ایک چھوٹے سے گاؤں میں جہاں ہر کوئی ایک دوسرے کے راز تک جانتا تھا، وہاں ایک دن ایک اجنبی شخص کی آمد نے سب کے دلوں میں ایک عجیب سی کھلبلی مچا دی۔ وہ صبح کے دھندلکے میں گاؤں کے کھوکھلے دروازے سے اندر داخل ہوا تو کتوں کے بھونکنے کی آوازیں گلی کوچوں میں گونجنے لگیں۔ اس کے کندھے پر ایک پرانا تھیلا تھا اور چہرے پر ایسی تھکاوٹ جیسے وہ برسوں کی مسافت طے کر کے آیا ہو۔ گاؤں والوں نے اسے دور سے دیکھا تو ایک دوسرے سے پوچھنے لگے، "یہ کون ہے؟ کہاں سے آیا ہے؟" مگر جب وہ گاؤں کے وسط میں واقع چوپال کے سامنے رکا اور اس نے اپنی آواز بلند کی، تو سب کے ہوش اڑ گئے۔ "میں اپنی بیوی کو ڈھونڈنے آیا ہوں!" اس کے ہونٹوں پر یہ الفاظ گونجے تو ہوا بھی ساکت ہو گئی۔
چوپال کے سائے میں بیٹھے بزرگوں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا۔ کسی کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ یہ شخص کس کی بیوی کی بات کر رہا ہے۔ گاؤں کے مکینوں میں سے ایک نوجوان، جس کا نام رحمن تھا، آگے بڑھا۔ وہ گاؤں کا واحد شخص تھا جو کچھ تعلیم یافتہ سمجھا جاتا تھا۔ اس نے اجنبی سے پوچھا، "بھائی، تمہاری بیوی کا نام کیا ہے؟ تمہیں کیسے پتہ کہ وہ یہیں ہے؟" اجنبی نے اپنے تھیلے سے ایک پرانی تصویر نکالی جو کسی عورت کی تھی۔ تصویر پر دھول جمی ہوئی تھی، مگر واضح تھا کہ وہ خاتون انتہائی خوبصورت تھی۔ اس کی آنکھوں میں ایک عجیب سی اداسی تھی، جیسے وہ کسی گہرے راز کو چھپائے ہوئے ہو۔ "اس کا نام زینب ہے،" اجنبی نے کہا، "اور میں جانتا ہوں کہ وہ یہیں کہیں ہے۔"
یہ نام سنتے ہی گاؤں والوں کے چہرے فق ہو گئے۔ زینب نام کی تو صرف ایک ہی عورت تھی گاؤں میں، اور وہ تھی رحمن کی بیوی۔ رحمن کا چہرہ سفید پڑ گیا۔ اس نے تصویر کو غور سے دیکھا۔ ہاں، یہ زینب ہی تھی، مگر اس کی آنکھیں، جو ہمیشہ خوشی سے چمکتی تھیں، اس تصویر میں کیوں اتنے اداس تھیں؟ رحمن نے اجنبی کو گھور کر دیکھا، "تم جھوٹ بول رہے ہو۔ میری بیوی تمہاری نہیں ہو سکتی۔" مگر اجنبی نے اپنی بات پر اصرار کیا۔ "وہ میری بیوی ہے۔ ہم پچھلے جنم میں ایک دوسرے کے تھے۔ ہماری محبت کو موت نے بھی جدا نہیں کیا۔"
گاؤں میں ایک ہلچل مچ گئی۔ کچھ لوگ کہنے لگے کہ یہ کوئی جنونی ہے، تو کچھ کا خیال تھا کہ شاید زینب کا ماضی کوئی ایسا راز چھپائے ہوئے ہے جو سب سے چھپا تھا۔ رحمن نے فیصلہ کیا کہ وہ براہ راست زینب سے پوچھے گا۔ وہ گھر کی طرف دوڑا۔ زینب چرخہ کات رہی تھی، اس کے ہاتھوں کی حرکت میں ایک معمولی سی لرزش تھی۔ جب رحمن نے دروازہ کھولا تو اس کی آنکھوں میں سوالات کے بادل چھا گئے۔ "زینب... یہ تصویر... یہ شخص..." رحمن نے ہکلاتے ہوئے کہا۔ زینب نے تصویر کو دیکھا اور اس کا چہرہ فوراً خون سے محروم ہو گیا۔ اس کے ہونٹ کانپنے لگے، "یہ... یہ تمہیں کہاں سے ملی؟" رحمن نے اجنبی کی بات دہرائی۔ زینب نے آنکھیں بند کر لیں۔ اس کے چہرے پر آنسوؤں کی لکیریں بن گئیں۔ "ہاں،" اس نے کہا، "میں اسے جانتی ہوں۔"
رحمن کو لگا جیسے زمین اس کے پیروں تلے سے کھسک گئی ہو۔ زینب نے بتایا کہ وہ اجنبی دراصل اس کا پہلا شوہر تھا، جسے وہ مرا ہوا سمجھتی تھی۔ سالوں پہلے، جب زینب ایک دور دراز گاؤں میں رہتی تھی، اس کی شادی اس شخص سے ہوئی تھی۔ مگر ایک جنگ کے دوران اسے خبر ملی کہ اس کا شوہر مارا گیا ہے۔ تنہائی اور مصائب کے بعد وہ اس گاؤں میں آ بسی جہاں رحمن نے اسے پناہ دی۔ "مگر تم نے مجھے کیوں نہیں بتایا؟" رحمن نے درد بھرے لہجے میں پوچھا۔ زینب نے جواب دیا، "میں ڈرتی تھی کہ تم مجھے چھوڑ دو گے... یا پھر تمہیں لگے گا کہ میں جھوٹی ہوں۔"
ادھر، اجنبی شخص، جس کا نام عمر بتایا گیا تھا، گاؤں والوں کے سوالات کا جواب دے رہا تھا۔ اس نے بتایا کہ وہ جنگ میں زخمی ہو گیا تھا اور کئی سال تک ایک دوسرے ملک میں قیدی رہا۔ جب وہ واپس آیا تو اسے پتہ چلا کہ زینب کو مرا ہوا سمجھ کر گاؤں والوں نے اسے دوبارہ بیاہ دیا۔ عمر کا دعویٰ تھا کہ زینب اب بھی قانونی طور پر اس کی بیوی ہے۔ گاؤں کے بزرگوں نے فیصلہ کیا کہ اس معاملے کا حل شرعی عدالت میں کیا جائے۔
عدالت کے دن، گاؤں کی پوری آبادی اکٹھی ہو گئی۔ زینب، رحمن اور عمر تینوں حاضر تھے۔ قاضی نے عمر سے پوچھا، "تم ثابت کرو کہ یہ عورت تمہاری بیوی ہے۔" عمر نے اپنی جیب سے ایک پرانا نکاح نامہ نکالا جس پر زینب کے والد کے دستخط تھے۔ قاضی نے زینب سے پوچھا، "کیا یہ نکاح نامہ تمہارا ہے؟" زینب نے سر ہلایا، "جی... مگر میں سمجھتی تھی کہ عمر مر چکا ہے۔" قاضی نے کتابوں کی طرف رخ کیا۔ اسلامی قانون کے مطابق، اگر کسی عورت کا شوہر لاپتہ ہو جائے اور اس کی موت کی تصدیق نہ ہو سکے، تو عورت کو چار سال انتظار کرنا ہوتا ہے۔ اس کے بعد وہ دوبارہ شادی کر سکتی ہے۔ زینب نے عمر کے لاپتہ ہونے کے بعد پانچ سال انتظار کیا تھا۔ قاضی نے فیصلہ سنایا کہ زینب کی دوسری شادی درست ہے۔
مگر عمر نے یہ فیصلہ ماننے سے انکار کر دیا۔ اس کا اصرار تھا کہ زینب اس کی ہے۔ اس نے گاؤں میں رہنے کا فیصلہ کیا اور ایک خالی کوٹھڑی میں رہنے لگا۔ رحمن اور زینب کی زندگی اجیرن ہو گئی۔ ہر روز عمر کا سایہ ان کے دروازے پر منڈلاتا۔ کبھی وہ زینب کو نظروں سے گھورتا، تو کبھی رحمن کو دھمکیاں دیتا۔ گاؤں والے بھی دو حصوں میں بٹ گئے۔ کچھ کا خیال تھا کہ زینب کو عمر کے ساتھ چلے جانا چاہیے، تو کچھ رحمن کے حق میں تھے۔
ایک رات جب گاؤں میں چاندنی چٹکیلا رہی تھی، عمر نے زینب کو اکیلے میں پکڑ لیا۔ اس کی آنکھوں میں دیوانگی تھی۔ "تم میری ہو،" وہ بڑبڑایا، "تمہیں چھوڑ کر میں کہیں نہیں جاؤں گا۔" زینب نے اپنے آپ کو چھڑانے کی کوشش کی، مگر عمر کا گرفت مضبوط تھا۔ اچانک رحمن وہاں پہنچ گیا۔ دونوں مردوں میں ہاتھا پائی ہونے لگی۔ تلواروں کی جگہ گھونسوں کی آوازیں گونجنے لگیں۔ زینب چلائی، "بس کرو! تم دونوں کوئی فائدہ نہیں اٹھا رہے ہو!" مگر دونوں سننے کو تیار نہ تھے۔
ایک گھونسے کی آواز آئی، اور عمر زمین پر گر پڑا۔ رحمن نے اسے مارا نہیں تھا—عمر خود ہی گر گیا تھا۔ اس کے سینے سے خون رس رہا تھا۔ پتہ چلا کہ جنگ میں لگا زخم دوبارہ پھٹ گیا تھا۔ گاؤں کا طبیب بلا لیا گیا، مگر وہ کچھ نہ کر سکا۔ عمر نے آخری سانسوں میں زینب کی طرف دیکھا، "تمہیں پا کر میں مطمئن ہوں... معاف کر دینا۔" اس کی آنکھیں بند ہو گئیں۔
عمر کی موت کے بعد گاؤں میں ایک عجیب سکون چھا گیا۔ رحمن اور زینب کے درمیان خاموشی نے ڈیرے ڈال دیے۔ ایک دن زینب نے رحمن سے کہا، "تم مجھے چھوڑ سکتے ہو۔ میں تمہاری زندگی کو اور مشکل نہیں بنانا چاہتی۔" رحمن نے اس کے ہاتھ پکڑ لیے، "تم میری بیوی ہو، اور میں تمہیں کبھی نہیں چھوڑوں گا۔ ہم نے اکٹھے مشکل وقت گزارے ہیں، اب ہم اکٹھے ہی خوشی کے لمحے تلاش کریں گے۔"
وقت گزرتا گیا۔ زینب نے اپنے ماضی کے سائے کو پیچھے چھوڑنے کی کوشش کی۔ اس نے گاؤں کی خواتین کو سلائی کڑھائی سکھانی شروع کی۔ رحمن نے ایک چھوٹی سی دکان کھول لی جہاں وہ گاؤں والوں کو روزمرہ کی ضروریات کی چیزیں فروخت کرتا۔ دونوں کی محبت وقت کے ساتھ اور گہری ہوتی گئی۔ مگر کبھی کبھار، جب چاندنی رات ہوتی، زینب عمر کی قبر پر پھول رکھ آتی۔ وہ جانتی تھی کہ عمر کا سایہ ہمیشہ اس کے دل میں رہے گا، مگر اب اس نے اپنی زندگی کو آگے بڑھانے کا فیصلہ کر لیا تھا۔**
وقت کے ساتھ، زینب اور رحمن کے رشتے میں ایک نئی مضبوطی آئی۔ گاؤں والے بھی آہستہ آہستہ اس واقعے کو بھولنے لگے۔ رحمن کی دکان چھوٹی سی تجارت سے بڑھ کر ایک مسافر خانے میں بدل گئی، جہاں دور دراز سے آنے والے مسافر ٹھہرتے۔ زینب نے خواتین کو نہ صرف سلائی سکھائی، بلکہ انہیں قرآن پڑھانا بھی شروع کیا۔ اس کے چہرے پر آنے والی مسکان نے اس کی آنکھوں کی اداسی کو کچھ دھندلا دیا تھا۔
ایک چاندنی رات، جب زینب نے عمر کی قبر پر پھول رکھے، تو رحمن بھی ساتھ آ کھڑا ہوا۔ اس نے زینب کا ہاتھ تھام لیا۔ "تمہیں اکیلے آنے کی ضرورت نہیں،" اس نے نرمی سے کہا۔ زینب نے آنسوؤں کو روکتے ہوئے جواب دیا، "تم سمجھتے ہو؟ میں نے کبھی نہیں چاہا تھا کہ تمہاری زندگی میں اتنی الجھنیں آئیں۔" رحمن نے مسکراتے ہوئے کہا، "زندگی الجھنوں کو سلجھانے کا ہی تو نام ہے۔ اور تم... تم میری زندگی کی سب سے خوبصورت سلجھاؤ ہو۔"
گاؤں کی چوپال میں اب بھی کبھی کبھار اس واقعے کا ذکر ہوتا، مگر اب یہ ایک داستان بن چکا تھا جسے سن کر نئی نسل سبق لیتی۔ بزرگ کہتے، "محبت صرف اپنے لیے نہیں ہوتی، دوسروں کے دل کی گہرائیوں تک جانا ہوتا ہے۔"
سالوں بعد، جب زینب اور رحمن کے گھر ایک چھوٹی سی بچی نے جنم لیا، تو گاؤں نے پہلی بار زینب کو بالکل بے خوف اور کھل کر ہنستے دیکھا۔ بچی کا نام انہوں نے "اماں" رکھا، جو زینب کی ماں کے نام پر تھا۔ رحمن کہتا، "یہ نام ہمیں یاد دلاتا رہے گا کہ زندگی میں معافی اور نیک نیتی کی گنجائش ہمیشہ ہونی چاہیے۔"
اور پھر ایک دن، جب سورج ڈھل رہا تھا، زینب نے چرخہ کاتتے ہوئے اپنی بچی کو گود میں لے لیا۔ اس کے ہونٹوں پر وہی پرانی مسکان تھی، مگر اب آنکھوں میں اداسی کی بجائے ایک چمک تھی۔ رحمن دروازے پر کھڑا یہ منظر دیکھتا رہا۔ اسے لگا جیسے زندگی نے آخرکار انہیں وہ سکون دے دیا ہے جس کے وہ مستحق تھے۔
کہانی کا اختتام اس بات پر ہوتا ہے کہ محبت، اگر سچی ہو، تو وہ وقت کے ساتھ گہری ہوتی جاتی ہے... بالکل اُس درخت کی طرح جو طوفانوں کے بعد بھی اپنی جڑیں مضبوط کرلیتا ہے۔
یہ بیوی کس کی ہے, اردو کہانیاں, محبت کی کہانی, حقیقت پر مبنی کہانی, اردو ناول, جذباتی کہانیاں, اردو افسانے, ماضی کی کہانی, گاؤں کی کہانیاں, سچی کہانیاں, اردو ادب, Urdu stories, Urdu novels, love stories, mystery stories, Urdu suspense, emotional stories, Urdu fiction, village life stories, love and betrayal, best Urdu kahani, Urdu kahaniyan, urdu kahani, romantic stories in Urdu, historical fiction, drama stories, Urdu literature, داستانیں, Urdu blog, blog stories in Urdu