![]() |
کمرہ نمبر 302 اور 500 سال پرانی قبر کا خوفناک راز – دو سچی ہارر کہانیاں" |
---
2 خوفناک کہانیاں ☠️
"کمرہ نمبر 302"
(ایک حقیقت پر مبنی سچی کہانی– لاہور کے ہوٹل سے)
مقام: گلبرگ، لاہور – 2013
ہوٹل: ایک مشہور پرانا ہوٹل، جس کا نام آج بھی راز میں رکھا جاتا ہے
کہانی سنانے والی: عالیہ، عمر 33، اسلام آباد سے لاہور بزنس ٹرپ پر آئی تھی۔
ایک خودمختار، ذہین، اور عملی عورت — نہ وہموں میں یقین رکھتی تھی، نہ قصوں پر۔
"مگر اُس رات، میری ساری حقیقتیں شکست کھا گئیں…"
کمرہ نمبر 302 – وہ آخری بچا ہوا کمرہ
میں ہوٹل پہنچی تو سب کمرے بک تھے۔ ریسپشن والے نے کہا:
"صرف ایک کمرہ بچا ہے… 302… مگر مہمان اکثر بدلوا لیتے ہیں۔"
میں نے ہنستے ہوئے کہا:
"جن بھوتوں سے میں نہیں ڈرتی۔ دے دیں!"
چابی لی، لفٹ سے تیسری منزل پر پہنچی۔ کمرہ عام سا تھا، لیکن اندر آتے ہی عجیب سی نمی، خاموشی، اور بند سانسوں کی بو محسوس ہوئی۔
میں نے ایئر فریشنر چھڑکا، کپڑے تبدیل کیے، اور لیپ ٹاپ کھول کر کام میں مصروف ہو گئی۔
---
رات 2:03 AM – آوازوں کا آغاز
کمرہ مکمل خاموش تھا…
مگر اچانک ایسا لگا جیسے شاور کے نیچے پانی چل رہا ہو۔
میں چونکی۔
بیت الخلا کا دروازہ بند تھا، مگر اندر سے پانی گرنے کی آواز آ رہی تھی۔
میں دروازہ کھول کر اندر گئی —
نہ پانی، نہ کوئی شخص۔ ہر چیز خشک۔
میں واپس پلٹی، تو دیکھا کہ کمرے کا آئینہ دھند سے بھرا ہوا تھا — جیسے کسی نے نہا کر باہر آ کر سانسیں لی ہوں۔
میرا جسم سن ہو گیا۔
میں بیڈ پر آ کر لیٹ گئی، مگر دل تیزی سے دھڑک رہا تھا۔
پھر… بیڈ کے پیچھے… چپ چپ کی آواز آئی۔
جیسے کوئی ننگے پیر آہستہ آہستہ چل رہا ہو۔
میں نے زور سے چلانا شروع کردیا، اور کہا:
"کون ہے؟!"
پر وہاں گہر ی خاموشی کے سوا کچھ نہیں تھا
لیکن پھر، بیڈ کے سائے میں دو قدموں کے نشان نمودار ہوئے۔
بھیگے، گہرے، اور ساکن
میں خوف زدہ ہو کر کمرے سے بھاگ کر
فوراً نیچے ریسپشن گئی، اور غصے سے کہا:
"کیا بکواس ہے یہ؟ کمرے میں کچھ ہے!"
ریسپشن پر بوڑھا سا ملازم آہستہ سے بولا:
"میڈم کو… وہ کمرہ نہیں دینا چاہیے تھا۔ وہاں 2006 میں ایک شادی شدہ جوڑے نے خودکشی کی تھی… شوہر نے بیوی کو زہر دے کر مارا، پھر خود گلا کاٹ لیا۔"
میں سُن ہو گئی۔
"تب سے ہر مہمان وہاں یا کچھ دیکھتا ہے، یا… صبح بخار میں پایا جاتا ہے۔"
میں واپس کمرے میں گئی
میں نے سامان سمیٹا
بند دراز سے لیپ ٹاپ نکالا، تو اندر ایک چاکلیٹ کا ریپر تھا، جس پر خون لگا ہوا تھا۔
پھر دروازہ خودبخود بند ہوا…
اور بستر پر بیٹھا وہ شخص… صاف نظر آ رہا تھا۔
گلے پر زخم، آنکھوں سے خون، اور آواز جیسے کسی مردے کی ہو:
"اب تم بھی… کبھی نہیں جا سکو گی…"
میں نے چیخ مار کر دروازہ کھولا، اور باہر بھاگی۔
ریسپشن سے سیدھا گاڑی منگوائی اور رات 3 بجے ہی ہوٹل چھوڑ دیا۔
جب لاہور جاتی ہوں، اُس ہوٹل کے قریب نہیں گزرتی۔
اب کسی بھی ہوٹل میں داخل ہونے سے پہلے دروازے پر آیت الکرسی پڑھتی ہوں، اور کبھی کمرہ نمبر 302 نہیں مانگتی۔
یہ کہانی 2013 میں لاہور کے ایک ہوٹل کی مہمان کی زبانی سامنے آئی۔ ہوٹل نے کبھی واقعہ تسلیم نہیں کیا، مگر
کمرہ نمبر 302 آج بھی غیر رسمی طور پر بند رکھا جاتا ہے۔
ڈائن
اقراء آتش
فادر تھامس! اپ تو جانتے ہیں کہ اس گاؤں میں کئی سو سال پرانا قبرستان ہے۔ ہمیں حکومت کی طرف سے ایک پرانی قبر کشائی کی اجازت ملی ہے۔ جس سے ہم آج سے چار سو سال پرانے لوگوں پر سرچ کر کے عوام کے لیے کچھ فائدہ حاصل کر سکیں ۔ مگر گاؤں کے لوگ ہمیں اس کی اجازت تب تک نہیں دیں گے جب تک اپ ہمارے ہمراہ نہ جائیں۔
مگر کیا یہ سب کرنا ٹھیک ہوگا فادر تھامس نے تفتیشی لہجے میں سوال اٹھایا؟
" ہاں ہاں" کیوں نہیں. حکومت نے جو ہمیں اتنا سارا فنڈ دیا ہے اس میں سے ادھا ہم اپ کے گاؤں کی ڈویلپمنٹ کے لیے ہی تو خرچ کر رہے ہیں .
دیکھیے فادر!
اپ کا آنا جانا تو شہر میں چلتا ہی رہتا ہے کہ اپ نہیں چاہتے کہ شہر جیسی تمام سہولیات اپ اپنے گاؤں والوں کو مہیا کر سکے "سائنٹسٹ اجے کمار" کی باتوں میں دم تو تھا اور ان کی پوری ٹیم نے جب فادر تھامس پر زور ڈالا تو وہ بھی قبر کشائی کے لیے مان گئے۔
قبر کشائی کا عمل شروع ہو چکا تھا۔ جس قبر کو وہ سب کھود رہے تھے وہ ایک عیسائی عورت کی قبر تھی جس کی موت اج سے پانچ سو سال پہلے ہو چکی تھی۔
لیکن جب تابوت کھولا گیا تو اس کی لاش ویسی کی ویسی تھی جیسے اسے دفنایا گیا تھا یہ دیکھ کر فادر تھامس کے چہرے پر تفتیش عیاں تھی۔ اپ کسی اور قبر کا انتخاب کر لیجئے انہوں نے دھیمے لہجے میں گویا ہوئے ۔
وہاں کھڑے تمام افراد بھی حیرانگی سے اس کے تابوت کو دیکھ رہے تھے۔ مگر ایسے کیسے ہو سکتا ہے سائنٹسٹ نے بال کھجاتے ہوئے سوالیہ انداز میں پوچھا؟
"کچھ لوگ دنیا میں اتنا ظلم کر جاتے ہیں کہ مرنے کے بعد زمین بھی انہیں قبول نہیں کرتی" اور کچھ ایسا ہی اس کے ساتھ ہوا ہے۔ میرے سے پہلے اس چرچ کے فادر نے مجھے اس عورت کا قصہ ایک بار سنایا تھا یہ کہتے ہوئے وہ ماضی کے اندھیروں میں کہیں کھو سے گئے۔
اس عورت کا نام کترین ہے۔
تب اس گاؤں میں صرف دو مذاہب کے لوگ مقیم تھے۔ ان میں سے ایک ہندو اور دوسرے مسلم تھے۔ لیکن اس گاؤں میں ایک بہت قدیم چرچ بھی تھا جس کے فادر کا نام البرٹ تھا فاڈر اور ان کی بیوی کے گزر جانے کے بعد یہ بچی اس ہی چرچ میں پلی بڑی تھی۔ غیر مذہب ہونے کی وجہ سے گاؤں کا ہر شخص اس سے دوری اختیار کیے ہوئے تھا۔
پھر اچانک اس گاؤں میں کچھ عجیب و غریب واقعات ہونے لگے۔ اور کم عمر بچے ایک ایک کر کے گھروں سے لاپتا ہو گئے۔ اس بات سے گھبرا کر گاؤں کے سرپنچ نے کترین کو اپنے گھر میں پناہ دے دی اب وہ بچی ایک ہندو گھرانے میں پرورش پانے لگی مگر اس نے کبھی بھی گوڈ کو نہ بھلایا۔
دن بدن بچوں کے غائب ہونے کے واقعات بڑھنے لگے اب بات حد سے بڑھ چکی تھی۔ گاؤں والوں نے کچھ عملی اقدام کرنے کا فیصلہ کیا۔ بہت سے جدوجہد کے بعد وہ خون درندہ اخر کار پکڑا گیا جو بچوں کو اغوا کر کے ان کا خون پی جاتا تھا۔ گاؤں والوں نے اس کو پکڑ کر چوراہے میں اگ لگا کے عبرت کا نشان بنایا اور اس کی راکھ کو سرپنچ جی کی حویلی میں ہمیشہ کے لیے محفوظ کر دیا تاکہ یہ راکھ کسی شیطان صفت انسان کے ہاتھ نہ لگ سکے۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈیئر فرینڈز ایک کہانی اپ کے لیے فری تھی دوسری کہانی پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں ہماری ویب سائٹ پر پڑھیں جو بالکل فری ہے
کئی سال امن و امان سے گزرے مگر پھر اچانک وہی سلسلہ شروع ہونے لگا لوگ تو پہلے ہی اس خونی درندے کے خوف سے سہمے ہوئے تھے دوبارہ سے وہی سب ہوتا دیکھ ایک ایک کر کے گاؤں کو الوداع کہنے لگے۔
مگر اس بار سرپنچ اور اس کے ساتھیوں نے ایک جال بچھایا اور اس خونی درندے کو پکڑنے جا پہنچے مگر جب حقیقت معلوم ہوئی تو سب حیران رہ گئے۔ کہ اس بار وہ کوئی مرد نہیں بلکہ ایک عورت ہے جو پھر سے وہی خونی کھیل کھیل رہی تھی۔
بہت سے کوششوں کے باوجود وہ لوگ اس ڈائن کو ڈھونڈ نہیں پا رہے تھے۔اب تو بچوں کے ساتھ ساتھ گھر سے عورتیں بھی غائب ہونے لگی اس ڈائن کا خوف اس قدر بڑھ گیا کہ دیکھتے ہی دیکھتے ادھا گاؤں خالی پڑ گیا۔کچھ لوگوں نے اس ڈائن کو دیکھنے کا دعوی کیا جو دکھنے میں ایک خوبصورت لڑکی کے روپ میں نظر آتی اور لوگوں کو اغوا کر کے کسی نامعلوم مقام پر لے جاتی ۔ مگر وہ جب بھی دکھائی دیتی رات کی سیاہی سے اس کا چہرہ مکمل طور پہ نہ دکھ پاتا جس وجہ سے گاؤں کی ہر خوبصورت لڑکی پر شک کیا جانے لگا۔ سرپنچ اپنے گاؤں کو ٹوٹتا ہوا نہیں دیکھنا چاہتے تھے اس لیے انہوں نے ایک ترکیب لگائی اور اپنی کم عمر بیٹی کو اس ڈائن کے پاس چارے کے طور پر بھیجا ان کا مقصد اس ڈائن کے چہرے سے نقاب ہٹانا تھا۔ حقیقت کھلنے پر سب لوگ حیران تھے کہ جس بچی سے ہمدردی کرتے ہوئے انہوں نے اپنے گھر میں پناہ دی تھی وہیں لڑکی پورے گاؤں میں خوف اور دہشت پھیلا رہی تھی پکڑے جانے پر اس نے اپنا گناہ قبول کیا اور ساتھ ہی ساتھ کئی رازوں کا انکشاف کیا اس بچے کا کہنا یہ تھا کہ اس درندے کو اس گاؤں کا پتہ بتانے والی بھی وہی لڑکی تھی کیونکہ وہ اس گاؤں سے اپنے ساتھ کی گئی زیادتیوں کا بدلہ لینا چاہتی تھی۔
مگر بعد میں وہ اس درندے کو دل دے بیٹھی اور اس سے شادی کر لی اور جب ان گاؤں والوں نے اس درندے کا بھی قتل کر دیا تو اس نے ایک بہت بڑا فیصلہ کرتے ہوئے اپنی روح کو اس درندے کے حوالے کر دیا۔ اس طرح وہ درندہ مر کر بھی کترین میں ہمیشہ کے لیے امر ہو گیا۔ اور 21 سال کی ہو جانے کے بعد اس درندے نے کترین سے وہی کام لینا شروع کر دیا جس کے لیے وہ اس گاؤں میں آیا تھا وہ ایک سو ایک لوگوں کا خون پی کر ہمیشہ کے لیے امر ہو جانا چاہتا تھا۔
مگر اس بار بھی پکڑے جانے کی وجہ سے وہ دونوں ناکام ہو گئے۔ سرپنچ نے بڑے سے بڑے مولانا اور تانترکوں کی مدد سے کترین کو زندہ ہی تابوت میں دفن کر دیا کیوں کہ اس وقت انہیں مارنا اتنا آسان نہیں تھا اور ان سے چھٹکارا پانے کا صرف ایک یقین طریقہ تھا۔ سچائی سننے کے بعد سائنٹسٹ اور اس کی ٹیم نے تابوت کو دوبارہ قبر میں دفن کرتے ہوئے وہاں سے چلے جانے میں ہی غنیمت سمجھی۔۔۔۔