۔ السا جلدی کرو ہمیں نکلنا بھی ہے۔ریم جو کے السا کی بڑی بہن تھی بازار جانے کے لیے السا کو بولنے لگی جو برقع پہن رہی تھی۔۔۔۔جی باجی بس آ گئی۔یہ برقع پہن لوں۔ باجی میرے پاس تو دو ہزار ہی ہیں۔تم مجھے کچھ پیسے دے سکتی ہو کیا ۔ابا سے ملنے پر تمہیں واپس کر دوں گی۔ہاں لے لینا ایک ہزار ہیں میرے پاس مگر تو نے کیا کرنا ہے ۔ باجی وہ میرا برقع یہ والا خراب ہو گیا ہے اور کالج کے لیے کتابیں بھی چاہیئے تو بس پیسے ک م پڑ گئے۔میں دے دوں گی پّکّا۔ پاگل ہو گئی ہے کیا ۔جو میرا ہے وہ تیرا بھی ہے چل چلیں۔ہاں صحیح پر لوگوں کے سامنے مجھے آپ ہی بولا کر تو جانتی ہے نہ لوگ برا منا جاتے ہیں۔۔ہاں صحیح باجی آپ چلیں میں آتی ہوں۔السا جلدی سے عبایا پہن کر باہر نکل گئی۔
مارکیٹ میں پہنچ کر ریم اور السا پہلے کتابوں کی دوکان پر گئیں مگر کتابیں اتنی مہنگی تھیں کے ریم اور السا کے پاس پیسے ختم ہو گئے آپی ا ب کیا کریں۔ پیسے تو ختم ہو گئے۔ارے میری جان کوئی بات نہیں بعد میں لے لیں گے میرے لیے کپڑے نئے ابھی تمہارا عبایا لیتے ہیں چلو۔ریم اپنی معصوم سے السا کو دیکھتے ہوئے بولی جس کا پیسے ختم ہوتے دیکھ کر منہ پر ادُاسی چھا گئی تھی۔ ارے نہیں باجی میں پھر کبھی لے لوں گی نہ چلو کوئی بات نہیں۔السا صدا کی معصوم کیسے دیکھ سکتی تھی کے اسُکی بہن کو نئے کپڑے اپنے چھوڑنے پڑیں۔ پاس ہی کھڑا کوئی شخص غور سے ان دونوں بہنوں کی باتیں سن رہا تھا۔ ۔ ۔ کیا میں آپکی کوئی مدد کر سکتا ہوں۔ یہ آواز انے پروہ دونوں پیچھے مڑ کر دیکھنے لگیں اور سامنےکھڑے شخص کو دیکھ کر انُ دونوں کی آنکھیں حیرتسے پھٹی رہ گئیں کیوں کے سامنے کوئی اور نہیں بلکہ ایک مشہور بزنس ٹائیکون میر ہادی خان تھا۔ جو کے کافی مشہور تھا۔ اس نے بہت کم وقت میں اپنا نام بنایا تھا اور اب وہ کافی کامیاب تھا اس کے ساتھ ساتھ وہ لوگوں کی مدد کھلے دل سے کرنے پر بھی لوگوں میں کافی مقبول تھا۔ السا صدا کی معصو م فور ا سے بول پڑی۔ جی ہمارے پاس پیسے ختم ہوگئے ہیں۔ باجی کی دوست کی شادی ہے نہ تو نئے کپڑے لینے ہیں اور پرانے بہت خراب ہو گئے اور مجھے اپنے لیے نیا عبایا خریدنا ہے۔ السا نہیں جانتی تھی اس ایک بات کا جواب اس کو کس موڑ پر لیے جائے گا ۔ یہ بات کرنا اس کے حق میں اچھا تھا برا یہ تو وقت ہی بتانے والا تھا ۔ مگر سامنے کھڑا میر ہادی خان السا کے چہرے کی معصومیت میں ہی کھو گیا۔وہ کیا بول رہی تھی اس کو کچھ سمجھ نہ آیا اور بس بغیر پلک جھپکنے وہ السا کی خوبصورت صورت کو تکتا رہا حلانکہ وہ شادی شدہ تھا اور ایک بیٹی کا باپ بھی تھا مگر السا تھی ہی ایسی خوبصورت ، سرخ و سپید رنگت ، بڑی بڑی ،ہرے رنگ کی گول گول آنکھیں، بھرے بھرے گال انابی لب اور چہرے پر چھائی معصومیت اس کو اور پرکشش بناتی تھی میر ہادی خان بس اس کو دیکھتے ہی جا رہا تھا مگر اب ریم کو اچانک السا کو چپ کروانا پڑا ۔وہ کیسے کسی بھی غیر مرد کے نظریں اپنی معصو م بہن پر پڑنے دیتی ۔چلو ہمیں کوئی مدد نہیں چاہیئے ۔یہ کہ کر ریم السا کو گھسیٹ کر لے گئی جبکہ میر ہادی السا کے جانے کے بعد تک اس کے سحر سے نکل ہی نہیں پایا۔ ، کریم پتہ کرو اس ہری آنکھوں والی لڑکی کا کون ہے کہاں رہتی ہے، کیا کرتی ہے، مجھے سب بتاؤ ایک ہفتے کے اندر اندر سمجھے۔ میر ہادی نے اپنے باڈی گارڈ سے کہا کیوں کے السا کی معصومیت میر ہادی کو بھا گئی تھی ۔دنیا کی نظر میں ایک کامیاب بزنس ،ٹائیکون میر ہادی سب کی مدد کے لئے ہر وقت تیار لوگوں کا خیال رکھنے والا اصل میں ایک بھیڑیا تھا جس کے نزدیک باہر کی عورت کی عزت نہیں ہوتی ۔ اپنی بیٹی کو وہ گر م ہوا سے بھی بچاتا تھا جو کے ابھی صرف پانچ سال کی تھی۔ گھر آ کر ریم نے السا کی خوب کلاس لی یوں کسی اجنبی سے مدد مانگنے پر اب السا منہ بنا کر بیٹھی تھی۔ ریم رات کے لیے کمرے میں بولنے آئی تو السا اس کو منہ پھلا کر بیٹھی بہت کیوٹ لگی وہ منہ پھلائے بلکل ایک گڑیا لگ رہی تھی۔ ریم اس کے پاس آ کر بیٹھی اور اور اس کے چہرے پر پیار کیا مگر السا نے چہرے کو دوسری طرف موڑ لیا۔ مطلب وہ سخت ناراض تھی۔ ریم نے اب اس کو سمجھانے کا سوچا ۔ ریم اس کے بالوں میں آہستہ آہستہ انُگلیاں چلانے لگی۔ جانتی ہو السا تمہارے نا م کا مطلب کیا ہے۔۔۔۔تمہارے نا م کا مطلب ہے اللہ کی طرف سے دیا گیا خوبصورت تحفہ ۔ ہمیں یہ تحفہ بہت عزیز ہے میری جان ۔ اگر ہم اس کی حفاظت نہیں کریں گے نہ تو لوگ اس کو ہم سے چھین لیں گے اور میری السا میری جان ہے تو کیسے دے دوں کسی اور کو۔ ریم کی بات اب السا غور سے سننے لگی۔ اس کو ریم کی بات سن کر حیرانی ہوئی۔ ریم نے اس کو آہستہ آہستہ سمجھاتے ہوئے میر ہادی کی نظروں کا مفہو م سمجھایا جو کے وہ سمجھ گئی اور پھر ریم کی بات مان کر اس کے ساتھ نیچے کھانے پر گئی۔ اس دن کے بعد سے السا نے ہر اجنبی سے بات کرنا چھوڑ دیا ۔ وہ صرف اپنے کالج جاتی اور ادُھر سے سیدھا گھر۔ ادُھر میر ہادی کے حواسوں پر السا چھائی رہتی۔ اس کو غصّہ تھا اب تک السا کے بارے میں کچھ نہیں معلو م ہو سکا ۔ ایک دن اسی طرح کریم نے اطلاع دی کے اس نے السا کا پتہ لگا لیا ہے۔ وہ دو بہنیں ہیں اور ریم بڑی جبکہ السا چھوٹی ہے جو کے ابھی صرف اٹھارہ سال کی ہے۔ میر ہادی کی اپنی عمر تیس سال تھی۔ السا کے کالج سے لئے کر گھر انے جانے کے ٹائم تک ساری معلومات کریم نکلوا چکا تھا۔ ۔ایک ،دن السا کالج سے باہر نکلی تو سامنے سوٹ پہنے آنکھوں پر گلاسز لگائے وہ تین باڈی گارڈ کے درمیان کھڑا تھا ۔ وہ غرور سے چلتا ہوا سیدھا السا کے کے سامنے آیا اور اور اس سے ضروری بات کا کہنے لگا ۔ مگر السا نے سہولت سے سے انکار کیا ۔مگر میر ہادی نے لفظوں کے جال میں پھنسا ہی لیا اور السا اس کے ساتھ گاڑی میں بیٹھنے پر راضی ہو گئی۔ ا س نے گاڑی ایک ریسٹورانٹ کے سامنے روکی اور اند ر کی طرف بڑھ گیا مگر السا ڈرنے لگی تو اس نے یقین دلایا کے ڈرے نہیں وہ السا کو کچھ نہیں کہہ گا۔ السا میر ہادی کے ساتھ اندر گئی۔ ا س نے کھانا آرڈر کیا اور السا سے بات کرنے لگا۔ اس نے کھانا آرڈر کیا اور السا سے بات کرنے لگا ۔ السا دیکھو میں تمہیں دس لاکھ دوں گا مگر اس کے لئے۔۔۔۔۔۔۔ ۔ میر ہادی کی اگلی بات نے السا کے پیروں کے نیچے سے زمین کھینچ لی۔ آپ غلط مت سمجھیں ہمیں ۔ہم غریب ضرور ہیں مگر عزت کا سودا نہیں کرتے ۔یہ کہ کر السا جانے لگی تو میر ہادی نے السا کا ہاتھ پکڑ کر اسے روکنا چاہا۔مگر السا نے گھبرا کر میر ہادی کے چہرے پر اپنے نازک ہاتھ کا نشان چھوڑ دیا ۔میر ہادی حیرانگی سے سامنے کھڑا اس چھوٹی سی لڑکی کو دیکھ رہا تھا جو اس پر ہاتھ اٹھانے کی جرات کر چکی تھی۔عزت کا سودا نہیں ۔۔۔کبھی نہیں۔۔۔۔یہ بول کر السا چلی گئی ۔پیچھے میر ہادی نے نفرت سے السا کو سوچا۔ وہ اس کو ایک بھیانک انجا م دینے کا ارادہ کرنے لگا۔ السا ہانپتی کانپتی اندر آئی او ر کمرے میں جاتے ہوئے رونے لگی مگر ریم نے اس کو دیکھ لیا۔ریم پریشانی کی حالت میں اندر آئی اور السا کے پاس آئی مگر السا نے اس کو اپنی پریشانی نہیں بتائی بلکہ یہ کہا کالج میں اس کی دوستوں میں لڑائی ہو گئی ہے۔ریم مطمئن تو نہ ہوئی مگر پھر یہ سوچ کر کے شاید واقعی ایسا ہوا ہو وہ خاموش ہو گئی۔ اِِدھر السا کی پریشانی ختم ہونے کا نا م ہی نہیں لے رہی تھی۔وہ را ت کو سونے لگتی تو عجیب بھیانک خواب نظر آتے ۔۔۔کبھی جنگل میں بھاگتے ہوۓ لڑکھڑا کر گر جاتی اور کبھی سامنے آگ ہی آ گ ہوتی جس سے ڈر کر اٹھ جاتی۔ ایک مہینہ ہو گیا تھا مگر میر ہادی خاموش تھا۔دوسری طرف میر ہادی نے السا کو برباد کرنے کا پورا پلان تیار کر لیا تھا۔ السا کافی حد اس معاملے کو بھول چکی تھی۔ مگرمیر ہادی بدلے کی آگ میں کیا کرنے جاتے رہا تھا وہ جان کر بھی انجان بنا رہا۔ وہ بھی ہر شا م کی طرح ایک خاموش شا م تھی جب السا اپنی محلےّ کی سہیلی کی طرف جا رہی تھی۔چلتے چلتے ایسا محسوس ہوا جیسے کے کوئی پیچھے جو مگر دو بار موڑ کر دیکھنے پر بھی کوئی نہ ملا۔ اس بار السا جیسے ہی آگے چلی کسی نے اس کے منہ پر رومال رکھ کر بیہوش کر دیا۔ اس بیچاری کو تو خود کے بچاؤ کا موقع بھی نہیں ملا اور وہ ہو ش و حوا س سے بیگانہ ہو گئی۔السا کے گھر والے اس کے گھر نہ لوٹنے پر پریشان تھے۔ اس کے ابو تھانے رپورٹ کرنے گئے مگر یہ کہ کے ہم کوشش کریں گے ان کو ٹال دیا گیا۔ریم اور اس کی ماں کی رو رو کر بری حالت تھی۔ ادُھر السا کو جب ہوش آیا تو اس نے خود کو ایک کمرے میں پایا۔ کمرہ خوبصورت تھا۔ ہر طرح کی سہولت کے ساتھ۔ وہ چکراتے سر کو تھا م کر اٹھی ۔کافی دیر تو اس کے حواس کا م نہ کیے مگر پھر پاس پڑا پانی کاگلاس منہ کو لگایا ۔ پھر کچھ دیر بعد سمجھ آنے پر اٹھی تو کمرے کا جائزہ لینے کے بعد زور سے دروازہ بجانے لگی اور مدد کے لیے پکارنے لگی مگر کوئی ہوتا تو سنتا ۔ آخر تھک حال کر نڈھال ہو کر بیٹھ گئی۔ تقریبا ایک گھنٹے بعد کسی نے دروازہ کھولا اور قد م قد م چلتا السا کے سامنے رکا۔ السا نے جب نظر اٹھا کر دیکھا تو سامنے کوئی اور نہیں بلکہ میر ہادی تھا جو السا کو دیکھا کر طنزیہ مسکرا رہا تھا۔ السا کو اسے دیکھ کر خوف محسوس ہوا۔ مگر ہمت جمع کرتے ہوئے اٹھی اور میر ہادی کا گریبان پکڑتے ہوئے اس پر چیخی۔تم گھٹیا انسان ہمت کیسے ہوئی تمہاری ۔ اس کا یہ کہنا تھا کہ میر ہادی نے ایک تھپڑ رکھ کر زور سے اس کے نازک گال پر لگایا جس کی تاب نہ لاتے ہوئے وہ زمین پر جا گری۔ اس نے السا کو بالوں سے پکڑ کر اوپر اٹھایا اور سختی سے منہ دبوچتے ہوئے اس کو غرا کر کہا تم اتنی اوقا ت نہیں کے مجھ سے بات کر سکو اور تم نے مجھے تھپڑ ماردیا اس کا حساب تو دینا ہو گا۔مگر السا نے جواب دیا اوقات سے گری ہوئی حرکت تو ت م نے کی ہے مجھے اغواء کر کے۔ السا نے جب اس کے چہرے پرتھوکا تو میر ہادی کا غصّہ ساتویں آسمان پر پہنچ گیا۔ پھر اس ظالم نے السا جیسی معصو م سے انتقا م لیا۔ اس کی فریاد کو کسی خاطر میں نہ لاتے ہوئے ایک بار پھر ایک حیوان بنت ہوا کو تباہ کر گیا۔ السا نے خود کو بچاؤ کی کوشش کی مگر میر ہادی پر انتقا م کی آگ سوار تھی۔ اس نے السا کی دھیایوں کو کسی خاطر میں نہ لاتے ہوئے اس کو روند ڈالا۔السا نے میر ہادی کو چیخ کر کہا کے وہ باہر جا کر سب کو اس کی اصلیت بتائے گی کے کس طرح وہ انسان کے روپ میں بھیڑیا ہے۔ حیوان ہے وہ ۔ اس نے یہ بھی کہا کے وہ میڈیا تک جائے گی۔ یہ سن کر میر ہادی نے اپنے بندوں کو حکم دیا کے تیزاب لیا جائے۔ یہ سن کر السا کا ننھا دل کانپنے لگا۔ اس نے تیزاب منگوا کر السا کو رسی کے ذریعے کرسی پر باندھا اور اس کے پیروں پر سب سے پہلے ڈالا پھر ہاتھوں پر اور آخر کار اس کے چہرے پر۔ السا تکلیف کی تاب نہ لاتے ہوئے بیہوش ہو چکی تھی مگر پھر اس ظالم حیوان درندے نے السا کے پیٹ میں چاقو مارا اور یوں وہ معصو م پھول ہمیشہ کے لیے مرجھا گیا۔ ۔اس نے السا کی لاش اس کے گھر رات کے اندھیرے میں بھجوا دی۔ جس کو دیکھ کر ا س کے گھر والوں پر قیامت ٹوٹ پری۔ السا کے باپ کو دل کا دورہ پڑا جس کی وجہ سے وہ ہسپتال میں تھا۔ السا کی ماں چیخ چیخ کر سب کو کہ رہی تھی میری السا میرے اللہ کا تحفہ تھی۔ میرا تحفہ مجھ سے چھین لیا ظالم نے۔ اللہ میرا تحفہ میری السا ۔مجھے صبر نہیں آرہا۔ میری معصو م بچی پر اتنا ظلم کیا اس حیوان نے۔ اس کو آ ہ لگے گی میری۔ یا اللہ میں نے اپنا معاملہ تیرے سپرد کیا۔ یہی تھے الفاظ اس کے بعد السا کی ماں کچھ نہ بولی۔ادُھر السا کی موت کو ایک مہینے سے اوپر ہو چکا تھا۔ مگر میر ہادی کو اپنے کیے پر کوئی شرمندگی نہیں تھی۔ ایک دن میر ہادی اسی طرح شہر سےباہر گیا تھا کے اس کو فون آیا۔ سر آپ جلدی آ جائیں ۔شارٹ سرکٹ ہوا ہے بنگلہ میں ۔مد م اور چھوٹی مد م کی حالت ٹھیک نہیں ہے۔ یہ سننا تھا کے میر ہادی پہلی فلائٹ سے شہر واپس گیا۔ جب ہسپتال پہنچ تو خبر ملی کے بیٹی ا س جہاں سے جا چکی ہے۔ بیوی کی حالت خطرے میں ہے۔ تین دن تک ہادی کو کوئی ہوش نہ تھی۔ پانچ سالہ بیٹی کو کھو چکا تھا۔ بیوی کوما میں جا چکی تھی۔ وہ کہتے ہیں خدا کی لاٹھی بے آواز ہے۔ اس نے السا کے ساتھ جو کیا اس سے السا کے خاندان والوں کا گھر ہی اجُاڑ گیا۔ ایک ہنستا بنایا گھر اس نے برباد کر دیا۔بعد میں پتہ چلا کہ بیوی بھی مر گئی۔ اپنی جان سے عزیز بیوی اور بیٹی کی موت نے اسے نیم پاگل کر دیا ۔ جس کی وجہ سے اس کے دوستوں نے اس کا فائدہ اٹھایا اور اس کے تما م بزنس پر قابو پانے میں کامیاب رہے۔ اور اس کو پاگل خانے بھجوا دیا ۔ جہاں رہ کر وہ مزید پاگل ہو گیا۔ اس کا انجا م بھی اس کے کرموں کا نتیجہ تھا۔ اپنی ہوس اور اندھے انتقا م کی تقلید نے اس کی زندگی اور آخرت دونوں برباد کی۔ بعد میں اس نے اپنے چہرے پر تیزاب ڈالا تھا کیوں کے وہ پاگل تھا اور آخر کار اس نے پاگل خانے میں ہی خودکشی کر لی۔ اس کا انجا م اسی کے کاموں کا نتیجہ تھا۔ جو ہم کرتے ہیں وہ لوٹ کر ہم تک ضرور آتا ہے۔ خدا ظالم کی رسی ڈھیلی ضرور کرتا ہے مگر جب وہ کھینچتا ہے تو کوئی بھی اس کی پکڑ سے بچ نہیں سکتا ۔خدا سے اپنے گناہوں کی معافی مانگتے رہنا چاہیئے اور ظلم ہوتے دیکھ کر کبھی چپ نہ بیٹھو کیوں کے ظلم کو دیکھ کر بھی چپ رہنے والے ظالم کے ساتھ ہی شامل ہوتے ہیں۔۔۔۔۔۔ ۔ ختم شد
کمرہ نمبر 302 اور 500 سال پرانی قبر کا خوفناک راز – دو سچی ہارر کہانیاں" --- 2 خوفناک کہانیاں ☠️ "کمرہ نمبر 3…
byNest of Novels June 23, 2025
JSON Variables
Welcome to Nest of Novels! Here, you'll find a collection of captivating Urdu novels, stories, horror tales, and moral stories. Stay tuned for the latest updates and new releases!