اور بہت عرصہ خالی رہا ہے خالی مکانوں میں اسیب ڈیرے ڈال دیتا ہے میں نے ایجنٹ کی بات نہ مانی اور اس مکان میں منتقل ہو گئی دوسرے روز میں نیلامی سے ایک پرانا صوفہ سیٹ خرید لائی عادل اپنی تنخواہ میں سے ہر ماہ مجھے کافی پیسے بھیج دیا کرتا تھا جو میں ازدواجی زندگی کے لیے الگ رکھ دیتی تھی میرے پاس بھی اپنے 30 40 ہزار روپے تھے جو خالہ نے پچھلے سال مرتے وقت میرے لیے چھوڑے تھے میں نے مکان کے اندر دیواروں اور دروازوں پر رنگ و روغن شروع کروا دیا پرانے پردے بھی خرید لائی پھر میں پرانے فرنیچر کی تلاش کرنے لگی کیونکہ نئی چیزیں خریدنے کی ہمت نہیں تھی نہ جانے کیوں مجھے اس مکان سے روحانی سا لگاؤ سا پیدا ہونے لگا تھا کبھی کبھی یوں محسوس ہوتا جیسے میں ایک صدی پہلے کی مخلوق ہوں اور موجودہ دنیا کے ساتھ میرا کوئی تعلق نہیں میں اسی مکان کو سجانے لگی اور روز بروز کی تفصیلات عادل کو لکھنے لگی پھر عادل کا خط آیا تو اس میں خفگی کا اظہار تھا اس نے لکھا کہ اس قسم کے پرانے مکان پر اتنے پیسے خرچ کرنا عقلمندی نہیں میں تھوڑے عرصے تک واپس آجاؤں گا لیکن میں اس مکان میں نہیں رہوں گا عادل کا خط پڑھ کر مجھے غصہ آگیا خط پڑھتے وقت میں نے محسوس کیا جیسے وہ کسی ایسے آدمی کا خط ہو جس کے ساتھ میرا کوئی گہرا تعلق نہیں۔ مینے
عادل کو جواب میں لکھا کہ میں اسے مکان میں رہوں گی میں نے غصے کے عالم میں لفافہ بند کیا تو اسی وقت دروازے کے کواڑوں میں جنمبش ہوئی اس کے فوراً بعد میں نے اپنے کندھے پر کسی مرد کا ہاتھ محسوس کیا جو پیار سے میرے کندھے کو تھپ تھپا رہا تھا میرے انگلیوں میں خون جمنے لگا خوف سے میرا حلق خوش ہونے لگا اور میری رگ رگ میں سرد سی لہر دوڑ گئی کمرہ بھی سرد ہو گیا میں نے بڑی مشکل سے کندھے کے پیچھے دیکھا تو کمرے میں کوئی نہ تھا لیکن اس میں بھی کوئی شک نہ تھا کہ میرے کندھے پر کسی نے ہاتھ رکھا تھا میں خوفزدہ ہو گئی اور دوڑ کر باہر ائی لیکن باہر بھی کوئی نہ تھا میں نے سوچا کہ عادل سے مجھے روحانی محبت ہے اور اس وقت میں اسے کے خیال میں گم تھی ہو سکتا ہے کہ یہ میرے تصورات کا کرشمہ ہو میں نے عادل کا ہاتھ اپنے کندھے پر محسوس کیا ہوگا میں بے چین تو بہت ہوئی لیکن عادل کی محبت اور اس کے تصورات نے مجھے سنبھال لیا رات اطمینان سے گزر گئی صبح ناشتہ کر کے میں شہر کی طرف چل دی میں مکان کے لیے چند اور چیزیں خریدنا چاہتی تھی راستے میں ایک دکان تھی دکان میں میں داخل ہوئی تو دکاندار نے باتوں باتوں کے دوران مجھے اپنی بلی کے بچے دکھائے وہ بے حد خوبصورت بچے تھے اس نے ایک بچہ مجھے دے دیا کہنے لگا آپ اتنے بڑے مکان میں تنہا رہتے ہیں یہ بچہ آپ کا اچھا ساتھی ثابت ہوگا دکاندار نے مسکراتے ہوئے کہا میں نے اس سے بلی کا بچہ لے لیا اور شہر پہنچ گئی کچھ چیزیں خریدی اور واپس آگئی میرے گھر سے ذرا دور ایک اور مکان تھا سوچا ان لوگوں سے بھی راہ رسم پیدا کر لوں وہاں گئی تو معلوم ہوا کہ وہ لوگ میرے متعلق بہت کچھ جانتے ہیں وہ میاں بیوی اب بوڑھے ہو گئے ہیں۔
چند ایک رسمی باتوں کے بعد بڑھیا نے مجھ سے کہا سناو ہےتم پرانا فرنیچر خریدتی پھرتی ہو ہمارے گھر میں بھی ایک بہت پرانی چیز ہے کوئی سو سال پرانی ہوگی لیکن ہے بہت مضبوط اس زمانے کے دلکشی اب بھی اس میں موجود ہے چاہو تو خرید لو میں نے وہ میز خرید لیا اس کا رنگ اور روگن پھینکا پڑ چکا تھا لیکن ساخت میں ایک صدی پہلے کا ذوق نمایا تھا اس میز میں یہی خوبی اچھی لگی تھی بڑھیا نے وہ میز میرے حوالے کرتے ہوئے کہا اس مکان سے جتنی جلدی نکل جاؤ بہتر ہے تم شاید تھوڑا کرایہ دیکھ کر یہاں آگئی ہو لیکن یہ مکان اچھا نہیں ہے یہ سن کر میں نے حیرت سے اس کی طرف دیکھا اور کہا میں سمجھی نہیں کہنے لگی یہ مکان آسیب زدہ ہے یہاں کوئی کرایہ دار زیادہ نہیں ٹھہر سکتا تم اکیلی ہو کہیں ایسا نہ ہو کہ مجھے بڑھیا کے اس انکشاف پر ڈر جانا چاہیے تھا مجھے پہلے بھی خبردار کیا جا چکا تھا لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ مجھے ذرا بھی خوف محسوس نہ ہوا حالانکہ میں مکان میں اسیب زدگی کی ایک علامت دیکھ بھی چکی تھی لیکن مجھے تو اس مکان سے بے حد محبت سی ہوتی جا رہی تھی اس لیے میں نے بڑھیا کی بات پر کوئی توجہ نہ دی بڑھیا نے میز میرے گھر بھجوا دیا۔ شام کا اندھیرا پھیل رہا تھا میں نے کھانا تیار کیا اور کھایا بلی کے بچے کو دودھ پلایا پھر سکول کی لائبریری سے لائی ہوئی کتاب پڑھنے بیٹھ گئی بلی کا بچہ میری گود میں بیٹھا بیٹھا سو گیا میں بہت دیر تک پڑھتی رہی گھڑی پر نظر پڑی تو رات کے 12 بج رہے تھے میں صوفے پر بیٹھی تھی کتاب صوفے پر رکھ دی اور سوچا کہ اتنی دیر تک نہیں جاگنا چاہیے تھا دفعتا کمرہ ایک دم سرد ہو گیا میں نے حیرت سے ادھر ادھر دیکھا تمام کھڑکیاں دروازے بند تھے ہوا کہیں سے بھی اندر نہیں آرہی تھی۔
اچانک کہ یہ سردی میری رگوں میں سرائیت کر گئی میں نے محسوس کیا کہ یہ سردی کچھ انوکھی اور عجیب سی تھی پھر مجھے واضح طور پر محسوس ہوا کہ جیسے میرے قریب صفحے پر کوئی انسان آکر بیٹھ گیا ہے میں نے صوفے کے ہلتے ہوئے سپرنگوں اور صوفے کے دھنسنے کی ہلکی سی آواز بھی سنی اور خوف کی یخ بستہ لہر میرے وجود میں دوڑ گئی بلی کے بچے نے بدق کر میرے پہلو کی طرف دیکھا اور اس کے چہرے پر خوف کا تاثر نمایاں ہونے لگا اس کی انکھیں بتا رہی تھیں کہ اسے کوئی انسان یا کوئی اور شے نظر آرہی ہے اس نے خوفزدہ ہو کر منہ سے عجیب سی آواز نکالی اور اچھل کر میری گود سے فرش پر جا پڑا وہاں سے لڑکا اور دروازے سے جاٹکرایا دروازہ بند تھا اس نے یکدم میری طرف دیکھا اور خوفزدگی کے عالم میں دروازے پر پنجے مارنے لگا میں حیران و پریشان اور خوفزدہ تھی اس کی حالت دیکھ کر میں صوفے سے اٹھی اور آگے بڑھ کر دروازہ کھول دیا فوراً یہ بلی کا بچہ بجلی کی سی تیزی سے باہر نکلا اور اندھیرے میں گم ہو گیا میں باہر اندھیرے میں جھانکنے لگی مجھے جرات نہ ہوئی تھی کہ مڑ کے کمرے میں دیکھوں معلوم نہیں وہ کیسی خوفناک چیز تھی جو صوفے پر آ بیٹھی تھی اور بلی کا بچہ خوفزدہ ہو کر یہاں سے بھاگ نکلا میرے لیے ایک ہی راستہ تھا کہ گھر سے بھاگ کر اندھیرے میں غائب ہو جاؤں کسی پڑوسی کے ہاں رات گزاروں یا شہر میں کسی ہوٹل میں چلی جاؤں لیکن پھر خیال آیا کہ اس کمرے میں کوئی بدروح یا جن بھوت ہے تو وہ مجھے راستے میں روک لے گا اور کیا آسانی سے باہر جانے دے گا خوف کی شدت سے میرا وجود لرز رہا تھا اور حواس معطل ہوئے جا رہے تھے میں نے خود پر قابو پانے کی کوشش کی اور خوف سے تھر تھر کانپتے جسم کو بڑی مشکل سے کمرے کی طرف لگایا لیکن کمرے میں کوئی نہ تھا تب میں باہر نکلی اور دوسرے کمروں میں گھسی اور بتی جلا کر دیکھنے لگی لیکن مجھے کچھ بھی نظر نہ آیا میں نے فیصلہ کر لیا کہ کل صبح اس مقام سے نکل جاؤں گی اور شہر میں جا کر رہوں گی۔
اپ کوئی شک نہ رہا تھا کہ یہ مکان بدروحوں کا مسکن ہے دل کو جھوٹی تسلیاں دے کر میں بستر پر لیٹ گئی لیکن نیند نہ آئی میں ساری رات کروٹیں بدلتی اور مختلف قسم کی اوازیں سنتی رہیں ان میں جھینگرو کی آوازیں اور لکڑ بکوں کی آوازیں بھی تھیں کبھی کبھی کوئی گیدڑ چیخ اٹھتا تھا اور کبھی اور کہیں سے کسی کتے کے آواز سنائی دیتی تھی میرے ارد گرد جنگل جاگ رہا تھا اور میرا دل تیزی سے دھڑک رہا تھا میں نے بتی جلتی رہنے دی اور پھر رات کے آخری پہر میں کسی وقت مجھ پر غنودگی طاری ہوتی چلی گئی اگلے دن صبح دیر سے انکھ کھلی دن کی روشنی نے میرے سہمے ہوئے دل کو تھام لیا اور رات کا خوف بہت کم ہو گیا میں نے ناشتے سے فارغ ہو کر پھر باہر نکل کر گرد و پیش کا جائزہ لیا تو رات کے ارادے کہ میں یہ مکان چھوڑ دوں گی وہ دم توڑنے لگے اس قدر دلکش اور روح افزا ماحول شہر میں خواب میں بھی نظر آ نہ محال تھا مگر جب رات کا یہ واقعہ یاد آیا کہ میرے قریب صفحے پر کوئی ایک دم بیٹھ گیا تھا اور بلی کا بچہ ڈر کے مارے بھاگ گیا تھا تو دل ڈوبنے لگا میں نے بدروح کی کہانیوں پر کبھی یقین نہیں کیا تھا لیکن مجھے یہ بھی یقین نہیں تھا کہ رات کا واقعہ محض میرا وہم تھا صوفے کی آواز بتاتی تھی کہ وہ کوئی تنو مند انسان تھا میں نے مکان کو چھوڑ ہی دینے کا فیصلہ کر لیا چنانچہ میں مالک مکان کے گھر گئی اور اس کی بیوی سے کہا میں مکان خالی کر رہی ہوں میں نے اس رات کی واردات کے بارے میں نہ بتایا سوچا کہ وہ مجھے تہم پرست اور گوار نہ سمجھ بیٹھے یا کوئی غلط بات نہ کہہ دیں دراصل کویت سے میرا منگیتر واپس آ رہا ہے اور وہ شہر میں رہنا چاہتا ہے میں نے بہانہ پیش کیا وہ کہنے لگی معلوم ہوتا ہے تمہیں کسی نے ڈرایا ہے کہ اس مکان میں بدروحیں رہتی ہیں لوگوں نے اس مکان کے متعلق ہر قسم کے من گھڑنت قصے مشہور کر رکھے ہیں مالک مکان کی بیوی نے نرمی سے مجھے سمجھانے کی کوشش کی میں نے اسے بتایا کہ فلاں بڑھیا نے مجھے کہا تھا کہ میں اس مکان سے نکل جاؤں اس پر مالک مکان کی بیوی نے سنجیدہ لہجے میں وضاحت کرتے ہوئے کہا۔
سنو لڑکی تم مکان خالی کرنا چاہو تو بے شک کر دو لیکن میں تمہیں بتا دینا چاہتی ہوں کہ لوگوں نے اس کے متعلق بدروحوں کے قصے کس طرح گھڑے ہیں میں اور میرا شوہر 15 برس اس مکان میں رہے مگر ہمیں کبھی کوئی بدروح نظر نہیں آئی تھی قصہ دراصل یہ ہے کہ ایک سو سال پہلے ایک آدمی نادر خان نے اس مکان کی تعمیر کے لیے زمین خریدی تھی اس نے ابھی مکان بنانا شروع نہیں کیا تھا کہ جنگ شروع ہو گئی میں پوری طرح ہما تن گوش تھی اور بڑی دلچسپی کے ساتھ مالک مکان کی بیوی کی بات سن رہی تھی جو میرا شبہ دور کرنے کے لیے حقیقت بتا رہی تھی پھر وہ کہنے لگی نادر خان ایک وطن پرست انسان تھا۔ وہ وطن کی محبت سے سرشار تھا چنانچہ فورا جنگ پر چلا گیا اس کی منگنی ہو چکی تھی اسے اپنی منگیتر سے بے حد محبت تھی اور وہ منگیتر بھی اسے اسی طرح چاہتی تھی نادر خان اپنے منگیتر کے لیے یہی مکان بنانا چاہتا تھا لیکن وہ جنگ میں شریک ہو گیا حادثہ یہ ہوا کہ اس کی غیر حاضری میں اس کے منگیتر نے کسی اور شخص سے شادی کر لی اور نہ جانے کہاں غائب ہو گئی جب نادر جنگ سے واپس آیا تو اپنی منگیتر کو غائب پایا جس کے لیے وہ محل جیسا عالیشان مکان بنانا چاہتا تھا لڑکی کے غائب ہونے پر اس نے خاموشی اختیار کر لی اور اس نے یہ مکان بنانا شروع کر دیا وہ ہر وقت معماروں کے سر پر کھڑا رہتا اور اپنی پسند کی تعمیر کراتا رہا اس کی تعمیر میں نادر نے دو برس صرف کیے اور مکان کی ہر چیز کو نہایت دلکش بنایا اس زمانے کے لوگ سناتے تھے کہ وہ مکان کے ایک ایک نقش ایک ایک اینٹ اور ایک ایک پتھر میں اپنی بے وفا منگیتر کی محبت کو سمجھ رہا تھا بعض اوقات کوئی یار دوست اس سے پوچھ بیٹھتا کہ اب کون سی لڑکی کو اس خوبصورت مکان میں لا کر بسائے گا تو نادر خان ہر ایک سے ایک ہی بات کہتا کہ وہ ایک نہ ایک دن خود ہی اس میں آ جائے گی بہرحال وہ مکان بنواتا رہا مکان کی تکمیل دو برسوں میں ہوئی اس نے مکان کے سامنے کے باغیچہ بنوایا اور نایاب قسم کے پھول اور پودے اور سرخ گلاب لگا کر اسے انتہائی دلکش باغیچہ بنا دیا مالک مکان کی بیوی کہانی سنا رہی تھی اور میرے تصوروں میں ایک خوبرو جواں سال اور اداس سے مرد کی تصویر نکھرتی جا رہی تھی مجھے یقین کی حد تک محسوس ہونے لگا کہ میں اس آدمی سے اچھی طرح واقف ہوں اور میں نے اسے کئی بار دیکھا ہے نادر خان کا نام مجھے کچھ پہچانا لگا۔
جیسے یہ نام ایک مدت سے میرے دل میں جابسہ ہو اگرچہ یہ کہانی ایک سو سال پرانی تھی پھر بھی میں اپنے ذہن پر زور دینے لگی کہ میں نے نادر خان کو کہیں دیکھا تھا میں نے مکان کی مالکن سے پوچھا وہ بوڑھا تو مر گیا ہوگا کب مرا تھا اس نے شادی کی تھی یا نہیں اس عورت نے جواب دیا بہن وہ جوانی میں مر گیا تھا ایک روایت یہ ہے کہ وہ کہیں لاپتہ ہو گیا تھا لیکن میری دادی وثوق سے سنایا کرتی تھی کہ اس پر آسمانی بجلی گری تھی اس نے نادر خان کی جلی ہوئی لاش اپنی آنکھوں سے دیکھی تھی رات کا وقت تھا بڑے زور کا طوفان ایا تھا اس رات کہتے ہیں کہ ایسا طوفان پہلے کبھی نہیں آیا تھا آندھی اور بارش بہت تیز تھی اور بجلی رہ رہ کر کڑک اور چمک پیدا کر رہی تھی نادر خان برآمدے میں کھڑا تھا کہ اس پر بجلی گر پڑی اور وہ جل کر مر گیا ۔ اس کے بعد کئی لوگ اس مکان میں رہے لیکن کوئی بھی زیادہ عرصے کے لیے اس میں نہ ٹھہر سکا بہت مدت تک یہ مکان خالی پڑا رہا آخر اس نے نادر خان کے وارثوں کو تلاش کر کے ان سے یہ مکان خرید ہی لیا ہم 15 برس اس میں رہے اور کسی بھی لمحے شک نہ گزرا کہ یہاں کوئی بدرو رہتی ہے لوگوں نے نادر خان کی محبت کی کہانی میں سچائی پیدا کرنے کے لیے یہ قصہ گھڑ لیا ہے کہ نادر خان کی روح اب بھی اپنے منگیتر کو تلاش کرنے کے لیے اس مکان میں آیا کرتی تھی اگر یہ بات سچ ہوتی تو میں تم جیسی جواں سال لڑکی کو کبھی یہاں نہ رہنے دیتی ما لکن نے قصہ ختم کیا لیکن میں نے پھر بھی اسے نہ بتایا کہ میں نے نادر خان کی روح کو مکان میں محسوس کیا ہے نہ جانے میرے دل میں کیا آئی کہ میں نے مالکن کی بات مان لی اور مکان چھوڑنے کا فیصلہ بدل ڈالا لیکن اس کے ساتھ ہی نادر خان میرے اعصاب پر سوار ہو گیا مجھے رہ رہ کر خیال آتا کہ وہ اپنی بے وفا اور دھوکے باز منگیتر کو تلاش کرتا ہوا مر گیا مجھے نادر خان کے ساتھ ایسے دلچسپی پیدا ہو گئی جس کا تعلق میری روح کے ساتھ تھا میں مالکن کے گھر سے نکلی اور شہر چلی گئی شہر کی رونق اور گہما گہمی دیکھ کر مجھے گزشتہ رات کا واقعہ پھر یاد آگیا میں نے اپنے آپ کو فریب دینے کی بہت کوشش کی کہ وہ محض واہمہ تھا لیکن میری کوشش کامیاب نہ ہوئی کوئی انسان یقینا میرے صوفے پر بیٹھا تھا اور اس سے پہلے کسی نے بلا شک و شبہ میرے کندھے پر ہاتھ بھی رکھا تھا میں نے پھر ارادہ کر لیا کہ میں اس مکان کو چھوڑ کر شہر چلی جاؤں گی اور وہیں کوئی مکان لے کر رہوں گی مجھے یونیورسٹی کی لائبریری سے ایک دو کتابیں لینی تھی میں یونیورسٹی چلی گئی سکول میں ان دنوں چھٹیاں تھیں اور مس مہرین سے میری باتیں ہونے لگی تو اس نے یونیورسٹی کے عجائب گھر کا ذکر چھیڑ دیا میں نے یہ عجائب گھر کبھی نہیں دیکھا تھا اور مس مہرین نے بتایا کہ عجائب گھر کھلا ہے میں جا کے دیکھ لوں جو آثار قدیمہ کے مضمون کے طلبہ کے لیے کبھی کبھی کھولا جاتا ہے۔
میں اوپری منزل پر واقع عجائب گھر میں چلی گئی وہاں صدیوں پرانی تہذیب مختلف اشیاء کے روپ میں بکھری ہوئی تھی میں تصویروں کی گیلری میں گئی تو مجھے وہاں جنگ کے وقت کی سو سال پرانی تصویر دیوار پر اویزہ نظر آئی یہ خاصی بڑی تصویر تھی جس میں 12 جوان سال آدمی وردی پہنے کھڑے تھے یہ جنگجو تھے تصویر کے نیچے ان سب کے نام لکھے تھے میں نام پڑھنے لگی تو ایک نام پر رک گئی نام تھا نادر خان میرے بدن نے ایک دم جھرجھری لی یہ تھا وہ نادر خان جس نے اپنی منگیتر کے لیے اس قدر خوبصورت مکان بنوایا تھا اور اب میں اس میں رہ رہی تھی میں نے تصویر پر نگاہیں گاڑ دیں وہ سب سے زیادہ جاذب نگاہ اور دلکش آدمی تھا اس کی آنکھیں میری انکھوں میں جھانک رہی تھیں اور مجھے یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے میں ہی اس کی منگیتر تھی اس کی آنکھوں میں محبت کی چمک تھی بنی نوع انسان کی محبت اپنے وطن کی محبت اپنی منگیتر کی محبت وہ محبت کا خوبرو پیکر لگتا تھا میں وہاں سے ہٹنے لگی تو مجھے ایسا لگا جیسے تصویر کی انکھیں میرا تعاقب کر رہی تھیں میں رک گئی اور بے بس ہو کر میں نے تصویر سے سرگوشی کی نادر خان اگر تم میرے منتظر تھے تو میں آگئی ہوں اچانک میں نے اپنے ریڑھ کی ہڈی میں سردی کی ایک لہر دوڑتی محسوس کی اور میرا جسم تھر تھر کام کر ساکت ہو گیا میرے دل میں سے آواز آئی میں اس شخص کو جانتی ہوں میں اس خوبرو آدمی کی سانسوں کی تپش سے بھی واقف ہوں میرے ہونٹوں سے سرگوشی نکلی اور اگر یہ مرد اس مکان میں آتا ہے تو میں اس کی بھٹکی ہوئی روح سے کبھی نہیں ڈروں گی میں اس کا انتظار کروں گی مجھے یوں محسوس ہونے لگا جیسے میں نے یہ مکان اسی آدمی کے لیے کرائے پر لیا ہے میں نے اپنے آپ سے کہا کہ میں آج رات اس کا انتظار کروں گی میرے خیالوں میں یہ انقلاب کیوں آیا تھا کیا یہ میرے جذبات کی شدت تھی کون سے جذبات کی شدت مجھے کچھ بھی معلوم نہیں اتنا ہی یاد ہے کہ میرے اس بہادر دل سے اپنے منگیتر عادل کا نام دھل گیا تھا جیسے عادل کا کوئی وجود ہی نہ تھا اگر اس کا کوئی وجود تھا تو اس کا نام عادل نہیں نادر خان تھا اگر ایسا ہی تھا تو شاید میں پاگل ہو گئی تھی اور اگر ایسا نہیں تھا تو بھی میں پاگل ہو گئی تھی نہ جانے میں کتنی دیر تک نادر خان کی انکھوں میں انکھیں ڈالے وہیں کھڑی رہی لوگ اسے میرا وہم کہیں گے لیکن میں نے تصویر کے لبوں پر مسکراہٹ دیکھی جو آئی اور پھر غائب ہو گئی اس کی انکھیں اور زیادہ چمک اٹھی میں اس کی انکھوں کا سامنا نہ کر سکی اور وہاں سے تیز تیز قدم اٹھاتی واپس چل دی گھر کی طرف جاتے ہوئے ذہن میں ایک جنون تھا کہ میں آج رات نادر خان کو دیکھوں گی کل رات وہ میرے قریب صوفے پر ا بیٹھا تھا اور اس سے پہلے اسی نے میرے کندھے پر ہاتھ رکھا تھا لیکن وہ اس رات نہ آیا اور ساری رات بھی نہ آیا میں رات کو بہت دیر تک کمروں برآمدوں اور باغیچے میں گھومتی رہی۔
یہ جانتے ہوئے بھی کہ نادر خان آیا بھی تو وہ اس کی روح ہوگی لیکن اب میرے دل میں خوف کی جگہ والہانہ محبت تھی انتظار کرتے کرتے تین ہفتے گزر گئے ان تین ہفتوں میں مکان پر کچھ یقین ہونے لگا کہ یہ مکان میرے لیے ہی تعمیر کیا گیا تھا میں جب کھڑکی کھول کر سبز پوش پہاڑیوں کا نظارہ کرتی تو مجھے یقین ہونے لگتا کہ نادر خان کو معلوم تھا کہ مجھے ہری بھری پہاڑیاں اچھی لگتی ہیں اسی لیے اس نے اس طرف دو کھڑکیاں بنوائی تھیں اس دوران کویت سے عادل کے تین خط آئے اور میں نے بے خیالی میں ہر خط کا جواب دے دیا لیکن خط لکھنے کے بعد کچھ بھی یاد نہ رہا کہ میں نے کیا لکھا ہے میں شاید ہر خط میں اس مکان کی تعریف کرتی تھی کیونکہ عادل نے چوتھے خط میں لکھا کہ معلوم ہوتا ہے یہ مکان تمہارے دل میں بری طرح سما گیا ہے اس نے پھر بھی لکھا کہ میں اس مکان میں نہیں رہ سکوں گا میں جلد آ رہا ہوں آکر فیصلہ کروں گا۔۔۔۔
Rukhsana Horror Story, Urdu Horror Kahani, Haunted House Story, Roohani Kahaniyan, Urdu Suspense Stories, Purana Makaan, Horror Novel in Urdu, Bhoot Ki Kahani, Urdu Ghost Story, Urdu Thriller, Urdu Anokhe Khaniyan, Jinn Stories, Urdu Mystery Stories, Horror Love Story, True Ghost Stories Urdu, Urdu Jasoosi Kahani