" حسد "
تحریر: فرزانہ خان
ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک بادشاہ ہوا کرتا تھا جو اپنے وزیر کی اخلاقیات کی وجہ سے بہت متاثر تھا اور جس کی وجہ سے وہ بادشاہ کی توجہ کا خاص مرکز بنا رہتا تھا، لیکن وہی بادشاہ کا مقرب خاص جوکہ وزیر کی اعلی کارکردگی اور بادشاہ کے دل میں اس کےلیے خاص مقام کی وجہ سے سخت نفرت کرتا تھا چنانچہ اس نے منصوبہ بنایا کہ وہ بادشاہ کے دل میں وزیر کےلیے نفرت پیدا کرے گا اور اس وزیر کو بادشاہ کے ہاتھوں قتل کروائے گا ...
ایک دن دربار میں کسی خاص دعوت کا احتمام کیا گیا تھا اس نے موقع پاکر بادشاہ سے کہا کہ آپ کا وزیر آپ کے سامنے اچھا بنتا ہے جبکہ غیر موجودگی میں آپ کو برا بھلا جانتا ہے اور یہ بھی کہتا ہے کہ بادشاہ کے منہ سے بدبو آتی ہے یہ سن کر بادشاہ کو بہت غصہ آیا اور اس نے کہا کہ " اگر یہ تمھاری یہ بات جھوٹ نکلی تو تمھارا سر تن سے جدا کردیا جائے گا"
جس پر اس نے کہا کہ " منظور ہے بادشاہ سلامت آپ کھانے کے باد اسے بلا لیجیے گا آپ کو حقیقت کا علم ہو جائے گا "
اور وہ جا کر وزیر کے ساتھ کھانا کھانے لگا اور باتوں ہی باتوں میں اس نے وزیر کو لہسن کھلا دیا ...
اب کھانے سے فارغ ہو کر جب بادشاہ نے وزیر کو بلوایا تو وہ گھبرا گیا کہ میرے منہ سے تو لہسن کی بدبو آرہی ہے اگر میں بادشاہ کے پاس گیا تو انھیں یہ بات سخت ناگوار گزرے گی اس نے منہ کو ہاتھ سے ڈھک لیا اور اسی طرح بادشاہ کے سامنے حاضر ہوا، اب جبکہ مقرب خاص اس ساری صورتحال کو چور نظروں سے دیکھ رہا تھا تو وہ بہت خوش تھا کیونکہ بادشاہ کو اس کی جھوٹی کہانی پہلے ہی بتا کر غصہ دلا چکا تھا اور وزیر نے بھی اپنے منہ کے آگے ہاتھ رکھا تھا لیکن اسے کیا معلوم تھا کہ آج اس کی احتیاط ہی اس کی سب سے بڑی دشمن بننے والی ہے چنانچہ اس کا منصوبہ کامیاب ہوتا نظر آرہا تھا اب جیسے ہی وزیر بادشاہ کے سامنے منہ ڈھکے ہوئے حاضر ہوا تو یہ منظر دیکھ کر بادشاہ کا خون کھول اٹھا، بادشاہ نے اس سے دربار کے معاملات کے متعلق سوال کیے اور اہم امور پر بات چیت کی لیکن درحقیقت بادشاہ کا مقصد تو اسے جانچنا تھا جس میں وہ بیچارہ بری طرح پھنس چکا تھا بادشاہ نے یہ بھی محسوس کیا کہ آج وزیر اس سے ایک خاص فاصلہ بنا کر کھڑا تھا جیسے واقع میں بادشاہ ایک غیر نفاست پسند انسان ہو ... اب بادشاہ کی برداشت جواب دے چکی تھی چنانچہ ....
بادشاہ نے غصے سے وزیر کو ایک مکتوب دیا اور حکم دیا کہ فلاں بادشاہ کے پاس جائو اور میرا مکتوب اس تک پہنچائو لہزا وہ بادشاہ کے حکم کو بجا لاتے ہوئے نکل پڑا، محل کے دروازے پر بادشاہ کے مقرب خاص نے روانگی کی وجہ پوچھی اور اس نے سبب بتا دیا یہ سب سنتے ہی اس کی آنکھوں میں لالچ کی چمک جاگ اٹھی اس نے سوچا کہ بادشاہ ضرور اسے ہیرے جواہرات سے نوازنے والا ہے لیکن ان پر صرف میرا حق ہے لہزا اس نے وزیر کو روکا اور کہا کہ
" تم یہ مکتوب میرے حوالے کرو بادشاہ کا حکم ہے کہ اب یہ مکتوب میں لے کر جائوں" جس پر وزیر نے کہا کہ " بادشاہ نے مجھے تو نہیں کہا "
تو اس شخص نے کہا
" میں بادشاہ کا نام لے کر جھوٹ کیسے بول سکتا ہوں نہیں یقین تو جا کر بادشاہ سے پوچھ لو"
اب وزیر مطمئن ہو گیا اور مکتوب اور تحائف اس کے حوالے کر کے محل میں آ گیا ...
اب جب یہ منافق شخص مطلوبہ مقام پر پہنچا تو وہا کے بادشاہ کو اپنی سلطنت کا سلام اور تحائف پیش کرنے کے بعد مکتوب بادشاہ کے حوالے کردیا اب وہ مکتوب جیسے ہی بادشاہ نے پڑھا تو حیران کن انداز میں اس کی طرف دیکھنے لگا اور دیکھتے ہی دیکھتے اس شخص کا سر تن سے جدا کردیا ... درحقیقت بادشاہ نے مکتوب میں لکھا تھا کہ جو شخص مکتوب لے کر آیا ہے یہ میرا مجرم ہے مکتوب پڑھتے ہی اسے قتل کردیا جائے ...
دوسری طرف اگلے دن محل میں جب بادشاہ نے وزیر کو دیکھا تو اسے حیرت کا جھٹکا لگا کہ یہ ابھی تک زندہ کیسے اس نے فوراً اسے بلوایا اور پوچھا کہ وہ گیا کیوں نہیں تو وزیر نے رات ہونے والا سارا واقع بادشاہ کو سنا دیا, بادشاہ سوچ میں پڑ گیا کہ اس نے میرے نام سے جھوٹ منسوب کیوں کیا ساتھ ہی بادشاہ کو یقین ہو گیا تھا کہ جو اس کی جگا وہا جا چکا ہے وہ اب واپس نہیں آیے گا، بادشاہ نے وزیر سے غصے سے سوال کیا " کہ تجھے کیا مجھسے بدبو آتی ہے تو بہت نفیس انسان ہے نا میرے پاس آکر منہ کے آگے ہاتھ رکھ کر بات کرنا کیا میری بے عزتی نہیں؟؟؟ "
یہ سنتے ہی وزیر پریشان ہو گیا اور وضاحت دینے لگا
"نہیں بادشاہ سلامت دراصل اس دن کھانے کے دوران فلاں شخص نے مجھے لہسن کھلا دیا تھا اور اس لیے مجھے اپنے منہ کے آگے ہاتھ رکھنا پڑا کہ کہیں اس کی بدبو آپ کو نا جائے"
بادشاہ نے جب یہ سنا تو سارا معاملہ سمجھ گیا اور اس شخص کی مکاری بھی آشنا ہو گئی بادشاہ نے وزیر سے کہا " تم ہمیشہ ایک بات دہراتے تھے کہ نیک انسان اپنے عمل سے جانا جاتا ہے اور برے شخص کےلیے اس کی برائی ہی کافی ہے آج یہ بات درست ثابت ہوئی اور مجھے سمجھ بھی آئی وہ وہاں اپنی برائی اور حسد کا انجام پا چکا اور یہاں تم اپنی سچائی اور اچھائی کا ...
دوستو اس کہانی سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ حسد کرنے والا کبھی کامیاب ہو ہی نہیں سکتا یہی میرے اللہ کا فرمان ہے حسد انسان اسی صورت میں کرتا ہے کہ اللہ کی عطا کردہ نعمتوں کا شکر کرنے کے بجائے انھیں کم تر سمجھے اور اپبی زندگی کا موازنہ دوسروں سے کرنے لگے یاد رہے ہم جس حال میں بھی ہیں اللہ نے ہمیں لاکھوں لوگوں سے بہتر بنایا ہے ہم میں سے بہت سے لوگ اپنی زندگی کو بیکار اور معمولی سمجھتے ہیں جبکہ ہم یہ نہیں سوچتے کہ ہمارے جیسے زندگی بھی لاکھوں لوگوں کا خواب ہے اس لیے ضروری ہے کہ ہم اپنی زندگی کو سمجھیں اور اللہ کا شکر ادا کریں کہ ہماری صرف خطائیں ہیں اور اللہ کی صرف عطائیں ہیں
اپنی خاص دعاؤں میں یاد رکھیے گا
اللہ ہمیں حاسدین کے حسد سے مح
فوظ رکھے آمین ثم آمین یا رب العالمین
