چلہ کشی کی آخری رات
ماضی کے اوراق سے ایک سچی آپ بیتی
تحریر: فرزانہ خان
چاند دور آسمان پر گھنے باد لوں کی اوٹ میں چھپا ہوا تھا۔ رات کا پہلا پہر ختم ہو کر گہری تاریکیوں کو سدا دے رہا تھا۔اس بار اکتوبر ختم ہوتے ہی ٹھنڈ گویا یکلخت ہی آن وارد ہوئی تھی۔ کھلے میدانوں میں ٹھنڈ کچھ زیادہ ہی برہنہ ہوئے گھومتی ہے۔میں آبادی سے کوئی دو میل دور ویرانوں میں بیٹھا ہوا تھا۔
یہ رات کا پرسکوت وقت تھا۔ ہر طرف گہری تشویشناک خاموشی بھنبھنا رہی تھی۔ سیاہ فام اندھیرے کے ڈراؤنے عفریت رینگتے ہوئے محسوس ہو رہے تھے۔ دور دور تک کوئی آواز نہ گونج رہی تھی۔مدھم سی چلتی ہوئی ہوا سے ٹھنڈ کا شدید احساس میرے وجود میں سرایت کرنے لگا تھا۔
یہ ایک وسیع و عریض بيابان دشت نما میدان تھا جہاں صرف ویرانی ہی ویرانی تھی۔ کہیں کہیں اگی ہوئی جنگلی گھاس اور کانٹے دار جھاڑياں دہشت پھیلا رہی تھیں۔یہاں آتے جاتے ہوئے مجھے مہینہ سے اوپر ایام ہو چکے تھے۔آج میں قدرے پرجوش تھا اور شاید اندر کہیں خوف بھی اچھل رہا تھا۔ ڈر کا زہریلہ ناگ مجھے اندر سے ڈس رہا تھا۔یوں تو سوا مہینہ تک ہر رات قیامت خیز تھی۔دہشت بھری ہولناک راتوں کا یہ سفر میں نے تن تنہا ہی سہا تھا۔ اس کیفیت میں مجھے خود پر قابو رکھنا ہی میری نجات تھی سو میں آج بھی سنبھل چکا تھا۔
میرے چلہ کی آج آخری رات تھی۔کوثر کو آج میرے روبرو حاضر ہونا تھا اور پھر اس سے عہد و پیمان کرنا تھا۔ یہ سب سننے میں سادہ سی بات لگتی ہے لیکن یہ ایک پرخطر کام تھا۔کبھی كبهار شوق انسان کی جان تک لے ڈوبتا ہے۔ میرے ذہن کے زاویے گویا چکرا سے گئے تھے۔میری سوچ مجھے دہلا گئی تھی پر میں ثابت قدم رہا۔۔۔!
وقت مقرر آن پہنچا تھا اور پھر میں نے اپنا ورد پکارنے کی تیاری شروع کردی۔
ہمیشہ کی طرح آج بھی میں نے لوہے کی چھری سے ایک گول نما تنگ سا دائرہ کھینچا اور اس کے اندر بیٹھ گیا۔ زمین کچی تھی سو دائرہ لگانا آسان کام تھا۔یہ چلہ زمین پر براجمان ہو کر پڑھنے والا تھا۔میرا رخ مشرق کی اور تھا۔ دور دور تک گہرا سکوت میری ہی سرگوشیاں کرتا محسوس ہو رہا تھا۔ چاند ابھی بھی سياهی مائل سفید بادلوں میں دبكا ہوا بیٹھا تھا۔ہر طرف گھٹا ٹوپ کالا اندھیرا ہر چیز کو ہڑپ کرتا جا رہا تھا۔ اندھیروں کی آغوش میں بیٹھے ہوئے مجھے خود سے ہی وحشت محسوس ہونے لگی تھی۔ مینے وقت ضائع نہ کیا اور اپنا ورد پڑھنا شروع کر دیا۔ آج بھی ورد شروع کرتے ہی میرے چہار سو عجیب و غریب سی بھنبھناہٹ گونج اٹھی تھی۔ یوں جیسے بیشمار مدھم سی ابھرنے والی آوازیں آپس میں ٹکرا کر معدوم ہو کر رہ جاتیں۔۔۔جنہیں سمجھنا ناممکن تھا۔ کبھی كبهار میرے سر کے اوپر سے کوئی تیز رفتار پرندہ اپنے لمبے پر پھڑپھڑاتا ہوا گزر جاتا اور شدید اندھیرے میں وه دکھائی نہ دیتا تھا۔ جبکہ اسکے پروں کی بھاری سی پھڑپھڑاہٹ دور دور تک سنائی دیتی کہیں گم ہو جاتی۔۔یہ لمحات روح کو جھنجوڑ کر رکھ دیتے تھے ۔۔
مجھے پڑھتے ہوئے ابھی کچھ ہی دیر گزری تھی کہ اچانک ہر طرف ماتم زدہ سی آوازیں گونجنے لگی۔۔جیسے کئی ساری عورتیں درد اور تکلیف میں رو رہی ہوں۔انکی چیختی ہوئی آوازوں میں ہولناک دہشت چنگھاڑ رہی تھی جسے شاید کوئی کمزور دل انسان برداشت نہ کر سکتا تھا۔ میں خود پر بمشکل قابو ڈالے بیٹھا رہا اور اپنا ورد جاری رکھا۔ اندھیرے میں ان عورتوں کے وجود دکھائی نہ دے رہے تھے ہاں البتہ انکے بین کرنے کی پھٹی ہوئی آوازیں مسلسل گونج رہی تھیں۔سنسان ویرانے میں خوفناک آوازوں کا میلہ سا لگ چکا تھا۔ سرد موسم کے باوجود دہشت کے مارے میرا وجود پسینہ چھوڑ چکا تھا۔ابھی میرے ورد کی آخری تسبیح باقی تھی۔میں تیز رفتاری سے پڑھتا جا رہا تھا۔ خوف کے احساس کی وجہ سے کبھی كبهار میری زبان لڑکھڑا سی جاتی تھی اور یہ بات میری جان کے لئے گویا موت تھی۔ ورد کے الفاظ بھول جانے پر یہ غیر مرئی مخلوق انسان کے جسم سے روح کھینچ لیا کرتی ہے۔۔میرا سارا دھیان ورد پر تھا لیکن وه بھیانک ماحول مجھے ناکام کرنے پر تلا ہوا تھا۔
میں سر جھکا کر بیٹھا ہوا ورد پکار رہا تھا۔ ناچاہتے ہوئے بھی میرے کان ارد گرد کے ماحول کو سننے کی جانب کھڑے ہو رہے تھے۔۔وہ ماتمی آوازیں اچانک بند ہو گئی تھیں۔پورے ویرانے میں ایک بار پھر سے گہری تشویشناک خاموشی کا راج چھا گیا تھا۔ میں اندر سے پرسکون تھا کہ میری آخری تسبیح اب ختم ہونے کو تھی۔
ابھی کچھ دانے باقی تھے۔۔آسمان پر چاند اب مکمل نظر آنے لگا تھا۔ دھودھیا سفید چاندنی آسمان سے برستی ہوئی اب زمین پر گر رہی تھی۔ چاندنی میں وه ویران دشت دور دور تک مدھم سا دکھائی دینے لگا تھا۔ میری نگاہ ارد گرد گھومتی ہوئی سامنے کی اور جا کر رک گئی تھی۔ بہت دور مجھے کوئی سفید لباس میں ملبوس کوئی ہیولہ سا دکھائی دے رہا تھا۔ اس ہیولے کے ارد گرد کالی سياهی سی بکھری محسوس ہو رہی تھی۔۔جیسے اس نے کالی چادر اوڑھ رکھی ہو یا شاید میرا وہم ہو۔ ۔۔دور سے ٹھیک پہچاننا بہت مشکل تھا۔
وه ہیولہ میری ہی طرف چلتا ہوا آ رہا تھا۔
کوئی بھولا بھٹکا مسافر یا پھر کوئی چور۔۔۔کوئی بھوت یا بدروح ہوگی۔۔میرے ذہن میں مختلف وہم و گمان پیدا ہو رہے تھے۔۔۔اور پھر میں اندر ہی اندر ان خیالات کو جھٹک دیا جو کوئی بھی ہو۔۔مجھے کیا۔ ۔!!! مجھے تو کوثر کے حاضر ہونے کا انتظار تھا۔ ۔۔ میں ایک بار پھر سر جھکا کر پڑھنے لگا تھا۔ کوثر کوئی پری تھی یا کوئی جن زادی۔۔۔ پتہ مجھے بھی نہیں تھا۔ مجھے تو بس کسی نے وه ورد بتایا تھا کہ اس چلہ میں کوثر حاضر ہوتی ہے۔۔اور میرے شوق نے مجھے ان ویرانوں میں پڑھنے بیٹھا دیا۔۔۔۔ اور آج آخری رات تھی۔ لیکن کوثر شاید ورد مکمل ہونے پر ہی حاضر ہوگی۔ ۔۔ میرے ذہن میں سوچیں گڈ مڈھ سی ہو رہی تھیں اور اس کشمکش میں میرا ورد آخر کار مکمل ہو ہی گیا۔ ۔
میں چپ سادھ کر بیٹھ چکا تھا۔ میری نظر ایک بار پھر سامنے کی اور اٹھی۔میں اس سفید فام ہیولے کو دیکھنا چاہتا تھا کہ آیا وه کون ہے۔۔لیکن وه ہیولہ مجھے کہیں دکھائی نہ دیا تھا۔ میری نگاہیں چاروں سمت اسے تلاش کر چکی تھی پر وه نجانے کہاں گم ہو گیا تھا۔ یہ حیرت انگیز تھا۔ میری پیشانی پر آئے ہوئے بل مجھے اس پراسرار ہیولے کی گمشدگی پر اکسانے لگے تھے۔ وه آخر کون تھا۔رات کے اس پہر ان ویرانوں میں یوں بھٹکنا کسی عام انسان کا کام نہیں ہو سکتا۔ ۔ میں کافی دیر انہی سوچوں میں ڈوبا رہا۔وسیع و عریض ویران صحرائی میدان کی اجڑی ہوئی آغوش میں وہاں میں اکیلا بیٹھا ہوا تھا۔ وہاں پر کہیں کہیں اگی ہوئی لمبی جنگلی گھاس اور جھاڑیوں کے نیچے اندھیرا پھیلا ہوا تھا۔ میری پھٹی ہوئی نگاہ چاندنی رات میں ان اندھیروں کے جھنڈ میں گویا اندھی ہو جاتی تھی۔شاید وه ہیولہ ان اندھیروں میں چھپا ہو۔ یہی وجہ تھی کہ میں نا چاہتے ہوئے بھی اسے ڈھونڈتا رہا پر وه مجھے دکھائی نہ دیا تھا۔ حالانکہ اسے تلاش کرنا میرے لئے بے سود تھا۔ مگر پھر بھی وه اجنبی شخص میرے ذہن میں ایک خلش سا بن بیٹھا تھا۔ بہت مشکل سے وه گمنام پرچھائی میرے ذہن سے معدوم ہوئی اور مجھے یاد آیا کہ مجھے اپنے چلہ کی حاضری کو سوچنا چاہئے۔یہی تو میرا مقصد تھا۔ ۔شاید وه ہیولہ بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی تھا تا کہ میں خیالی طور پر منتشر ہو جاؤں اور میرا عمل ناکام ہو جائے۔ ۔۔ میں نے اس ہیولے کو ذہن سے جھٹکا اور کوثر کی آمد پر دھیان دینا شروع کر دیا۔
ابھی کچھ ہی لمحات گزرے تھے کہ اچانک ایک طرف سے چھن چھناہٹ کی سریلی سی مدھم آواز سنائی دینے لگی۔ میری نگاہ فوراً اس طرف رخ پھیر گئی تھیں۔ فضا میں بھینی بھینی سی معطر خوشبو میرے نتھنوں سے گزر کر میرے دل و دماغ کو مسحور کرنے لگی تھی۔ مجھے چاندنی رات کی نرم سفیدی میں وہاں ایک سایہ سا دکھائی دے رہا تھا۔ وه صنف نازک تھی جو ایک سلیقے سے اور ناز و نین بھرے انداز میں چلتی ہوئی میری ہی طرف بڑھتی چلی آ رہی تھی۔ میرا دل ایک بار دھڑک اٹھا تھا اور روم روم حرکت میں آ گیا تھا۔ فضا میں بکھری پڑی اس دلربا خوشبو میری روح میں گھلتی جا رہی تھی نجانے وه کس طرح کی خوشبو تھی نہ سمجھ میں آ رہی تھی اور نہ پہلے کبھی ایسی خوشبو سونگھی تھی۔وه واقعی لاجواب اور نایاب سینٹ تھا۔ اس ماہ تاب چہرے والی عورت نے سفید فام لباس زیب تن کیا ہوا تھا جس پر شیشے جڑے ہوئے تھے چاند کی کرنیں جب لباس پر پڑتی تو وه اور بھی زیادہ چمک اٹھتا تھا۔ اس کے پیروں میں پائل وقفہ وقفہ سے اٹھتے ہوئے قدموں کے ساتھ ایک لے میں گویا پرترنم ساز بجا رہی تھی۔ اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے وه میرے سامنے آن کھڑی ہوئی۔وه خاموشی اختیار کیے ہوۓ تھی اور میں سکتے کے عالم میں اس کے حسن و جمال میں کہیں گم تھا۔ وه بہت خوبصورت تھی۔
5 فٹ لمبی اور بھرے ہوئے جسم میں تراشی ہوئی وه کوئی عظیم مصور کا شاہکار لگ رہی تھی۔ کھلے ہوئے کسی گلاب کے نازک پھول جیسے گول مٹول گال اور پنکھڑیوں جیسے کومل سرخی مائل ہونٹ اسے اور بھی پرکشش بنا رہے تھے۔ لمبی پلکوں کے حسین غلاف میں جھپکتی ہوئی موٹی لمبی سی ترچھی نیلگوں آنکھیں ہر دل و جان کو گویا قتل کر دینے والی تھیں۔ اسکے سیاہ کھلے ہوئے گیسو کمر سے قدرے نیچے تک لٹک رہے تھے۔ وه صراحی نما جسامت میں قیامت خیز جلوہ انگیز تھی۔ اسکے خوبصورت چہرے کے نقش و نگار اور جسم کے خدوخال بہت حسین و جمیل تھے۔ وه میرے بہت قریب کھڑی تھی اور میں بیٹھا ہوا اپنی اٹھی ہوئی نگاہوں سے اسے بغور دیکھتا ہوا اسکے حسن و جمال میں کہیں ڈوبا پڑا تھا۔
اول اسی کو ہی بولنا تھا۔چلہ کے اصول کے مطابق چلنا ہی بقا تھی۔ سو میں تو ویسے بھی اس کے جمال کے جلووں میں گرفتار ہو کر رہ گیا تھا۔۔مجھے نہیں معلوم کہ یہ لمحات کتنی دیر تک رواں رہے تھے۔ ہاں البتہ جب اس کی شیریں آواز میری سماعت سے ٹکرائی تو میں یکلخت ہوش میں آ گیا تھا۔
مجھے کیوں بلایا ہے !؟؟ ایک پرتبسم مسکراہٹ کے ساتھ اسکے لبوں سے یہ سوال مجھ پر ہاتھ اٹھا چکا تھا۔۔بظاہر وه سادہ لہجے میں بولی تھی مگر اس کے مزاج کی تپش مجھے واضح محسوس ہوئی تھی۔ جیسے وه یہاں حاضر ہو کر خوش نہ ہو۔ یہ بھی سچ ہے کہ کوئی کسی کے تابع ہو کر خوش کیونکر ہوگا۔ ۔!!!
تم سے دوستی کرنے کے لئے بلایا ہے۔ ۔میں نے سمبھلتے ہوئے مختصر جواب دیا۔
دوستی کس وجہ سے کرنی ہے!؟ ایک بار پھر اسکی آواز کی نرمی میرے کانوں میں رس گھول گئی۔وه قدرے دھیمے سے لہجہ میں بولی۔
تا کہ تم دنیا کے ہر کام میں میری مدد کرو۔ میں نے سپاٹ لہجہ میں کہا۔
میرا جواب سن کر وه مجھے بہت غور طلب نگاہوں سے گویا گھورنے لگی تھی۔جبکہ میں خود بھی اسے گہری دلچسپی سے دیکھ رہا تھا۔ وه بلکل یوں دکھائی دے رہی تھی جیسے دن کی روشنی میں کسی کو دیکھا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ اسکی آنکھوں کے رنگ بھی واضح دکھائی دے رہے تھے۔ یہ حیران کن بات نہ تھی۔ وه مکمل طور پر حاضر کھڑی تھی۔
میرا دل پرزور دھڑک رہا تھا۔ ایک تجسس آمیز خوشی بھی تھی اور خفیف سا ڈر بھی۔ ۔۔ ایک عجب سی صورت حال میرے اندر موجزن تھی۔
اچھا ٹھیک ہے۔میری ایک شرط تم پر لازم ہوگی۔ شرط طے کرنا تمہاری مرضی ہوگی۔ اور پھر اس شرط سے ہٹنا تمہیں نقصان پہنچا سکتا ہے۔ اور میں بھی واپس لوٹ جاؤں گی۔ دوبارہ نہیں آؤں گی۔
وه میری طرف بغور دیکھتے ہوئے وارد ہوئی۔
ہاں تم شرط بیان کرو۔ ۔میں طے کر لوں گا۔میں نے پرتجسس لہجے میں جواب دیا۔
ٹھیک ہے۔ ۔ تم مجھے کسی ایک روپ میں اپنے تابع رکھ سکتے ہو۔ دوست یا بیوی۔۔۔
دوست بنا کر رکھو گے تو تم کبھی کسی عورت کے ساتھ دوستی نہیں کرو گے۔ شرط سے پهرنا تمہاری اس دوست کے لئے موت ہوگا۔
بیوی بنا کر رکھو گے تو تم کبھی شادی نہیں کرو گے۔ شادی کی تو تمہاری موت میرے ہاتھوں اٹل ہے۔
وه اس بار اپنا فیصلہ سنا کر میری سوچوں کو پڑھنے لگی تھی اس کے ہونٹوں پر بکھرا ہوا تبسم مجھے کاٹنے لگا تھا۔
مجھے اس بات کا پتہ ہی نہ تھا کہ یہ حاضری ایسی کوئی شرط بھی رکھتی ہے ورنہ میں یہ چلہ کبھی نہ کرتا۔
لیکن اب فیصلہ کرنا ضروری اور مجبوری دونوں ہی تھا سو میں نے اسے دوست بنانے کی شرط طے کر لی۔
اس نے اپنا نام مجھے کوثر بتایا تھا۔ اور کچھ ایسی باتیں بھی بتائی جو اس کے شوق سے منسلک تھیں۔ میں وه بیان نہیں کروں گا۔۔کوثر تھی تو مسلمان مگر صرف نام کی۔ ۔۔ اصل میں وه ہوس و حرص سے بھری پڑی تھی۔۔عام انسان ایسی مخلوق کی ہوس کے آگے جان کھو بیٹھتا ہے۔ ۔
وه خوش تھی۔۔۔ میری نظروں سے اوجهل ہو چکی تھی۔ وه تو جا چکی تھی لیکن مجھے پریشان کر گئی تھی۔ میری سوچیں مجھ پر آرا بن کر پھرنے لگی تھیں۔ میں گویا اپنے ہی بنے ہوئے جال میں پھنس چکا تھا۔۔کوثر کو تابع تو کر لیا تھا لیکن اس سے آزادی کا طریقہ معلوم نہ تھا۔
میں بوجهل قدموں سے ڈگمگاتا ہوا واپس گھر آ چکا تھا۔ نیند بھی کہیں فوت ہو چکی تھی۔ اور پھر الجھن کا شکار۔۔۔ میں رات بھر عجب سی کشمکش میں جاگتا رہا۔ ۔۔
مجھے لالچ تھا کہ علم کی دنیا میں ایک منفرد طاقت میرے تابع ہو جائے۔ ۔۔ منفی راستے مجھے معلوم نہ تھے۔۔ اور اب اگر ایک کوثر نام کی طاقت مجھے ملی تو اسکے منفی راستے مجھ پر عياں ہو گئے۔۔
میں کیا۔۔۔۔!!! کوئی بھی انسان ہر روز آتشی مخلوق کی ہوس و حرص برداشت نہیں کر سکتا۔ ۔۔
اب جب تک مجھے کوثر سے آزادی کا کوئی طریقہ نہ ملا۔۔تب تک اسے اپنے پاس رکھنا مجبوری ہے۔
ایک سال ہو چکا ہے۔۔کوثر میرا ہر کام پل بھر میں کرتی ہے۔وه مجھسے خوش ہے لیکن میں۔۔۔۔۔ میں ہر رات خود کو خود سے بہت دورکرتا جا رہا ہوں۔ ناچاہتے ہوۓ بھی میں ایسی صلیب پر لٹکا پڑا ہوں جہاں سے اترنا میرے بس میں نہیں ہے۔
مجھ پر یہ دور کب تلک چلے گا۔ کچھ خبر نہیں۔
وقت کٹ تو رہا ہے لیکن آرزدہ سا۔۔پریشان سا تکلیف میں كراهتا ہوا۔
ختم شد

