رائٹر: فرزانہ خان
یار… یہ بات میں آج تک کم ہی لوگوں کو بتاتا ہوں۔
کیونکہ جتنے لوگ سنیں گے… آدھے ہنس دیں گے، اور آدھے ڈر کے چپ ہو جائیں گے۔
لیکن جو ہوا… وہ میں نے خود دیکھا۔
اپنی آنکھوں سے۔
میرا نام ساحل نہیں… اصل نام میں چھوڑ دیتا ہوں۔
بس اتنا سمجھ لو کہ 2018 میں میں کراچی آیا تھا — پورٹ پر ایک کام کے سلسلے میں۔
دو دن کا چکر تھا۔ بجٹ کم تھا، تو کسی بڑے ہوٹل کا سوال ہی نہیں تھا۔
لیاری کے پاس ایک پرانا سا ہوٹل پڑتا ہے:
صدف ریزیڈنسی
نہ بورڈ صاف، نہ باہر روشنی۔
دیواروں پر نمکین ہوا کا نشان، کھڑکیوں کے شیشے ہلتے ہوئے، اور اوپر جاتے زنگ آلود سیڑھیاں۔
مجھے بھی شک ہوا…
لیکن اندر سے وہی پرانی بالٹی میں بیٹھا ہوا رجب—چاۓ پینے والا—بولا:
“بھائی، سستا ہے… دو راتیں گزار لو۔
ویسے بھی یہاں اب کوئی گڑبڑ نہیں ہوتی… بس پرانی کہانیاں ہیں۔”
میں نے کہا:
“کون سی کہانیاں؟”
وہ ہنس کر بولے:
“چھوڑو بھائی… رات گزارنی ہے یا بھوت پکڑنا ہے؟”
خیر، میں چلا گیا۔
کمرہ نمبر 210 ملا۔
دروازہ کھولتے ہی ایک چیز نے دل میں عجیب سا وزن ڈال دیا — کمرے میں نمی کی بو تھی، جیسے بہت دن تک کوئی بند کمرے میں رویا ہو۔
میں نے بیگ رکھا، پنکھا چلایا، لائٹ آن کی، اور کھانا نکالنے ہی والا تھا کہ…
سیڑھیوں سے دوڑنے کی آواز آئی۔
ایسے نہیں جیسے مرد بھاگتے ہیں…
بالکل ہلکی ہلکی آواز… بچوں والی۔
میں نے سوچا کوئی فیملی ٹھہری ہے۔
سونے لگ گیا۔
لیکن رات ڈیڑھ بجے کون سا بچہ بھاگتا ہے؟
میں اٹھا، دروازہ کھولا…
صاف، خالی راہداری۔
بس روشنی ٹمٹما رہی تھی جیسے بجلی کا بوجھ زیادہ ہو۔
واپس آیا… اور یہ وہ لمحہ تھا جب پہلی بار مجھے لگا کہ یار… کچھ ٹھیک نہیں ہے۔
کمرے کے کونے میں رکھی پانی کی بوتل خود بخود ٹک کی آواز سے ہلی۔
میں نے دل کی دھڑکن قابو میں کی، اور خود کو سمجھایا:
“گرمی ہے۔ پلاسٹک سکڑتا ہے۔ کچھ نہیں۔”
اور سو گیا۔
ریسپشن پر بیٹھے ہوئے بابا جی — جن کا نام سلیم تھا — انہوں نے مجھے دیکھتے ہی پوچھا:
“رات ٹھیک گزری؟”
میں نے ہنستے ہوئے کہا:
“ہاں سو تو گیا تھا… بس اوپر کوئی بچہ بھاگ رہا تھا شاید۔”
اس نے میری طرف نہیں دیکھا۔
بس تھوڑا سا رُک کر بولا:
“ادھر کوئی فیملی نہیں ٹھہری ہوئی۔”
میں ایک سیکنڈ کو خاموش ہو گیا۔
پھر بات بدل دی۔
رات کو ساڑھے گیارہ بجے میں کھڑکی کے پاس بیٹھا فون گھما رہا تھا۔
باہر لائٹ کم تھی، گلی میں خاموشی تھی۔
لیاری کی راتیں ویسے بھی جلدی سو جاتی ہیں۔
اچانک نیچے سے ایک لڑکی کی ہلکی سی سسکی آئی۔
ایسی نہیں جیسے کوئی روئے…
ایسی جیسے کوئی سانس روک کر رونے کی کوشش کر رہا ہو، تاکہ کسی کو پتا نہ چلے۔
میں نے کھڑکی سے جھانکا…
نیچے گلی خالی۔
سسکی پھر آئی، اس بار تھوڑی صاف۔
لگ رہا تھا جیسے وہ آواز میرے کمرے کے اندر سے آرہی ہو۔
میں نے کھڑکی بند کی۔
اور جیسے ہی مڑا…
کمرے کا دروازہ…
خود بخود بند ہو گیا۔
زور سے نہیں۔
آہستہ…
بالکل ایسے جیسے کسی نے ہاتھ سے دھکیل کر بند کیا ہو۔
میری سانس اٹک گئی۔
میں نے آگے بڑھ کر دروازہ کھولا —
پیچھے کوئی نہیں تھا۔
اور اُس لمحے…
کمرے کی لائٹ ایک بار ٹمٹمائی۔
اگلے دن میں نے رجب سے بات کی، وہی چاۓ والا۔
وہ پہلے مجھے ٹال رہا تھا، پھر مجھے گھورتا رہا۔
آخر بولا:
“بھائی… تم 210 میں ٹھہرے ہونا؟”
میں نے کہا: “ہاں۔”
وہ آہستہ سے بولا:
“وہ کمرہ پہلے ایک فیملی کے پاس ہوتا تھا۔
ان کی سات سال کی بچی یہاں سے غائب ہوئی تھی۔
کیس بند ہو گیا… کوئی نہیں ملا۔
ماں باپ شہر چھوڑ گئے۔
بس اتنا کہتے تھے کہ بچی کو آخری بار اسی راہداری میں دوڑتے ہوئے دیکھا تھا۔
پھر دروازہ بند…
اور بچی غائب۔”
میں نے کہا:
“تو اس میں میری کیا غلطی؟ ہوٹل بدل لو میں۔”
وہ بولا:
“ہاں… لیکن تم خود ہی نہیں جا رہے۔
لگ رہا ہے کمرہ تمہیں چھوڑنے نہیں دے رہا۔
کل سے تم ایسے لگ رہے ہو جیسے رات میں کم سوئے ہو۔
یہ وہیں ہوتا ہے جن کو وہ بچی پہچان لیتی ہے۔”
اس کی یہ آخری بات براہ راست سینے میں لگی۔
---
میں پوری رات کمرہ چھوڑنے کے بارے میں سوچتا رہا۔
لیکن شام ہوتے ہوتے ایک عجیب سا بوجھ دل پر بیٹھ گیا، جیسے کوئی کہہ رہا ہو:
“مت جاؤ…”
دس بجے میں نے بیگ پیک کیا۔
دروازے کی طرف بڑھا۔
جیسے ہی ہینڈل پکڑا…
کمرے کے کونے سے
بڑی آہستہ، بہت ٹوٹی ہوئی آواز آئی:
“رُک جاؤ…”
میں پتھر ہو گیا۔
میرے قدم جم گئے۔
سانس رک گئی۔
گلا خشک۔
آواز اتنی ہلکی تھی، اتنی کمزور…
جیسے کوئی بچی بہت مشکل سے بول رہی ہو۔
میں نے پیچھے نہیں دیکھا۔
بس دروازہ کھولا…
بھاگا…
سیڑھیاں اتریں…
ریسپشن سے نکل کر سیدھا سڑک پر آگیا۔
ہوٹل والے پیچھے آوازیں لگا رہے تھے، مگر میں نے پلٹ کر نہیں دیکھا۔
اگلے دن جب میں وہاں سے دوسرے ہوٹل گیا،
رات کو اپنا فون چیک کر رہا تھا۔
فون میں ایک تصویر تھی
جو میں نے کھینچی ہی نہیں تھی۔
تصویر ہوٹل کی راہداری کی تھی…
اور پیچھے دور ایک چھوٹی لڑکی کھڑی تھی۔
چہرہ دھندلا،
بال بکھرے،
اور ایسا لگ رہا تھا جیسے وہ میرے آگے آگے چل رہی ہو۔
میں نے وہ تصویر ڈیلیٹ کی۔
لیکن کبھی کبھی لگتا ہے جیسے وہ
خود بخود دوبارہ آ جائے گی۔
کیونکہ ایسی چیزیں…
صرف عمارتوں میں نہیں رہتیں۔
وہ کبھی کبھی انسان کے ساتھ بھی آجاتی ہیں۔
ہماری اور ایک خوفناک سچی کہانی پڑھیں 👇👇۔
