چور اور بادشاہ کی بیٹی
کسی زمانے میں ایک چور تھا۔ ایک رات وہ ایک بادشاہ کے محل میں چوری کرنے کے ارادے سے داخل ہوا۔ محل کے ایک کمرے سے بادشاہ اور اس کی بیوی کی گفتگو کی آواز آرہی تھی۔ وہ رک کر سننے لگا۔ اگرچہ کسی کی بات چپکے سے سننا غلط اور ناجائز عمل تھا لیکن چور تو چوری ہی کرنے آیا تھا.... اسے اس سے کیا فرق پڑتا؟
اس نے سنا کہ بادشاہ اپنی بیوی سے کہہ رہا ہے میں اپنی بیٹی کی شادی ایسے آدمی سے کروں گا جو نہایت " متقی پرہیزگار اور اللہ والا ہو۔
یہ سن کر چور کے دل میں خیال آیا کیوں نہ میں خود کو ایسا ظاہر کروں کہ بادشاہ اپنی بیٹی کی شادی مجھ سے کر دے؟ حرص جاگ اٹھی۔ وہ چوری کا ارادہ بھول گیا اور فریب کی منصوبہ بندی میں لگ گیا۔
گھر پہنچ کر دیر تک سوچتا رہا کہ کامیابی کا راستہ کیا ہو۔ آخر ایک ترکیب سوجھی... بادشاہ کے محل کے قریب ایک مسجد ہے، میں وہاں جا کر بزرگوں جیسا لباس اور انداز اپنا لوں پھر دن رات عبادت میں مشغول رہوں۔ اس طرح میری شہرت پھیل جائے گی اور شاید بادشاہ مجھ پر نظر کرم کر دے۔
چنانچہ وہ اپنے منصوبے کے مطابق مسجد میں جا کر عبادت میں مشغول ہو گیا۔ اس نے نماز ذکر تلاوت اور مراقبے کو معمول بنا لیا۔ دن گزرتے گئے اور لوگوں میں چرچا ہونے لگا کہ کوئی بہت بڑا ولی آ گیا ہے جو ہر وقت عبادت میں مصروف رہتا ہے۔ آخر یہ خبر بادشاه تک بھی جا پہنچی۔
بادشاہ نے سوچا میں نے تو اپنی بیٹی کے لیے متقی اور پرہیزگار شخص کا انتخاب کرنا تھا... یہ نوجوان تو بالکل ویسا ہی معلوم ہوتا ہے۔
چنانچہ اس نے اپنے وزیر کو پیغام دے کر بھیجا۔ وزیر ادب سے مسجد پہنچا اور کہا میں بادشاہ سلامت کی طرف سے ایک پیغام لے کر آیا ہوں۔ وہ " چاہتے ہیں کہ آپ ان کی بیٹی کے لیے رشتہ قبول فرمائیں۔
یہ سن کر وہ شخص کچھ دیر خاموش رہا، پھر اس کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔ وزیر نے پوچھا، کیا بات ہے؟
وه بولا
ای وزیر محترم میں اصل میں ایک چور تھا۔ ایک رات بادشاہ کے محل میں چوری کے ارادے سے گیا تھا، وہیں میں نے بادشاہ کی باتیں سنیں۔ اسی حرص میں میں نے یہ بھیس بدلا، مگر یہاں آکر میرا دل بدل گیا۔ میرا رب مجھے اپنی طرف بلا لے گیا۔ اب مجھے نہ مال چاہیے، نہ رشتہ نہ دنیا... میرے لیے میرا خدا ہی کافی ہے۔
بے شک جب عبادت حقیقت میں عبادت بن جائے، نماز دل سے پڑھی جائے، ذکر سچا ہو... تو یہی عبادت انسان کو
برائیوں سے روک دیتی ہے۔
