وہ صبح کی نرم دھوپ میں ایک نئی دنیا کے دروازے پر کھڑی تھی۔ ایمری کی آنکھوں میں برطانیہ کی بے چینی چھپائے ہوئے تھی، لیکن دل میں ایک عجیب سی تڑپ تھی جو اُسے لاہور کی گلیوں تک کھینچ لائی تھی۔ ایک چھوٹے سے اسکول کی کلاس روم میں کھڑی، اُس نے اپنی نئی ذمہ داریوں کو سمیٹنے کی کوشش کی۔ ہاتھ میں چاک تھامے، وہ اردو کے جملے بورڈ پر لکھ رہی تھی، لفظوں کی ادائیگی میں اُس کی انگلیاں کچھ کانپ رہی تھیں۔ پیچھے سے بچوں کے قہقہوں کی آوازیں آئیں تو اُس نے مُڑ کر دیکھا۔ ایک لڑکا، جس کی عمر شاید اٹھارہ سال ہو، کلاس کے آخری بینچ پر بیٹھا مسکراتا ہوا نظر آیا۔ اُس کی گہری بھوری آنکھوں میں چمک تھی، اور ہونٹوں پر ایک ایسی معصومیت کہ ایمری کو لگا جیسے وہ اُس شہر کی پہلی صبح کو سلام کر رہا ہو۔ اُس کا نام آریز تھا۔
دن گزرتے گئے۔ ایمری نے محسوس کیا کہ آریز ہر سبق میں سب سے پہلے سوال کرتا، ہر مشکل لفظ کو دہراتا، اور اُس کی انگلیاں کتابوں کے صفحات پر اُس طرح پھسلتیں جیسے وہ الفاظ کو چھو کر سیکھ رہا ہوں۔ ایک دن جب کلاس ختم ہوئی تو آریز نے ہمت کر کے پوچھا، "مِیڈم، آپ انگلینڈ سے یہاں کیوں آئیں؟" ایمری نے اُس کی آنکھوں میں اُتّرتی ہوئی تجسس کو دیکھا تو بتایا کہ وہ اپنی دادی کے قصّوں سے متاثر ہوئی تھی، جو لاہور کی گلیوں کو اپنی جوانی کی کہانیوں میں سجا کر سناتی تھیں۔ آریز نے سر ہلایا، "آپ کی دادی نے سچ کہا تھا۔ یہ شہر کسی محبت کی کہانی سے کم نہیں۔" اُس کی آواز میں ایک گہرائی تھی جو ایمری کے دل میں اُتر گئی۔
موسم بدلا تو رشتے بھی۔ ایمری کو آریز نے اردو سکھانی شروع کی۔ وہ اکثر اسکول کی لائبریری میں بیٹھ کر ہفتے کے دن گزارتے۔ آریز اُسے شاعری کے مصرعے سکھاتا، اور ایمری اُس کی انگریزی کو نکھارتی۔ ایک دن جب بارش ہونے لگی تو دونوں لائبریری کی کھڑکی سے باہر بھیگتے درختوں کو دیکھنے لگے۔ آریز نے غالب کا شعر پڑھا، **"ہوئی مدت کہ غالب مر گیا پر یاد آتا ہے۔ وہ ہر اک بات پر کہنا کہ یوں ہوتا تو کیا ہوتا۔"** ایمری نے پوچھا، "تمہیں کیوں لگتا ہے کہ محبت اکثر اداس ہوتی ہے؟" آریز نے اُس کی طرف دیکھا، "شاید اس لیے کہ محبت ہمیں وہ سکھاتی ہے جو ہم نے کبھی کھویا ہی نہیں ہوتا۔" اُس کی باتوں میں ایک کہانی چھپی تھی، اور ایمری اُس کہانی کا حصہ بنتی جا رہی تھی۔
ایک دن آریز اسکول نہ آیا۔ ایمری نے پوچھا تو پتا چلا کہ اُس کے والد بیمار ہیں، اور وہ گھر پر کام کر رہا ہے۔ ایمری نے اُس کے گھر کا پتا لیا اور ایک شام کو وہاں پہنچ گئی۔ گلی کے کونے پر ایک چھوٹا سا مکان تھا، جس کی دیواروں پر وقت کے داغ تھے۔ آریز دروازے پر کھڑا تھا، اُس کے ہاتھ میں کتاب تھی، اور آنکھوں میں تھکاوٹ۔ ایمری نے اُسے انگلینڈ کی ایک ناول دی، "یہ تمہارے لیے ہے۔ تمہیں پڑھنا چاہیے۔" آریز نے کتاب کو ہاتھ میں لیا، اور اُس کی انگلیاں ایمری کے ہاتھوں سے چھو گئیں۔ اُس لمحے دونوں نے محسوس کیا جیسے وقت رک گیا ہو۔
مہینے گزر گئے۔ آریز نے ایمری کو شہر کی سیر کرائی۔ بادشاہی مسجد کے سامنے کھڑے ہو کر اُس نے بتایا کہ یہاں ہر پتھر میں ایک دعا چھپی ہے۔ ایمری نے اُس کی باتوں کو سنتے ہوئے محسوس کیا کہ اُس کا دل کسی اور ہی دنیا میں اُڑ رہا ہے۔ ایک دن جب وہ لوہاری دروازے کی بازار میں گھوم رہے تھے، آریز نے ایک چاندی کی انگوٹھی اُٹھائی اور مسکراتے ہوئے کہا، "یہ آپ کو اچھی لگے گی۔" ایمری نے انگوٹھی کو دیکھا تو اُس پر ایک چھوٹا سا پھول بنا ہوا تھا۔ اُس نے کہا، "تمہیں کیسے پتا؟" آریز نے جواب دیا، "کیونکہ آپ کی ہر بات میرے دل پر لکھی ہوئی ہے۔"
لیکن محبت کے راستے ہمیشہ ہموار نہیں ہوتے۔ آریز کے گھر والوں کو پتا چلا تو اُن کے چہروں پر خاموشی چھا گئی۔ اُس کی ماں نے رو کر کہا، "وہ ہماری ثقافت سے بیگانہ ہے۔ تمہاری زندگی کا ساتھی کیسے بن سکتی ہے؟" آریز نے اپنے باپ کے سامنے گھٹنے ٹیک دیے، "ابا، میں نے اُسے دل سے چُنا ہے۔ وہ میری محبت ہے۔" اُس کے باپ نے آنکھیں بند کر لیں، "محبت صرف دل کی نہیں، عزت کی بھی ہوتی ہے بیٹا۔"
ایمری نے جب آریز کو اداس دیکھا تو اُس کے ہاتھ تھام لیے۔ "میں تمہارے بغیر نہیں رہ سکتی آریز۔" اُس کی آنکھوں میں آنسو تھے۔ آریز نے اُسے گلے لگاتے ہوئے کہا، "ہماری محبت کو وقت کی ضرورت ہے۔ میں وعدہ کرتا ہوں، ہم ساتھ رہیں گے۔"
ایمری نے فیصلہ کیا کہ وہ آریز کے گھر والوں کو منانے جائے گی۔ اُس نے شالوار قمیض پہنی، ہاتھ میں میٹھے کا ڈبہ لیا، اور آریز کے گھر پہنچ گئی۔ دروازہ کھولا تو اُس کی ماں سامنے کھڑی تھی۔ ایمری نے آداب سے سر جھکایا، "میں آپ کی عزت کرتی ہوں۔ آپ کے بیٹے نے مجھے زندگی کا مقصد دیا ہے۔" اُس کی آواز میں عاجزی تھی۔ آریز کی ماں نے اُسے دیکھا، پھر اُس کے ہاتھ میں رکھے میٹھے کو دیکھا۔ اُس نے مسکرا کر کہا، "بیٹا، تمہاری آنکھوں میں وہی چمک ہے جو میرے آریز کی ہے۔"
شادی کی تقریب سادہ تھی۔ بادشاہی مسجد کے قریب ایک چھوٹے سے باغ میں سفید پھولوں سے سجی ہوئی۔ ایمری نے سرخ لہنگا پہنا، اور آریز نے کریمی رنگ کا شیروانی۔ جب دونوں نے ایک دوسرے کے ہاتھ میں ہاتھ ڈالا تو آسمان پر ستارے چمک اٹھے۔ ایمری نے آریز کی آنکھوں میں جھانکا، "تم نے مجھے ایک نیا گھر دیا ہے۔" آریز نے اُس کی پیشانی کو چُھوا، "اور تم نے مجھے اپنا دل۔"
سالوں بعد، جب وہ دونوں اُس اسکول میں واپس گئے جہاں سب کچھ شروع ہوا تھا، تو کلاس روم کی کھڑکی سے دھوپ اُسی طرح چمک رہی تھی۔ آریز نے بورڈ پر اردو کا جملہ لکھا، **"محبت وہ راستہ ہے جو دو دلوں کو ایک کر دیتا ہے۔"** ایمری نے اُس کے کندھے پر ہاتھ رکھا، "اور ہم نے وہ راستہ چُن لیا۔"
اُن کی کہانی اُس شہر کی گلیوں میں ایک مثالی بن گئی۔ جہاں ایک برطانوی لڑکی نے نہ صرف اردو سیکھی، بلکہ ایک ایسا پیار پایا جو ثقافتوں، فاصلوں، اور خدشات کو مٹا کر دو دلوں کو یکجان کر گیا۔
کمرہ نمبر 302 اور 500 سال پرانی قبر کا خوفناک راز – دو سچی ہارر کہانیاں" --- 2 خوفناک کہانیاں ☠️ "کمرہ نمبر 3…
byNest of Novels June 23, 2025
JSON Variables
Welcome to Nest of Novels! Here, you'll find a collection of captivating Urdu novels, stories, horror tales, and moral stories. Stay tuned for the latest updates and new releases!