 |
"رازِ دل" "قسط نمبر 09" از "کنزہ خان"
مناہل نے منت کا ہاتھ تھاما اور اسے لے کر ایک ٹیبل کی طرف چلی گئی پھر وہی سوال جواب کہاں تھی وغیرہ وغیر ہ ۔۔۔۔ منت نے جھنجھلا کر اسے دیکھا پھر ساری کہانی سنادی لیکن مست بار بار مناہل کا پیچھے کھڑے بالاج کو غصے سے دیکھنا نوٹ کر رہی تھی آخر پوچھ ہی لیا۔۔۔۔
" تم بالاج بھائی کو گھور کیوں رہی ہو ؟ ۔۔۔۔"
" تم جانتی ہو اسے ؟۔۔۔۔"
مناہل نے سوال پر سوال کیا
ہاں یہ مقدم اور یارم بھائی کے بھائی ہیں .... یارم بھائی جن کی آج لاریب سے شادی ہے یہ ان کے
چھوٹے بھائی ہیں .... اب تم بتاؤ کیوں گھور رہی ہو ؟ ۔۔۔۔"
" یار اندھا ہے یہ شخص .... اتنی بری طرح ٹکرایا ہے نہ مجھ سے کہ میر اباز و ہلا دیا ہے۔"
منت کے پوچھنے پہ مناہل نے بتایا تو اس نے ابھی نظروں سے اسے دیکھا پھر مڑ کے بالاج کو دیکھا لیکن اب وہ وہاں نہیں تھا تو واپس مناہل کی جانب متوجہ ہوئی۔۔۔۔ اس کی آنکھوں میں الجھن دیکھ منابل نے بتانا شروع کیا۔۔۔۔
" یار لاریب کی شادی کے لیے تیری پھپھونے ہمیں بھی سب کو ہی مدعو کیا تھا ہمارا آنے کا کوئی ارادہ نہیں تھا لیکن پھر اللہ کی کرنی کہ سب کا ہی کسی نہ کسی طرح آنے کا ارادہ بن گیا تو ہم سب یہاں آ گئے .... ابھی جب میں ہال میں داخل ہو رہی تھی تو مما میرے ساتھ تھیں ہم دونوں تیرے ہی بارے میں باتیں کر رہے تھے .... یہ کسی سے فون میں مصروف چلا آرہا تھا، آتا ہوا بہت برا ٹکرایا یہ بالاج ....
اتنی بری طرح ہماری ٹکر ہوئی۔۔۔۔"
" آپ دیکھ کر نہیں چل سکتے ؟"
مناہل نے غصے سے کہا۔۔۔۔ بالاج جو اپنے کسی دوست سے بات کرتا، باہر کی جانب بڑھ رہا تھا ٹکر ہونے پر اس کا موبائل ہاتھ سے نکل کر زمین پر جاگر اوہ موبائل اٹھانے جھکا جب کسی لڑکی کی غصے سے بھر پور آواز اس کی سماعت سے ٹکرائی اس نے چہرہ اٹھا کر دیکھا تو دیکھتا ہی رہ گیا وہ چپ چاپ اسے دیکھنے لگا۔
کیا اسے بھی کوئی اس طرح گھور سکتا تھا جیسے یہ لڑکی گھور رہی تھی ؟۔۔۔۔ سب لڑکیاں اس سے ڈرتی تھیں کیونکہ وہ بہت جلدی غصے میں آجاتا تھا لیکن اس کے سامنے کھڑی یہ لڑکی پورے حق سے اسے گھور رہی تھی۔
" مناہل بیٹا کوئی بات نہیں جانے دو۔ "
ماہین بیگم نے اسے پر سکون کرنا چاہا تو وہ جو اسے گھور رہی تھی ماہین بیگم کے ساتھ آگے بڑھ گئی۔
یہ ہو ا تھا مجھے یقین ہے کہ اندھا ہے یہ شخص۔"
مناہل نے کہا بالاج جو ان کے پیچھے ٹیبل پر بیٹھا ان کی ہی باتوں کی طرف متوجہ تھا اپنے بارے میں مناہل کے خیال جان کر بد مزہ ہو گیا۔
مئو تمہیں برائیڈل روم میں بلا رہے ہیں۔"
ضر غام فون سننے باہر جا رہا تھا منت کو دیکھ پیغام دیا۔۔۔۔ وہ سر اثبات میں ہلاتی، مناہل کے ساتھ برائیڈل روم کی جانب بڑھ گئی۔
اسٹیج پر نکاح شروع ہو چکا تھا تو بالاج بھی انھیں وہاں سے جاتا دیکھ کر اسٹیج کی طرف بڑھ گیا۔۔۔۔ سٹیج پر پہنچ کر کچھ لمحوں بعد ہی بالاج نے غیر ارادی طور پر متلاشی نگاہوں سے ادھر ادھر دیکھا۔۔۔۔ داجی جو لگا تار اس کی بے چینی نوٹ کر رہے تھے آخر بول پڑے
بج گئی ہے تمہاری گھنٹی بھی ؟۔۔۔۔"
داجی کے کہنے پہ بالاج نے ابھی نظروں سے داجی کو دیکھا پھر بات سمجھ آنے پر اس کا بے ساختہ قہقہہ گونجا هم .... کرتا ہوں اب تمہارا انتظام بھی۔"
یہ کہتے ہوئے داجی اٹھے اور سلطان صاحب منت کے نانا ابو کی طرف چلے گئے۔
منت جیسے ہی برائیڈل روم میں داخل ہوئی تو نکاح ہو چکا تھا اور لاریب نگین بیگم کے گلے لگی رور ہی تھی۔۔۔۔ سب اسے حوصلہ دے رہے تھے۔
منت کو اچانک دیکھ کر کوئی بھی حیران نہیں تھا کیونکہ نگین بیگم سب رشتہ دارو کو پہلے ہی منت کا بتا چکی تھیں بس نجمہ بیگم اور عثمان صاحب حیرت میں مبتلا تھے کیونکہ نگین بیگم نے انہیں کچھ نہیں بتایا تھا۔ منت لاریب کے پاس بیٹھ گئی اور اس کا موڈ فریش کرنے کی کوشش کرنے لگی جب باہر سے مبارک کا شور اٹھا۔۔۔۔ لاریب اب لاریب یارم خان بن چکی تھی۔
یارم کے چہرے سے ہی اس کی خوشی کا اندازہ لگایا جا سکتا تھا سب ہی بار بار ماشاء اللہ کہہ رہے تھے اس کی خوشیوں کو نظر بد سے بچانے کے لیے دعائیں دے رہے تھے۔۔۔۔ یارم نے آج اپنی پسندیدہ عورت کو پا لیا تھا وہ اس کے لیے ہی دنیا میں آئی تھی اور اب اس کے نام لکھ دی گئی تھی اس کے انگ انگ سے خوشی پھوٹ رہی تھی۔ مقدم اور بالاج نے اسے گلے لگا کے مبارکباد دی وہ بہت خوشی سے ان کی مبارکباد وصول کر رہا تھا۔
سب لوگ اب اسٹیج سے نیچے اتر چکے تھے کیونکہ دلہن آنے والی تھی پھر چند لمحے انتظار کے بعد جب یارم نے نظریں اٹھا کر سامنے دیکھا تو پھر دیکھتا ہی رہ گیا۔
وہ اس کی پسند کے سفید شرارے جس پہ گلابی نگینوں کا خوبصورت اور نفیس کام ہوا تھا پہنے زین صاحب اور نگین بیگم کے ہمراہ سچ سچ کے قدم اٹھارہی تھی۔
وہ لوگ سٹیج کے قریب پہنچے تو یارم اٹھ کھڑا ہوا اور لاریب کے پاس جا کر ہاتھ بڑھایا۔ لاریب نے نظریں اٹھا کر دیکھا وہ سفید شیروانی پہنے اپنی ہیزل گرین آنکھوں میں محبت کے دیپ جلائے لاریب کا دل بری طرح دھڑکا گیا تھا۔
زین صاحب نے لاریب کا ہاتھ یارم کے ہاتھ میں دیا جسے اس نے مضبوطی سے تھام لیا۔۔۔۔ وہ لاریب کے ہاتھوں میں واضح لرزش محسوس کر رہا تھا۔ یارم اسے کسی قیمتی گڑیا کی طرح اسٹیج پر لے آیا اسے صوفے پر بٹھا کر خود قریب ہی جگہ سنبھالی۔۔۔۔ ان کے بیٹھتے ہی منگنی کی رسم شروع ہوئی۔
منگنی کی رسم نکاح کے بعد اس لیے رکھی گئی تھی کیونکہ یارم کا کہنا تھا کہ لاریب اس کی نامحرم ہے۔۔۔۔ وہ جب تک اس کی نامحرم ہے تب تک یارم اس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں نہیں لینا چاہتا تھا اس لیے پہلے نکاح کیا گیا اور اب یارم پورے حق سے اپنی محرم کا ہاتھ تھامے انگوٹھی پہنا رہا تھا۔
یارم نے بہت خوشی سے جبکہ لاریب نے کانپتے ہاتھوں سے ایک دوسرے کو انگوٹھی پہنائی۔
منگنی کی رسم کے بعد سب کھانا کھانے میں مصروف ہو گئے۔۔۔۔ سب نے کھانا کھایا اور واپس جانے کی اجازت چاہی۔
منت کے اسٹیج پر جانے کے بعد سب نے اسے اتنا مصروف رکھا کہ نجمہ بیگم سے ملنے کی نوبت ہی نہیں آئی۔
اب سب واپس جانے کے لیے تیار تھے۔۔۔ لاریب بہت تھک گئی تھی تو منت اسے آرام کی غرض سے واپس برائیڈل روم لے گئی تھی۔ واپس جانے سے پہلے سب لاریب سے ملنے کے لیے برائیڈل روم کی طرف چل پڑے۔
سب روم میں داخل ہوئے تو لاریب، ایزل ، منت اور منابل خوش گپیوں میں مصروف تھیں۔ منت لگا تار کچھ کہتی اور چاروں کے قہقہے گونجتے۔۔۔۔ سب کو اندر داخل ہوتے دیکھ ، ان چاروں کی ہنسی کو بریک لگی۔
داجی نے آگے بڑھ کر لاریب اور مناہل کے سر پر شفقت سے بھر پور ہاتھ رکھا تو منت نے واجی کا ہاتھ تھام کے اپنے سر پر بھی رکھا
" یہ کیا بات ہوئی .... میں بھی تو یہیں بیٹھی ہوں نہ مجھے بھی پیار دیں۔ "
اس نے خفگی سے داجی سے کہا تو باقی سب اس کی حرکت پر مسکرائے۔۔۔۔ داجی نے جھک کر بہت نرمی اور محبت سے اس کی پیشانی چومی اور کہا
میرا بچہ تم تو جان ہو ہم سب کی .... ہمارا سارا پیار تمہارے ہی لئے ہے انھیں تو بس تھوڑا تھوڑا سا دے رہے ہیں۔
واجی نے محبت سے کہا تو وہ گہرا مسکرائی۔
مقدم اس کے چہرے کی چمک میں کھویا ہوا تھا آج وہ بہت خوش تھی مقدم کے دل نے اس وقت شدت سے دعا کی کہ یہ مسکراہٹ اس کی من کے چہرے سے کبھی بھی جدا نہ ہو۔
باقی سب لوگوں نے بھی لاریب کے سر پہ ہاتھ رکھا اور زین صاحب کی جانب متوجہ ہوئے
زین صاحب اب ہم چلتے ہیں .... کل آپ لوگ وقت سے پہنچ جائے گا۔"
داجی کے کہنے پر زین صاحب نے مسکراتے ہوئے اثبات میں سر ہلایا۔
مہندی کی تقریب خان مینشن میں دونوں کی ساتھ میں ہی تھی ۔۔۔۔ انہوں نے زین صاحب کو وقت کا کہتے ، منت کو دیکھا جو لاریب کے کانوں میں سر گوشیاں کر رہی تھی اور لاریب، ایزل اور مناہل مسلسل اپنی جنسی دبانے کی کوشش میں ناکام ہو رہیں تھیں۔
" مناہل بیٹا آجاؤ اب چلیں "
ماہین بیگم برائیڈل روم میں داخل ہوئیں اور مناہل سے کہا تو مناہل سر ہلا کر اٹھ کھڑی ہوئی۔۔۔۔
بالاج لگا تار اسے آنکھوں میں بسائے کھڑ اتھا لیکن اسے پر واہ ہی نہیں تھی۔
داجی نے ماہین بیگم کو دیکھا اور ان کے سر پہ ہاتھ رکھا وہ سلطان صاحب کے ساتھ ہی ان سے ملے تھے ساتھ ہی انہوں نے مناہل کے سر پہ بھی ہاتھ رکھا مناہل سب سے ملی اور ماہین بیگم کی ہمراہ برائیڈل روم سے باہر نکل گئی۔
" چلنا نہیں ہے منو ؟"
ضر غام نے منت کو کہا تو وہ اثبات میں سر ہلاتی اٹھ کھڑی ہوئی ایزل اور لاریب ساتھ میں کھڑی ہوئیں
تو رک جایار .... کل ہمارے ساتھ ہی چلی جاتی ۔ "
ایزل نے کہا تو لاریب نے بھی اس کی تائید میں سر ہلایا جبکہ وہاں کھڑے سب مکینوں کو ایک دم سے
سانپ سونگھ گیا تھا۔
" نہیں نہیں رکنا نہیں ہے اس نے۔"
اس سے پہلے کہ منت کچھ کہتی سب ایک ساتھ بولے۔
مقدم، یارم اور بالاج نے چونک کے داجی ارمغان ، ضر غام اور سکندر صاحب کو ایک ساتھ بولتے دیکھا
تو مسکرانے لگے منت بھی ان چاروں کو دیکھ کر ہننے لگی تھی۔
" نہیں رک رہی میں "
اس نے جیسے سب کو تسلی دینی چاہی تھی۔
" کل ملتے ہیں "
اس نے ایزل اور لاریب کو باری باری گلے لگایا اور نگین بیگم کی جانب بڑھ گئی۔۔۔۔
لاریب کب سے اپنے چہرے پر کسی کی نظریں محسوس کر رہی تھی سر اٹھا کر دیکھا تو یارم کو ایک تک خود کو دیکھتا پا کر سر جھکا گئی۔
ساری تقریب خیر سے ہو گئی تھی سب واپس آئے اور اس قدر تھک چکے تھے کہ چینج کر کے سو گئے کیونکہ صبح مہندی کی تقریب تھی اس کے لئے بھی جلدی اٹھنا تھا۔
منت کمرے میں آئی چینج کیا اور بیڈ پر لیٹ گئی وہ بہت تھک گئی تھی اور سونا چاہتی تھی لیکن لاریب کی کال آگئی منت مسکرائی اور کال اٹھالی۔
" یار آپ کے جانے کے بعد ممانی نے اتنا تماشا لگایا ہے۔"
لاریب کی جھنجھلائی سی آواز سنائی۔
" کیا ہوا ہے ؟۔۔۔۔"
منت نے سوال کیا
" جیسے ہی آپ لوگ نکلے ممانی بہت غصے سے برائیڈل روم میں داخل ہوئیں۔ "
تم لوگوں کو منت مل گئ تھی تو ہمیں کیوں نہیں بتایا ؟
نجمہ بیگم چینی
"ہم تمہیں کیوں بتاتے ؟.... جب تمہارے پاس تھی تب تمہیں اس کے مرنے جینے سے کوئی فرق نہیں پڑتا تھا اور اب جب وہ خوش ہے تو جہاں بھی ہو تمہیں کیا ؟"
نگین بیگم ان سے زیادہ اونچی آواز میں دھاڑیں۔۔۔۔۔ عثمان صاحب خاموش تماشائی بنے سب دیکھ رہے تھے جب سے منت گئی تھی دو بالکل ہی خاموش ہو گئے تھے انھیں منت کی حالت یاد آتی تو انھیں افسوس ہو تا کہ وہ سانس نہیں لے پارہی تھی۔
" دیکھو نجمہ ! منت اب بہت خوش ہے تو وہ ملے ، گئے ، جہاں بھی جس کے بھی ساتھ رہے تمہارا اب اس سے کوئی لینا دینا نہیں ہے تمہارا اس سے کوئی تعلق نہیں ہے .... وہ ایک سال پہلے ہی تمہیں چھوڑ کر جا چکی ہے تو اب تم بس بھول جاؤ اسے ۔ "
اب کی بار وہ کچھ نرمی سے بولیں ۔۔۔۔ نجمہ بیگم نے نفرت بھری نگاہ ان پہ ڈالی اور تن فن کرتی باہر نکل گئی۔۔۔۔ انہیں جاتا دیکھ نگین بیگم نے گہر اسانس خارج کیا۔
منت نے خاموشی سے ساری بات سنی اور کہا
چل چھوڑ یار اب زیادہ سے زیادہ میرا کیا ہی بگاڑ لیں گی۔"
منت نے بے فکر ہو کر کہا۔۔۔۔ لاریب ابھی کوئی جواب دیتی جب اسے کھڑ کی پہ ہلچل ہوتی محسوس ہوئی۔۔۔۔ اس نے ڈر کر جلدی سے پیچھے دیکھا تو اچانک سے یارم کو نمودار ہوتے دیکھ اس کی آنکھیں پھیل گئیں۔
یارم گھر پہنچ کے بہت بے چین تھا وہ ایک بار اپنی منکوحہ سے ملنا چاہتا تھا پہلے تو اپنی خواہش پہ بندھ باندھے لیتار ہا پھر تھک کر اٹھا اور دبے پاؤں اپنی منکوحہ کو دیکھنے چلا آیا۔
یارم کھڑ کی پر کھڑا پر شوق نگاہوں سے اس کا حیران ہو نا دیکھ رہا تھا۔۔۔۔ اندر کو داتو لاریب کے ہاتھ سے فون بے ساختہ گر گیا اس نے ایک نظر فون کو دیکھا جہاں منت کی کال کٹ چکی تھی اور دوسری نظر یارم پر ڈالی جو خمار آلود نظریں لیے، اسے ہی دیکھتا آہستہ آہستہ قدم بڑھاتا اس کے قریب آرہا تھا۔
وہ جیسے جیسے آگے بڑھ رہا تھا غیر ارادی طور پہ لاریب کے قدم ملنے سے انکاری تھے وہ دیوار کے ساتھ چپک کے کھڑی تھی اس کا دل پسلیاں توڑ کے باہر آنے کو بیتاب تھا اس قدر تیز رفتار سے دھڑک رہا تھا۔
یارم چلتا ہو الاریب کے بالکل قریب آگیا اتنا نزدیک کے اس کی سانسوں کی تپش سے لاریب کو اپنا چہرہ جھلتا محسوس ہوا۔۔۔۔ اس نے سہم کے زور سے آنکھیں مینچ لیں تو یارم کے چہرے کو خوبصورت مسکراہٹ نے چھوا
مائی بیوٹی فل پیجن "ڈر کے مارے آنکھیں بند کرنے سے مصیبت ٹل نہیں جاتی۔ "
یارم کی آواز اس کی سماعتوں سے ٹکرائی تو اس نے فوراً آنکھیں کھولیں۔۔۔۔ وہ اسے پر شوق نظروں سے تک رہا تھا ایک لمحے کے لیے دونوں کی نظریں ملی اس کی آنکھوں کے خمار کی تاب نہ لاتے ہوئے لاریب نے اپنی گھنی پلکیں اپنی غزالی آنکھوں پر سایہ فگن کر لیں۔
یارم اس کے مزید نزدیک ہوا اس کی کمر میں ہاتھ ڈال کر اسے تھاما اور پیشانی پہ محبت کی پہلی مہر ثبت کی۔۔۔۔ اگر یارم نے اسے پکڑا نہ ہوتا تو اس نے گر جانا تھا اس کا اس کی ٹانگوں پہ کھڑارہنا محال ہو گیا تھا۔
یارم جیسے آیا تھا ویسے ہی چپ چاپ چلا گیا۔
لاریب کتنی ہی دیر کھڑی کھڑ کی کو دیکھتی رہی جہاں سے وہ غائب ہوا تھا پھر چہرہ ہاتھوں میں چھپائے وہیں بٹھتی چلی گئی اس کا شرم کے مارے چہرہ اٹھانا محال ہو گیا تھا۔
یارم واپس آیا تو لاریب کے ساتھ گزرے اپنے خوبصورت لمحات یاد کرتے کرتے ہی نیند کی گہری وادیوں میں کھو گیا۔
صبح سب ہی فجر پڑھ کر مہندی کی تیاریوں میں لگ گئے تھے کیونکہ رات کو مہندی کی تقریب تھی اور بہت سارا کام تھا۔ خان مینشن کی ڈیکوریشن ہو رہی تھی۔ باقی سب لوگ اپنا اپنا تیار ہونے میں مصروف تھے ہر طرف شور مچا ہو اتھا۔
لاریب یارم کا دیا جانے والا شرارہ پہنے کھڑی خود کو دیکھ رہی تھی ۔۔۔۔ اس شخص کی پسند لا جواب تھی اس بات کا تو اندازہ لاریب کو کپڑوں سے ہی ہو گیا تھا۔ بیوٹیشن اسے تیار کر کے جاچکی تھی وہ بہت زیادہ خوبصورت لگ رہی تھی۔۔۔۔ پہلے رنگ کے شرارے اور کرتی میں جو پیلے رنگ کے شرارے اور کرتی میں جس کے گلے اور آستینوں پر خوبصورت سا کام ہو ا تھا پہنے بالکل تیار کھڑی تھی۔ سب تیار تھے تو لا ریب کو لے کر تقریب کے لئے نکلے۔
خان مینشن میں سب لڑکوں نے سیاہ رنگ کا کر تا شلوار اور اوپر سے سیاہ ہی شیروانی پہنی تھی اور سب ایک سے بڑھ کر ایک لگ رہے تھے۔
مقدم ہر طرف منت کی تلاش میں نظریں گھومار ہا تھا جبکہ بالاج کا دھیان دروازے پہ تھا کیونکہ مناہل نے مہمانوں کے ساتھ آنا تھا۔
منت اپنے دھیان سیڑھیوں سے اپنا شرارہ سنبھالتی اتر رہی تھی مقدم کو دیکھ کر بالکل ساکت ہو گئی ۔۔۔۔ وہ سیاہ کر تا شلوار میں اوپر سیاہ شیروانی، جسے شیشے اور ستاری کے کام سے سجایا گیا تھا اور اس پر کڑ ہائی ہوئی تھی جس وجہ سے اس کا رنگ سرمئی لگ رہا تھا پہنے ، بھورے بالوں کو جیل سے سیٹ کیے،
ہمیشہ کی طرح وجاہت کا شاہکار لگ رہا تھا اور اس کی وہ چمکتی آنکھیں، جو ہمیشہ ہی منت کو اپنی تلاش
میں بھٹکتی ملتی تھیں اسے اس کی وہ آنکھیں بہت پسند تھیں جن میں منت کو اپنے علاوہ کبھی کسی کا عکس
نہیں دکھتا تھا۔ وہ اس قدر حسین لگ رہا تھا کہ اگر کہا جائے کہ سیاہ رنگ اس کے لئے بنا ہے تو غلط نہیں
ہو گا۔ وہاں سب موجود تھے لیکن منت کی نظریں بس مقدم پہ جمی تھیں۔
اپنے چہرے پر نظریں محسوس کر مقدم جو کب سے منت کی تلاش میں تھا سیڑھیوں پر کھڑے اسے خود کو دیکھتے پایا تو بے ساختہ مسکرا دیا اور قدم قدم چلتا اس کے قریب چلا گیا۔۔۔۔ وہ بالکل اس کے سامنے کھڑا ہو گیا اور اس کی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے بولا
" اچھا لگ رہا ہوں ؟"
مقدم کے اچانک سوال پر وہ جو پلکیں جھپکے بغیر اسے دیکھ رہی تھی گڑ بڑا کے فور نظروں کا رُخ بدل گئی
" نہ .... نہیں تو"
منت نے کہا تو مقدم کا منہ کھل گیا
کیا .... مطلب نہیں اچھا لگ رہا ؟"
مقدم نے مصنوعی خفگی سے کہا تو منت گھبراگئی
نہیں .... ... میرا مطلب ہے اچھے لگ رہے ہیں۔۔۔۔"
اس نے جلدی سے بولا تو مقدم جو اپنی مسکراہٹ روکنے کی کوشش کر رہا تھا اس کی بات سن گہرا مسکرایا
اور گہری نظروں سے اس کا جائزہ لیا
" آپ بھی اچھی لگ رہی ہیں۔"
اتنا کہتے ہی وہ مسکراتا ہوا پلٹ گیا، جانتا تھا وہ ڈرپوک لڑ کی اس سے زیادہ اسے برداشت نہیں لڑکی کر سکے گی۔
" کیسی لگ رہی ہوں میں ؟"
انتشال نے جوش سے پوچھا تو ارمغان جو فون میں مصروف تھا چہرہ اٹھا کے دیکھا اور دیکھتا ہی رہ گیا
" مجھے اندازہ تھا کہ میری بیوی بہت خوبصورت ہے لیکن آج اس قدر غضب ڈھائے گی میں نے سوچا بھی نہیں تھا۔ "
ارمغان نے کھڑے ہوتے ہوئے محبت سے کہا اور اسے خود میں بھینچ گیا۔۔۔۔ انتقال نے نرمی سے اس کے گرد حصار باندھ لیا پھر الگ ہو کے وہ دونوں تقریب کے لئے کمرے سے باہر نکل آئے۔
کہاں تھی یار امتثال اتنی دیر کیوں ؟"
نور کب سے انتقال کے انتظار میں تھی اسے باہر آتا دیکھ ، فوراً سے بولی
" تیار ہونے میں ٹائم لگ گیا آپی "
انتقال نے اطمینان سے کہا
"نور بات سنو"
نگری
ضر غام کی آواز گونجی تو وہ پلٹی اور اسے دیکھا۔۔۔۔ وہ سنہری آنکھوں والا شہزادہ نظر لگ جانے کی حد تک حسین لگ رہا تھا نور کا دل زور سے دھڑکا۔
دوسری طرف ضرغام کا بھی یہی حال تھا وہ کچھ کہنے آیا تھا لیکن اس کی خوبصورتی دیکھ اپنی بات بھول گیا۔۔۔۔ وہ دونوں ایک دوسرے میں پوری طرح سے کھو گئے تھے۔
انھیں ایک ٹک ایک دوسرے کو دیکھتا پا کر انتقال کھانسی تو دونوں گڑ بڑا گئے اور پھر جلدی سے نور انتشال کا ہاتھ تھامے آگے بڑھ گئی ضرغام مسکرا کر رہ گیا۔
سب لوگ پہنچے تو مناہل کو اندر داخل ہو تا دیکھ ، بالاج کا دل تیزی سے دھڑ کا وہ اس قدر خوبصورت لگ رہی تھی کہ بالاج پلکیں نہیں جھپک رہا تھا۔
"تجھے خاموشی سے دیکھنا بھی عشق ہے
ضروری نہیں اظہار محبت صرف لفظوں سے کیا جائے "
مناہل نے اپنے چہرے پر نظریں محسوس کیں تو بالاج کو خود کو یک ٹک دیکھتے پایا، وہ کنفیوز ہو کے سر جھ کا گئی۔
داجی سلطان صاحب سے بہت خوش دلی سے ملے آج مناہل کی پوری فیملی ساتھ تھی۔
منت لاریب کو لینے آگے بڑھی لیکن سب کو دیکھ ان سے ملنے لگی پھر لاریب اور مناہل کو لیے کمرے کی جانب چل دی۔
بالاج ، یارم اور مقدم سیڑھیوں کے قریب ہی کھڑے باتوں میں مصروف تھے۔
منت جیسے ہی سیڑھیوں کے قریب پہنچی یارم نے فوراً اس کو پکارا۔
وہ تینوں یارم کے پکارنے پر وہیں رک گئیں اور منت نے یارم کو سوالیہ دیکھا۔۔۔۔ لاریب کا دل اپنی پوری رفتار سے دھڑکا۔۔۔۔ بالاج کی نظریں مناہل پر جم سی گئی تھی ۔۔۔۔ مقدم کبھی یارم کو دیکھتا تو کبھی منت کو۔
لاریب نے صرف ایک لمحے کے لیے نظریں اٹھا کر یارم کو دیکھا اور پھر نظریں جھکا گئی وہ ابھی اس کی رات والی جسارت سے نہیں سنبھلی تھی اس کی آواز سن کر لاریب کی آنکھوں میں رات والا منظر کسی فلم کی طرح چلا اور پھر وہ نظریں نہ اٹھا سکی۔
" ظالم لڑکی .... کہاں لے کر جارہی ہو میری معصوم بیوی کو ؟ ۔۔۔۔"
یارم نے منت کو دیکھتے ہوئے شرارت سے کہا تو وہ بے ساختہ مسکرائی۔۔۔۔ اس کے چہرے پر کھلتی مسکراہٹ کو دیکھ کر مقدم نے محبت سے اسے دیکھا۔۔۔۔ منت نے ایک نظر لاریب کو دیکھا جو چہرہ اٹھانے کے قابل بھی نہیں رہی تھی پھر منت نے نظروں کا رُخ یارم کی جانب کیا اور کہنے لگی۔
معصوم بیوی کے شوہر .... یہاں سب کے اندر تو نہیں بیٹھ سکتی نہ آپ کی معصوم بیوی اس لیے اوپر لے کر جارہی ہوں تا کہ پہلے ہی تھوڑا آرام کر لے باہر لان میں بیٹھ بیٹھ کر اس کی کمر درد ہو جاتی ہے تو ابھی تھوڑا آرام کرلے .... آپ کی اجازت ہو تو لے جاؤ آپ کی معصوم بیوی کو ؟ ۔۔۔۔"
منت نے کہا تو وہ تینوں ہننے لگے ۔۔۔۔ مناہل کے چہرے پر بھی خوبصورت مسکراہٹ تھی جسے بالاج نے بہت غور سے دیکھا تھا۔
منو.... ظالم لڑکی میں نے ابھی تک صحیح سے دیکھا بھی نہیں ہے اپنی معصوم بیوی کو اور تم اسے میری نظروں سے دور لے کر جارہی ہو۔"
یارم نے کہا تو منت کا منہ کھل گیا جبکہ لاریب جھکا ہوا اسر مزید جھکا گئی۔
کیا ہو گیا ہے یارم بھائی .... اب تو یہ آپ ہی کی ہے نہ اور باہر لان میں اسٹیج پر بھی آپ ہی کے پہلو میں بیٹھنا ہے آپ کی معصوم بیوی نے .... آپ کا جتنا دل کرے دیکھ لینا پر ، بارات کے بعد ۔ "
منت نے دانتوں کی نمائش کرتے ہوئے کہا تو یارم بدمزہ ہوا۔
کوئی بات نہیں ظالم لڑکی .... تمہارا وقت آنے دو .... دیکھنا تم ، ایک جھلک بھی نہیں دیکھنے دوں گا
"تمہارے شوہر کو تمہاری۔۔
یارم نے جل کر کہا تو مقدم نے یارم کو گھورا یارم نے دانتوں کی نمائش کی جبکہ منت نے مزے سے کندھے اچکائے اور لاریب کو لے کر سیڑھیاں چڑھنے لگی ۔۔۔۔ اس دوران لاریب نے صرف ایک بار نظریں اٹھا کر یارم کو دیکھا تھا پھر دوبارہ نظریں نہ اٹھا سکی تھی۔
بالاج کی نظروں نے کمرے میں غائب ہونے تک مناہل کا پیچھا کیا تھا۔
" ظالم کمینے .... تو نے یہ کیوں کہا کہ ان کے شوہر کو ان کی جھلک بھی نہیں دیکھنے دے گا؟.... من کا تو کچھ بھی نہیں جانا مسئلہ تو میرے لیے ہونا ہے۔ "
مقدم نے جل کر کہا تو یارم اور بالاج کے قہقہے گونجے البتہ مقدم غصے میں بول تو گیا تھا پر ان کے ہننے پر
جب اپنے الفاظوں پر غور کیا تو جھینپ گیا۔
" اوہو و .... میر ابھائی شر ماتا بھی ہے۔"
بالاج نے کہا تو مقدم کے گال سرخ ہوئے تھے اس نے ان دونوں کو گھورا اور آگے بڑھ گیا۔۔۔۔ اس کے جانے کے بعد یارم اور بالاج محبت سے مسکر ا دیئے۔
" منت تو یہاں رہ رہی ہے ؟"
لاریب نے حیرانگی سے سوال کیا تو منت نے مسکرا کر اثبات میں سر ہلا دیا۔۔۔۔ مناہل کی تجس سے
بھر پور آواز آئی
کیا رخصتی کے بعد لاریب بھی یہی رہے گی ؟"
نہیں لاریب خان ولا میں رہے گی یارم بھائی کے پاس۔"
منت نے اطمینان بھر اجواب دیا
" تو خان ولا کیسا ہے ؟"
مناہل نے پوچھا تو منت نے شانے اچکا دیئے اس نے خود ابھی تک خان ولا نہیں دیکھا تھا۔
رسم شروع کرنے کے لئے لاریب کو بلایا گیا پھر یارم اور لاریب کو ساتھ اسٹیج پہ بٹھایا گیا۔۔۔۔ یارم لاریب کے ہم رنگ کرتے میں موجود تھا لاریب اس کا دل دھڑک رہی تھی وہ بہت زیادہ خوبصورت لگ رہی تھی یارم کی نظریں نہیں ہٹ رہی تھیں اس پر سے۔۔۔۔ وہ رسم کے دوران گاہے بگاہے اسے دیکھ کر اپنی آنکھوں کو ٹھنڈک بخشا۔
رسم شروع ہوئی تو سب نے باری باری لاریب کو ہلدی لگائی جبکہ لڑکوں نے یارم کا حال ہی خراب کر دیا تھا اس کو ہلدی سے نہلا دیا گیا تھا اس کی حالت دیکھ ، سب کے قہقہے گونج رہے تھے۔۔۔۔۔ پھر فریش ہو کے لاریب اور یارم کی مہندی کی رسم شروع کی گئی اور اسے مہندی لگائی گئی۔
مناہل اس کے قریب ہی بیٹھی ہوئی تھی بالاج لگا تار اسے دیکھنے میں مصروف تھا مناہل اب اس کی نظروں سے کنفیوز ہونے لگی تھی۔۔۔۔ اچانک بیو ٹیشن کی آواز گونجی
"لڑکے کا نام ؟"
بیو ٹیشن نے پوچھا
"یارم"
یارم لاریب کے پیچھے ہی کھڑا تھا قدرے جھک کر اپنا نام لیا اور لاریب پر نظر ڈال کر آگے بڑھ گیا۔ لاریب یارم کی اچانک آواز پہ سٹپٹا گئی اور بیوٹیشن کو دیکھا جو مسکراتی نظروں سے اسے ہی دیکھ رہی تھی۔۔۔۔ وہ ایک دم سرخ ہو گئی۔
خیر خیریت سے یہ رسم ادا ہوئی اور تقریب اپنے اختتام کو پہنچی۔
سب گھر والے مہمانوں کے جانے کے بعد ساتھ میں بیٹھے آپس میں خوش گپیوں میں مصروف تھے۔۔۔۔ مقدم گاہے بگاہے منت پہ نظر ڈالتا تو وہ چہرہ جھکا جاتی اور وہ گہر ا مسکر ادیتا۔
" یار مجھ سے اب صبر نہیں ہو رہا۔ "
یارم اچانک بولا تو داجی نے ایک زور دار تھپڑ اس کے کندھے پر دے مارا یارم بلبلا کے رہ گیا
یار دا جی ایک تو مجھے کل تک اپنی بیوی کا انتظار کرنا ہے اوپر سے آپ میرا دکھ سمجھنے کی بجائے مجھے مار رہے ہیں۔"
یارم نے دہائی دیتے ہوئے کہا تو سب اس کی اس قدر بے صبری پر مسکر ا دیئے۔
ویسے بالاج نے بتایا ہے کیا تم لوگوں کو کہ وہ بھی کسی کی محبت میں گرفتار ہو گیا ہے۔"
داجی نے کہا تو سب کی نظریں بالاج پر انھیں وہ گڑ بڑا گیا
" یہ سچ ہے بالاج ؟ ۔۔۔۔"
ضرغام نے سوال پوچھا تو اس نے آہستہ سے سر اثبات میں ہلا دیا۔
"کون ہے وہ؟۔۔۔۔"
ارمغان بے صبری سے بولا۔ نور اور انتقال سب کے لئے چائے بنا کے لائی تھیں تو سب کو چائے دینے لگیں۔
"منابل"
منت چائے تھام رہی تھی اسے مناہل کا نام سن کر ایک دم جھٹکالگا جس وجہ سے اس کا ہاتھ لڑکھڑا گیا اس سے پہلے کہ چائے اس پر گرتی مقدم نے جلدی سے کپ کو ہاتھ مار دیا۔۔۔۔ جو چائے منت کے اوپر گرنی تھی اب زمین پر گر گئی تھی۔
" لگی تو نہیں ؟۔۔۔۔"
مقدم نے تڑپ کر پوچھا۔۔۔۔ چائے کافی زیادہ گرم تھی سب ہی پریشان ہو گئے تھے۔
" بتانا منو لگی تو نہیں ؟۔۔۔۔"
منت بالکل خاموش سی مقدم کی آنکھوں میں در آنے والی تڑپ دیکھ رہی تھی۔۔۔۔ اسے خاموش دیکھ ارمغان نے پوچھا
نہیں نہیں .... کچھ بھی نہیں ہوا۔ "
منت نے جواب دیا تو سب قدرے پر سکون ہوئے جبکہ مقدم ابھی بھی پریشانی سے اس کا ہاتھ دیکھ رہا تھا کہ کہیں لگی نا ہو لیکن وہ اسے چھو کر اس کا ہاتھ نہیں دیکھ سکتا تھا کیونکہ وہ اس کی محرم نہیں تھی تو خاموشی سے اس کا ہاتھ دیکھتا رہا اور منت لگا تار اس کے چہرے پر پریشانی دیکھ رہی تھی اور سمجھنے کی کوشش میں تھی کہ ایک چائے ہی تو ہے اور اوپر بھی نہیں گری۔۔۔۔ کیوں یہ شخص اس کے لئے اس قدر پریشان ہو جاتا ہے کہ اس کی چھوٹی سی تکلیف پہ بھی تڑپ اٹھتا ہے۔ پھر سر جھٹک گئی اور باقی سب کی جانب متوجہ ہو گئی کیونکہ اندر ہی اندر وہ جواب سے واقف تھی۔
آپ کو مناہل پسند ہے ؟ ۔۔۔۔"
منت نے بالاج سے پوچھا تو اس نے اثبات میں سر ہلا دیا۔
تو نانا ابو سے بات کر لیں .... آپ لاریب کی شادی کے بعد ان کی دیکھ لیں۔"
منت نے راجی کو دیکھتے کہا
تھینک یو منت ایک تم ہی اس گھر میں اچھی ہو میری پیاری بہن۔ |
بالاج نے کہا تو سب نے اسے گھور کر دیکھا ضر غام نے اس کے کندھے پہ چپت رسید کی پر وہ ڈھیٹائی سے دانت نکالتا رہا۔ منت ان کی حرکتوں پہ مسکرارہی تھی جب داجی بولے
میں نے پہچان بڑھائی ہے ان سے .... یارم کی شادی سے فارغ ہو جائیں پھر بالاج اور مقدم دونوں کا ایک ساتھ سوچنا ہے میں نے .... مقدم تمہاری بھی نظر میں کوئی ہے تو بتا دو ورنہ پھر میں تمہاری پھپھو
کی بیٹی تائشہ کو سوچ رہا ہوں تمہارے لئے۔"
انہو نے بظاہر سنجیدگی سے کہا لیکن آنکھیں میں شرارت تھی۔۔۔۔ وہ شروع سے ہی مقدم کامنت کی طرف جھکاؤ دیکھ چکے تھے لیکن اسے پریشان کرنے کا موقع ہاتھ سے نہیں جانے دینا چاہتے تھے۔
قسط نمبر 10 پڑھیں
راز دل, کنزا خان, اردو ناول, محبت کی کہانیاں, جذباتی ناول, اردو کہانیاں, اردو لٹریچر, سنسنی خیز کہانی, اردو فکشن, اردو ناولز, نئی قسط, اردو ادب, اردو کہانی, رومانوی کہانیاں, بہترین اردو ناول, اردو محبت ناول, دل کو چھو لینے والی کہانی, urdu novels, urdu stories, romantic urdu novels, emotional novels, urdu literature, latest urdu novels, best urdu novels