![]() |
افطاری کے آنسو – بیٹیوں کی خاموش قربانی |
بیٹا! فون کردو داماد میاں کو کہ جب تمھیں وہ لینے آٸیں گے تو افطاری یہیں پہ کر لیں۔
جی امی! کہ دوں گی۔ بیٹی نے تابعداری سے جواب دیا۔
سنیے! وہ امی کہہ رہی ہیں کہ آپ کی ہمارے ہاں دعوت ہے افطاری یہیں پہ کیجیے گا۔
میرے پاس ان فضول کاموں کے لیے وقت نہیں ہے چھوٹے بھای کو بھیجوں گا تم آجانا کال کٹ گٸ۔
دیکھیں پلیز آپ آجاٸیں نا امی کا دل ٹوٹ جاے گا پلیز۔اس نے میسج کیا۔
میں نہیں آسکتا دماغ نہ کھاو۔جواب موصول ہوا۔ اس نے کرب سے آنکھیں موند لی۔
دوسرا دن:
وہ صبح سے کال کر رہی تھی۔ مگر آگے سے کال کاٹ دی۔ جاتی تھی۔ بالاخر کال اٹینڈ کر لی گٸ۔ بولو اکھڑ لہجے میں پوچھا گیا۔ وہ کیسے ہیں آپ؟ اس نے زبردستی لہجے کو ہشاش بنایا ۔میں ٹھیک ہوں۔ کام کی بات کرو۔ وہ مم میں کہہ رہی تھی کہ آج آپ آیٸں گے نا لینے کتنی بار کہا ہے کہ نہیں آوں گا ۔دیکھیں آپ زیادتی کر رہے ہیں۔ اچھا میں زیادتی کر رہا ہوں؟ بھاڑ میں جاو بیٹھی رہو باپ کے گھر۔ کوئی ضرورت نہیں آنے کی۔ کال کٹ گٸ۔ اندر آتی ماں نے یہ منظر دیکھا تو بے اختیار تڑپ اٹھی۔ کیا ہوا بیٹا اک نظر ماں کے جھریوں زدہ چہرے پہ ڈالی۔ اور کہا کچھ نہیں امی آنکھ میں کچھ چلا گیا ہے۔
داماد میاں کیا کہتے ہیں؟
امی انھیں ضروری کام سے دوسرے شہر جانا ہے ۔وہ نہیں آپاٸیں گے ۔کوئی بات نہیں میں انکی افطاری گھر لے جاٶں گی۔ یہ کہتے ہوے وہ آنسو چھپانے کی خاطر اٹھ کھڑی ہوئی
یہ نا جانے کتنے گھروں کی کہانی ہے۔ نہ جانے کتنی بیٹیاں ماں باپ کی خاطر کتنے آنسو چھپاتی ہیں۔ اور خود کو خوش ظاہر کرتی ہیں۔
اور نہ جانے کتنے مرد ماں باپ کی لاڈلیوں سے یوں ہی بے دردی سے پیش آتے ہیں۔
بیٹیوں کی قربانی, افطاری, رشتوں کی قدر, ماں باپ, ازدواجی زندگی, احساس, خاندانی روایات, بیٹی, شوہر, سسرال, اردو کہانی, افسانہ, حقیقی کہانی, جذبات, بیٹیوں کے آنسو, خاندانی مسائل, عورت کی عزت, زندگی کی حقیقت, قربانی, سماجی مسائل