7 جولائی میری زندگی میں بہت ہی اہم، ناقابلِ فراموش تاریخ ہے اور آج بھی سات جولائی ہے۔ اس کے آتے ہی میری آنکھوں سے برسات شروع ہو گئی۔ کہتے ہیں کہ حسد انسان کو تباہ کر دیتا ہے اور اس کی آگ میں جلنے والا انسان کہیں کا نہیں رہتا، اور اس کے ساتھ وہ بھی جو حسد کا شکار ہوا ہو۔ اور حسد کی جیتی جاگتی مثال میں خود ہوں۔ میرے والد صاحب کا نام مرتضیٰ ہے اور میری بھوپو میرے والد کی بڑی بہن تھی، مگر ان میں بڑی بہنوں والی کوئی بھی بات نہیں تھی اور نہ ہی کبھی انہوں نے بڑے پن کا مظاہرہ کیا۔ ان کا رویہ اللہ جانے کیوں ہم سے ایسا تھا۔ وہ ہر بات کو لڑائی کا رنگ دے کر ہمیں تنگ کرتی تھی، مگر میرے والدین نے ہمیشہ انہیں بڑا سمجھ کر نظر انداز کر دیا۔
شمیم پھوپو کی ایک ہی بیٹی تھی شازینہ، اور وہ اپنی والدہ سے چار ہاتھ آگے تھی۔ عمر میں تو وہ مجھ سے سات آٹھ سال بڑی تھی مگر سب کو میرے جتنی بتاتی تھی۔ شمیم پھوپو اور شازینہ ہر وقت مجھے نیچا دکھانے کے چکر میں پڑی رہتی تھیں۔ اور اگر بات صرف اتنی ہی ہوتی تو شاید میں یہ سب نہ لگتی۔ یہ بات ان دنوں کی ہے جب میں کالج کے آخری سال میں تھی اور اسی زمانے میں ہمارے دادا ابو کا انتقال ہو گیا تھا۔
ان کے انتقال کے بعد جب ان کی وصیت سامنے آئی تو اس میں دادا نے اپنا گھر شمیم پھوپو کو اور ساری زمینیں میرے والد صاحب کے نام کر دی تھیں۔ ابو چونکہ سمجھدار تھے لہٰذا انہوں نے زمینوں کا استعمال صحیح انداز میں کیا اور یوں ہمارا شمار ٹھیک ٹھاک حیثیت والے لوگوں میں ہونے لگا۔ اس بات پر بھی پھوپو نے خاندان میں ہنگامہ کھڑا کیا کہ دادا ابو نے ان کے ساتھ ٹھیک نہیں کیا، حالانکہ جو مکان ملا تھا اس کی آدھی قیمت ہی اچھی خاصی تھی مگر ان کا رونا ختم نہیں ہوتا تھا۔
گرمیوں کی چھٹیاں ہوئیں تو ہم نے ابو سے ضد کی کہ لاہور چلتے ہیں، اور پھر ہم سب گھر والے لاہور اپنے خالہ کے ہاں چلے گئے۔ دو چار روز بعد پتہ چلا کہ شازینہ کے رشتے کی بات چل رہی ہے۔ پھوپو سے ویسے بھی زیادہ ملنا جلنا تو نہ تھا مگر ابو کو افسوس ضرور ہوا کہ سگی بہن نے انہیں بتانا بھی گوارا نہیں کیا۔ خیر ہماری چھٹیاں تو خوب مزے سے گزریں اور پھر ہم چھٹیاں منا کر واپس گھر آ گئے۔
جس روز ہم واپس آئے اس کے اگلے ہی دن پھوپو اپنی بیٹی کے رشتے کی خبر سنانے ہمارے گھر آئیں۔ خبر کیا تھی بلکہ اپنا رعب جمانے آئی تھی۔ اور آتے ہی بڑے غرور سے بولی: میری بیٹی کا رشتہ تو اس کی شان کے مطابق ہے۔ لڑکا باہر گیا ہوا ہے اور خاندان بھی امیر ہے۔ انہوں نے تو دیکھتے ہی شازینہ کے لیے ہاں کر دی۔ اور پھر تھوڑی دیر بیٹھ کر وہ چلی گئیں۔
ان کے جانے کے بعد ابو بولے: ارے میں تو بتانا ہی بھول گیا، اتوار کو باسط صاحب کے گھر پارٹی میں جانا ہے۔ ان کا بیٹا عمیر باہر سے آ رہا ہے۔ باسط انکل ابو کے کافی پرانے دوست تھے مگر کبھی ہماری ملاقات نہیں ہوئی تھی۔ اتوار کو سب جانے کی تیاری کر رہے تھے۔
میں بھی اپنی الماری کھول کر کپڑے دیکھنے لگی کہ کیا پہنوں۔ پھر میری نظر اپنے پسندیدہ بلیک سوٹ پر پڑ گئی اور میں نے وہ نکالا اور تیار ہونے لگی۔ جب تیار ہو کر میں نیچے آئی تو میری چھوٹی بہن ندا مجھے دیکھ کر بولی: ماشاءاللہ، آپ تو اس بلیک سوٹ میں قیامت لگ رہی ہیں۔
میں نے کہا: بس چپ کرو، تم زیادہ بولنا ٹھیک نہیں۔ چلو، دیر ہو رہی ہے۔
پارٹی میں پہنچ کر ہماری ملاقات پہلی دفعہ باسط انکل اور ان کی فیملی سے ہوئی۔ بہت ہی خوش اخلاق لوگ تھے۔ باسط انکل، ان کی بیگم، چھوٹا بیٹا جواد جو پڑھ رہا تھا، اور بڑا بیٹا عمیر، جس کے آنے کی خوشی میں پارٹی تھی۔ پارٹی بہت شاندار تھی کیونکہ باسط انکل کو روپے پیسے کی کوئی کمی نہ تھی۔ ان کا کنسٹرکشن کا بہت بڑا بزنس تھا جو کہ کافی بڑے پیمانے پر پھیلا ہوا تھا۔ پارٹی میں میں نے محسوس کیا کہ عمیر کا جھکاؤ میری طرف زیادہ ہی ہو رہا تھا۔
اس پارٹی میں کافی مزہ بھی آیا۔ کچھ دنوں بعد میرے امتحان بھی ختم ہو گئے تو ہم دوستوں نے ٹائم پاس کرنے کے لیے مختلف کورسز کرنا شروع کر دیے۔ کہتے ہیں کہ کوئی چیز بیکار نہیں ہوتی، اور انہی کورسز کی وجہ سے آج میں اپنے پیروں پر کھڑی ہوں۔ خیر، میں روز سینٹر جاتی اور شام تک واپس ہوتی تھی۔ ایک روز میں واپس آئی تو انکل اور ان کی بیگم آئے ہوئے تھے۔ میں اپنی چیزیں رکھ کر ان کے پاس چلی گئی اور پھر ادھر ادھر کی باتیں ہونے لگیں۔ جب وہ چلے گئے تو معلوم ہوا کہ وہ میرے لیے عمیر کا رشتہ لے کر آئے تھے۔ اور پھر ابو اور باسط انکل نے رشتہ طے کر کے دوستی کو رشتہ داری میں بدل دیا، اور پورے خاندان اور دوستوں میں مٹھائیاں بھیجی گئیں۔
اس بات کے اگلے ہی دن شمیم پھوپو پھر ہمارے گھر آئیں اور ایک ہنگامہ کھڑا کر دیا۔ اور چیخنے لگیں: میں تو پہلے ہی جانتی تھی کہ میری بیٹی کی خوشیاں کسی سے ہضم نہیں ہوں گی۔
ابو بولے: آپا جان، بات کیا ہے؟
پھوپو بولیں: اتنے معصوم نہ بنو، میری بیٹی کی خوشیوں کو آگ لگا کر پوچھتے ہو کیا بات ہے؟
اب تو ابو بھی غصے میں آگئے اور بولے: صاف صاف بتائیں کیا ہوا ہے۔
شمیم پھوپو بولیں: جو رشتہ شازینہ سے طے ہو چکا تھا، اس کو توڑ کر تم نے اپنی بیٹی حیا کا رشتہ طے کر دیا!
یہ سن کر ابو سکتے میں آ گئے۔ پھر رک کر انہوں نے باسط انکل کو فون کر کے بلایا تو وہ فوراً اپنی بیگم کے ساتھ آگئے۔ ان کے ساتھ ایک خاتون بھی تھی۔ انہیں دیکھ کر پھوپو چونک گئی۔ پھر خاتون بولی: شمیم، اس عمر میں جھوٹ بولتی ہو؟ تمہیں شرم نہیں آتی؟
پھر سب کو مخاطب کر کے بولی: میں رشتے کرواتی ہوں۔ باسط صاحب کے گھر میرا آنا جانا ہے۔ ان کی بیگم نے مجھ سے کہا تھا کہ عمیر کے لیے کوئی لڑکی ہو تو بتانا، مگر ہاں تب جب عمیر کو لڑکی پسند آ جائے۔
میں نے شازینہ کی تصویر انہیں دے دی مگر عمیر کو تصویر دیکھنے کی نوبت ہی نہیں آئی۔ پارٹی میں عمیر کو حیا پسند آ گئی، اور وہ تصویر جوں کی توں واپس آگئی۔ یہ سن کر پھوپو ایک منٹ بھی نہ رکی۔
ایک مہینہ بعد کی شادی کی سات تاریخ طے ہو گئی اور گھر میں تیاریاں شروع ہو گئیں۔ شادی سے چند روز پہلے اچانک شمیم پھوپو اور شازینہ اپنا سامان لے کر ہمارے گھر آگئیں۔ ابو سمجھے پھر کوئی تماشہ ہوگا، مگر اس کے برعکس بات کچھ اور نکلی۔
پھوپو روتے ہوئے ابو سے بولیں: میں بہت شرمندہ ہوں اپنے کیے پر۔ اس روز جو ہوا غلط فہمی کی وجہ سے ہوا تھا، مجھے معاف کر دو۔
ابو بولے: نہیں آپا، مجھے آپ سے کوئی شکایت نہیں ہے۔ اور بات ختم ہو گئی۔
کم از کم میرے گھر والوں کے لیے بات ختم ہو گئی تھی، مگر یہ تو ایک نہ تھمنے والے طوفان کی ابتدا تھی۔ اس کے بعد سے شازینہ کا رویہ ہی بدل گیا تھا اور وہ میرے قریب رہنے لگی تھی، بلکہ اس نے تو مجھ سے معافی بھی مانگ لی تھی۔
پھر شادی کا دن بھی آ پہنچا۔ اس روز دوپہر کو میں نہا کر اپنے کمرے میں آرام کر رہی تھی کہ میری آنکھ لگ گئی، اور نیند میں مجھے لگا کہ کوئی میرے اوپر جھکا ہوا ہے۔
تھوڑی دیر بعد میری آنکھ کھل گئی مگر کمرہ خالی تھا۔ میری شادی کا جوڑا بہت ہی خوبصورت تھا، گہرا سرخ رنگ کا، اور اس پر زری سے ہاتھ کا کام کیا گیا تھا۔ جب میں دلہن بن کر سب کے سامنے آئی تو سب میری بلائیں لینے لگے۔ عمیر کے گھر والوں نے شادی پر دل کھول کر ارمان نکالے اور اتنا خرچہ کیا کہ باہر کے لوگ بھی ایک دوسرے سے ذکر کرنے لگے، اور یہاں بھی پھوپو اور شازینہ دل ہی دل میں جل رہی تھیں مگر ظاہر نہیں کر رہی تھیں۔
شادی کے بعد جب میں گھر آئی تو شازینہ نے مجھ سے کہا: حیا، کیا میں تمہارے چند سوٹ لے سکتی ہوں؟ یہ مجھے بہت پسند آئے ہیں، اور اب تو تم انہیں پہنو گی بھی نہیں۔
میں نے کہا: اس میں پوچھنے کی کیا بات ہے؟ میں بہن ہوں تمہاری۔
اور وہ مسکرانے لگی۔
اور یوں میں نے خود اپنے پیروں پر کلہاڑی دے ماری۔ مجھے کیا معلوم تھا کہ وہ کس ارادے سے میرے کپڑے مانگ رہی تھی۔
شادی کے بعد چند مہینے تو اچھے گزرے، لیکن اس کے بعد جو پہلا جھٹکا مجھے میرے سسر کی موت کا لگا۔ اس روز رات کے کھانے پر وہ بالکل ٹھیک تھے، مگر رات کو اچانک وہ زور سے چیخنے لگے اور اپنا دل پکڑ کر کہنے لگے: وہ میرا دل بھینچ رہا ہے۔ وہ درد سے تڑپتے رہے اور پھر صبح کے وقت وہ اس دنیا سے رخصت ہو گئے۔
ڈاکٹروں کے مطابق ان کا دل اچانک بند ہو گیا تھا۔ معاملہ کیا تھا کسی کو بھی معلوم نہ ہو سکا۔
جہاں ہم ان کے اچانک موت سے بے حال تھے، اس کے ساتھ اس کا اثر سیدھا بزنس پر پڑا کیونکہ عمیر تو ابھی باہر سے پڑھ کر آئے تھے اور انہوں نے بزنس جوائن بھی نہیں کیا تھا، اور راحل تو ابھی پڑھ ہی رہا تھا۔
عمیر کی کوششوں کے باوجود نقصان پر نقصان ہونے لگا۔ ساتھ ہی شاید کاروباری حریف، جو اسی دن کی تاک میں تھے، ان کے حربوں سے آہستہ آہستہ بزنس ہمارے ہاتھوں سے نکل گیا۔ جو کچھ بچا تھا اسے عمیر کسی طرح سنبھال رہے تھے۔
ابھی میرے سسر کے انتقال کو سال بھی نہ گزرا تھا کہ ایک روز میری ساس نہانے کے کمرے میں گئیں اور کافی دیر کے بعد بھی باہر نہ آئیں۔ میں نے آوازیں دیں مگر اندر سے کوئی جواب نہیں آیا۔ میں نے دروازے کو زور سے پکڑا اور کھولنے کی کوشش کی مگر وہ اندر سے لاک تھا۔ پھر پڑوسیوں کی مدد سے دروازہ توڑا گیا۔
میں اندر گئی تو دیکھا کہ میری ساس دیوار کے سہارے بیٹھی تھیں، اور ان کے بال نل میں الجھے ہوئے تھے، اور انہوں نے دونوں ہاتھوں سے اپنا گلا دبایا ہوا تھا۔ انگلیاں جیسے گلے میں پیوست تھیں، اور دونوں آنکھیں باہر کو ابل پڑی تھیں۔
یہ سب دیکھ کر میں بے ہوش ہو گئی۔
مجھے جب ہوش آیا تو گھر کی فضا عجیب تھی، سب ایک دوسرے کے چہرے تک رہے تھے۔ ایک سال میں یہ دوسرا جھٹکا تھا ہمارے لیے۔
بزنس میں بھی ایک کے بعد دیگری نقصان ہوتا جا رہا تھا۔
ابھی ہم سنبھلے بھی نہ تھے کہ چند دن بعد ایک اور جھٹکا ہمارے لیے تیار تھا۔ عمیر نے ایک بہت بڑی بلڈنگ کی کنسٹرکشن کروائی تھی اور اسے بنے ایک ہفتہ بھی نہیں ہوا تھا کہ وہ پوری کی پوری ویڈنگ زمین بوس ہو گئی۔ عمیر کو تو ہوش ہی نہ تھا کیونکہ انہوں نے پوری ذمہ داری سے اپنا کام کیا تھا۔ ان کے سارے انجینیئر اور ورکرز بھی حیران تھے، مگر اس حادثے کے بعد عمیر اور راحل صاحب کا بزنس بھی بیٹھ گیا اور ہم سڑکوں پر آ گئے۔
اس مشکل وقت میں عمیر کے دوستوں نے ہمارا بڑا ساتھ دیا اور کسی نہ کسی طرح راحل کو ملک سے باہر بھیج دیا، اور اس لیے وہ شاید بچ بھی گیا کیونکہ وہ یہاں نہ تھا۔ اس سارے معاملے میں ہمارا گھر بھی بک گیا۔ گھر کی رقم میں سے تھوڑی راحل کے باہر جانے میں لگی، کچھ رقم لوگوں کی پیمنٹ میں گئی، اور جو تھوڑی باقی بچی اس کا ایڈوانس دے کر ہم نے ایک چھوٹا سا فلیٹ کرائے پر لے لیا۔
اس دور میں عمیر نے میرے میکے والوں کی مدد لینے سے صاف انکار کر دیا تھا۔ ادھر شمیم پھوپو نے شازینہ کی شادی ایک بہت بڑے بزنس مین سے طے کر دی اور لوگوں سے کہنے لگی کہ اس جگہ شازینہ کا رشتہ نہ ہوا، ورنہ آج حیا کی جگہ شازینہ ہوتی۔ مگر ہم نے نظر انداز کر دیا۔
شادی کا کارڈ دیکھ کر عمیر بولے: اس آدمی کی شہرت ٹھیک نہیں ہے۔ تمہاری پھوپو بہت بڑی غلطی کرنے جا رہی ہے۔
اور جب یہ بات پھوپو اور شازینہ کو بتائی تو وہ بولیں: ہمیں معلوم ہے، کوئی فرق نہیں پڑتا۔
اور چند روز بعد شادی ہو گئی، لیکن عمیر اور میں اس شادی میں نہ گئے۔
اللہ اللہ کر کے اب دن خیریت سے گزر رہے تھے۔ عمیر کو امید کی وجہ سے ایک ملٹی نیشنل کمپنی میں جاب مل گئی۔ ہم بھی اپنے اس گھر میں ابھی سیٹ بھی نہ ہو پائے تھے کہ یہاں بھی عجیب و غریب واقعات ہونے لگے۔
ایک دن میں اور عمیر جب کھانا کھانے بیٹھے تو ایک دم لائٹ چلی گئی۔ میں موم بتی لینے کچن میں گئی تو وہاں چپ چپ کی آوازیں آ رہی تھیں۔ میں نے جلدی سے موم بتی جلائی تو دیکھا دودھ کا برتن زمین پر الٹا ہوا ہے اور ایک کالا بلا دودھ چاٹ رہا ہے۔ میں نے ایک لکڑی اٹھا کر زور سے بلے کو مارنا چاہا تو پیچھے سے عمیر آ گئے اور بولے: کیا ہوا؟
میں نے کہا: یہ… یہ… اور مڑی تو پشت پر عمیر موجود نہیں تھے، اور دودھ اپنی جگہ اوپر رکھا ہوا تھا۔ اتنے میں لائٹ آ گئی اور ہم کھانا کھانے لگے۔
پھر ایک روز میں الماری میں دھلے ہوئے کپڑے رکھ رہی تھی کہ جیسے ہی میں نے الماری کھولی انتہائی گندی بدبو سے میرا دماغ پھٹنے لگا۔ ناک پر دوپٹہ رکھ کر الماری میں دیکھنے لگی۔ پھر دوسری سائیڈ کا دروازہ کھولا تو دیکھا کہ میری شادی کے نئے کپڑے غلاظت سے بھرے ہوئے تھے۔
میں نے سوچا: یہ وہی بلا ہوگا جس نے آنکھ بچا کر یہ کیا ہے۔
پھر میں نے بڑی مشکل سے سارے کپڑے نکالے اور انہیں گرم پانی سے دھونے لگی مگر بدبو تھی کہ جا کر نہیں دیتی تھی۔ ان کپڑوں کو سکھا کر بھی چیک کیا مگر بدبو پھر بھی نہیں گئی۔
میں ان کپڑوں کو رسی پر چھوڑ کر واپس آگئی۔ جب عمیر آئے تو میں نے انہیں ساری حقیقت بتائی، اور جب کپڑے دکھانے چاہے تو سارے کپڑے غائب تھے۔
سارا گھر چھان مارا مگر کپڑے نہ ملے۔
اور جب الماری کھولی تو سارے کپڑے الماری میں جم کر موجود تھے، اور کپڑوں سے کوئی بدبو نہیں آ رہی تھی۔
یہ دیکھ کر میں اپنی جگہ سُن ہو کر رہ گئی۔
عمیر بولے: ہم اتنے پریشان ہیں، اس لیے تم کو ایسی چیزیں لگ رہی ہیں۔
دو روز بعد میں کپڑے دھو رہی تھی کہ مجھے اپنے ہاتھ پر کھجلی محسوس ہوئی۔ میں نے دیکھا وہاں سرخی تھی اور ایک چونٹی نظر آئی۔ میں نے اسے جھٹک دیا اور کچن میں چلی گئی۔ وہاں میں نے دیکھا کہ آٹے کے ڈبے کے پیچھے بے شمار چونٹیاں نکل رہی تھیں۔ میں انہیں صاف کر کے کام میں لگ گئی۔
لیکن جب اگلی صبح سو کر اٹھی تو عمیر کو دیکھتے ہی میری چیخ نکل گئی، کیونکہ ان کا پورا منہ سوجھا ہوا تھا، اور آنکھوں کے اوپر تو سوج کر جِھلّی جیسی بن گئی تھی۔
پھر ہم نے گھر کا سارا سامان باہر نکالا اور پورے گھر کو دھو کر اسپرے کر دیا اور ہر چیز کو صاف کر کے واپس اندر آ گئے۔ اتنا کام تھا کہ اندر آتے ہی ہم بستر پر گر کر سو گئے۔
اگلی صبح جب میں اٹھی تو میری آنکھیں کھل نہیں رہی تھیں، اور جب میں نے کوشش کی تو تکلیف ہونے لگی۔ میں نے آئینے میں دیکھا تو میری روح فنا ہو گئی، کیونکہ میرا منہ سوج کر غبارے جیسا ہو رہا تھا۔
میں چیختی ہوئی باہر نکل آئی۔ پھر عمیر کے کہنے پر میں واپس اندر آئی تو وہاں کوئی چونٹی نہیں تھی۔
رات تک ہم ادھر ادھر چیک کرتے رہے، پھر ہم سونے کے لیے لیٹ گئے۔
آدھی رات کے قریب اچانک ایک آواز سے میری آنکھ کھل گئی۔ میں کمرے سے باہر آئی تو دیکھا کہ کچن کے سامنے کوئی کالی سی پڑی ہے۔ جب میں قریب گئی تو دیکھا کہ وہ ایک کالا بلا تھا۔ اس نے میری طرف دیکھا… اور پل بھر میں ایک کالی عورت میں تبدیل ہو گیا۔
پھر میری چیخیں آسمان چھونے لگیں اور اچانک میں تاریکیوں میں ڈوب گئی۔
پھر ہم نے وہ گھر چھوڑ دیا اور ہم عارضی طور پر اپنے فلیٹ کے نیچے والے فلور پر رہنے لگے۔
پھر اس پر بھی بس نہ ہوا، اور اس کے بعد میری زندگی میں وہ لمحہ آیا جس کا تصور بھی میں نہیں کر سکتی تھی۔
وہ دن میری زندگی کا بدترین دن تھا۔
رات کو ہم کھانا کھا کر سو گئے اور تقریباً رات کے تین بجے اچانک ایک آواز آئی۔ کوئی عمیر کو آواز دے رہا تھا… عمیر… عمیر… عمیر۔ پھر عمیر اٹھے اور بولے کہ میں باہر جا کر دیکھتا ہوں۔ جیسے ہی وہ گھر سے نکلے اتنی زور سے دھماکہ ہوا کہ میں لرز گئی اور ارکان بھاڑ دینے والا شور سنائی دینے لگا۔ میں دوڑتی ہوئی باہر گئی اور جو میں نے دیکھا خدا کسی عورت کو نہ دکھائے۔ سامنے بجلی کا بہت بڑا کھمبا گرا ہوا تھا اور اس کے نیچے تاروں کے گچھے میں ایک جسم جکڑا ہوا تھا اور جل کر سیاہ ہو گیا تھا۔ اسے میں نے ہاتھ کی گھڑی سے پہچانا جو میں نے عمیر کو گفٹ دی تھی۔ جب میں اپنے ہوش میں واپس آئی تو میں اپنے والدین کے گھر میں تھی۔ گھر والے بتاتے ہیں کہ میں بہت دنوں بعد بولنے کے قابل ہو پائی تھی۔
میری زندگی تو ختم ہو چکی تھی۔ میرا دیور راحل اپنے بھائی کی میت کی وجہ سے آیا ہوا تھا اور وہ آ کر میرے گلے لگ کر رونے لگا اور بولا، بھابی نہ جانے کس کی نظر کھا گئی ہمارے ہنستے بستے گھر کو۔ راحل کو میں نے یہاں رکنے سے منع کر دیا اور وہ واپس کینیڈا چلا گیا۔ وہاں سے مجھے پیسے بھیجتا رہا اور میں ان پیسوں کو جمع کرتی رہی۔ میری ایک دوست نے مشورہ دیا کہ کیوں نہ ان پیسوں سے ایک ادارہ بناؤں جہاں بے سہارا عورتوں کو ہنر سکھا کر اس قابل بنایا جائے کہ وہ معاشرے میں کسی قابل ہو جائیں۔ یہ بات میرے دل کو لگی۔ پھر میں نے راحل سے مشورہ کر کے عمیر کے نام پر ایک ادارہ بنا دیا۔
دوسری طرف شازینہ کے شوہر کو بیرون ملک گرفتار کر لیا گیا تھا۔ وہ ہیروئن اور انسانوں کی اسمگلنگ کرتا تھا اور یوں شازینہ واپس شمیم پھوپوں کے پاس آگئی۔ مگر میرا ساتھ اللہ تعالی نے دیا اور میرے ادارے کی پذیرائی ہو گئی اور میرا نام اچھائی کے ساتھ جڑ گیا۔ اور یہ بات بھی ان ماں بیٹی کو پسند نہیں آئی۔ پھر اسی لیے انہوں نے اپنا آخری اور سب سے خطرناک وار کر دیا۔
ایک روز میرے سر میں شدید قسم کا درد اٹھا اور پھر شام تک یہ درد ناقابلِ برداشت ہو گیا۔ اتنا کہ میں سر پٹک رہی تھی۔ مجھے فوراً ہسپتال لے جایا گیا۔ میرے سارے ٹیسٹ ہوئے اور تمام رپورٹس بالکل نارمل آئیں مگر درد کم نہ ہوا اور میں سر پھاڑنے جا رہی تھی۔ ابو امی اللہ تعالی سے گڑگڑا کر دعائیں مانگنے لگے اور یقیناً یہ میری ماں باپ کی دعائیں ہی تھیں جو آج میں زندہ ہوں۔
جب امی دعا مانگ رہی تھیں تو ایک خاتون انہیں دیکھ کر آگئی اور انہیں ساتھ لے کر باہر چلی گئی اور کہنے لگی، مجھے تو یہ کوئی اور ہی معاملہ لگتا ہے۔ میں ایک بزرگ کو جانتی ہوں، ویسے تم لوگ انہیں پاگل کہتے ہو مگر میرا ماننا ہے کہ وہ کچھ خاص ہیں اور لوگوں سے دور رہنے کے لیے ایسے بنے ہوئے ہیں۔ آپ اپنی بیٹی کو انہیں دکھائیں، انشاءاللہ یہ ٹھیک ہو جائے گی۔ امی ابو مجھے لے کر ان بزرگ کے گھر گئے۔ بزرگ کا گھر گندا پڑا تھا۔ وہ ایک طرف خاموش بیٹھے تھے۔ امی نے ان کے گھر کی پوری صفائی کی اور مجھے لے کر ان کے سامنے بیٹھ گئیں۔ وہ ہمیں خاموشی سے گھورتے رہے اور پھر بولے:
“اس بچی کو حسد کھا گیا ہے اور دشمن نے اپنا آخری اور کاری وار کر دیا ہے۔
تیرے رشتے داروں میں دو عورتیں ہیں، نام نہیں بتا رہا، مجھے معلوم ہے کہ انہوں نے تیری بیٹی کے استعمال ہوئے کپڑوں پر عمل کیا اور اسے برباد کرتی رہیں۔ اس کے شوہر، ساس، سسر سب کو مار دیا، کاروبار ختم کر دیا۔ مگر یہ بچی اچھائی کی وجہ سے بھلائی کی راہ پر چل کر پھر خوشحال ہو گئی تو ان کو حسد کوڑے کی طرح ان کے دل پر پڑا اور انہوں نے اپنا یہ داؤ کھیل دیا۔ ان میں سے ایک نے دھوکے سے تیری بیٹی کی لٹ کاٹ لی تھی اور اسی پر یہ عمل ہو رہا ہے جو اسے ختم کر دے گا۔”
مجھے وہ وقت یاد آگیا جب میں اپنی شادی والے دن سو رہی تھی اور مجھے محسوس ہوا تھا کہ کمرے میں کوئی آیا تھا۔ امی ابو تو سر پکڑ کر بیٹھ گئے۔ پھر ان بزرگ نے آنکھیں بند کیں تو ان کی مٹھی میں تین لیموں آگئے۔ پہلا لیمو انہوں نے میرے سر پر رکھا اور کچھ پڑھنے لگے اور پھر میرے سر پر ہی اس لیمو کو کاٹ کر ہوا میں اچھال دیا۔ جب وہ دونوں ٹکڑے زمین پر گرے تو وہ سرخ ہو گئے تھے۔ پھر انہوں نے اسی طرح دوسرا لیمو کاٹ کر اچھالا، جب وہ زمین پر گرا تو ایک ٹکڑا سرخ تھا۔ پھر اسی طرح انہوں نے تیسرا لیمو میرے سر پر کاٹ کر اچھال دیا اور جب دونوں ٹکڑے زمین پر گرے تو وہ صاف تھے۔
بزرگ پھر ابو سے بولے، بول بدلہ چاہتا ہے؟
ابو بولے، نہیں میں اپنا معاملہ اللہ پر چھوڑتا ہوں۔
تو بزرگ مسکرا کر خاموش ہو گئے اور اپنی آنکھیں بند کر لیں۔ اور میرے سر کا درد یوں غائب ہو گیا کہ جیسے کبھی تھا ہی نہیں۔ اس کے بعد انہوں نے کوئی جواب نہیں دیا اور ہمیں واپسی کا اشارہ دیا تو ہم اٹھ کر آگئے۔
کچھ روز بعد ہی پھوپو اور ان کی بیٹی کو اپنے کیے کی سزا مل گئی۔ ہوا یوں کہ دوپہر کے وقت وہ سو رہی تھیں اور کچن میں گیس لیک ہونے لگی، انہیں پتا ہی نہیں تھا۔ شاید جب وہ کچن میں گئیں اور ماچس جلائی تو آگ نے دونوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ وہ اتنی بری طرح جل گئیں کہ کچن کا کچھ سامان تک ان کے جسموں سے چپک گیا تھا۔ محلے والوں نے انہیں ہسپتال پہنچایا۔ ہمیں جب معلوم ہوا تو ہم دوڑے ہسپتال پہنچے اور دونوں کو دیکھ کر ہماری آنکھوں میں آنسو آگئے۔ انہیں دیکھ کر پھوپو بولیں:
“مت رو اپنے قیمتی آنسو، ہم گنہگاروں کے لیے ضائع مت کرو۔ حسد میں ہم اندھے ہو گئے تھے۔”
شازینہ بولی، “ماموں میں معافی کے لائق تو نہیں ہوں… شاید آپ کے معاف کرنے سے ہماری روح آسانی سے جسم سے نکل جائے۔ حیا تم بھی مجھے معاف کر دو۔”
ابو بولے، “میں کون ہوتا ہوں معاف کرنے والا؟ معاف کرنے والا تو اللہ کی ذات ہے۔ پھر بھی اگر میرے کہنے سے تمہیں تسلی ہوتی ہے تو میں تم دونوں کو معاف کرتا ہوں۔”
پھر ابو کے کہنے پر میں نے بھی دونوں کو معاف کر دیا۔ شام تک دونوں کا انتقال ہو گیا اور ان کا کیا ان کے سامنے آگیا تھا۔ لیکن میری زندگی تو ختم ہو گئی تھی جو جہاں کر بھی واپس نہیں آ سکتی تھی
۔ شاید میری کہانی سے لوگ کچھ سوچیں، سبق لیں، اور حسد کو اپنے دل میں جگہ نہ دیں۔ اللہ تعالی سب کو اپنی امان میں رکھے۔ آمین۔
