میری بیوی زینت… وہ عورت جس سے میں شدید محبت کرتا تھا۔ یہ کوئی ایک سال پہلے کی بات ہے۔ میں بازار سے سودا لینے گیا تھا۔ مجھے کیا معلوم تھا کہ اتنی دیر میں میری پوری کائنات اجڑ چکی ہوگی۔
جب میں واپس لوٹا تو میرا سب کچھ تباہ ہو چکا تھا۔ میری پیاری بیوی، میری محبت زینت، سیڑھیوں سے گر کر مجھے ہمیشہ کے لیے چھوڑ گئی تھی۔ اس کے سر پر شدید چوٹ آئی تھی۔ ہسپتال لے جانے کا بھی موقع نہ ملا، وہ وہیں دم توڑ گئی۔ میں گھنٹوں اس کا سر اپنی گود میں رکھ کر روتا رہا۔ ہماری محبت کی شادی تھی، اور شادی کو زیادہ عرصہ بھی نہیں ہوا تھا کہ وہ مجھے یوں اچانک چھوڑ کر اپنے آخری سفر پر روانہ ہو گئی۔
یہ سانحہ میرے لیے موت کے پروانے سے کم نہ تھا۔ اس کے علاوہ اس دنیا میں تھا بھی کون میرا۔ جن لوگوں کو زینت کی موت کی خبر ملی، وہ تعزیت کے لیے آ گئے۔ اس کی تدفین بھی میرے جاننے والوں نے کی، ورنہ میں اس حالت میں کہاں کچھ کر سکتا تھا۔ اس کا مسکراتا چہرہ بار بار میری آنکھوں کے سامنے آ جاتا اور میں اسے دیوانہ وار آوازیں دینے لگتا۔
ہم میاں بیوی کے درمیان بےحد محبت تھی۔ جس قدر میں زینت کو چاہتا تھا، وہ بھی مجھے اسی طرح چاہتی تھی۔ ہماری محبت کی مثالیں دی جاتی تھیں۔ جس وقت اسے قبر میں اتارا گیا، میں اس کی میت سے لپٹ کر دھاڑیں مار مار کر رو رہا تھا۔ زینت کے بعد میں کسی دوسری عورت کا خیال تک ذہن میں نہ لا سکا۔ دفتر سے روز بروز غیر حاضری کی وجہ سے نوکری بھی چلی گئی۔ روتے روتے صحت خراب ہو گئی۔
اسے واپس پانے کا جنون میرے سر پر سوار ہو چکا تھا۔ اب میں ہر وقت یہی سوچتا رہتا تھا کہ میں اسے کیسے واپس لا سکتا ہوں۔ آخرکار، محبت میں اندھا ہو کر میں ایک بلیک میجک والے عامل کے پاس پہنچ گیا۔ اس نے بھاری رقم مانگی اور میرا کام کرنے کا وعدہ کر لیا۔ میں نے اس کے بتائے ہوئے طریقے پر عمل کیا، جو ایک الگ کہانی ہے۔
مجھے آج بھی یاد ہے، وہ پورے چاند کی رات تھی۔ میں نے زینت کی قبر کھولی اور تابوت کا ڈھکن ہٹایا۔ اس کا صاف شفاف چہرہ میرے سامنے تھا۔ چاندنی میں اس کے چہرے پر ایک عجیب سا سکون تھا۔ مجھے اسے دیکھ کر دوبارہ شدید محبت محسوس ہوئی۔
بہرحال… میں نے اسے اٹھایا، کندھے پر رکھا اور گھر لے آیا۔ اور یہی میری زندگی کی سب سے بڑی غلطی تھی۔
کاش مجھ سے وہ غلطی نہ ہوتی۔ مجھے جو کچھ کرنے کو کہا گیا تھا، میں نے بالکل ویسا ہی کیا۔ ٹھیک چار گھنٹے بعد زینت کے جسم میں حرکت ہوئی۔ میری زینت نے آنکھیں کھول دیں۔ میں بچوں کی طرح تالیاں بجانے لگا، جیسے کوئی کھویا ہوا کھلونا مل گیا ہو۔ میری خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہیں تھا۔
میں فوراً آگے بڑھا اور اسے گلے لگا لیا۔ لیکن زینت کا جسم سخت اور سرد تھا۔ اس میں پہلے جیسی حرارت نہیں تھی۔ اس کی کالی سیاہ آنکھیں پہلے سے کہیں زیادہ بڑی ہو گئی تھیں، ان کی سفیدی غائب تھی۔ مگر مجھے ان باتوں کی کوئی پروا نہیں تھی۔ میری محبت واپس آ گئی تھی، وہ شخص جو میری پوری زندگی تھی۔ اس کے لیے میں نے بھاگ دوڑ کی تھی، پیسہ پانی کی طرح بہایا تھا، تو مجھے اور کیا چاہیے تھا۔
میں زینت کا ہر طرح سے خیال رکھنے لگا، اسے دنیا والوں کی نظروں سے بچا کر رکھتا۔ پہلے وہ بہت محبت کرنے والی، ہنسی کھلکھلانے والی لڑکی تھی۔ مگر اب والی زینت کے چہرے پر مسکراہٹ کبھی نہیں آتی تھی۔ اس کے چہرے پر ایک عجیب سی سختی، ویرانی اور بے رحمی چھائی رہتی تھی۔ میں ہر وقت اسے خوش کرنے کی کوشش میں لگا رہتا، مگر وہ خوش ہو کر نہ دیتی۔
پھر ایک روز اس نے ایسی خواہش کی کہ میں سکتے میں آ گیا۔ میں اس کے چہرے کو گھور کر دیکھتا رہا، جہاں پہلی بار مجھے اس کے ہونٹوں پر ہلکی سی مسکراہٹ دکھائی دی۔ اس نے مجھ سے انسانی گوشت کھانے کی فرمائش کی تھی، اور ساتھ ہی انسانی خون سے پیاس بجھانے کی۔
یہ سن کر میری ریڑھ کی ہڈی میں سنسناہٹ دوڑ گئی۔ وہ مجھے عجیب نظروں سے غور سے دیکھ رہی تھی، جیسے مجھ سے محبت کا کوئی ثبوت مانگ رہی ہو۔ نہ جانے میں کس طرح اس کی بات مان گیا۔ شاید اسے خوش کرنے کی بے قراری تھی، شاید میرا جنون… شاید میری اندھی محبت۔
جیسے ہی میں نے حامی بھری، وہ منہ کھول کر خوفناک انداز میں ہنسنے لگی۔ میں اسے پھٹی نگاہوں سے دیکھتا رہ گیا۔ بہت عرصے بعد میں نے اسے ہنستے دیکھا تھا، مگر وہ ہنسی مجھے اندر تک ہلا گئی۔
مجھے سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ میرے ساتھ کیا ہو رہا ہے۔ اتنا سخت کام تو مجھ سے عامل نے بھی نہیں کروایا تھا، جس کے لیے میں اب ہاں کر چکا تھا۔ نہ جانے میں کس کے زیرِ اثر تھا، مگر ایک بات پکا تھی… یہ سب میری زینت سے والہانہ محبت کا نتیجہ تھا۔
میں اب ایسا شخص بن چکا تھا جو زینت کے چہرے پر ذرا سی مسکراہٹ لانے کے لیے کچھ بھی کرنے کو تیار تھا۔ میں نے اس سے یہ نہیں پوچھا کہ وہ ایسی فرمائش کیوں کر رہی ہے، کیونکہ میں سمجھتا تھا کہ ایک طویل نیند سے جاگنے کے بعد شاید یہ اس کی ضرورت ہو۔ میں اسے ہر حال میں خوش دیکھنا چاہتا تھا۔ وہ جب مجھے واپس ملی تھی تو بالکل ویسی نہیں تھی جیسے پہلے تھی، اور میں نے اسے دوبارہ ہنسانے کی ٹھان لی تھی۔
یہ سب آسان نہیں تھا، مگر پھر بھی میں نے فیصلہ کر لیا۔ ایک روز میں نے اپنے دوست کاشف کو گھر کھانے پر مدعو کر لیا۔ وہ خوشی خوشی مان گیا، کیونکہ وہ جانتا تھا کہ زینت کے بعد میں کتنا اکیلا ہو چکا ہوں، اور تنہائی مجھے کھا رہی ہے۔ اسے کیا معلوم تھا کہ میں زینت کو واپس پا چکا ہوں، اور آج وہ اسی محبت کی خوراک بننے والا ہے۔
مجھے اندازہ بھی نہ تھا کہ میں زینت کی محبت میں اتنا خود غرض ہو جاؤں گا۔
کھانے کے دوران کاشف مجھ سے دوستانہ باتیں کرتا رہا۔ میں بھی ہنسی مذاق میں اس کا ساتھ دیتا رہا، مگر اندر کہیں ایک آواز مجھے روک رہی تھی۔ وہ کہہ رہی تھی کہ میں جو کچھ کرنے جا رہا ہوں، وہ غلط ہے… یہ انسانیت کا قتل ہے۔ مگر یہ آوازیں اس وقت دب کر رہ جاتیں جب میں کمرے کے اندر کھڑی زینت کو دیکھتا، جو دروازے کی آڑ سے مجھے ایسی نظروں سے دیکھ رہی تھی جیسے مجھ سے رحم کی بھیک مانگ رہی ہو، جیسے یہ خوراک اس کے لیے اتنی ہی ضروری ہو جتنی انسان کے لیے سانس۔۔۔۔
اسے یوں دیکھ کر میری محبت، میرے ضمیر اور میری دوستی پر غالب آ جاتی۔ آخرکار، میں نے اسے بڑی قیمت پر حاصل کیا تھا۔ اگر میں اس کے لیے یہ بھی نہ کر سکتا تو میری محبت پر لعنت تھی۔ اگر یہ ہی محبت کا امتحان تھا تو مجھے پورا اترنا تھا۔
میں نے اپنے اندر ایک نئے عزم اور عجیب سی ہمت کو محسوس کیا اور پرسکون ہو کر بیٹھ گیا۔ زینت بے چینی سے کمرے میں ادھر ادھر چل رہی تھی۔ اس کی بے صبری کا اندازہ مجھے دروازے پر پڑنے والی اس کی گھورتی اور بھاری آوازوں سے ہو رہا تھا۔ وہ بار بار ہاتھ دروازے پر مارتی، جیسے اپنی بے بسی کا اظہار کر رہی ہو، کیونکہ میں نے سختی سے اسے کاشف کے سامنے آنے سے منع کیا ہوا تھا۔ اب طویل انتظار اسے کوفت میں ڈال رہا تھا۔ وہ بس میرے اشارے کی منتظر تھی۔
کمرے سے آتی آوازوں پر کاشف نے خاص دھیان نہیں دیا۔ وہ میرا پرانا اور مخلص دوست تھا، اسے کبھی گمان بھی نہ تھا کہ میں اس کے ساتھ ایسا بھی کر سکتا ہوں۔ اسے یہ خبر تک نہ تھی کہ تھوڑی ہی دیر بعد اس کی موت ہونے والی ہے… اور وہ بھی کسی عام ہاتھ سے نہیں، بلکہ زینت کے ہاتھوں۔
اس کے بعد میں نے کاشف کے سامنے دو پیک رکھے۔ وہ انہیں گٹاغٹ حلق سے اتارنے لگا۔ گلاس خالی ہوتے ہی میں نے اسے دو پیک مزید دیے، اور تھوڑی ہی دیر میں وہ نشے میں دھت ہو کر اول فول بکنے لگا۔ میں نے خود ایک گھونٹ بھی نہیں پیا تھا، اس لیے مجھے نشہ نہیں ہوا۔ کچھ دیر بعد وہ نشے میں ڈوبا خراٹے لینے لگا۔
میں نے آگے بڑھ کر زینت کو کمرے سے باہر آنے کی اجازت دے دی۔ وہ نہ جانے کب سے اسی گھڑی کا انتظار کر رہی تھی۔ اجازت ملتے ہی اس کے چہرے پر ایک لمبی، خوفناک مسکراہٹ پھیل گئی۔ وہی مسکراہٹ جس کے لیے میں یہ سب کر رہا تھا۔ اس ہنسی کے لیے میں کئی قربانیاں دے سکتا تھا۔
میں نے اسے اپنا کام کرنے کی اجازت دے دی۔
زینت فوراً کمرے سے باہر آ گئی۔ میں ایک کونے میں کھڑا سب کچھ دیکھنے لگا۔ زینت نے اپنا منہ کاشف کے نرخرے پر رکھا اور پوری قوت سے دانت گاڑ دیے۔ پھر دبا دب اس کا خون پینے لگی۔ میں پھٹی آنکھوں سے یہ سب دیکھتا رہا۔ اس نے اتنی صفائی سے خون پیا کہ ایک قطرہ بھی نیچے نہ گرا۔
اس لمحے وہ مجھے زینت نہیں لگ رہی تھی، بلکہ کوئی بدروح تھی جو ارد گرد سے بے خبر ایک انسان کا خون چوسنے میں مصروف تھی۔
کاشف نہ جانے کب نیند ہی میں زندگی ہار بیٹھا تھا۔
پھر زینت اس کا گوشت نوچنے لگی۔ اس نے کپڑوں میں چھپائی ہوئی چھری نکالی اور کسی ماہر قصائی کی طرح لاش کے ٹکڑے کرنے لگی۔ اس نے دونوں بازو الگ کیے اور بڑے شوق سے چبانے لگی۔ وہ بالکل میری طرف متوجہ نہیں تھی، یا شاید جان بوجھ کر نظر انداز کر رہی تھی۔
میں حیرت کی تصویر بن کر کھڑا تھا۔ مضبوط اعصاب کے باوجود میری ٹانگیں کانپ رہی تھیں۔ مجھے یہ بھی سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ وہ اتنی مقدار میں کچا گوشت کیسے کھا رہی ہے۔
مجھ سے اب یہ سب دیکھا نہ گیا، اور میں خاموشی سے اپنے کمرے میں چلا آیا۔ نہ جانے کتنی دیر خود کو ملامت کرتا رہا اور روتا رہا۔ پھر جانے کب نیند نے مجھے اپنی گرفت میں لے لیا۔
کسی کے نرم ہاتھوں نے مجھے چھوا تو میری آنکھ کھل گئی۔ وہ زینت تھی، جو بڑے پیار سے میرے بال سہلا رہی تھی۔ میری آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ نہ جانے اسے کیا ہو گیا تھا۔ یہ وہ زینت نہیں تھی جسے میں جانتا تھا… یا شاید یہ میری زینت تھی ہی نہیں۔
میں اکثر اسے اس کا ماضی یاد کرواتا—“ہم دونوں ایک دوسرے سے کتنی محبت کرتے تھے، کتنے خوش تھے، تم میرے لیے مزے مزے کے کھانے بناتی تھیں”—وہ ساری باتیں خاموشی سے سنتی اور سپاٹ چہرے کے ساتھ مجھے گھورتی رہتی، جیسے اسے اپنا ماضی یاد ہی نہ ہو۔
میں ہر بار ہار کر رہ جاتا۔
خیر، دن گزرتے گئے… اور طرح طرح کے خیالات میرے دل و دماغ میں جنم لینے لگے۔ دل محبت کے ہاتھوں مجبور تھا اور…
اس قدم کو دل صحیح کہہ رہا تھا جبکہ دماغ بار بار غلط۔ دل اور دماغ میں جنگ چل رہی تھی۔ مجھے سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ زینت کے جسم میں اس کی اپنی روح ہے یا کوئی شیطانی بدروح قبضہ کر چکی ہے۔ میں نے خود کو یہ سوچ کر پرسکون کیا کہ جو ہونا تھا ہو گیا، اب وہ دوبارہ کوئی گھٹیا فرمائش نہیں کرے گی۔ مگر مجھے کیا پتہ تھا کہ جس بلا کو میں نے گھر میں پالا ہے وہ مجھے ہی نقصان پہنچائے گی۔
مجھے اس عامل نے زینت کے اس روپ کے بارے میں کچھ نہیں بتایا تھا کہ زندہ ہونے کے بعد وہ یہ سب مانگے گی۔ انہوں نے مجھے زینت واپس دے دی تھی، جیسے اب آگے میرا مسئلہ، میرا اللہ جانے۔
اب میں اس میں واضح تبدیلی محسوس کر رہا تھا۔
ایک رات میں سونے کی تیاری کر رہا تھا جب میں نے زینت کو دروازے میں کھڑا پایا۔ اس کی آنکھوں میں میرے لیے عجیب سی محبت تھی۔ شاید میرے کیے ہوئے کام سے خوش تھی۔ اسے خوش دیکھ کر میرے اعصاب ڈھیلے پڑ گئے۔
زینت بدل گئی تھی۔ وہ کھانا بنانے لگی، کپڑے دھونے اور پریس کرنے لگی، گھر کے سارے کام سنبھالنے لگی۔ اس کی یہ تبدیلی میرے لیے خوش گوار حیرت تھی۔ اگر ایک زندگی قربان کر کے میں اسے بدل سکا تھا تو مجھے بالکل افسوس نہیں تھا۔ مجھے یقین ہو گیا تھا کہ یہ میری زینت ہی ہے، کوئی بدروح نہیں۔ لگنے لگا سب ٹھیک ہو جائے گا۔
لیکن یہ میری خام خیالی تھی۔
چند دن بعد اسے پھر انسانی گوشت کی طلب ہوئی۔ اس نے مجھ سے دوبارہ ایک انسان لانے کو کہا۔ میں سر پکڑ کر بیٹھ گیا۔ میں نے سمجھا تھا وہ اب کبھی ایسی بات نہیں کرے گی۔ مگر وہ جیسے میری خدمت کا بدلہ مانگ رہی تھی۔
بالآخر مجھے یہ کرنا ہی پڑا۔
اس بار میں نے فیصلہ کیا کہ کسی مجبور اور غریب شخص کو شکار بناؤں گا۔ گھر سے تھوڑا دور ایک نوجوان کچرے کے ڈھیر سے کھانے کی چیزیں ڈھونڈ رہا تھا۔ میں نے اسے کہا کہ میرے گھر آؤ، تمہیں کھانا دیتا ہوں۔ وہ بھوکا مجبور میرے ساتھ چل پڑا۔
گھر آ کر میں نے اسے کھانا دیا۔ وہ کئی دن کا بھوکا تھا، ٹوٹ پڑا۔ میں نے کھانے میں نشے کی دوا پہلے ہی ملا دی تھی۔ جب وہ کھا چکا تو میں نے کہا، چائے پی کر جانا۔ وہ راضی ہو گیا۔ میں کچن میں برتن دھونے لگا تاکہ دوا اپنا کام کرے۔ جب میں واپس آیا تو وہ گہری نیند میں تھا۔
میں نے زینت کو اشارہ کیا۔ وہ کمرے سے دوڑتی ہوئی آئی اور اس سے لپٹ گئی۔
میں کمرے سے باہر نکل آیا۔ اب مجھ سے یہ سب دیکھنا ممکن نہیں تھا۔
نہ جانے کتنی دیر لگی اسے اپنا کام ختم کرنے میں۔ مجھے صرف اس وقت پتہ چلا جب وہ میرے بیڈ روم میں آئی۔ میں نے چونک کر آنکھ کھولی۔ وہ دنیا بھر کی محبت آنکھوں میں لیے مجھے دیکھ رہی تھی۔ میں نے اسے اپنی باہوں میں بھینچ لیا۔
کئی دن سکون سے گزر گئے۔ اس نے دوبارہ کوئی ایسی خواہش نہیں کی۔ وہ میرا بے حد خیال رکھنے لگی۔ مجھے اب احساس بھی نہیں رہتا تھا کہ میں نے اسے موت کے منہ سے نکالا تھا۔ مجھے لگنے لگا وہ کبھی مجھ سے بچھڑی ہی نہیں تھی۔ اب بچوں کی خواہش بھی ختم ہو چکی تھی۔
ایک ماہ یوں ہی گزر گیا۔
پھر میں نے اس کی بدلتی کیفیت محسوس کی۔
وہ چڑچڑی ہو گئی تھی۔ ہر بات پر لڑنے لگتی۔ جب میں وجہ پوچھتا تو کہتی کہ تمہیں میرا خیال نہیں ہے۔ "احساس نہیں ہے" — یہ لفظ مجھے ہلا کر رکھ دیتے۔ میں تو ہر طرح سے اس کا خیال رکھتا تھا۔
ایک دن وہ حسب معمول جھگڑنے لگی تو میں غصے میں آ گیا۔ میں نے زور دے کر پوچھا کہ آخر مسئلہ کیا ہے۔ آخرکار اس کے دل کی آواز زبان پر آ ہی گئی۔
"اتنے دن سے میں نے انسانی گوشت نہیں کھایا۔ تمہیں میرا خیال نہیں آیا۔ تم اپنی بھوک مٹا لیتے ہو، مگر میری فکر نہیں کرتے۔"
میں تو پہلے ہی غصے میں تھا۔ میرے کانوں سے دھواں نکلنے لگا۔ ایک زوردار تھپڑ اس کے رخسار پر مارا۔ وہ لڑکھڑا کر گر گئی۔ ناک سے خون بہنے لگا۔ میں نے پرواہ کیے بغیر دو اور تھپڑ مار دیے۔ پتہ نہیں مجھے کیا ہو گیا تھا۔ میں نے تو کبھی اس پر آواز بھی بلند نہیں کی تھی۔
اس کا ہونٹ پھٹ گیا تھا۔ پھر مجھے ہوش آیا۔
"یا خدا، میں نے کیا کر دیا؟"
میں خود سے سوال کرتا رہا۔ میں اس کے پاس گیا، اس کے آنسو پونچھے اور اسے گلے لگا لیا۔ مگر اب میرا فیصلہ واضح تھا۔
میں اپنی محبت کے لیے اب مزید کسی بے گناہ کی جان نہیں لوں گا۔
میں نے اسے سمجھایا، "زینت، تم انسان ہو، کوئی درندہ نہیں۔ اب تمہیں یہ عادت چھوڑنی ہوگی۔"
وہ چپ رہی۔
میں اسے اٹھا کر بیڈ روم میں لے گیا اور لٹا دیا۔ مجھے پوری رات نیند نہیں آئی۔
صبح وہ اٹھی تو حیرت کی بات ہے کہ بالکل نارمل تھی۔ اس نے معمول کے مطابق میری خدمت کی، گھر کے کام کیے، شام کو کھانا بنایا۔ مجھے یقین نہ آتا تھا۔ میں نے تو امید چھوڑ دی تھی۔ مگر وہ ٹھیک ہو گئی تھی۔
میں نے اسے معاف کر دیا۔
دو دن بعد کی بات ہے۔ ہم دونوں ٹی وی پر ایک ڈراؤنی فلم دیکھ رہے تھے۔ اچانک ایک آدم خور کے انسان کھانے کا منظر چلا۔ زینت کے چہرے کا رنگ بدل گیا۔ وہ بے چین ہونے لگی۔ میں نے فوراً ٹی وی بند کیا۔
کچھ دیر بعد وہ نارمل ہوئی اور دوسرے صوفے پر جا کر بیٹھ گئی۔ میں نے ٹی وی دوبارہ کھول کر خبریں لگائیں۔
میں وقفے وقفے سے اسے دیکھ رہا تھا۔ باہر سے وہ نارمل تھی، مگر اس کی آنکھوں کی سفیدی غائب تھی۔ مجھے اس کی آنکھوں کی تپش چہرے پر محسوس ہوئی۔ میں نے اس کی طرف دیکھا تو وہ مجھے گھور کر مسکرا رہی تھی۔ میں نے اس کے لبوں کے بیچ دو نوکیلے دانت دیکھے۔
تبھی مجھے خطرے کا احساس ہوا۔
میں سیدھا بیٹھا ہی تھا کہ وہ مجھ پر جھپٹی۔ یوں لگا جیسے کوئی لوہے کی سلاخ میرے جسم میں اتر گئی ہو۔ اس نے میری کلائی میں دانت گاڑ دیے۔ درد سے میں چیخ اٹھا۔ میں نے زور سے اس کے منہ پر گھونسا مارا مگر اسے کوئی اثر نہ ہوا۔ وہ پھر حملہ کرنے لگی۔
میں کمرے سے باہر نکلا اور باہر سے کنڈی لگا دی۔ وہ اندر بند ہو گئی۔
خون بہت بہہ رہا تھا۔ کلائی سے نکل کر کپڑے سرخ ہو رہے تھے۔ میں نے کوشش کی مگر خون بند نہیں ہو رہا تھا۔ فرسٹ ایڈ باکس اندر اسی کمرے میں تھا… جہاں زینت پوری وحشت کے ساتھ موجود تھی۔
میں بے بس ہو گیا۔
اگر باہر رہتا تو موت، اندر جاتا تو بھی موت۔
رات کا تقریباً ایک بج رہا تھا۔ باہر سے مدد لانا ناممکن تھا۔
کمرے میں گہری خاموشی تھی۔ مجھے لگا شاید وہ سو گئی ہے یا بے ہوش ہو گئی ہے۔ میں نے فیصلہ کر لیا۔
یہ زینت نہیں ہے۔
میں نے اس بلا کو واپس بھیجنے کا عزم کر لیا۔
کچن سے تیز دھار چھری اٹھائی، پردے کا ایک ٹکڑا پھاڑ کر زخم لپیٹا۔ پھر میں نے کمرے کا دروازہ آہستہ سے کھولا۔
وہ نظر نہیں آ رہی تھی۔
اچانک پیچھے سے حملہ ہوا۔ وہ دروازے کے پیچھے چھپی ہوئی تھی۔ میں اس کی ہوشیاری پر حیران رہ گیا۔ اس نے پھر زخمی بازو پر حملہ کیا۔ میں نے جھٹکے سے بازو چھڑایا۔ وہ رکنے والی نہیں تھی۔
میں تیار تھا۔
وہ جیسے ہی قریب آئی، میں نے پوری قوت سے چھری اس کی گردن پر پھیر دی۔ وار اتنا تیز تھا کہ اس کی آدھی سے زیادہ گردن کٹ گئی۔ مگر اس کی آنکھوں میں ابھی بھی خوف نہیں تھا۔
میں نے دوسرا وار اس کے پیٹ پر کیا۔ دس انچ کی چھری اندر تک اتر گئی۔ اس کی آنکھیں باہر کو ابل آئیں۔ کچھ لمحوں بعد وہ ساکت ہو گئی۔
زینت کا چہرہ دیکھ کر میں ٹوٹ گیا۔ میں نے اس کا سر اپنی گود میں رکھا اور نہ جانے کب تک روتا رہا۔
صبح ہونے والی تھی۔ میں نے ہاتھ کی مرہم پٹی کی، اس کی لاش کو پلاسٹک میں لپیٹا۔
میرا ضبط دوبارہ ٹوٹ گیا۔ وہیں بیٹھ کر رونے لگا۔
لوگ اپنے محبوب کو ایک بار دفنانے کی ہمت نہیں کرتے… اور میں نے اسے دوسری بار دفنایا تھا۔
دل غم سے پھٹ رہا تھا۔
میں بڑی مشکل سے گھر پہنچا۔
اب مجھے یقین تھا کہ زینت تو اسی دن مر گئی تھی جس دن اسے پہلی بار قبر میں اتارا گیا تھا۔
باقی زندگی مجھے اس حقیقت، اور صرف اس کی یادوں کے سہارے گزارنی تھی۔
اگر کہانی اچھی لگی ہو تو لائک، شیئر اور کمنٹ ضرور کریں۔ ---

