"ذوالقرنین بادشاہ کا مکمل واقعہ – قرآن کی روشنی میں حیرت انگیز سفر"ذوالقرنین کا ذکر قرآنِ کریم کی سورۃ الکہف (آیات 83 تا 98) میں آیا ہے، جہاں انہیں ایک نیک اور عادل حکمران کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں زمین میں اقتدار اور وسائل عطا فرمائے تھے، جس کی بدولت انہوں نے مشرق و مغرب کے سفر کیے اور مختلف قوموں پر حکمرانی کی۔
ذوالقرنین کے سفر اور کارنامے
1. مغرب کی جانب سفر: ذوالقرنین نے مغرب کی سمت سفر کیا اور ایک ایسی قوم سے ملاقات کی جو سورج کو ایک سیاہ پانی میں ڈوبتا ہوا دیکھتی تھی۔ یہاں انہیں اختیار دیا گیا کہ چاہیں تو ان لوگوں کو سزا دیں یا ان کے ساتھ اچھا سلوک کریں۔ انہوں نے ظالموں کو سزا دی اور نیک لوگوں کے ساتھ نرمی کا برتاؤ کیا۔
2. مشرق کی جانب سفر: اس کے بعد، وہ مشرق کی طرف گئے اور ایک ایسی قوم سے ملے جن کے پاس سورج کی تپش سے بچنے کے لیے کوئی اوٹ نہیں تھی۔ انہوں نے ان لوگوں کی رہنمائی کی اور ان کی فلاح و بہبود کے لیے کام کیا۔
3. یاجوج و ماجوج کے علاقے میں سفر: ذوالقرنین کا تیسرا سفر دو پہاڑوں کے درمیان واقع ایک علاقے کی طرف تھا، جہاں کے لوگ یاجوج و ماجوج کے حملوں سے پریشان تھے۔ ان لوگوں نے ذوالقرنین سے درخواست کی کہ وہ ان کے اور یاجوج و ماجوج کے درمیان ایک دیوار تعمیر کریں۔
دیوارِ یاجوج و ماجوج کی تعمیر
ذوالقرنین نے لوگوں کی مدد سے لوہے کی چادریں اور پگھلا ہوا تانبا استعمال کرکے ایک مضبوط دیوار تعمیر کی، تاکہ یاجوج و ماجوج اس کے پار نہ جا سکیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ میرے رب کی رحمت ہے، اور جب اللہ کا وعدہ پورا ہوگا تو یہ دیوار زمین کے برابر کردی جائے گی۔
ذوالقرنین کی شناخت کے بارے میں آراء
تاریخی روایات میں ذوالقرنین کی شناخت کے بارے میں مختلف آراء پائی جاتی ہیں:
سکندرِ اعظم: بعض مورخین انہیں سکندرِ اعظم (Alexander the Great) سمجھتے ہیں، لیکن یہ رائے مستند نہیں کیونکہ سکندر مقدونی مشرک اور جابر بادشاہ تھا، جبکہ قرآن کی تصریحات کے مطابق ذوالقرنین صاحب ایمان اور مرد صالح بادشاہ تھے۔
سائرس اعظم: کچھ محققین کے مطابق ذوالقرنین قدیم ایران کے بادشاہ خورس یا سائرس اعظم تھے، جنہیں دو سینگوں والا تاج پہنایا گیا تھا اور ان کی فتوحات مشرق و مغرب تک پھیلی ہوئی تھیں۔
حضرت سلیمان علیہ السلام: بعض مفسرین کے نزدیک ذوالقرنین حضرت سلیمان علیہ السلام تھے، کیونکہ ان کے پاس ہوا پر تسلط تھا اور وہ مشرق و مغرب کا سفر کرسکتے تھے۔
ذوالقرنین کا عدل و انصاف
ذوالقرنین ایک نیک، عادل اور انصاف پسند حکمران تھے، جو اپنی طاقت اور حکومت کو ظلم کے لیے نہیں بلکہ لوگوں کی بھلائی کے لیے استعمال کرتے تھے۔ ان کی حکمرانی کی مثال قیامت تک کے لیے ایک سبق ہے کہ دنیا میں نیکی اور انصاف کے ساتھ حکومت کرنے والے ہی حقیقی کامیاب حکمران ہوتے ہیں۔
نتیجہ
ذوالقرنین کی کہانی ہمیں سکھاتی ہے کہ طاقت اور حکمرانی اللہ کی نعمت ہیں، جنہیں انصاف اور نیکی کے لیے استعمال کرنا چاہیے۔ ان کی حکمرانی کی مثال قیامت تک کے لیے ایک سبق ہے کہ دنیا میں نیکی اور انصاف کے ساتھ حکومت کرنے والے ہی حقیقی کامیاب حکمران ہوتے ہیں۔
|