میں ہُوں فَرزانہ خان
جُمعَرات کا دن، مِٹھائی کی دُکانیں اور جِنات کی آمد
مَشرِق میں کسی بھی تہوار کا تصور مِٹھائی کے بغیر اَدھُورا ہوتا ہے۔
عید ہو یا دیوالی، مِٹھائی کا ہونا لازِمی قرار پاتا ہے۔
اور یہ ہی وجہ ہے کہ مِٹھائی دیکھتے ہی تقریباً اَکثِریت کے مَوں میں پانی بھر آتا ہے۔
لیکن کیا آپ یہ بات جانتے ہیں کہ مِٹھائی جِنات کا بھی پسندیدہ کھانا ہے؟
حیدرآباد میں یوں تو کئی چیزیں بہت مشہور ہیں،
لیکن وہاں کی مِٹھائیوں کی تو بات ہی الگ ہے۔
کئی سال پہلے میرا ایک بار ہی حیدرآباد جانا ہوا تھا،
تو وہاں مِٹھائی کی ایک دُکان سے ہم نے کافی ساری مِٹھائیاں خریدی۔
اب جب میں حیدرآباد پر لکھنا شروع ہوئی،
تو مجھے اس دُکان کے مالک کی کہی ایک بات یاد آئی۔
وہ اپنے سیلز مین سے کہہ رہے تھے:
"آج جُمعَرات ہے، وضو کر کے بَرفی کے 15 تھال الگ کر دینا۔"
مجھے تب بڑی حیرانی ہوئی تھی کہ اتنی بَرفی کون کھاتا ہے اور وضو کر کے کیوں نکالی جائے؛
کیونکہ مجھے بذات خود بَرفی بالکل پسند نہیں۔
اس بات کو یاد کرکے میں نے سوچا کہ کیوں نہ کسی کو اس مِٹھائی کی دُکان پر بھیجا جائے اور ان سے ماجرا پتہ کیا جائے۔
بات ایسی تھی کہ وہ اگر بتاتے تو ان کی دُکان داری خَطرے میں پڑنے کا اندیشہ تھا۔
اِس لیے انھوں نے ہم سے استدعا کی کہ ان کی دُکان کا نام شائع نہ کیا جائے۔
اس لیے میں یہاں ان کی دُکان کا نام نہیں بتا رہی،
صرف یہ کہہ سکتی ہوں کہ ان کی دُکان کا شمار حیدرآباد کی چند بڑی مِٹھائی کی دُکانوں میں ہوتا ہے۔
قصہ کیا تھا؟ ان سے ہی سُنئے۔
مِٹھائی کی یہ دُکان ہماری پِشتِینی ہے۔
مَجھ سے پہلے میرے والد اور ان سے پہلے میرے دادا بھی یہ ہی کام کرتے تھے۔
یہ واقعہ میرے دادا نے میرے والد کو سنایا تھا، اور ساتھ ہی ایک تَاکید بھی کی تھی۔
وہ تَاکید میں بعد میں بتاؤں گا، پہلے وہ واقعہ سن لیں۔
میرے دادا ایک نہایت پرہیزگار انسان تھے۔
پانچ وقت کی نماز کے علاوہ وہ مختلف وَظائف بھی کرتے تھے۔
صبح جیسے ہی ہماری مِٹھائی کی دُکان کھلتی،
دادا پہلے دُکان میں اگربَتی جلاتے اور گلے اور بیٹھنے سے پہلے کچھ وَظائف پڑھ کر کام کا آغاز کرتے تھے۔
ان کا یہ ماننا تھا کہ یہ ہماری روزی کی جگہ ہے، اس کی عزت کرنا ہی ہماری کامیابی کا باعث بنے گا۔
شاید یہ ہی وجہ تھی کہ ہماری دُکان کی مِٹھائیوں کی بڑی دھوم تھی۔
لوگ دور دور سے یہاں مِٹھائی خریدنے آتے تھے۔
وہ جُمعَرات کی ایک شام تھی۔
دادا دُکان پر بیٹھے تھے۔
اس وقت مَغرِب کا ٹائم تھا اور دادا ابھی نماز پڑھنے جانے کا سوچ ہی رہے تھے،
کہ سفید براق شَلوار قَمیض میں ایک صاحب دُکان میں داخل ہوئے۔
ان کے داخل ہوتے ہی پوری دُکان عِطر کی بڑی اچھی خوشبو سے مہک اٹھی۔
اس مہک سے چونک کر میرے دادا نے سر اُٹھا کر انھیں دیکھا۔
وہ صاحب متابت سے چلتے میرے دادا کے پاس آئے اور ادب سے بولے:
’’بڑے صاحب، آپ کا کافی نام سنا ہے۔
ہمارے یہاں کل نیاز ہے۔
اسی سلسلے میں حاضر ہوا ہوں۔
ہمیں 20 تھال بَرفی کے درکار ہیں۔
کل عصر میں آ کر لے جاؤں گا۔‘‘
میرے دادا جو کافی غور سے انھیں دیکھ رہے تھے اور ان کی بات سن بھی رہے تھے،
ان کے چپ ہونے پر فوراً ہی بولے:
’’فِکر ہی نہ کریں جناب۔
میں بذات خود باوضو ہو کر آپ کے لیے مِٹھائی بناؤں گا۔
اور خود ہی تھال بھی سیٹ کر دوں گا۔‘‘
میرے دادا کی یہ بات سن کر اس شخص کے چہرے پر مسکراہٹ پھیلی:
’’میں نے آپ کا ذکر بالکل صحیح سنا ہے۔
آپ واقعی باعلم ہیں۔‘‘
یہ سن کر میرے دادا ادب سے بولے:
’’بس جی، اللہ کی عنایت ہے۔
ذرے کو آفتاب بنا دیتا ہے۔
لیکن حیرت مجھے اس بات پر ہے کہ کیا آپ کے یہاں بھی نیاز ہوتی ہے؟‘‘
اس پر اس شخص نے جواب دیا:
’’اللہ تو ہمارے بھی ہے، نہ شیخ صاحب۔‘‘
یہ سن کر میرے دادا نے اثبات میں سر ہلایا اور کہا:
’’آپ کل عصر کے وقت تشریف لے آئیے گا۔
انشا اللہ آپ کو شکایت نہیں ہوگی۔‘‘
وہ شخص یہ سن کر پھر کچھ نہیں بولا۔
چپ چاپ اسی وقت مِٹھائی کا سارا ہدیہ دیا اور چلا گیا۔
میرے والد بھی اس وقت دُکان پر ہی موجود تھے، اور دادا کے برابر ہی بیٹھے تھے۔
اس شخص کے جانے کے بعد انھوں نے دادا سے پوچھا کہ کیا وہ شخص انھیں یا وہ اس شخص کو جانتے ہیں؟
جس پر میرے دادا نے ان سے کہا کہ وہ گھر جا کر اس بارے میں بات کریں گے۔
رات کے کھانے کے بعد میرے دادا نے میرے والد کو اپنے پاس بلایا اور ان سے کہا:
’’جو میں تمہیں بتا رہا ہوں بیٹا، اسے غور سے سننا اور ہمیشہ یاد رکھنا۔
اس دنیا میں جس طرح انسان آباد ہیں، ویسے ہی ایک ایسی مخلوق بھی ہے جسے اللہ نے آگ سے بنایا ہے۔
وہ جِنات ہیں۔
ان میں اچھی بھی ہوتے ہیں اور برے بھی۔
آج شام کو جو شخص ہماری دُکان پر آئے تھے، ان کا تعلق بھی انسانوں میں سے نہ تھا۔
لیکن چونکہ ان کے پاس بھیس بدلنے کی طاقت ہوتی ہے، اس لیے وہ انسان کے روپ میں ہماری دُکان آئے تھے۔‘‘
’’لیکن ابا، آپ کو کیسے پتہ لگا کہ وہ جِن ہیں؟‘‘
یہ سن کر میرے والد نے ڈرتے ہوئے پوچھا۔
اس پر میرے دادا نے مسکراتے ہوئے جواب دیا:
’’بیٹا جی، یہ جو میں تھوڑے بہت وَظائف پڑھتا رہتا ہوں، یہ اس کی ہی برکت ہے۔
اوپر والے نے تھوڑا کرم بنایا ہوا ہے۔
یاد کرو، جب وہ دُکان میں داخل ہوئے تو عِطر کی کیسی تیزز مہک نے پوری دُکان کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا۔
اور پھر جب میں نے نظر اٹھا کر دُکان میں لگے شیشے میں دیکھا تو وہاں ان کا عکس ہی نہیں تھا۔
میں فوراً سمجھ گیا کہ وہ انسان نہیں ہیں۔
کیونکہ جِنات شیشے میں دکھائی نہیں دیتے۔
کل وہ اپنی مِٹھائیاں لینے پھر آئیں گے۔
اس لیے انھیں دیکھ کے بالکل نہیں گھبرانا۔‘‘
میرے دادا کی یہ بات سن کر میرے والد جو اس وقت بالکل نوجوان تھے، انھوں نے دُکان جانے سے ہی صاف منع کر دیا۔
ان کی بات سن کر دادا مسکرانے لگے اور کہا:
’’ٹھیک ہے۔
جیسی تمہاری مرضی، لیکن چونکہ میرے بعد یہ دُکان تم نے ہی سنبھالنی ہے، تو ایک بات ہمیشہ یاد رکھنا کہ جب بھی یہاں یا کہیں بھی اپنی مِٹھائی کی دُکان بناو، تو اس میں چاروں جانب شیشے ضرور لگوانا۔
تاکہ اگر قسمت سے کبھی تمہارے پاس ایسا ہی کوئی گاہک آئے تو تم ان سے اچھے سے بات کرو اور باوضو ہو کر ان کا کام کرو۔
وہ بھی اللہ والے ہوتے ہیں۔
ہمارے کام سے خوش ہوں گے تو روزی کی برکت کے لیے دعا کریں گے۔‘‘
اگلے دن عصر کے وقت وہ صاحب پھر آئے۔
میرے والد اس دن دُکان نہیں گئے، لیکن میرے دادا نے وعدے کے مطابق باوضو ہو کر خود ان کا آرڈر تیار کیا۔
اور نہایت عزت و احترام سے انھیں پیش کیا۔
وہ صاحب ہمارے یہاں سے بہت خوش ہو کر گئے۔
وہ دن ہے اور آج کا دن ہے۔
ایسا لگتا ہے کہ جیسے اللہ ہم پر مہربان ہے۔
ہماری مِٹھائیوں کی آج بھی پورے حیدرآباد میں دھوم ہے۔
میرے دادا کی حیات میں وہ دو دفعہ ان کے پاس آئے۔
دادا کے انتقال کے بعد میرے والد نے دادا کی ہر بات پر بخوبی عمل کیا۔
ہماری ہر برانچ میں چاروں جانب شیشے لگے ہوتے ہیں۔
جبکہ اگر ایسا کوئی آرڈر آتا، تو میرے والد باوضو ہو کر ہی ہر چیز تیار کرتے۔
ان کی یہ بات سننے کے بعد میں نے غور کیا کہ آپ پاکستان کے کسی بھی شہر کی کسی بھی مِٹھائی کی دُکان پر چلے جائیں۔
آپ کو چاروں جانب شیشے لگے نظر آئیں گے۔
ان شیشوں کا ہونا ہر دُکان کے لیے لازمی ہے۔
اس سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ اس کاروبار سے منسلک افراد کو بھی بخوبی اس حقیقت کا علم ہوتا ہے۔
اسی لیے اپنے ان خاص گاہکوں کی پہچان کے لیے وہ ہی طریقہ اپناتے ہیں۔
اب اگر آپ کا کسی مِٹھائی کی دُکان پر جانا ہو، تو اس بات کو نوٹ ضرور کیجیے گا۔
کیا پتہ آپ کے برابر ہی کوئی ایسا انسان کھڑا ہو جس کا عکس شیشے میں دکھائی نہ دے۔
میں ہُوں فَرزانہ خان
اور آپ دیکھ رہے ہیں ہمارا یوٹیوب چینل کریم وائس۔
اگر آپ بھی اپنی، یا کسی دوست کی، کوئی خوفناک کہانی جو آپ کے ساتھ ہوا ہو یا کسی دوست کا سچا واقعہ ہو، ہمیں بھیجنا چاہیں،
تو ڈسکرپشن میں ہمارا واٹس ایپ نمبر موجود ہے۔
وہاں پر آپ ہمیں بھیج سکتے ہیں،
ہم اس چینل پر اسے پڑھیں گے۔
ہمیں امید ہے کہ آپ کو ہماری یہ ویڈیو پسند آئے گی۔
جزاک اللہ!
