![]() |
راز دل ناول قسط نمبر 11 |
"رازِ دل"
"قسط نمبر 11"
از۔"کنزہ خان"
"میرے خیال سے یہ منت کی ماں ہے .... مقدم نے بتایا تھا لیکن میں نے دیکھا نہیں ہوا تو کنفرم نہیں ہوں۔"
تائشہ نے نازیہ بیگم سے کہا اور انھیں منت کے بارے میں سب بتادیا نازیہ بیگم کی آنکھیں چمکی اور وہ جو کچھ دیر پہلے پریشان تھیں اب مسکرانے لگیں۔
منت علیانہ کے پاس چلی گئی اور اسے پکڑا وہ روئے جا رہی تھی۔ ایزل کو نگین بیگم بلا رہیں تھیں تو وہ علیانہ کو منت کو پکڑا گئی۔
منت اسے چپ کرواتی ہال سے باہر لے آئی جہاں دبیر اور مقدم کھڑے گفتگو میں مصروف تھے دبیر دانت نکال رہا تھا اور مقدم اسے ڈانٹ رہا تھا۔۔۔۔ جب مقدم کی نظر منت پر پڑی تو خاموش ہو گیا دبیر نے مقدم کا خاموش ہونا محسوس کیا تو چہرہ اٹھا کر اسے دیکھا پھر اس کی نظروں کا تعاقب کیا اور گردن موڑ کر پیچھے دیکھا تو منت کو دیکھ اس کی شرارت سے آنکھیں چمک اٹھیں۔
منت علیانہ کو چپ کرواتی خود رونے والی ہو گئی تھی وہ چپ ہی نہیں ہو رہی تھی۔ منت کی نظر ابھی مقدم اور دبیر پر نہیں پڑی تھی وہ بس علیانہ کی جانب متوجہ تھی۔
بھا بھی یہ ٹھیک ہے ؟ .... کیا ہوا ہے .... کیوں رورہی ہے یہ ؟۔۔۔۔"
دبیر نے پھر سے اسے بھا بھی پکارا تو مقدم نے اسے گھور کر دیکھا۔۔۔۔ ابھی تو وہ اسے ڈانٹ رہا تھا کہ منت کو ابھی بھا بھی نہ بولے کیونکہ اسے ڈر تھا کہ کہیں وہ اس سے بھی خوفزدہ نہ رہنے لگے ۔۔۔۔ بس ایک اس کے ساتھ تو وہ محفوظ محسوس کرتی تھی تو وہ اس کی حفاظتی جگہ تباہ نہیں کرنا چاہتا تھا۔۔۔۔ ضر غام اور ارمغان کے ساتھ وہ محفوظ محسوس کرتی تھی لیکن مصیبت یا خوف کے وقت اسے بس مقدم چاہیے ہوتا تھا تا کہ وہ اس کے قریب رہ کر اس کی اجرک تھام کر محفوظ محسوس کر سکے۔۔۔۔ مقدم کے جزبات سے وہ واقف تھی لیکن پھر بھی مقدم چاہتا تھا کہ دبیر ابھی احتیاط کرے اور جب تک مقدم داجی سے رشتے کی بات نہ کر لے تب تک دبیر اسے بھا بھی کہہ کر نہ پکارے۔
منت نے دبیر کے الفاظوں پر غور نہیں کیا تھا۔۔۔۔ اس نے اس کی آواز پر چہرہ اٹھایا تو آنکھوں میں نمی تھی مقدم فوراً آگے بڑھا
" کیا ہو گیا ہے یار ؟ ۔۔۔۔"
مقدم نے پوچھا لیکن منت نے جواب نہ دیا۔۔۔۔ مقدم کو محسوس ہوا اس نے سٹیج پر بھی کہا تھا کہ اس
کی ٹانگوں میں درد ہے شاید ہیلز کی وجہ سے ؟ ۔۔۔۔۔ اب علیانہ کو سنبھالنا پھر بار بار اس کا ساڑھی کی وجہ سے جھنجھلانا، ضرور وہ تھک گئی تھی۔
مقدم نے آگے بڑھ کر علیانہ کو پکڑ لیا۔۔۔۔ دبیر ششدر رہ گیا کیونکہ مقدم کو بچے اٹھانا پسند نہیں تھا۔
منت نے حیرت سے ایک نظر اسے دیکھا اور ایک نظر علیانہ کو جو ابھی رو رو کر پاگل ہو رہی تھی اور اب مقدم کے پاس جاتے ہی رونا بند کر چکی تھی۔
مقدم کو بھی حیرت ہوئی لیکن خاموش رہا۔
منت نے اسے دیکھا جو قریب سے مقدم کے چہرے کو دیکھتی ، اب اس کی بیر ڈ پر اپنے چھوٹے چھوٹے ہاتھ لگانے لگی تھی۔
"ٹھر کی۔۔۔۔"
منت ایک دم بولی تو مقدم جو علیانہ کو دیکھ ، مسکرارہا تھا منت کی آواز پر اسے دیکھا جو تاسف سے علیانہ کو گھور رہی تھی ۔۔۔۔ مقدم اور دبیر کا زور دار قہقہہ گونجا جبکہ منت نے ناراضگی سے علیانہ کو دیکھا جو مقدم کو قہقہہ لگاتے دیکھ خود بھی کھکھلائی تھی۔
" ہو گئی چپ یہ ؟ ۔۔۔۔"
ایزل نے قریب آکر پوچھا اور علیانہ کے آگے ہاتھ پھیلائے تاکہ وہ اس کے پاس آ سکے لیکن وہ مقدم کی گردن میں منہ چھپا گئی۔ منت اور ایزل کو حیرت کا شدید جھٹکا لگا کیونکہ وہ کسی کے پاس بھی نہیں جاتی تھی۔
ایزل آپی .... آپ کی بیٹی ٹھر کی ہے۔"
منت نے کہا تو دبیر اور مقدم نے پھر سے قہقہہ لگایا جبکہ ایزل بھی مسکرادی اور علیانہ کو مقدم کے ہاتھ سے لے لیا علیانہ نے ماں کے پاس جاتے ہی پھر سے اپنا بھو نیو بجانا شروع کر دیا تھا کیونکہ شاید وہ ابھی مقدم کو چھوڑنے کا ارادہ نہیں رکھتی تھی۔
ایزل اسے لے کر بال کے اندر چلی گئی۔ منت نے اسے روتے دیکھا پھر واپس مقدم کو دیکھا اور مسکرائی
تھینک یو ! اس آفت کو چپ کروانے کے لئے۔"
منت نے کہا تو مقدم مسکرایا ابھی اس نے کچھ کہنے کے لئے لب کھولے ہی تھے جب دبیر بولا۔۔۔۔ ارے کوئی بات نہیں بھا بھی یہ تو اپ کے لئے کچھ بھی کر گزرے بچہ سنبھالنا کو نسی بڑی بات ہے ....
میں آپ کو ایک بات بتاؤں ؟"
دبیر نے سوالیہ پوچھا پھر جواب کا انتظار کیے بغیر پھر سے شروع ہو گیا۔
اسے بچوں سے چڑ ہے لیکن دیکھیں، آپ کے لئے بچہ بھی چپ کروا دیا .... کتنا پیار کرتا ہے نہ بھا بھی "یہ آپ۔۔۔۔۔
ابھی دبیر مزید بولتا جب مقدم نے اس کی کمر میں گھونسا مارا وہ بلبلا اٹھا جبکہ منت کا چہرہ بالکل سرخ ہو گیا تھا مقدم نے دبیر کو ہال سے باہر کی جانب دھکا دیا۔
منت میں تو ہلنے کی طاقت ہی نہیں بچی تھی۔۔۔۔ ایک تو پہلے ہی آج ساری تقریب میں مقدم کی نظروں نے، قہقہوں نے دل کی حالت خراب کر رکھی تھی لیکن اب اس انجان شخص کا اسے بار بار بھا بھی کہنا منت کی جان نکال گیا تھا۔
ویسے دبیر نے غلط کچھ بھی نہیں کہا۔"
مقدم نے اس کا سرخ چہرہ دیکھ ، شرارت سے کہا تو منت واپس ہال کے اندر بھاگی۔ مقدم نے لب دانتوں تلے دبائے پھر گہرا مسکرایا اور خود بھی بال کے اندر کی جانب بڑھ گیا۔ دبیر کی خبر وہ بعد میں لینے کا سوچ چکا تھا حالانکہ وہ بھی جانتا تھا کہ دبیر کو کوئی اثر تو ہونا نہیں ہے۔
بارات کی تقریب اپنے اختتام کو پہنچی تو رخصتی شروع ہو گئی
لاریب، ایزل عنایہ سب رونے لگے لاریب روتے ہوئے سب سے ملی اور پھر یارم کے سنگ اپنی نئی زندگی کے سفر پر روانہ ہو گئی باقی سب بھی چلے گئے۔
زین صاحب اور نگین بیگم مطمئن ہو گئے وہ عزت کے ساتھ اپنی دوسری بیٹی کے فرض سے بھی سبکدوش ہو گئے تھے۔
تائشہ سب کے جانے کے بعد نجمہ بیگم کی طرف بڑھی اور پوچھا " منت کیا لگتی ہے آپ کی ؟۔۔۔"
نجمہ بیگم نے اسے دیکھا اور کہا
گستاخ .... بیٹی ہے میری پالا ہے میں نے اسے ۔ "
اور پھر نجمہ بیگم نے اسے سب بتا دیا ۔۔۔۔ تائشہ نے سب سن کر اثبات میں سر ہلایا اور نازیہ بیگم کی جانب بڑھ گئی اور انہیں سب بتا دیا وہ دونوں سب جان کر وہاں سے نکلیں انہوں نے گھر پہنچ کر سب کو بتانے کا سوچا لیکن پھر صحیح وقت آنے پر بتائیں گے سوچ کر ارادہ ترک کر دیا۔
بارات خان ولا پہنچی۔۔۔۔ سب کی گاڑیاں خان ولا کے پورچ میں رکیں اور یارم نے ہاتھ بڑھا کر لاریب کو باہر نکالا ایک لمحے کے لئے لاریب وہ محل دیکھ کر مبہوت ہو گئی۔۔۔۔ جیسے جیسے وہ اندر داخل ہو رہی تھی اس کی آنکھیں اس قدر خوبصورت محل کو دیکھ پھیلتی جارہی تھیں۔
یہ تین منزلہ گھر تھا فرسٹ فلور یارم کی ملکیت تھا سیکنڈ فلور بالاج کی اور تھرڈ فلور مقدم کی۔
لاریب کو لاونج میں بٹھایا گیا اور رسمیں کی گئیں بالاج اور مقدم لاریب کے گھٹنے پر ہاتھ رکھ کر بیٹھ گئے چلیں لاریب گڑیا .... اب ہماری باری .... جلدی سے اپنے چھوٹے چھوٹے معصوم دیوروں کو دولاکھ دے دیں۔ "
لاریب جو منت کی بات سن رہی تھی اپنے گھٹنے پر ہاتھ محسوس کر کے ان کی جانب متوجہ ہوئی۔۔۔۔ منت نے ایک نظر ان دونوں کو دیکھا اور ایک نظر لاریب کو ۔۔۔۔ وہاں موجود سب ہی مسکرا دیئے جبکہ دولاکھ سن کر منت کی آنکھیں پھیل گئیں۔
"دو.... لا .... کھ؟"
منت نے کھینچا
" جی دولاکھ "
بالاج نے اثبات میں سر ہلایا۔
" دولاکھ میں تو لاریب کو نیا گھٹناڈل جائے اور آپ لوگ ہاتھ رکھنے کا دولاکھ مانگ رہے ہو ؟ .... لوٹ مچا
رکھی ہے بھئی اتنی مہنگائی ۔ "
منت نے دہائی دی تو سب کے قہقہے گونج اُٹھے ۔۔۔۔ بالاج نے منہ بنا کے اور مقدم نے مسکراتے ہوئے اسے دیکھا
متو! یہ ظلم نہ کرو .... تم لوگوں نے دس لاکھ لوٹا ہے آج .... اب ہمارا اتنا تو حق بنتا ہے نہ "
بالاج نے کہا تو منت خاموش ہو گئی لاریب نے مسکراتے ہوئے پیسے انھیں تھما دیئے پھر کچھ دیر وہاں سب ہنستے مسکراتے باتیں کرتے رہے جب شازیہ بیگم کی آواز گونجی۔
" منو لاریب کو کمرے میں لے جاؤ بیٹا بچی تھک گئی ہو گی کب سے ایک ہی پوزیشن میں بیٹھی ہوئی ہے۔"
لاریب کی تھکاوٹ کا خیال کرتے شازیہ بیگم نے اسے کمرے میں لے جانے کا کہا۔۔۔۔ منت خود خان ولا پہلی بار آئی تھی تو انجان نگاہوں سے شازیہ بیگم کو دیکھا
آئیں میں آپ کو یارم کا روم دکھا دیتا ہوں۔"
مقدم نے کہا تو منت نے اثبات میں سر ہلا کر لاریب کو صوفے سے اٹھنے میں مدد دی کیونکہ لہنگا بہت بھاری تھا اور پھر لاریب کو لے کر مقدم کے ہمراہ یارم کے کمرے کی جانب بڑھ گئی۔
ان کو کمرے میں چھوڑ کر مقدم باہر سے ہی واپس چلا گیا۔۔۔۔ منت نے لاریب کو بیڈ پر بیٹھا یا وہ بہت زیادہ ڈری ہوئی تھی۔
ریلیکس ہو جا یار ۔ "
منت نے کہا تو اس نے منت کا ہاتھ تھام لیا ایک لمحے کے لئے تو منت بھی پریشان ہو گئی وہ بہت زیادہ ٹھنڈی پڑ رہی تھی۔
یارم بھائی آدم خور نہیں ہیں انہوں نے کبھی کوئی انسان نہیں کھایا تجھے بھی نہیں کھائیں گے۔"
منت نے کہا تو لاریب نے خفگی سے اسے دیکھا
" اب میں باہر جارہی ہوں تو اپنے مجازی خدا کا انتظار کر ۔
منت نے کہا تو لا ریب نے اس کا ہاتھ مضبوطی سے تھام لیا " مجھے ڈر لگ رہا ہے یار ، رک جا بھی ۔ "
لاریب نے کہا تو منت اس کے پاس بیٹھ گئی ابھی ان دونوں کو ساتھ میں پانچ منٹ بھی نہیں گزرے ہونے جب دروازے پر دستک ہوئی منت بات سنیں۔"
مقدم نے اندر جھانک کر کہا تو منت اٹھ کر اس کے ساتھ باہر چلی گئی لاریب کمرے میں اکیلی بیٹھی یارم کا انتظار کرنے لگی
"جی؟۔۔۔۔"
منت نے کمرے سے باہر آکر کہا تو مقدم نے اسے اپنے ساتھ چلنے کا اشارہ کیا وہ خاموشی سے اس کے ساتھ قدم اٹھانے لگی مقدم اسے لے کر نازیہ بیگم کے قریب آگیا اور انہیں پکارا۔۔۔۔
" پھپھو۔۔۔۔"
مقدم کے پکارنے پر وہ جو تائشہ سے کوئی بات کر رہی تھیں پلیٹیں اور مقدم کو دیکھا اور سوالیہ بھنویں اچکائی پھر ایک نظر پاس کھڑی منت پر ڈالی
" یہ منت ہے۔"
اس نے نازیہ بیگم سے کہا تو منت نے انھیں سلام کیا
" منو"
سلام کے جواب کے بعد ابھی مقدم کچھ کہتا کہ راجی نے منت کو پکارا ان کے پکارنے پر منت ان کی جانب بڑھ گئی۔۔۔۔ مقدم نے اسے جاتے دیکھا تو بغیر کچھ کہے خود بھی اس کے پیچھے داجی کے قریب چلا گیا۔
نازیہ بیگم نے بغور یہ سب دیکھا اور پھر تائشہ کو دیکھا جو آنکھوں میں آنسو لیے ، ان دونوں کو دیکھ رہی تھی۔۔۔۔ وہ کچھ نہیں بولیں کیونکہ ان کے پاس تسلی دینے کے لیے کچھ بھی نہیں تھا۔
"چلو منو گھر چلیں۔ "
داجی نے کہا تو مقدم کا دل ڈوبا
داجی آپ لوگ کچھ دیر رک جائیں۔ "
مقدم آج منت کو جانے نہیں دینا چاہتا تھا مگر مجبور تھا کس حق سے روکتا اس لئے تھوڑی مہلت مانگی۔
نہیں مقدم اب کافی دیر ہو گئی ہے .... کل اب ولیمہ پر ملاقات ہو گی ۔ "
واجی نے کہا تو مقدم کے چہرے سے رونق اور آنکھوں سے چمک ایک دم غائب ہو گئی اور تاثرات
سپاٹ ہو گئے۔
داجی نے بغور اس کا اثر تا چہرہ دیکھا پھر سر جھٹک گئے۔
" ولیمہ پر ملتے ہیں کا کیا مطلب ہے ؟ .... منت نے صبح اپنی بہن کے پہلے ناشتے پر نہیں آنا کیا ؟۔۔۔۔"
یارم نے منت کو مخاطب کیا تو وہ خاموش ہی رہی سب نے اسے دیکھا
ہاں یہ تو میں بھول ہی گیا تھا، صبح ملتے ہیں پھر ۔ "
داجی نے کہا اور منت کو لے کر گاڑی کی جانب بڑھ گئے۔۔۔۔ منت نے پلٹ کر دیکھا تو وہ اسے ہی دیکھ رہا تھا اس کے پلٹ کر دیکھنے پر گہرا مسکرایا۔۔۔۔ پھر اس کے جاتے ہی مقدم نازیہ بیگم کی جانب متوجہ ہو گیا۔
یارم جیسے ہی سب دوستوں سے جان چھڑا کر کمرے میں داخل ہوا تو اپنی زندگی کو اپنی سیج سجائے پایا۔۔۔ وہ آہستہ آہستہ قدم اٹھاتا اس تک آیا اور بستر پر اس کے قریب ہی جگہ سنبھالی۔۔۔۔ وہ جو سمٹی ہوئی بیٹھی تھی مزید سمٹ گئی۔
" مجھے اندازہ بھی نہیں تھا کہ میں اتنا خوش قسمت ہوں .... میں نے اپنی زندگی میں پہلی لڑکی کو چاہا اور وہ مجھے عطا کر دی گئی۔"
یارم نے محبت سے چور لہجے میں کہا اور لاریب کا ہاتھ تھام لیا جو بہت ٹھنڈا پڑا ہوا تھا۔
ریلیکس جان یارم .... اپنے محرم کے پاس ہو گھبراؤ نہیں۔"
یارم کے کہنے پہ وہ قدرے پر سکون ہوئی تو یارم نے دراز سے ایک ڈبیہ نکالی۔ یہ تمہارے محرم کی طرف سے تمہارا پہلا تحفہ ۔ "
یارم نے مسکراتے ہوئے ڈبیہ کھولی تو اس میں ایک گھڑی تھی جس پر ارد گرد چھوٹے چھوٹے ہیرے جگمگار ہے تھے وہ بہت زیادہ خوبصورت گھڑی تھی۔
یارم نے لاریب کو گھڑی پہنائی اور اس کا ہاتھ چوما پھر نزدیک ہو کر اس کی پیشانی پر لمس چھوڑا۔
کتا بیں کیسی لگی تھیں میری پری کو ؟۔۔۔۔"
یارم نے اسے محبت سے دیکھتے ہوئے سوال پوچھا تو وہ جو سر جھکائے شرمائی سی بیٹھی تھی چہرہ اٹھا کر حیرت سے اسے دیکھنے لگی
کونسی کتابیں ؟۔۔۔۔"
لاریب نے سوال کیا پھر ایک دم اسے ماضی یاد آیا اس کی سالگرہ پر ایک کتابوں کا تحفہ ملا تھا
اسے۔۔۔۔ اس نے حیرت سے یارم کو دیکھا جو مسکرارہا تھا۔
" وہ کتا بیں آپ نے ؟۔۔۔۔"
وہ حیرت سے جملہ بھی مکمل نہیں کر سکی۔ اس نے سوال کیا تو یارم نے مسکراتے ہوئے اثبات میں سر ہلا یا لا ریب کی آنکھوں میں نمی تیر گئی۔
" پسند آیا تھا تحفہ ؟۔۔۔۔"
یارم نے محبت سے پوچھا۔
" بہت .... زیادہ .... پر مجھے لگا تھا کہ منت نے بھیجا ہے کیونکہ صرف وہ ہی جانتی ہے کہ مجھے کتابیں
پڑھنا پسند ہے پر آپ کو کیسے پتہ چلا .... منت نے بتایا آپ کو ؟۔۔۔۔"
لاریب نے سوال کیا تو یارم نے نفی میں سر ہلایا
" میں نے خود سب پتا کر وایا تھا اپنی جان کے بارے میں .... تمہیں فون بھی کیسے تھے لیکن میں کچھ بولتا نہیں تھا تو تم نے نمبر ہی بلاک کر دیئے پھر جب آخری فون کیا نکاح سے پہلے ، تب تم سے بات ہوئی تھی اگر میں اس کال کے دوران بھی نا بولتا تو مجھے پورا یقین تھا کہ باقی نمبروں کی طرح وہ نمبر بھی کب کا
بلاک ہو چکا ہوتا۔ "
یارم نے مصنوعی خفگی سے کہا تو لاریب کو حیرت ہوئی مطلب وہ سارے فون نمبرز آپ کے تھے۔"
وہ کہنے کے بعد بے ساختہ مسکرائی تو یارم دیوانوں کی طرح اس کے چہرے کے ہر نقش کو دیکھنے لگا پتہ ہے ؟... میں خود گیا تھا تمہاری پسندیدہ کتابیں خریدنے میں نے انھیں خود پیک کیا اور تمہارے دروازے پر رکھا .... تم نے دروازہ کھولا، تحفہ دیکھا پھر دائیں بائیں نظریں گھمائیں لیکن اس وقت وہاں کوئی موجود نہیں تھا تو تم اندر چلی گئی لیکن کاش تم نے سامنے موجود گھر کی دیوار پر بھی نظر ڈالی ہوتی میں اس کے پیچھے کھڑا تمہیں تحفہ اُٹھاتے دیکھ رہا تھا۔"
لاریب نے محبت سے یارم کو دیکھا وہ کتنی محبت کرتا تھا اس سے لاریب کے آنسو بہنے لگے ۔۔۔۔ یارم نے اس کے آنسو صاف کیے اور نرمی سے اس کے ہونٹ چھوٹے پھر اس کی پیشانی سے پیشانی لگا کے آنکھیں موند گیا۔
لاریب اس کو خود کے اس قدر قریب محسوس کر سرخ ہو گئی تھی پھر مسکرائی اور خود بھی اس کی قربت میں آنکھیں موند گئی۔۔۔۔ کچھ لمحے یوں ہی دونوں ایک دوسرے میں کھوئے رہے پھر یارم بستر سے آٹھ کھڑا ہو الاریب قدرے حیران ہوئی اور پوچھا
کیا ہوا؟ .... کہاں جارہے ہیں ؟۔۔۔۔"
لاریب نے پوچھا تو یارم مسکرایا اور بولا
" شکرانے کے نوافل ادا کرنے۔"
یارم نے کہا لاریب کل ابھی میں بھی آپ کے ساتھ ادا کروں گی۔
لاریب نے کہا تو یارم شمار جانے والی نظروں سے اپنی متاعِ جاں کو دیکھنے لگا۔۔۔ لاریب بستر سے اٹھ کھڑی ہوئی اور یارم کی امامت میں جائے نماز بچھا یا وہ دونوں پہلے سے وضو میں تھے اور پھر لاریب نے اپنے محرم کی سنگت میں نماز ادا کی۔
یہ رات یارم اور لاریب کی زندگی کی سب سے خوبصورت رات تھی۔
واپس آنے کے بعد منت چینج کر کے سونے لیٹ گئی لیکن نجمہ بیگم کا چہرہ بار بار آنکھوں کے سامنے آ رہا تھا جو اس کے غصے کا باعث بن رہا تھا پھر اس نے سر جھٹکا تو اسے مقدم کی سر گوشی یاد آئی پھر بھا بھی لفظ سوچتے ہی منت کے چہرے پر گلال بکھرا اس نے دونوں ہاتھوں سے اپنا چہرہ چھپالیا۔۔۔۔ اسے بار بار مقدم کا نثار جانے والی نگاہوں سے دیکھنا یاد آرہا تھا ان ہی سوچوں کے دوران کب اس کی آنکھ لگی اسے پتا بھی نہیں چلا۔
مقدم بستر پر لیٹا چھت پر نظریں جمائے ہوئے تھا اسے منت کا شرمانا، اسے دیکھ کر نظریں جھکانا یاد آرہا تھا آج اس کے چہرے سے مسکراہٹ جانے سے انکاری تھی ۔۔۔۔ انہی سوچوں میں اس کو ناز یہ بیگم کا منت کو تنفر بھری نگاہوں سے دیکھنا یاد آیا تو وہ قدرے پریشان ہوا۔۔۔ جب اس نے منت کو ملوایا تھا ان سے تو راجی کے پکارنے پر منت ان کے پاس چلی گئی لیکن نازیہ بیگم نے نفرت سے منت کی پشت کو دیکھا تھا۔۔۔۔ مقدم نے اپنا و ہم سمجھ کر سر جھٹکا اور منت کا چہرہ آنکھوں میں بسائے نیند کی وادیوں میں گم ہو گیا۔
اگلے دن سب ناشتے کے لیے پہنچ گئے تھے مقدم جب سیڑھیاں اتر کر نیچے آیا تو منت کو دیکھ کھل اٹھا وہ سب سے ملا اور منت کے سامنے والے صوفے پر بیٹھ گیا۔ وہ ہرے رنگ کے نفیس سے سوٹ میں ملبوس تھی اور اتفاق سے مقدم نے بھی ہرے رنگ کی شلوار قمیض پہنی ہوئی تھی۔ مقدم بہت محبت سے اسے دیکھ رہا تھا۔ ہمیشہ ایسا ہی ہوتا تھا جب بھی منت سامنے ہوتی مقدم کی نظریں بس اسی پہ ٹکی ہوتیں تھیں وہ دنیا جہان کا ہوش بھلائے بس اس کے چہرے میں مگن ہوتا تھا منت کا دھیان چاہے جہاں بھی ہو ، اس کی نظریں چاہے جہاں بھی ہوں لیکن مقدم کی نظریں بس اسی پہ ہوتی تھیں۔
منت سب کی جانب متوجہ ہونے کے باوجود بھی مقدم کی نظریں لگا تار خود پر محسوس کرتی تھی وہ اس کی گہری نظروں سے ہمیشہ کنفیوز ہو جاتی تھی آج بھی وہ ہمیشہ کی طرح اس کی نظروں سے کنفیوز ہو رہی تھی تو چہرہ جھکائے ہوئے تھی۔
لاریب کی فیملی بھی پہنچ چکی تھی اور سب ہلکی پھلکی باتوں میں مصروف تھے جب یارم اور لاریب کمرے سے نکلے ۔۔۔۔ لاریب بہت پر سکون تھی جبکہ یارم کے چہرے سے خوشی چھلک رہی تھی۔ سب سے ملنے کے بعد خوش گوار ماحول میں ناشتہ کیا گیا اور سب آپس میں مصروف ہو گئے۔
مقدم نے منت کو باہر لان میں جاتے دیکھا تو پیچھے چلا آیا وہ گھاس پر چلتی مناہل سے فون پر محو گفتگو تھی جب اس نے اپنے پیچھے آہٹ محسوس کی تو پلٹ کر دیکھا۔۔۔۔ مقدم آنکھوں میں چمک لیے ، اس تک آرہا تھا وہ مسکراتے ہوئے اس کے پاس پہنچا
" میں بعد میں کرتی بات۔"
منت نے کہتے فون کاٹ دیا اور مقدم کی جانب متوجہ ہوئی
آئیں آپ کو ایک جگہ دکھاؤں۔"
مقدم نے کہا تو اس نے سوالیہ بھنویں اچکائیں
" ارے آپ چلیں تو میرے ساتھ .... پھر دکھاتا ہوں۔"
مقدم نے کہہ کر اپنا ہاتھ آگے کیا تو اس نے اپنے انگوٹھے اور شہادت کی انگلی سے اس کی آستین تھام لی مقدم مسکراتے ہوئے اسے اندر لاونج کے آگے موجود لفٹ تک لے گیا اور تھر ڈفلور کا بٹن پریس کیا
"ویسے ہم سیڑھیوں سے بھی جاسکتے تھے۔"
وہ بٹن پریس کر کے مڑا تو منت نے کہا لیکن مقدم جواب دیئے بغیر بس اسے محبت سے دیکھے گیا۔۔۔۔ وہ ہمیشہ اس کی ان نظروں سے کنفیوز ہو جاتی تھی آج بھی خاموش ہو کر رُخ موڑ گئی تو مقدم کی مسکراہٹ گہری ہوئی۔
لفٹ کھلی اور وہ دونوں باہر نکلے ۔۔۔ لفٹ لاونج سے قدرے پیچھے تھی۔ باہر نکل کر وہ لاونج میں آئے تو نیچے سے اوپر آتی سیڑھیاں اور آگے بڑا کھلا لاونج ، پھر اس سے آگے موجود کمرے اور سائے سائیڈ پر کچن،
بلا شبہ یہ بہت خوبصورت حصہ تھا اس محل کا۔
" کیسا لگا؟۔۔۔۔"
مقدم کے سوال پر اس نے مسکراتے ہوئے اسے دیکھا
" یہ آپ کا فلور ہے نہ؟۔۔۔۔"
منت نے کہا تو وہ نرمی سے مسکرایا
" ہمارا، یہ ہمارا فلور ہے جسے آپ گھر بنائیں گی میری زندگی میں آنے کے بعد .... تو یہ ہمارا گھر ہے۔"
پہلے تو منت کو سمجھ نہیں آئی تھی لیکن جب غور کیا تو چونکی ۔۔۔۔ وہ اپنی ان گہری سیاہ " آنکھوں میں دنیا جہان کی محبت سموئے ، اسے دیکھ رہا تھا وہ سرخ ہو گئی مشت اس کی آنکھوں میں کبھی بھی نہیں دیکھ سکی تھی آج بھی نظریں جھکا گئی۔
" آئیں آپ کو دکھاؤں۔"
وہ اسے لیے ، کچن کی طرف بڑھا پھر کچن کے بعد پر یر روم، پھر گیسٹ رومز دکھائے اور پھر دونوں ماسٹر بیڈ روم کی طرف بڑھے۔۔۔۔
جیسے ہی مقدم نے کمرے کا لاک کھولنے کے لئے ہاتھ بڑھایا تو کلک کی آواز پہ دروازہ کھلا۔۔۔۔ مقدم چونک گیا کیونکہ اس کے کمرے میں یہاں تک کہ اس کے پورشن میں بھی اس کے بھائیوں کے علاوہ کوئی نہیں آتا تھا اور اب بالاج اور یارم نیچے تھے تو اندر کون اس کی اجازت کے بغیر موجود تھا ؟۔۔۔۔۔ دروازہ کھلتے ہی تائشہ کا چہرہ نظر آیا۔
تائشہ کب سے ان کی باتیں سن رہی تھی مقدم کو اپنے گھر کو "ہمارا" کہتے سنا تو اسے منت سے مزید نفرت محسوس ہوئی۔
"تم یہاں؟۔۔۔۔
مقدم نے اپنے لہجے کو نارمل رکھنے کی کوشش کی حالانکہ اسے تائشہ کا اپنے کمرے میں جانا سخت ناگوار گزرا تھا پھر بھی خود پہ قابو پا گیا کیونکہ وہ جانتا تھا منت اسے غصے میں دیکھ کر خوفزدہ ہو جاتی ہے اور پھر اس سے دور ہی رہتی ہے وہ یہ سب نہیں چاہتا تھا اسی لیے خود پہ قابو پاتے، پوچھا البتہ آنکھوں میں واضح ناگواری تھی۔
"میرے موبائل کی بیٹری ڈیڈ ہو گئی تھی اور چارجر پتہ نہیں میں نے کہاں رکھ دیا ہے یارم بھائی کے روم میں جا نہیں سکتی تھی کیونکہ مجھے اچھا نہیں لگ رہا تھا اور بالاج کا روم لاک تھا تو تمہارے روم میں تمہارے چار جر سے اپنا موبائل چارج کرنے آئی تھی۔"
اس نے وضاحت دی تو مقدم سر ہلا تا پلٹ گیا اور منت کو ساتھ آنے کا اشارہ کیا پھر اسے لے کر لفٹ کی طرف بڑھ گیا چہرہ بالکل سپاٹ تھا۔
تائشہ کو بہت بر الگا مقدم کا یوں کرنا اس کی نظروں نے دونوں کا لفٹ تک پیچھا کیا پھر وہ لفٹ میں داخل ہو گئے۔
منت لگا تار مسکرارہی تھی اسے مقدم کا کسی کو بھی اپنے کمرے میں بغیر اجازت، نہ آنے دینا بہت اچھا لگا تھا۔۔۔۔ مقدم کا چہرہ ابھی بھی سپاٹ تھا اس نے منت کو دیکھا جو دھیما سا مسکرارہی تھی۔
" کیا ہوا ہے ؟۔۔۔۔"
مقدم نے اس کو مسکراتے دیکھ پوچھا تو اس کی مسکراہٹ مزید گہری ہو گئی اس نے آہستہ سے نفی میں سر ہلا دیا مقدم نے سر جھٹکا اور اسے دیکھ خود بھی مسکرا دیا۔
وہ دونوں لاؤنج میں داخل ہوئے تو سب خوش گپیوں میں مصروف تھے۔
یارم، داجی زمین صاحب یا سر اور مرتسم سے باتیں کر رہا تھا اور لاریب، ایزل اور عنایہ کے درمیان گھری بیٹھی تھی شازیہ بیگم اور نگین بیگم آپس میں باتیں کر رہی تھیں ضرغام نور کے کان میں سر گوشیاں کر رہا تھا اور ارمغان انتشال کو چڑھا رہا تھا۔
منت آگے بڑھی اور ایزل کو سائیڈ پر کرتی خود ان دونوں کے درمیان گھس گئی اور لاریب کے ساتھ بیٹھ گئی ۔۔۔۔ مقدم داجی کے قریب بیٹھ گیا منت کی یہ حرکت سب نے مسکرا کر دیکھی تھی۔
کیا باتیں ہو رہی ہیں میرے بغیر ؟۔۔۔۔"
منت نے پوچھا
" یہ دیکھ "
لاریب نے منت کے آگے اپنا ہاتھ کر دیا۔ منت مبہوت ہو گئی۔
؟۔۔۔۔" یہ گھڑی منہ دکھائی میں ملی ہے ؟ ۔۔۔۔"
اس نے پوچھا تو لاریب نے شرماتے ہوئے اثبات میں سر ہلا دیا
" یہ ہی باتیں ہو رہی تھیں۔"
ایزل نے گھڑی کی طرف اشارہ کرتے کہا تو منت مسکرادی۔
یہ کتنی اچھی ہے منت ! کب لی تو نے؟ تجھے تو گھڑیوں کا شوق ہی نہیں ہے۔"
ایزل نے منت کے ہاتھ میں ایک بہت خوبصورت گھڑی دیکھی تو سوال کیا لاریب بھی فوراً متوجہ ہوئی۔
"یہ .... یہ تو۔۔۔۔۔"
منت کو سمجھ نہیں آیا کہ کیا جواب دے جبکہ مقدم نے مسکرا کر اس کا گھبر ایا سا روپ دیکھا
" بتانا "
لاریب نے پوچھا لیکن منت کچھ بھی نہیں بول سکی۔ ایزل اور لاریب نے ایک دوسرے کو دیکھا اور پھر منت کو، جو چہرہ جھکائے اپنے لب کاٹ رہی تھی اور مقدم پر شوق نگاہوں سے اسے دیکھ رہا تھا لاریب نے مقدم کا منت کو دیکھنا اور منت کا گھبرانا نوٹ کیا تو مسکرائی وہ جانتی تھی مقدم منت سے محبت کرتا ہے لاریب کی شرارت سے آنکھیں چمکیں۔
" ماجرا کیا ہے ؟۔۔۔۔"
لاریب نے منت کے کندھے کو کندھا مارتے ہوئے اسے تنگ کرنا شروع کر دیا
" کوئی ماجرا نہیں ہے۔"
منت نے آہستہ آواز میں کہا وہ سرخ ہونے لگی تھی ایزل انھیں دیکھ محظوظ ہو رہی تھی کیونکہ سب ہی منت کے لیے مقدم کی پسندیدگی نوٹ کر چکے تھے۔
کیا بات ہے جناب ..... یہی تو پوچھا ہے کہ گھڑی کہاں سے آئی، اتنالال کیوں ہو رہی ہے ؟"
اب کی بار ایزل نے بھی شرارت سے کہا تو منت کا چہرہ اُٹھانا بھی محال ہو گیا۔۔۔۔ مقدم ان دونوں کا منت کو تنگ کرنا اور منت کا شر مانا د یکھ محظوظ ہو رہا تھا۔
ابھی وہ دونوں اسے مزید تنگ کر تیں جب یارم کی آواز گونجی۔
میں سوچ رہا ہوں کہ ولیمہ سے اگلے دن ہنی مون پر چلے جائیں .... پرائیویٹ جیٹ ہے تو ویز او غیر ہ کا
بھی مسئلہ نہیں ہے بس لا ریب کی پسند جانتی ہے۔"
یارم کی آواز گونجی تو سب اس کی جانب متوجہ ہوئے
"ترکی"
منت بولی تو اب کی بار لاریب چہرہ جھکا گئی اور سب نے منت کو دیکھا
"....ترکی؟"
یارم نے دہرایا تو منت نے اثبات میں سر ہلایا
لاریب کی ڈریم کنٹری ترکی ہے۔"
بس پھر ٹھیک ہے تر کی چلتے ہیں کچھ دن وہاں قیام کریں گے پھر عمرہ کر کے واپس آجائیں گے۔"
یارم نے کہا تو سب مسکرا دیے
کتنے دنوں کا ٹور ہو گا آپ کا ؟ "
منت نے پوچھا
یارم نے کہا تو سب نے سر ہلایا
چلو پھر آپ لوگ جانے کی تیاریاں کرو آپ کے واپس آتے ہی میں نے بالاج کارشتہ لے کر جانا ہے
بالاج کی شادی پر مقدم کا نکاح یا منگنی کر دیتی ہے میں نے .... ابھی تو نازیہ بھی یہاں ہی ہے تو مقدم
اور بالاج کا بھی اب ساتھ ہی سوچ لیتے ہیں۔
داجی بولے تو سب نے خوشگوار حیرت سے انھیں دیکھا
بالاج کا تو ٹھیک ہے آپ نے اس سے اس کی پسند کے متعلق پوچھ لیا لیکن مقدم کے لیے کے سوچا ہے آپ نے ؟"
نازیہ بیگم نے پوچھا تو داجی نے بے نیازی سے کندھے اچکا دیئے۔
مقدم تمہارے پاس بس دو مہینے ہیں میں نے بالاج کی شادی پہ تمہاری منگنی یا نکاح کر دینا ہے تو کوئی
لڑکی ہے تو بتا دوور نہ پھر میں اپنی مرضی سے ڈھونڈ لوں گا کوئی لڑکی تمہارے لیے۔"
مقدم نے ایک نظر منت کو دیکھا اور دوسری داجی پر ڈالی
جلد ہی بتادوں گا آپ کو ۔ "
داجی نے اثبات میں سر ہلا دیا اور اٹھ کھڑے ہوئے
آپ لوگ ولیمہ کی تقریب کی تیاری کرواب ..... رات کو ملاقات ہو گی۔"
داجی نے کہا تو باقی سب بھی اٹھ کھڑے ہوئے سب ایک دوسرے سے ملے اور اپنی اپنی فیملی کے ہمراہ باہر کی جانب بڑھ گئے۔