![]() |
ویران مکان کا آسیب – آخری قسط | جناتی کہانی | اردو ہارر اسٹوری | رخسانہ کی سچی کہانی |
عادل کا یہ خط دیکھ کر مجھے یہ بھی یاد نہ رہا کہ عادل کی شکل و صورت کیسی ہے یوں لگتا تھا جیسے میں نے اسے کہیں راہ جاتے دیکھا تھا اس نے لکھا تھا کہ میں جلدی آ رہا ہوں میں سوچنے لگی کہ وہ کیوں آرہا ہے اسے میرے پاس آنے کی کیا جلدی ہے میں نے ذہن پر زور ڈال کر عادل کی شکل و صورت یاد کرنے کی کوشش کی لیکن اس کے چہرے مہرے کے خطوط نادر خان کی تصویر پر بنتے چلے گئے نادر خان کو ایک نظر دیکھنے کے لیے میری بے چینی روز بروز بڑھتی چلی گئی ۔
عادل سے مجھے کس قدر محبت ہوا کرتی تھی میں نے کتنے ارمانوں سے اس سے منگنی کی تھی اس کی منگنی کی انگوٹھی اب بھی میری انگلی میں تھی مگر عادل کا نام میرے دل سے محو ہو گیا تھا اور اس کی جگہ نادر خان نے لے لی تھی یہ جانتے ہوئے کہ نادر خان ایک روح ہے جیتا جاگتا انسان نہیں پھر بھی میں اسے دیکھنے کے لیے بے تاب ہوتی جارہی تھی ۔
اور یہ خیال دل میں پختہ ہوتا چلا جا رہا تھا کہ نادر خان میرا ہم جولی ہے ایک شام میں اس سو سال پرانے مکان کے بڑے کمرے میں بے چینی سے ٹہل رہی تھی کہ کھڑکی کے کواڑ پر نظر پڑ گئی وہاں ایک جگہ کھدے ہوئے حروف نظر آئے غور سے دیکھا تو لکھا تھا نادر خان یہ شاید اس نے خود ہی سو سال پہلے چاکو کی نوک سے لکھا تھا میں چاکو لے آئی اور اس نام کے ساتھ اپنا نام کھود ڈالا میں نے بلند آواز سے کہا کیوں نادر خان تمہارے ساتھ میرا نام کیسا لگتا ہے فورا ہی مجھے کمرے میں دبی دبی آواز سنائی دی یہ وہم نہیں تھا اور نہ یہ میرے تصور کا کرشمہ تھا ہنسی کے ساتھ ہی مجھے قدموں کی چاب بھی سنائی دی جیسے کمرے میں کوئی آہستہ آہستہ چل رہا ہو میں نے تیزی سے گھوم کر پیچھے دیکھا تو کمرہ خالی تھا ہنسی کی ہلکی ہلکی گونج کمرے میں بھٹک رہی تھی کمرہ سرد ہو گیا تھا میں اپنے جسم کے اندر بھی ایسی انوکھی سردی محسوس کرنے لگی چلتے قدم رک گئے تھے میں نے خلاؤں میں گھورا میری نگاہوں نے کمرے کا گوشہ گوشہ چھان مارا مگر کچھ نظر نہ آیا کمرے میں سردی کی جو لہر آئی تھی وہ یک لخت کم ہو گئی دروازے کے کواڑ ہلے اور پھر ساکت ہو گئے اس میں کوئی شک نہ رہا تھا کہ کمرے میں کوئی آ کے واپس باہر نکل گیا تھا میں نے بلند آواز سے التجا کی نادر خان واپس آ جاؤ لیکن مجھے کوئی جواب نہ ملا کمرے میں پہلے سے خاموشی چھا گئی اچانک مجھے یوں لگا جیسے کوئی شے مجھے باہر نکلنے کو دھکیل رہی ہو میں نے شاہد اپنی پیٹھ پر کسی کے ہاتھ کا ہلکا سا دھکا بھی محسوس کیا تھا میں کمرے سے نکلی اور برامدے کی سیڑھیوں تک گئی تو حیران رہ گئی وہاں گلاب کا تازہ پھول پڑا تھا میں نے پھول اٹھا لیا اور ذہن پر زور دیا کہ یہ پھول میں نے تو نہیں توڑا تھا میرے سوا یہاں کوئی بھی نہیں تھا سب سمجھ گئی کہ نادر خان آیا تھا اس کمرے میں آ کر نکل گیا تھا یہ اسی کی روح تھی جو مجھے پھول دے گئی تھی نادر خان کے سوا وہاں کوئی نہ تھا شکریہ نادر خان میں نے پھول کو چوم لیا جس کے ساتھ ہی میرے بال یوں ہیلے جیسے ہوا کے تیز جھونکے سے اڑے ہوں لیکن ہوا کے جھونکے کو میں نے اپنے چہرے یا جسم کے کسی اور حصے پر محسوس نہیں کیا تھا میں نے ماتھے پر پڑے بالوں کو اپنے ہاتھ سے پیچھے کیا تو میرا ہاتھ ایک مردانہ ہاتھ سے ٹکرا گیا میں دم بہت رہ گئی انسانی انگلیاں میرے بالوں میں رینگ رہی تھی میں نے ریڑھ کی ہڈی میں یخ بستہ لہر محسوس کی۔
میں نے غلطی کی تھی کہ اپنا ہاتھ سر تک لے گئی تھی ورنہ یہ تلسم کچھ دیر قائم رہتا میں نے جو ہی اپنا ہاتھ سر پر رکھا ان غیر مری انگلیوں کا لمس ختم ہو گیا میں نے گھوم کر دیکھا تو وہاں کوئی نہ تھا میں وہاں اکیلی تھی بالکل تنہا تنہا میں کمرے میں چلی گئی اور وہ رات بھی گزر گئی اس روز کے بعد مجھے بلند آواز سے بولنے کی عادت ہو گئی شاید یہ تنہائی کا اثر تھا کہ میں کچھ سوچتی بھی تھی تو بلند آواز سے سوچتی تھی میں نے ایک روز میز کو دیکھا جو میں نے اس عورت سے خریدی تھی اس نے یہ بتایا کہ یہ 100 سال پرانی میز ہے نہ جانے مجھے کیوں یقین ہونے لگا کہ یہ میز اسی مکان سے گئی تھی اور اس کا پہلا خریدار نادر خان تھا میں نے سوچا کہ اس کا پھیکا پھیکا روغن اتارو اور اسے دوبارہ پالش کر دوں میں روغن کو چھری سے رگڑنے لگی اور بلند آواز سے کہنے لگی یہ تمہاری میز تھی نادر خان دیکھو میں اسے پھر سے چمکا دوں گی تم دیکھ رہے ہو نا تم نے یہ میز میرے لیے خریدی تھی نا فوراً ایک کمرے میں پر اصرار سردی کی لہر ا گئی یہ لہریں میرے وجود میں سرایت کر گئی گواڑ ذرا سے ہلے اور کمرہ پھر معمول پر آ گیا اجاؤ نادر خان رک نہ جایا کرو تم نے 100 سال میرا انتظار کیا ہے میں آئی تو تم چلے گئے میں نے بلند آواز سے کہا پھر ہنس پڑی اور پیار بھرے لہجے میں بولی تم نے میری بلی کو بھی ڈرا کر بھگا دیا ہے نادر خان کمرے کی فضا میں بے چینی سی پیدا ہو گئی جیسے آندھی کا تیز و تند جھونکا گھس آیا ہو باہر تو ہلکی ہلکی ہوا بھی نہیں چل رہی تھی میں نے کمرے میں ہر طرف جھانکا تند جھونکے کے باوجود کھڑکیوں اور دروازوں کے پردے ساکت تھے میں ادھر ادھر دیکھتی رہی پھر میز کا روغن اتارنے لگی میز کے دو دراز تھے ایک تو کھل گیا لیکن دوسرا نہ کھل سکا وہ بہت مضبوطی سے بند تھا میں نے ٹھونگ ٹھونک کر اسے کھول ہی دیا معلوم ہوتا تھا کہ جیسے یہ ایک سو برس سے بند ہو۔
اس دراز میں دو پیلے پیلے کاغذوں کے ساتھ کتاب سائز کا ایک ڈبہ پڑا تھا میں نے ڈبہ کھولا تو اس میں شادی کی ایک بیش قیمت انگوٹھی اور دو تصویریں تھی ایک تصویر نادر خان کی تھی اور دوسری میری تھی اپنی تصویر دیکھ کر مجھے ڈر جانا چاہیے تھا لیکن میرے دل میں خوف کے بجائے محبت کا طوفان اٹھ کھڑا ہوا وہ تصویر یقینا میری تھی فرق صرف اتنا تھا کہ لباس ایک سو سال پرانے فیشن کا تھا اور بال بھی اسی دور کے انداز سے بنے ہوئے تھے میں تصویر کو دیکھ رہی تھی کہ اچانک میں نے کندھے پر کسی کے ہاتھ کا لمس اور بوجھ محسوس کیا وہ ہاتھ آہستہ آہستہ سے رکھتا ہوا میری گردن تک گیا گردن کے گرد بکھرے ہوئے بال پیچھے ہٹ گئے اور وہ ہاتھ میری گردن کو نرمی سے سہلانے لگا انگوٹھی میرے بائیں ہاتھ میں تھی میرا یہ ہاتھ خود بخود میرے دائیں ہاتھ کی طرف بڑھا دایاں ہاتھ اپنے آپ اوپر اٹھ گیا اور بائیں ہاتھ نے میری اپنی کوشش کے باوجود انگوٹھی دائیں ہاتھ کی انگلی میں پہنا دی میں نے بلند آواز سے کہا میں نے ٹھیک کہا تھا نادر خان یہ میز تمہاری ہے فوراً ہی برآمدے میں کسی کے قدموں کی چاپ سنائی دی پھر دروازے پر دستک ہوئی میں نے خوشی سے بھرپور لہجے میں کہا نادر خان آگیا میں نے جلدی سے دروازہ کھولا باہر جھانکا تو پوسٹ مین کھڑا تھا اس کے ہاتھ میں ایک لفافہ تھا اس نے کہا یہ ارجنٹ لیٹر ہے خاتون اسی لیے بے وقت آیا ہوں پھر وہ خط دے کر چلا گیا مایوسی اور غصے نے مجھے بے حال کر دیا میں تو خوش ہوئی تھی کہ نادر خان آیا ہے لیکن وہ پوسٹ مین نکلا تھا میں نے غصے سے گلگلاتے ہوئے ایک لفافہ کھولا یہ عادل کا خطہ جو کویت سے اس نے مجھے ارسال کیا تھا اس خط میں عادل نے لکھا تھا تمہارے پچھلے دو تین خط اتنے مہمل اور بے معنی ہیں جیسے تم نے نیند میں لکھے ہوں یا شاید تمہارا دماغ آؤٹ ہو گیا ہے بعض فکرے ایسے ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ تم خوابوں کی دنیا میں جی رہی ہو مجھے تمہارے متعلق پریشانی ہونے لگی ہے اس ویرانے سے نکل کر جا کر شہر میں رہو اور لوگوں میں اٹھو بیٹھو میں چند دنوں تک واپس آرہا ہوں میں نے خط بے دلی سے پڑھا اور پھینک دیا پھر آئینہ دیکھا تو دھند سے چھا گئی اس دھند میں ایک سایہ سا گزرا اور دھند چھٹ گئی میرا عکس پھر نکھر کر آیا میری آنکھوں سے بے اختیار انسو بہنے لگے نادر خان سامنے آ جاؤ میں تمہیں دیکھنا چاہتی ہوں ایک بار ایک لمحے کے لیے ہی سہی میرے سامنے آجاؤ میں نے رندھی ہوئی آواز میں التجا کی جواب میں کمرے میں مجھے ہنسی کی آواز سنائی دی دروازے کے کواڑ کھٹکے کمرے میں سردی کی لہر آئی اور گزر گئی اس سے میری مایوسی اور بڑھ گئی دوسرے دن میں باغیچے میں ٹہل رہی تھی کہ میرا دایاں بازو خود بخود ہی ذرا اوپر اٹھا اور ایک نادیدہ ہاتھ نے اسے تھام لیا میں نے چونک کر دائیں بائیں دیکھا میں اکیلی تھی لیکن میرے دائیں بازو کے ساتھ کسی مرد کا بازو الجھا ہوا تھا پھر میری انگلیاں مردانہ انگلیوں میں الجھ گئی۔
باغیچے میں کتا تھا وہ رک گیا اور اس نے میری طرف دیکھا پھر فورا ہی بڑے زور سے بھونکا اور یوں بدک کر بھاگا جیسے کسی نے اسے پتھر مار دیا ہو مجھے یقین ہو گیا کہ میرے ساتھ نادر خان کے روح ٹہل رہی ہے میں نے سن رکھا تھا کہ بدروحیں کتوں اور بلیوں کو نظر آجاتی ہیں میں ایسی کیفیت میں مبتلا ٹہلتی رہی میرا جسم سر د ھوتا چلا گیا میں نے کہا نادر خان مجھے اپنی صورت دکھا دو جواب میں مجھے اس کی دبی دبی ہنسی کی آواز سنائی دی پھر اچانک میرا اٹھا ہوا بازو میرے پہلو سے آ لگا اور مجھے دور ہٹتے قدموں کی آواز سنائی دی میں نے رک کر دیکھا۔ ہوا ساکن تھی پھر بھی گلاب کا پودا بڑے زور سے ہلا اور ایک پھول ٹہنی سے ٹوٹ کر نیچے آ گرا میں نے لپک کر پھول اٹھا لیا نادر خان کی روح جا چکی تھی اس سے اگلی صبح میں گہری نیند سو رہی تھی کہ آنکھ کھل گئی کسی کی انگلیاں میرے بالوں میں رینگتی میرے رخساروں کو مس کرنے لگی اور ہونٹوں پر آئی تو ان کا لمس ختم ہو گیا میں اٹھ بیٹھی اور خلا میں گھورنے لگی کمرہ سرد تھا پھر ایک دم گرم ہو گیا حسب معمول دروازے کے کواڑوں میں چنبش ہوئی اور کواڑ ساکت ہو گئے دن کا پچھلا پہر تھا میں نے چاہے تیار کی باہر کی فضا میں آندھی کے آثار ابھرنے لگے تھے ہوا تیز سے تیز تر ہوتی چلی گئی اس وقت مجھے یاد آیا کہ نادر خان طوفان میں مرا تھا اس پر بجلی گری تھی آج بھی طوفان کے آثار نظر آرہے تھے میں دعائیں کرنے لگی کہ ویسا ہی طوفان آئے جیسے طوفان میں نادر خان مرا تھا مجھے امید تھی کہ وہ طوفان نہ آئے گا دفعتا دروازے پر بڑے زور سے دستک ہوئی میرے دل سے بے اختیار آواز نکلی وہ آگیا میں نے بھاگ کر دروازہ کھولا دل ڈوب گیا میرے سامنے میرا منگیتر عادل کھڑا تھا اس نے قہقہہ لگا کر کہا کیوں ڈر گئی میں نے لکھا نہیں تھا کہ میں آ رہا ہوں میں نے خوشی کا اظہار کرنے کی ہر ممکن کوشش کی لیکن میں مایوسی کو نہ دبا سکی عادل اندر آیا اور نفرت آلود نگاہوں سے کمرے کی ہر چیز کا جائزہ لینے لگا اس نے کہا میں حیران ہوں کہ تم اس صدیوں پرانے مکان میں کس طرح رہ رہی ہو فورا سامان باندھو اور شہر چلو پھر اس نے میرے رد عمل کا انتظار کیے بغیر کہا اور یہ فرنیچر معلوم ہوتا ہے کسی عجائب گھر سے اٹھا لائی ہو میں خاموش تھی عادل نے میز کو ٹھوکر مار کر کہا لعنت ہے اس ایندھن پر یہ میز جلانے کے کام آ سکتی ہے پھر اس نے میرا ہاتھ پیار سے تھام کر کہا رخسانہ تم میری بیوی بننے والی ہو میں تمہیں یہاں نہیں رہنے دوں گا اس کی باتوں پر مجھے غصہ آگیا جیسے کوئی اجنبی آدمی مجھے زبردستی اپنی بیوی بنا رہا ہو حالانکہ میرا منگیتر تھا اور مجھے اس سے بے پناہ محبت تھی میں نے تین برس اس کے انتظار میں گزار دیے تھے لیکن نادر خان کے روح نے عادل کو میرے لیے اجنبی بنا دیا تھا میں نے خود سر ہو کر کہا جو جگہ تمہیں اچھی نہیں لگتی وہ مجھے عزیز ہے میں یہی رہوں گی عادل نے تہمکانہ لہجے میں کہا میں تمہیں ابھی لے جاؤں گا میں نے فیصلہ کن لہجے میں کہا میں نہیں جاؤں گی۔
تم ابھی چلے جاؤ میں ایک ہفتہ بعد آسکوں گی ہوتے ہوتے بات بڑھ گئی اور عادل کے لہجے میں شوہروں کا تہمکانہ انداز ترش ہو گیا اس نے کہا میں تمہاری مرضی کا پابند نہیں رہ سکتا میں تمہیں شہر لے کر جاؤں گا تب میں نے اس کے منگنی کے انگوٹھی اتار دی اور اس کی طرف بڑھا دی یہ رہی تمہاری ازادی میں تمہیں اپنا پابند نہیں رکھنا چاہتی اپنی انگوٹھی واپس لے لیں اور ابھی چلے جاؤ تم آزاد ہو۔ عادل کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں اس نے مجھے شدید حیرت زدہ ہو کر دیکھا لیکن انگوٹھی لینے کے لیے ہاتھ نہ بڑھایا میں نے اس لمحے کمرے میں سردی کی پراسرار لہر محسوس کی عادل چونکا اور کمرے کی طرف دیکھنے لگا دروازے کے کواڑ کھٹکے عادل کے سمجھ میں نہ آیا کہ یہ سب کیا تھا لیکن میں جانتی تھی کہ نادر خان کی روح کمرے میں آگئی ہے اس روح نے میرا حوصلہ بڑھایا میں نے کہا عادل جاؤ یہاں سے نکل جاؤ میرا تمہارا کوئی رشتہ نہیں کوئی بندھن نہیں ہے میں نے انگوٹھی عادل کی طرف پھینکتے ہوئے کہا عادل آخر مرد تھا اپنی توہین برداشت نہ کر سکا اس نے جھک کر فرش سے انگوٹھی اٹھائی ایک لمحے کے لیے مجھے دیکھا اور کمرے سے نکل گیا مجھے یہ کبھی یاد نہ رہا کہ عادل نے کویت میں تین برس میرے لیے پیسہ پیسہ بچایا اور میرے لیے حسین خواب تخلیق کیے تھے اس روز مجھے اس پر غصہ آگیا تھا نادر خان کی روح آئی تھی اگر عادل نہ ہوتا تو شاید وہ مجھے نظر آ جاتی۔
میں نے دوسرے ہاتھ کی انگلی کو دیکھا جس پہ میں نے نادر خان کی انگوٹھی پہن رکھی تھی میں نے اس ہاتھ کو اپنے دوسرے ہاتھ میں تھاما اور آنکھیں بند کر کے کہا نادر خان تمہاری اس انگوٹھی کے ساتھ میں خدا کو حاضر ناظر جان کر تمہیں اپنا شوہر قبول کرتی ہوں میرے خاموش ہوتے ہی کمرہ بہنچال کے شدید جھٹکے سے ہل گیا پھر ساکت ہو گیا دروازے کے کواڑوں کو بھی ایک بار جنبش ہوئی باہر ہوا اور تیز ہو گئی تھی میں نے بلند آواز سے اس کی روح کو مخاطب کیا نادر خان اب آ جاؤ پھر میں خرامہ خرامہ سونے والے کمرے میں چلی گئی میں نے سوچا کہ میں تو اب بدروحوں کے دیس کی مخلوق بنتی جا رہی ہوں رات کا اندھیرا گہرا ہو چکا تھا میں دلہن کے روپ میں نادر خان کا انتظار کر رہی تھی کیونکہ میں خدا کو حاضر ناظر جان کر اس کی بیوی بن چکی تھی میرے کان باہر کی آوازوں پر لگے ہوئے تھے میں اس کے قدموں کی چاپ سننا چاہتی تھی ذرا دیر بعد چاپ سنائی دی لیکن یہ انسانی قدموں کی نہیں بلکہ بارش کی آواز تھی بارش برسنے لگی تھی جو ذرا سی دیر میں تیز ہو گئی میں نے بتی بجھادی اور پلنگ پر بیٹھ گئی مجھے یقین تھا کہ نادر خان کی روح ضرور آئے گی اور اس نے مجھے اپنی بیوی بنا لیا ہے میرے شعور میں یہ حقیقت بالکل نہ آئی کہ میں زندہ ہوں اور وہ مرے ہوئے آدمی کی روح ہے بجلی بڑے زور سے چمکی ساتھ ہی بجلی کے کڑاکے نے مکان کو ہلا دیا تند ہواؤں کے چیخیں اور زیادہ کرخت ہو گئیں میرا دل مسرت سے اچھلنے لگا کیونکہ نادر خان 100 برس پہلے اسی قسم کے طوفان میں ہلاک ہوا تھا اس پر بجلی گری تھی آج بھی بجلی چمک رہی تھی اور۔
مجھے یقین ہونے لگا کہ زمانہ 100 برس پیچھے چلا گیا ہے یا یہ طوفان ایک سو سال پہلے کا ہے جو نادر خان کو واپس لا رہا ہے بارش تیز تر اور آندھی شدید تر ہو گئی بجلی رہ رہ کر چمکنے اور کڑکنے لگی مکان سیلابی دریا میں کسی کشتی کی طرح ڈول رہا تھا میں نے چلا کر کہا نادر خان آجاؤ میری پکار کے جواب میں اس قدر شدت سے بجلی کڑکی کہ میں نے چیخ کر کانوں پہ ہاتھ رکھ لیے اندھیرا کمرہ بجلی کی چمک سے ایک ثانیہ کے لیے روشن ہوا اور پھر اندھیرا ہو گیا بجلی کے اس جھٹکے نے مکان کو بنیادوں تک ھلا ڈالا اور مجھے کچھ ایسی تڑاکھ تڑاکھ کی دبی دبی آوازیں سنائی دینے لگی جیسے کہیں آگ لگی ہوئی ہو اور لکڑیاں جل رہی ہوں طوفان قیامت خیز ہوتا گیا میرا دم گھٹنے لگا اندھیرے میں یوں محسوس ہوا جیسے کمرے میں دھواں بھر رہا ہو میں نے لپک کر بتی کا بٹن دبایا لیکن روشنی نہ ہوئی بجلی کی روم منقطع ہو چکی تھی میں دوسرے کمرے میں آئی تو اس کمرے کو دھوئیں سے بھرا ہوا پایا قریب بھی کہیں برآمدے یا کسی کمرے میں آگ لگی ہوئی تھی اس وقت میں حقیقت کی طرف لوٹنے لگی لیکن کچھ پتہ نہیں چل رہا تھا کہ یہ سب کیا ہے اتنے میں مجھے کھڑکیوں کے باہر شولوں کے بھوت ناچتے نظر آئے میں کچھ سمجھنے کی کوشش کر رہی تھی کہ اچانک مکان بڑے زور سے لرزا اور بھیانک سے گڑگڑاہٹ سنائی دی جیسے مکان کا کوئی حصہ گر پڑا ہو شمع کے لو بلند ہونے لگی اس کے ساتھ ہی بارش ایک دم رک گئی مگر ہوا نہ رکی میں گھبرا کر سیڑھیوں کی طرف بھاگی تو معلوم ہوا کہ میں شعلوں میں گر گئی ہوں میں بالائی منزل پر تھی نکلنے کی اور کوئی راہ نہیں تھی ہوا کی تندی شولوں کو تیزی سے پھیلا رہی تھی میرے دونوں بازو پٹیوں میں جکڑے ہوئے تھے پیشانی پر ٹھنڈی پٹی رکھی تھی جسم کا انگ انگ دکھ رہا تھا عادل کی انکھوں میں آنسو تھے۔
پھر بھی جب میں نے انکھیں کھولی تو اس نے مسکرانے کی کوشش کی اس نے بتایا کہ جب طوفان شدید ہو گیا تو وہ اس خیال سے شہر سے میرے مکان کی طرف بھاگ پڑا کہ میں اس قیامت خیز طوفان میں ڈر رہی ہوں گی جب وہ مکان سے ایک ادھ میل دور تھا تو مکان کے ایک حصے پر بجلی آ گری باورچی خانے میں مٹی کے تیل کا کنستر پڑا ہو تھا وہ جل اٹھا قریبی لکڑی کا زینا تھا اس نے آگ پکڑ لی اور ہوا کے تیزی کی وجہ سے آگ بہت تیزی سے پھیل گئی جب عادل مکان تک پہنچا میرے پڑوسی بھی وہاں پہنچ چکے تھے ادھا مکان ان کے سامنے گرا دو آدمی جن میں عادل بھی تھا پچھواڑے سے سیڑی لگا کر اوپر پہنچے اور کھڑکی سے اندر کود گئے عادل نے مجھے بے ہوش لیٹا دیکھا اور اٹھا لیا سب نے بڑی مشکل سے مجھے جلتے مکان سے نکالا تھا میرے زخم چند دنوں بعد ٹھیک ہو گئے کچھ دنوں تک دماغ بے ٹھکانہ اور دل پریشان رہا میں نے نادر خان کی روح کے راز کو سینے میں دفن کر کے عادل سے شادی کر لی مگر میری ذہنی حالت بگڑتی چلی گئی آخر ایک روز میں نے عادل کو ساری بات بتا دی وہ مجھے نفسیات کے ایک ڈاکٹر کے پاس لے گیا یعنی سائیکیٹرسٹ کے پاس ڈاکٹر نے مجھ سے بچپن سے لے کر مکان جلنے تک کے حالات پوچھے پھر کئی روز طرح طرح کے سوالوں سے مجھے پریشان کیے رکھا۔
آخر اس نے تشخیص کیا کہ یہ اعصابی کمزوری ہے جس کے ایک وجہ یہ تھی کہ میں تین برس عادل کے انتظار میں بے قرار اور تنہا رہی اور یہ کہ خالہ نے مجھے خاموش پسند بنائے رکھا اور مجھے کتابوں کی دنیا میں قید کر دیا تیسری وجہ یہ کہ میں قدیم زمانے کے واقعات اور کہانیاں پڑھتی رہی ان وجوہات اور خرابی اثرات کی بنا پر میری ذہنی کیفیت میں ایسا خلا پیدا ہو گیا جسے نادر خان کی 100 سال پرانی کہانی نے محسوس واقعہ کی صورت میں پورا کر دیا سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ میں تین برس کی عمر میں ماں باپ کی محبت اور شفقت سے محروم ہو گئی تھی نتیجے کے طور پر سو سال پہلے کا مرا ہوا نادر خان میرے مرے ہوئے ماں باپ کی علامت بن گیا اس ڈاکٹر نے مجھے قائل کر لیا کہ اس مکان میں کوئی بدروح نہیں تھی نہ ہی روحیں واپس آیا کرتی ہیں یہ محض اعصابی زندگی لاشعور کی انفرادی اور جذبات ایک گھٹن کا کرشمہ تھا میں نے ڈاکٹر کی تش خیص کو تسلیم کر لیا ہے لیکن عادل کو دیکھتی ہوں تو یوں لگتا ہے جیسے یہ عادل نہیں نادر خان ہے جو ایک سو سال بعد واپس آگیا ہے۔۔۔۔
Agar aapko yeh kahani pasand aaye to comment mein apni raaye zaroor dein. Aisi aur suspenseful, horror aur supernatural kahaniyon ke liye humare YouTube channel "Karim voice" ko subscribe karein aur website par rozana visit karein.
Veeran Makan Ka Aseeb, Urdu Hindi Horror Story, jinn stories, Karim voice, true scary stories, urdu horror stories, horror tales, it's supernatural! network, supernatural stories, urdu horror, horror story, karim narrations, true horror stories, jinn encounters, true ghost stories, Haider voice, ghost stories, horror narration, ghost narrations, hindi stories, urdu scary tales, horror stories, mystery tales, veeran makan, urdu mysteries, creepy stories