![]() |
رازِ دل – قسط نمبر 10 | کنزہ خان کا نیا اردو ناول" |
"رازِ دل"
"قسط نمبر 10"
از۔"کنزہ خان
مقدم ابھی بھی منت کے ہاتھ کو دیکھ رہا تھا ان کی بات پہ ایک جھٹکے سے سر اٹھایا۔ اس کی پیشانی پر
شکنیں نمودار ہوئیں۔
" تائشہ کیوں داجی ؟۔۔۔۔"
اس نے غصے میں کہا
" ارے بھئی تم بچپن سے اس سے ایچ ہو تو میں نے سوچا۔۔۔۔"
" پلیز داجی"
ابھی ان کی بات بھی پوری نہیں ہوئی تھی کہ مقدم نے انہیں ٹوک دیا۔
تائشہ کے بارے میں سوچنے گا بھی نہیں .... وہ میری بہنوں کی طرح ہے اور میں نے کبھی اسے اس
نظر سے نہیں دیکھا۔"
"کس نظر سے۔۔؟۔۔۔۔۔"
بالاج نے کہا
اسی نظر سے جس سے تم مناہل کو دیکھتے ہو ۔ "
سب کی موجودگی میں مقدم کی اس جوابی کاروائی پر بالاج جھینپ گیا جبکہ مقدم سنجیدہ سا، سپاٹ چہرہ لیے، لمبے لمبے ڈگ بھر تا باہر نکل گیا۔
اس کے جاتے ہی سب نے سر جھٹکا جبکہ منت کی نظروں نے مقدم کی گاڑی کا غائب ہونے تک پیچھا کیا تھا۔
صبح کا سورج بہت ساری خوشیاں لیے، طلوع ہوا تھا۔ آج لاریب اور یارم کی بارات تھی آج یارم کی لاریب نے اس کی دسترس میں آ جانا تھا وہ بہت خوش تھا لا ریب بھی خوش تھی اسے اس قدر چاہنے والا جیون ساتھی ملا تھا وہ دونوں اپنے رب کا جتنا شکر ادا کرتے کم تھا۔ ہر طرف شور مچا تھا سب تیاریوں میں مصروف تھے۔
مقدم نازیہ پھپھو اور تائشہ کو لینے ائیر پورٹ گیا ہوا تھا وہ امریکہ سے پاکستان پہنچ رہی تھیں یارم کی شادی کے لئے ۔ وہ نکاح اور مہندی میں شمولیت نہیں کر سکی تھیں۔
مقدم انہیں لے کے گھر پہنچا تو سب نازیہ بیگم اور تائشہ سے خوش دلی سے ملے اور ان سے باتوں میں مصروف ہو گئے سب باتیں کر رہے تھے لیکن مقدم خاموشی سے بیٹھا تھا نازیہ بیگم کا دل کہتا تھا اس کی خاموشی پہ ۔۔۔۔ ابھی وہ سوچ ہی رہی تھیں کہ مقدم کو مخاطب کریں پر مقدم کا فون بجنے لگا وہ فون لیے ، باہر چلا گیا تا کہ قدرے خاموشی میں بات کر سکے۔ مقدم ابھی بھی نہیں مسکراتا کیا ؟۔۔۔۔"
انہوں نے دکھ سے سوال کیا
" بہت کم "
یارم نے باہر دروازے کو دیکھتے جو اب دیا جہاں سے مقدم ابھی گزر کر گیا تھا۔
تیرہ سال ہو گئے ہیں .... ابھی تک میرے بچے کا غم ہلکا نہیں ہوا۔"
انہوں نے دکھ سے کہا
" ماں باپ کا دور ہو جانا بہت بڑا غم ہے پھپھو .... تا عمر تازہ ہی رہتا ہے۔"
بالاج نے دکھ سے کہا اور اپنے کمرے کی جانب چل دیا۔
پھپھو آپ بھی آرام کر لیں پھر بارات کے لئے خان مینشن جانا ہے وہاں سے ہال کے لیے نکلنا ہے
تب تک اس گھر کی بھی ساری سجاوٹ اور دلہن کے استقبال کی تیاریاں مکمل ہو جائیں گی۔"
یارم نے کہا تو نازیہ بیگم نے اثبات میں سر ہلا دیا۔
" تائشہ تم مقدم کے ساتھ ساتھ رہنا میں چاہتی ہوں کہ جلد ہی تمہارے اور مقدم کے لئے داجی سے
بات کروں۔"
یارم کے جاتے ہی نازیہ بیگم نے تائشہ سے کہا تو تائشہ مسکرادی ۔۔۔۔ نازیہ بیگم مقدم کے بارے میں سوچنے لگی کہ ان کالا ڈلا کس قدر خوش مزاج تھا لیکن ماضی کی تلخ یادوں نے اسے کس قدر بدل دیا تھا۔
" ماضی"
آسیہ ، یارم اور بالاج تمہارے جیسے ہیں میں ہمیشہ سے چاہتا تھا کہ میرے ایک بیٹے کی آنکھیں میرے جیسی ہوں لیکن یارم اور بالاج دونوں کی ہی تمہاری طرح " ہیزل گرین " آنکھیں ہیں پر اللہ تعالیٰ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ مقدم کی آنکھیں بالکل میرے جیسی ہیں " گہری سیاہ "۔
رضوان صاحب مقدم کو گود میں لیے، خوشی سے بول رہے تھے اور آسیہ بیگم اپنے شوہر کا اس قدر خوش ہو نا دیکھ مطمئن تھیں۔
مقدم کی پیدائش کے بعد ان کا گھر خوشیوں سے بھر گیا تھا ان کی فیملی پوری ہو گئی تھی مقدم خاندان میں سب ہی کا لاڈلا تھا وہ بالکل رضوان صاحب جیسا تھا جبکہ یارم اور بالاج بالکل آسیہ بیگم جیسے تھے۔۔۔۔ انہی خوشیوں میں وقت گزرتا رہا اور مقدم پندرہ سال کا ہو گیا۔
"بھائی آپ جلد از جلد امریکہ پہنچیں میں نے اب مزید اس شخص کے ساتھ نہیں رہنا۔"
نازیہ بیگم نے فون پہ رضوان صاحب سے کہا۔
رضوان صاحب اس وقت اپنے بیوی بچوں کے ساتھ ڈائننگ ٹیبل پہ بیٹھے ، کھانا کھانے میں مصروف تھے ان کی بات پہ ایک دم رکے اور چونک کر پوچھا
" کیا ہو گیا ہے نازیہ ؟۔۔۔۔"
بھائی میں طلاق چاہتی ہوں اس شخص سے .... اس نے مجھ پہ آج دوسری بار اپنی ماں کے کہنے پہ ہاتھ اٹھایا ہے۔ "
نازیہ بیگم غصے سے بولیں تو رضوان صاحب کی پیشانی پر شکنیں نمودار ہوئیں
" اس نے بہت غلط حرکت کی ہے لیکن طلاق بہت بڑا فیصلہ ہے تائشہ کے بارے میں سوچو وہ معصوم باپ کے سائے کے بغیر کیسے رہے گی ؟۔۔۔۔"
رضوان صاحب نے انھیں سمجھانا چاہا لیکن وہ کچھ سمجھنے کے لیے تیار ہی نہیں تھیں۔
اچھا ہم امریکہ پہنچتے ہیں تم تب تک خاموش ہی رہو۔ "
اتنا کہتے رضوان صاحب نے فون کاٹ دیا سب سوالیہ نظروں سے انھیں دیکھ رہے تھے۔
" کیا ہوا ہے آپا کو ؟۔۔۔۔"
آسیہ بیگم کے سوال پر انہوں نے ایک نظر انھیں دیکھا اور سب بتا دیا مطلب ہم امریکہ جا رہے ہیں ؟-----
مقدم نے جوش سے کہا
نہیں .... بس میں اور آپ کی ماما جائیں گے آپ سب سکندر انکل کے پاس رہو گے ۔ "
رضوان صاحب نے کہا تو مقدم کا جوش پھیکا پڑا پر وہ خاموش ہو گیا۔
آپ بیگ پیک کریں ہمیں کل صبح کی فلائٹ سے نکلنا ہے ۔ "
رضوان صاحب کہتے ، سکندر صاحب کو فون پر اطلاع کرنے کے ارادے سے اٹھ کھڑے ہوئے۔
اگلے دن صبح انہوں نے سامان لیا اور بچوں کو سکندر صاحب کے ہاں چھوڑ نے آگئے۔
ماما بابا جلدی آجائیں گے تب تک یارم آپ نے بھائیوں کا خیال رکھنا ہے ٹھیک ہے ؟.... اور مقدم نو مستی، کسی کو بھی تنگ نہیں کرنا .... بالاج آپ نے بھی بھائیوں کا دھیان رکھنا ہے آپ سب ایک دوسرے کا خیال رکھو گے ، اوکے ؟"
رضوان صاحب نے پیار سے ان تینوں کو سمجھایا تو سب نے اثبات میں سر ہلا دیا۔
بابا مجھے اچھا نہیں لگ رہا آپ لوگ ابھی نہ جائیں یا مجھے بھی ساتھ لے جائیں۔ "
مقدم صبح سے بار بار یہ ہی کہہ رہا تھا
" مقدم بیٹا کیا ہو گیا ہے ؟.... بس تھوڑے دنوں کی بات ہے آپ لوگ یہاں ضرغام اور ارمغان کے
ساتھ کھیلنا، پڑھائی کرنا، ہم جلدی واپس آجائیں گے۔"
رضوان صاحب نے سمجھایا تو اس نے نہ چاہتے ہوئے بھی اثبات میں سر ہلا دیا۔
رضوان صاحب اور آسیہ بیگم ائیر پورٹ کے لئے نکل گئے بچے پڑھنے چلے گئے۔ پڑھائی سے فارغ ہو کے سب باہر آگئے اور ٹی وی دیکھنے لگے جب اچانک سکندر صاحب بھاگتے ہوئے اندر آئے۔ " داجی .... داجی۔۔۔۔۔"
سکندر صاحب کی پکار پہ شازیہ بیگم اور داجی فوراً باہر آئے، بچے تو پہلے ہی صوفوں پر بیٹھے تھے
کیا ہو گیا ہے سکندر ؟.... سب ٹھیک ہے ؟ ... کیوں چلا رہے ہو ؟ ۔۔۔۔"
داجی نے پوچھا تو سکندر صاحب کے آنسو بہنے لگے اور وہ گھٹنوں کے بل زمین پر بیٹھ گئے۔۔۔۔ سب کو
بہت شدت سے کچھ غلط ہونے کا احساس ہوا
" کیا ہوا ہے بتاؤ گے کچھ ؟۔۔۔۔"
داجی کو سمجھ نہیں آرہا تھا کہ کیا ہو گیا ہے
" میر ا دوست میر ابھائی .... رضوان .... داجی رضوان اور آسیہ بھا بھی جس جہاز میں سوار تھے وہ تباہ ہو
گیا ہے کوئی نہیں بچا سب تباہ ہو گیا ہے ۔ "
ان کے الفاظ سن، سب کے سروں پر قیامت برپا ہو گئی تھی
" یہ کیا کہہ رہے ہو تم ؟۔۔۔۔"
داجی نے بہت ضبط سے پوچھا لیکن سکندر صاحب لگا تار رورہے تھے ، یارم اور بالاج رونے لگے جبکہ مقدم تو پتھر کا بت بناسب دیکھ رہا تھا۔
ان کے گھر میں صف ماتم بچھ گئی تھی، بچے یتیم ہو گئے تھے ۔۔۔۔ ان کا رونا بلکنا، سب کا دل کٹ رہا تھا۔۔۔۔ تھوڑا وقت گزرا تو یارم اور بالاج نے خود کو سنبھال لیا لیکن مقدم بیمار رہنے لگا تھا وہ بالکل پہلے دن کی طرح خاموش تھا سکندر صاحب نے ان کی حالت کے پیش نظر سب کو امریکہ پڑھنے کے لیے بھیج دیا۔
"حال"
اب اتنے سال گزر گئے تھے لیکن مقدم کا ابھی بھی نہ مسکرانا سب کے دل ہلا دیتا تھا۔
نازیہ بیگم ماضی کی سوچوں کو جھٹکتے، اپنے کمرے کی جانب چلی گئیں۔
" دبیر کب آ رہے ہو امریکہ سے؟ .... آج یارم کی بارات ہے یار ۔ "
مقدم دبیر کی کال سننے کے لئے باہر آیا تھا اس نے جھنجھلا کر پوچھا۔
دبیر اپنی ماں کے علاج کے لئے امریکہ گیا ہوا تھا اس کی مام کو کینسر تھا جس کا بہتر علاج وہاں ہو سکتا تھا اب جب مقدم کو خبر ملی کہ آنٹی بہت حد تک ٹھیک ہو گئی ہیں تو اس نے یارم کی شادی کی اطلاع دے کر دبیر کو فوراً واپس آنے کا کہا۔
یار پہنچ گئے ہیں یہاں بس یہی بتانا تھا .... اب رات ہال میں ملتے ہیں۔ "
دبیر نے خوش دلی سے کہا تو مقدم نے اثبات میں سر ہلاتے فون کاٹ دیا اور تیار ہونے چلا گیا۔
بارات کی تقریب شروع ہوئی ہر طرف روشنیوں کا سا تھا سب تیاریوں میں لگے تھے بارات لے کے جانے کی تیاری ہو رہی تھیں۔
یارم سیاہ شیروانی میں ملبوس سب کی تعریفیں بٹور رہا تھا آج وہ بہت خوش تھا اپنی محبت پالینے کی خوشی بیان نہیں کی جاسکتی آج یارم کا بھی یہی حال تھا۔
لاریب یارم کی پسند کے جوڑے میں پور پور سجی غضب ڈھا رہی تھی۔ سرخ رنگ کا لہنگا جس پہ گولڈن اور بھاری سا کام ہوا تھا پہنے ، آج وہ یارم کے ہوش اُڑانے کے لئے تیار تھی۔
چلو کب تک نکلنا ہے ؟ .... آجاؤ اب سب۔ "
ضر غام نے کہا تو ارمغان بھاگتا ہوا آیا
بھائی میں تو تیار ہوں آپ کی بہن ہی دیر لگا رہی ہے ابھی میک اپ کر کے آیا ہوں اسے لیکن سو غلطیاں نکال چکی ہے۔ خود کو آتا نہیں ہے میں ترس کھا کے کر دیتا ہوں تو مطمئن نہیں ہوتی ۔ "
ارمغان نے منت کی شکایت لگائی۔۔۔۔ اس کے ذکر پر مقدم کا دل بے ساختہ دھڑ کا آج اس نے مقدم کا دلوایا ہو اڈریس پہننا تھا جو مقدم کو پہلی ہی نظر میں اس کے لئے پسند آیا تھا۔
تم کچھ زیادہ ہی تنگ نہیں کرتے منو کو ؟۔۔۔۔"
ضر غام نے ارمغان کو گھورتے ہوئے کہا تو اس نے دانتوں کی نمائش کرتے ہوئے کندھے اچکا دیئے جب دونوں کی نظریں اپنی بیویوں پر اٹھیں ۔۔۔۔ وہ دونوں ایک ساتھ باہر آرہی تھیں۔۔۔۔ ضرغامنے نور کا ہاتھ تھاما
آج تو میری بیوی ہوش اڑارہی ہے میرے۔"
نور اور انتقال نیلے رنگ کی میکسی میں جوڑا کیسے بالکل پر یاں لگ رہی تھیں ارمغان تو بار بار اپنا دل تھام رہا تھا انتشال شرمائے جارہی تھی جبکہ ضرغام معنی خیز نگاہوں سے نور کو دیکھ رہا تھا اس کا چہرہ اٹھانا بھی محال تھا۔
سب لوگ باہر نکل گئے تو منت فوراً اپنے کمرے سے نکلی اور جلدی جلدی سیڑھیاں اتر نے لگی اس نے آج پہلی بار ساڑھی پہنی تھی جو اس سے سنبھل ہی نہیں رہی تھی شازیہ بیگم نے پہنا تو دی تھی پر اس سے سنبھالی نہیں جارہی تھی وہ بار بار جھنجھلارہی تھی۔
مقدم جو داجی کے کہنے پہ اسے لینے آیا تھا لاونج کے شیشے میں اسے خود کا جائزہ لیتے اور پلوسیٹ کرتے دیکھ سانس تک روک گیا۔
وہ آج اس کی ہی دلائی ہوئی سیاہ ساڑھی، جس میں بالکل بے حیائی نہیں تھی پوری آستینیں اور چھپی ہوئی کمر، اس ساڑھی پہ نفیس سا کام ہوا تھا پہنے، کھلے کمر تک لٹکتے بھورے بالوں اور لائٹ میک اپ میں پور پور سبھی اس کی دنیا ہلا گئی تھی۔۔۔۔ مقدم کا دل اپنی پوری رفتار سے دھڑ کا اور پلکیں جھپکنے سے انکاری تھیں۔ وہ سانس روکے یک تک اسے مبہوت سا دیکھ رہا تھا اس کی گردن کی گلٹی ابھر کر معدوم ہوئی تھی۔
منت پلوسیٹ کرتی ، خود کا جائزہ لینے کے بعد جب پلٹی تو مقدم کو خود کو مبہوت سا تکتے پا کر گڑ بڑا گئی۔
" میں بس آہی رہی تھی۔"
اس نے جلدی سے وضاحت دی۔ سب کو اس کی وجہ سے دیر ہو رہی تھی تو وہ قدرے شرمندہ کی بولی۔۔۔۔
مقدم آہستہ آہستہ چلتا اس کے قریب آیا اور ٹھہر گیا پھر گہری نظروں سے اس کا جائزہ لیا اور پھر تھوڑا
جھک کے اس کے کان کے قریب سر گوشی کی۔۔۔۔
قرار دے بے قرار کر دے
نگاہ یار ہے کوئی مذاق تھوڑی ہے"
مقدم کی اس سر گوشی پر منت کے چہرے پر گلال بکھر گیا اور وہ جلدی سے اپنا چہرہ جھکا گئی۔ مقدم نے آج پہلی بار اس کو بلش کرتے دیکھا تھا۔
پہلے ہی کم دیوانہ ہوں آپ کا جو ایسی اداؤں سے مزید میرا قرار ٹوٹ رہی ہیں۔"
مقدم نے آہستہ سے کہا تو وہ جھکا ہو اسر مزید جھکا گئی۔ مقدم نے جیب سے اپنا موبائل نکالا اور منت کی تصویر کھینچی۔
وہ سر جھکائے کھڑی تھی جب فلیش چرکا اور اس نے چہرہ اٹھا یا مقدم نے ایک اور تصویر کھینچی تو وہ بالکل سرخ ہو گئی اور پھر سے چہرہ جھکا گئی۔۔۔۔ اس میں کچھ بھی کہنے کی ہمت نہیں بچی تھی وہ بس سر جھکائے
کھڑی تھی اس شخص کی نظریں اسے چہرہ اٹھانے ہی نہیں دے رہی تھی اور مقدم فرصت سے اسے دیکھنے میں مصروف تھا۔
" مقدم .... تجھے منت کو لینے بھیجا تھا تو خود ہی غائب ہو گیا ہے۔"
بالاج نے اندر آتے کہا تو مقدم کو منت کو دیکھتے اور منت کو چہرہ جھکائے دیکھ بالاج مسکرایا اور انہیں جلدی سے باہر آنے کی تلقین کی۔
منت فوراً باہر کو بھاگ گئی۔ مقدم نے اس کی رفتار دیکھ، اپنا نچلا لب دانتوں تلے دبایا پھر گہرا مسکرایا اور گہر اسانس بھر کے بالوں میں ہاتھ پھیر تا باہر نکل گیا۔
گاڑی میں بھی مقدم بار بار فرنٹ مرر سے منت کو دیکھ رہا تھا۔۔۔۔ وہ مر ر کو دیکھتی دونوں کی نظریں ملتیں اور منت مزید سرخ ہو جاتی وہ اس کی نظروں سے بچنا چاہتی تھی۔ دونوں کے دل اپنی پوری رفتار سے دھڑک رہے تھے۔ مقدم ارد گرد کا ہوش بھلائے بار بار اسے دیکھ رہا تھا وہ جب بھی نظریں اٹھاتی مقدم کو خود کو دیکھتا پا کر پھر سے چہرہ جھکا لیتی ۔۔۔۔ باقی سب اپنی باتوں میں مصروف تھے مقدم اسے دیکھتے ہوئے لگاتار مسکرا رہا تھا منت اس کی نظروں سے بچنے کے لئے رُخ موڑ گئی اور باہر درختوں کو دیکھنے میں مصروف ہو گئی۔
لاریب خود کو یارم کے لئے تیار کیے، شرمائی گھبرائی سی تھی اسے بار بار یارم کا اپنی پیشانی پہ چھوڑا ہوا لمس یاد آتا تو وہ مزید شرما جاتی۔
نگین بیگم نے آکر اسے گلے لگا لیا لاریب کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ ماں باپ کا گھر چھوڑنا آسان نہیں ہوتا۔۔۔۔ سب ہی برائیڈل روم میں آگئے تھے یا سر اور مرتسم نے لاریب کے سر پر ہاتھ رکھا، زین صاحب اور نگین بیگم اسے ساتھ لگائے بیٹھے تھے وہ رو رہی تھی سب اس کا دھیان بھٹکانے کی کوشش کر رہے تھے جب بارات کے آنے کا شور مچالاریب کا دل اپنی پوری رفتار سے دھڑکا تھا۔
سب اسے چھوڑتے ، بارات کے استقبال اور رسموں کے لئے باہر چلے گئے اور لاریب روم کی کھڑ کی میں کھڑی باہر کا منظر دیکھنے لگی۔
بارات بال میں داخل ہوئی تو آگے لڑکیوں کا رش جما تھا اور راستہ بند کیا گیا تھا یارم کے چہرے پر مسکراہٹ آگئی۔
چلیں یارم بھائی پیسے نکالیں ورنہ آپ کی اینٹری نہیں ہے۔ "
ایزل بولی
" ڈیمانڈ کیا ہے ؟۔۔۔۔"
بالاج بولا
" تین لاکھ "
کتاب نگری پر پوسٹ کیا گیا۔
عنایہ نے پھر سکون سا کہا تو سب کی آنکھیں پھیل گئیں
تین لاکھ .... عنا یہ بیٹا ہم غریب بندے ہیں۔ "
منت نے کہا تو سب نے اس کی تائید میں مسکراتے ہوئے اثبات میں سر ہلایا۔
منت آپی ہم تین بہنیں ہیں ایزل آپی آپ اور میں۔ ہم نے تو ہم تینوں کا ایک ایک لاکھ ملا کر تیر لاکھ کہا ہے پر آپ اپنا حصہ چھوڑنا چاہتی ہیں تو ہمیں کوئی اعتراض نہیں ہے۔" تین
عنایہ نے شرارت سے کہا۔۔۔۔ منت نے ایک نظر بارات کو دیکھا اور ایک نظر ایزل اور عنایہ کو اور جلدی سے ان کے ساتھ کھڑی ہو گئی۔
" چلیں یارم بھائی نکالیں تین لاکھ ۔ "
اس کی اس غداری پر جہاں سب نے ہو تک بنے اسے دیکھا وہیں مقدم کا زور دار قہقہہ گونجا۔
منت کے لئے تو جیسے وقت رک گیا تھا وہ پہلے ہی سیاہ تھری پیس میں اس وقت قیامت ڈھا رہا تھا اب اس کا یوں قہقہہ لگانا۔۔۔۔ منت نے سوچا بھی نہیں تھا کہ وہ ہنستا ہوا اس قدر حسین لگتا ہو گا اس کی آنکھیں جو آج چمک رہیں تھی ہنستے ہوئے تھوڑی چھوٹی ہو گئیں تھیں اور اس کے ڈمپلز جو بات کرتے ہوئے ہی اس کے دونوں رخساروں پر بہت گہرے نمایاں ہوتے تھے اس وقت اور بھی گہرے ہو گئے تھے منت جو اس کی گہری سیاہ آنکھوں کی دیوانی تھی اپنا دل ہار گئی تھی اس شخص کی ہنسی پر ۔
سب لوگ ہو نک بنے جبکہ منت مبہوت کی اسے تک رہی تھی سب بہت حیران تھے نازیہ بیگم تو اس پر نہال ہی ہو گئیں تھی آج ان کالا ڈلا بہت عرصے بعد دل کھول کر ہنسا تھا انھیں اس میں اپنے بھائی کی جھلک دکھی تھی۔
مقدم نے ہنستے ہوئے یارم کو دیکھا اور پھر سب کے ہو نک چہرے دیکھتا مزید مسکرا دیا
" اب دیکھ کیا رہا ہے ؟.... کر ڈیمانڈ پوری۔"
مقدم نے ہنستے ہوئے کہا تو یارم نے خفگی سے اسے گھورا
" منو تم لوگوں نے بس راستہ روکنے کے ہی پیسے لینے ہیں کیا ؟۔۔۔۔"
ضرغام نے پوچھا
" آپ فی الحال یہ تو دیں پھر آگے آگے بتاتے ہیں آپ کو ۔ "
منت نے دانتوں کی نمائش کرتے کہا تو یارم نے اسے مصنوعی گھورا۔
یہ اتنی بڑی بڑی آنکھوں سے مجھے گھورنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے اگر آپ نے اندر جا کر اپنی بیوی کو
دیکھنا ہے تو جلدی سے پیسے نکالیں۔"
منت کی بات پہ سب ہی مسکرادیے۔
لو بھئی .... میں اپنی بیوی کے لیے تو دنیا لٹا دوں تین لاکھ کیا چیز ہے۔ "
یارم نے کہتے ہوئے پیسے تھمائے۔ لاریب کھڑ کی پر کھڑی ساری کارروائی دیکھ نہیں رہی تھی یارم کی بات پر شرماگئی دل بہت زور سے دھڑکا تھا۔
بارات اندر داخل ہوئی تو داجی سلطان صاحب کو دیکھ ، ان سے باتوں میں لگ گئے انہوں نے آج عارف
صاحب ( مناہل کے والد ) سے انھیں ملوانا تھا۔
مناہل اپنے دھیان برائیڈل روم کی جانب بڑھ رہی تھی کہ اچانک بالاج راستے میں آگیا وہ رک کر اسے دیکھنے لگی
" کیا ہے ؟۔۔۔۔"
مناہل نے غصے سے پوچھا
" تم مجھ سے شادی کرو گی ؟۔۔۔۔۔
بالاج نے سکون سے سوال کیا تو مناہل کے جسم سے سارا خون سمٹ کر چہرے پر آگیا اس نے جلد ہی
خود کو سنبھال کر اسے غصے سے گھورا اور آگے بڑھ گئی۔
"بد دماغ آدمی"
بالاج اس کی بڑ بڑاہٹ سن ، ہنستا ہوا آگے بڑھ گیا۔۔۔۔ یارم کی شادی کے بعد ہی اب اس کی باری تھی داجی کے مطابق، اور داجی اپنے کام پر لگ چکے تھے۔
لاریب کو اسٹیج پر لایا گیا۔ وہ جیسے جیسے قدم اٹھا رہی تھی یارم کی دھڑکنیں بڑھتی جارہی تھیں اس کی آنکھوں میں آنسو چپکنے لگے ۔۔۔۔ خدا کتنا مہربان تھا اس پر ، اسے اس کی محبت مل گئی تھی یارم کی ساری دنیا سمٹ کر اس لڑکی میں آگئی تھی آج اسے لاریب کی صورت میں سب مل گیا تھا۔
لاریب آج یارم کی کیفیت جانے بغیر اس پر غضب ڈھارہی تھی۔
یارم نے آگے بڑھ کر اسے تھاما اور اسٹیج پر لاکر اس کا ہاتھ اپنے لبوں سے لگایا پھر عقیدت سے اپنی دونوں آنکھوں پہ پہ لگایا ، آنسو ٹوٹ کر اس کی بیرڈ میں جذب ہوئے۔۔۔۔ سب لوگ حیران رہ گئے۔ لاریب کی آنکھوں میں بھی آنسو آگئے تھے یارم کی محبت پر ۔۔۔۔ وہ اتنا شاندار مرد اسے اپنا محرم بنا کر اس کے لئے آنسو بہا رہا تھا۔۔۔۔ سب کے چہروں پر مسکراہٹ نمودار ہوئی یارم نے بہت نرمی سے اس کا ہاتھ تھاما ہوا تھا اسے لاکر صوفے پر بٹھا یا خود بیٹھنے لگا تو ایزل اور منت جلدی سے اس کی جگہ پر بیٹھ گئیں وہ تینوں انہیں آج لوٹنے کا سارا منصوبہ بنا چکی تھیں۔
" اب کیا ہے یار۔۔۔۔؟"
یارم نے بے بسی سے کہا
کیا ہے مطلب؟ .... رسم ہے یارم بھائی .... لاریب کے ساتھ بیٹھنا ہے تو تھوڑی جیب ملکی کریں۔" ایزل نے کہا
بھی تو آپ لوگوں کو پیسے دیئے ہیں۔ "
وہ تو راستہ روکا تھا نہ بال میں داخل ہونے کے پیسے تھے اب بیٹھنا ہے تو پھر سے پیسے دیں ورنہ کھڑے رہیں ہمیں کیا۔ "
ایزل اور منت نے کندھے اچکا دیئے
" آپ لوگوں کا جتنا بھی فائنل ہو لے کر مجھے میرا حصہ دے دینا میں پانی پی کر آتی ہوں۔"
عنا یہ بے نیازی سے کہتی چلی گئی۔
اب دینے ہیں پیسے یا پھر ہال سے باہر صوفوں کا انتظام کریں آپ لوگوں کے لیے ؟ ۔۔۔۔"
سب ہی منت کی بات پر بے ساختہ نہیں دیئے
لڑکیوں تھوڑا خیال کرو یار جتنا تم لوگوں نے ہمیں لوٹ لیا ہے ہم تو کنگال ہو جائیں گے ۔ "
بالاج نے کہا تو یارم نے چہرے پر بلا کی معصومیت سجائے اس کی تائید میں سر ہلایا
کیا کنگال ؟... صرف شیروانی ہی پانچ لاکھ کی ہے یارم بھائی کی اور ہمیں دینے سے کنگال ہو جائیں گے۔"
منت نے کہا تو سب ہنسنے لگے
" یارم بھائی آپ کو کس نے کہا تھا کہ اسے اپنی شیروانی کی قیمت بتاؤ۔"
ارمغان نے کہا تو یارم نے بے بسی سے انہیں دیکھا اور پھر پیسے نکال کر انہیں تھما دیئے وہ تینوں چپ چاپ اٹھ گئیں اور یارم کو جگہ دی۔
یارم نے بیٹھتے ہی لا ریب کا ہاتھ تھام لیا جو بہت ٹھنڈا پڑا ہو ا تھا۔
تھوڑا ٹائم گزرا تو دودھ پلائی کی رسم شروع ہو گئی " یہ لیں۔۔۔۔"
ایزل نے دودھ کا خوبصورتی سے سجا گلاس یارم کی جانب بڑھایا تو یارم جو تھا منے لگا تھا منت کے کہنے پر رکا
پینے سے پہلے چار جز لگیں گے .... مفت نہیں ہے یہ۔ "
یارم کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں
اب اس کے بھی پیسے دوں ؟۔۔۔۔"
یارم نے حیرت سے کہا تو ایزل منت اور عنایہ نے بیک وقت سر ہلا یا یارم نے بے بسی سے سب کو دیکھا تو سب نے کندھے اچکائے بہت شوق تھانہ شادی کا ، لے مزے اب "
ضر غام نے شرارت سے کہا تو سب ہنسنے لگے یارم نے خفگی سے اسے دیکھا
خود تو تم نے اور ارمغان نے چپ کر کے ہی کر لی میرے تو ارمان پورے ہونے دو..... بالاج تو میرا بھائی ہے لیکن مقدم تو میر ابھائی ہی نہیں لگ رہا .... تمھیں کتنا حصہ ملنا ہے ان تینوں سے ؟.... جو اپنے بھائی کا ساتھ دینے کی بجائے ان کا دے رہے ہو ۔ "
یارم نے مقدم کو دیکھتے خفگی سے کہا تو وہ جو پر شوق نگاہوں سے منت کو دیکھنے میں مصروف تھا اس کی جانب متوجہ ہوا
" میں کیا کہہ سکتا ہوں بھٹی ، تمہاری شادی ہے تم دیکھو کیا کرنا ہے۔"
اس نے بے نیازی سے کہا تو یارم نے بر اسا منہ بنایا
" کوئی بات نہیں .... تمہارا ٹائم آنے دو پھر دیکھنا کیسے تارے دکھاتا میں تمہیں۔"
یارم نے کہا تو مقدم کا دل زور سے دھڑ کا اور نظریں منت پر جم گئیں جو کبھی یارم کو دیکھ رہی تھی اور کبھی دودھ کے گلاس کو جبکہ یارم کی بات پر تائشہ کا دل بھی دھڑ کا تھا وہ مقدم کو دیکھنے لگی پھر اس کی نظروں کا تعاقب کیا تو اس کا دل تھا۔۔۔ مقدم آنکھوں میں دنیا جہان کی محبت سموئے جان لٹاتی نگاہوں سے منت کو دیکھ رہا تھا۔
مقدم اور تائشہ ایک دوسرے کے بہت اچھے دوست تھے مقدم ہر بات اس سے کر لیتا تھا اس نے منت کے بارے میں بھی اسے بتایا تھا لیکن اس سے پسندیدگی کے بارے میں کچھ نہیں کہا تھا تو تائشہ مطمئن ہو گئی تھی لیکن اب مقدم کو اسے دیکھتا پا کر تائشہ کو منت سے نفرت محسوس ہوئی تھی کیونکہ مقدم بچپن سے اس کا تھا اس نے ہمیشہ سے اس کے خواب دیکھے تھے۔۔۔۔ وہ اپنے اور مقدم کے در میان کسی کو آنے کی اجازت نہیں دے سکتی تھی۔۔۔۔ وہ اداس ہو گئی اور بو جھل دل کے ساتھ سے نیچے اتر گئی۔ سٹیج
اچھا یار آپ لوگ لڑنا بند کرو اور بتاؤ کتنے پیسے چاہیے۔"
انھیں بحث کرتے دیکھ ، مقدم بولا تو یارم نے تشکر بھری نگاہوں سے اسے دیکھا
" پانچ لاکھ ۔۔۔۔"
منت مزے سے بولی تو مقدم نے محبت سے اسے دیکھا۔۔۔۔ دبیر نے مقدم کی آنکھوں کی چمک دیکھی تو فوراً آگے بڑھا
بھا بھی تھوڑی رعایت کر لیں۔"
دبیر نے کہا تو مقدم گڑ بڑایا جبکہ منت کا دل بہت زور سے دھڑکا۔۔۔۔ باقی سب نے چہرے جھکا کر ہنسی دبائی۔۔۔۔ منت نے اجنبی نگاہوں سے دبیر کو دیکھا وہ اسے نہیں جانتی تھی۔۔۔۔ مقدم جھینپ گیا اور دبیر کو گھورا۔۔۔۔ بالاج نے اپنے بھائی کی جھینپ مٹانے کے لئے جلدی سے بات کا رخ بدلا اور سب کی توجہ واپس رسم کی جانب مبذول کروائی۔
آپ لوگ تو دودھ کا گلاس بلیک میں بیچ رہیں ہو ۔ "
بالاج نے کہا تو پیچھے کھڑی ساری کاروائی دیکھ مسکراتی مناہل نے اسے دیکھتے ہی سر جھکا لیا۔۔۔۔ اس کے پروپوز کرنے کے بعد سے ہی مناہل کا اس کے سامنے چہرہ اٹھانا مشکل ہو گیا تھا۔
چلیں خریدیں نہ اب .... میری ٹانگوں میں درد ہونے لگ گیا ہے کب سے کھڑی ہوئی ہوں میں ۔ "
منت بولی تو مقدم نے پانچ لاکھ نکال کر اس کے ہاتھ پر رکھ دیئے۔
"اب خوش؟۔۔۔۔"
یارم نے کہا تو وہ تینوں مسکرادیں اور اس کی جانب دودھ کا گلاس بڑھا دیا۔
" مما آپ نے مقدم کو دیکھا کتنا بدلہ بدلہ لگ رہا ہے وہ؟۔۔۔۔"
تائشہ نازیہ بیگم کے پاس آکر بولی ہوں وکھری ہوں۔
نازیہ بیگم نے جواب دیا۔
ہننے تک تو ٹھیک تھا لیکن وہ کتنی محبت بھری نظروں سے منت کو دیکھتا ہے .... مجھے کچھ ٹھیک نہیں لگ رہا۔"
تائشہ نے پریشانی سے نازیہ بیگم کو دیکھتے ہوئے کہا۔ " تم فکر نہ کرو میں جلد ہی کچھ کرتی ہوں۔"
نازیہ بیگم نے اسے تسلی دی تو وہ قدرے پر سکون ہو کر انہی کے قریب بیٹھی رہی اور نازیہ بیگم اسے تسلی دے کر خود پریشان ہو گئی تھیں انھیں مقدم اپنی تائشہ کے لئے چاہیے تھا ہر حال میں لیکن یہاں تو سب الٹا ہو گیا تھا۔
رسم ختم ہوئی تو مقدم دبیر کے ساتھ باتیں کرتا اسٹیج سے نیچے اتر گیا داجی بالاج کو سلطان صاحب سے ملانے لگے۔ ایزل اور عنایہ یا سر کے پاس چلی گئیں جس نے علیانہ کو پکڑا ہوا تھا اور وہ روئے جارہی تھی ایزل نے جاکر علیا نہ خود پکڑ لی۔
منت جیسے ہی اسٹیج سے اتری تو نجمہ بیگم اس کے قریب آگئیں انھیں دیکھ کر منت میں شدید غصے کی لہر دوڑ گئی۔ وہ مہندی کی تقریب میں نہیں آئی تھیں تو منت سکون میں تھی لیکن آج انھیں اپنے سامنے دیکھ کر منت کا موڈ خراب ہو گیا تھا۔
انہوں نے اس کا ہاتھ بہت غصے سے پکڑا اور منت نے اس سے بھی زیادہ بری طرح ان کا ہاتھ جھٹکا اور آگے بڑھ گئی۔
یہ منظر قدری اندھیری طرف تھا تو کسی نے نہیں دیکھا سوائے تائشہ اور نازیہ بیگم کے ۔۔۔۔ ان دونوں نے یہ منظر دیکھ ، حیرت سے ایک دوسرے کو دیکھا۔۔۔۔
رازِ دل, کنزہ خان, اردو ناول, محبت کہانی, رومانوی کہانی, افسانہ, قسط وار ناول, اردو ادب, اردو کہانیاں, Pakistani novels, Romantic Urdu Novel, Urdu Stories, Best Urdu Novel, Online Urdu Novel, New Urdu Novels, Urdu Kahani, Latest Urdu Novel, Urdu Books, Urdu Digest