خوفناک واردات
تحریر: فرزانہ خان
(سچا واقعہ ،،جسے تھوڑے ردوبدل سے لکھا گیا ہے. البتہ یہ قتل سیم اسی طرح سے کیا گیا تھا جیسے اس میں بیان ہے)
میری نانو جس کالونی میں رہتی ہیں.اسی کالونی میں ایک گھر ہے.جو آج بھی خالی ہے. کوئی بس نہیں سکا..
پچیس سال پہلے وہاں ایک خوش باش خاندان رہا رہتا تھا..
ماں باپ نے دو بیٹے اور ایک بیٹی.
دونوں بیٹوں کی شادی دو سگی بہنوں سے کروائی...
عافیہ زیادہ خوبصورت تھی جسکی شادی بڑے بھائی واصف سے ہوئی شازیہ شکل وصورت کی نارمل تھی. جسکی شادی ولید سے ہوئی.
ولید کو پہلے دن ہی اپنی بیوی پسند نہ آئی،بلکہ بھابھی پر نظریں ٹک گئ.
اور اس طرح وہ ہستا بستا گھر ویران ہو گیا.
ولید کسی صورت اپنی بیوی کو رکھنا نہیں تھا،اور وہ کھلم کھلا اس بات کا اعتراف کر چکا تھا،،اسے بھابھی پسند ہے.
میں بھائی سے زیادہ خوبصورت تھا تو میری بیوی بھی خوبصورت ہونی چاہیے تھی.
شادی کے دو ماہ بعد ولید نے اپنی بیوی کو طلاق دے دی۔
اب وہ مکمل آزاد تھا اور بھابھی کے پیچھے پڑ گیا۔
ماں باپ نے ولید کو گھر سے نکال دیا.
لیکن کچھ ہی عرصے بعد وہ واپس آ گیا۔اور معافی مانگنے لگا،،
بڑے بھائی سے بھی وعدہ کیا اب بھابھی کو بہن ہی سمجھے گا.
بڑے بھائی واصف نے بھی سوچ اب تو میرے دو بچے ہو چکے ہیں اب وہ کیونکر میری بیوی کو تنگ کریں گا۔۔
لیکن ولید کے ارادے ہی کچھ اور تھے.
شروع میں اس نے بھابھی کو اپنے جال میں بھنسانے کی کوشش کی ،
عافیہ نے اس بات کی شکایت کی.
ماں باپ نے ولید کو گھر کی بیٹھک تک محدود کر دیا.
جب وہ کسی طرح سے اسکی باتوں میں نہیں ائی،، تو ولید اسے قتل کرنے کا منصوبہ بنا لیا..
برسات کا موسم تھا ،،رشتے داروں میں فوتگی ہو گئ ساس سسر کو مجبوراً وہاں جانا پڑا۔
گھر صرف واصف کی بیوی عافیہ اپنے بچوں کے ساتھ موجود تھی..
ولید کے ہاتھ اچھا موقع لگا،، گھر آتے وقت واصف کا بڑا بیٹا جو ساڈھےتین سال کا تھا اسکے لیے ائس کریم لایا،اور اس میں نیند کی دوا شامل کردی.
چھوٹا بیٹا ابھی صرف ڈیڑھ سال کا تھا.
عافیہ اسے سلا رہی تھی ۔جب ولید کمرے میں داخل ہوا.
"ولید بھائی آپ میرے کمرے میں اجازت کے بغیر کیسے ائے" عافیہ نےڈوپٹہ سیدھا کرتے ہوئے پوچھا
ولید بغیر کچھ کہے تیزی سے اگے بڑھا،عافیہ کو مزید کوئی موقع دیئے اس نے عافیہ کے منہ پر رومال رکھ دیا،، عافیہ بے ہوش ہو گئ.
اگر میری نہیں تو کسی کی بھی نہیں،پھر چاہے وہ میرا بھائی ہی کیون نہ ہو۔
بے ہوشی کے عالم میں ولید اسے واش روم میں لے گیا.باتھ ٹب میں لیٹا کر اسکے جسم سے سر الگ کردیا.
خون کے فوارے نکلے.خون کی رفتار کم ہونے پر
سر اور ڈھر کو الگ الگ بیگز میں ڈالا.
اچھے سے پیک کیا کہ خون کا ایک قطرہ میں پلاسٹک بیگ سے باہر نہیں ایا۔۔۔
اسکے بعد سارا باتھ روم صاف کیا. اپنےخون آلود کپڑے اتار کر ایک شاپر میں رکھے.اورنہا کر صاف کپڑے پہنے.
پھر گھرکی چھت پر گیا.جہاں پانی کی ٹینکی لگی ہوئی تھی.
ساتھ پڑوس کی ایک عورت نے ولید کو دیکھا اور پوچھا
"ولید بھائی عافیہ کہا ہے آج نظر نہیں آ رہی"
"وہ میکے گئ ہے بھائی کے ساتھ. "ولید کی زبان یہ کہتے ہوئے لڑکھڑا سی گئ.پر اس نے اپنے اعصاب پر قابو پایا.
وہ عورت نیچے چلی گئ.ولید نے آس پاس کا جائزہ لیا کوئی اور نظر نہ آیا.پھر اس نے
پانی والی ٹینکی میں سے آدھا پانی بالٹی کے ذریعے باہر نکالا.
نیچے سے وہ بیگز اٹھا لایا جس میں عافیہ تھی.
ایک ایک کر کے دونوں پلاسٹک بیگزٹیکی میں پھینک دیے.
اچھے سے پیک تھے.پر ٹیکنی میں پھینکتے وقت ایک بیک پھٹ گیا. خون پانی کی طرح باہر نکالا. ٹینکی میں جمع ہو گیا.
اس سے پہلے کہ ولید اسکا کچھ کرتا اچانک واصف کا چھوٹا بیٹا جسے ماں نے ہی سلایا تھا وہ رونے لگ گیا.
ولید نے ایسے ہی ٹنکی بند کی اپنے کپڑوں والا شاپر اٹھایا. اور گھر سے نکل گیا.واصف کا چھوٹا بیٹا مسلسل رو رہا تھا.
جب ماں کو نا پاپا تو خود ہی گھر سے باہر آ گیا.
وہی عورت جس نے چھت پر ولید کو دیکھا تھا اس نے بچے کو روتے دیکھا تو گود میں اٹھا کر گھر کے اندر آ گئ.
عافیہ کو دو تین آوازیں دی سارا گھر چیک کیا پر عافیہ نظر نہ ائی.
واصف کا بڑا بیٹا جو اب تک بیڈ پر پڑا تھا.اسے اٹھانے کی کوشش کی پر وہ نہ اٹھا.
وہ عورت چھوٹے بیٹے کو اپنے گھرلےائی اور واصف کوفون کیا.
تھوڑی دیر بعد واصف آ گیا۔اس نے بھی سارا گھر دیکھ لیا۔عافیہ کے میکے فون کیا. پر سب نے لاعلمی کا اظہار کیا.
اپنے بیٹے کو گود میں لیے باتھ روم گیا تاکہ اسکا منہ دھو سکے.باتھ روم کا دروازہ کھلتے ہی ایک ناخوشگوار بو آئی.
بو سے واصف نے کا دماغ گھوم گیا۔۔
اگے بڑھ کر اس نے نل کھلا.پہلے تو پانی آیا نہیں۔لیکن پھر خون شدہ پانی آنے لگا.
جو واصف کے ہاتھ پر گرا.
اس نے بمشکل خود کو سنبھالا.اور باتھ روم سے باہر آ گیا۔
اپنے بڑے بیٹے کی طرف متوجہ ہوا.جو ابھی تک سو رہا تھا۔ آگے بڑھ کر اس نے بیٹے کو اٹھانے کی کوشش کی۔پر وہ نہ اٹھا.
واصف محسوس کر چکا تھا کہ کچھ بہت خوفناک کام ہوا ہے.
اسکی سمجھ میں کچھ نہیں آ رہا تھا کہ اتنے میں وہی عورت آ گئ۔
"واصف بھائی پتہ چلا عافیہ کا؟"
"ن..نہ..نہیں "واصف کی زبان لڑکھڑا رہی تھی.
"لیکن ولید نے تو کہا تھا آپ دونوں عافیہ کے میکے گئے ہو"
"و...ولید" واصف حیرانی سے اسے دیکھنے لگا.
"ہاں وہ مجھے چھت پر پانی کی ٹینکی کے پاس نظر آیا تھا.تو میں نے پوچھا عافیہ کہا ہے نظر نہیں آرہی."
پانی کی ٹینکی کا سن کر واصف نے چھوٹے بیٹے کو فرش پر بٹھایا خود تیزی سے چھت پر گیا۔
عورت بھی بچہ کو گود میں اٹھا کر واصف کے پیچھے گئ۔
واصف نے جیسے ہی پانی کی ٹینکی کا ٹھکن اٹھایا.
اندر کا منظر اسے بے ہوش کرنے کے لیے کافی تھا۔
وہ کچھ بول نہ سکا اور زمین پر گر گیا۔
"واصف بھائی کیا ہوا؟"
عورت نے پوچھا.
پر واصف کچھ نہیں بول پا رہا تھا.
کوئی جواب نہ پا کر عورت خود آگے بڑھی اور ٹنیکی میں جھانکا.
پھر عورت کی چیخوں نے باقی محلے والوں کو متوجہ کیا۔
پولیس نے آ کر عافیہ کی باڈی کو باہر نکالا.
واصف کچھ بولنے کہنے کا قابل نہیں تھا۔
ایک محلے والے نے بڑے بیٹے کو چیک کیا۔اور ہسپتال لے گیا .
واصف کے ماں باپ بھی آ گئے.وہ کچھ نہیں بول نہیں پا رہاتھا .
اسکے گھر آدھی دنیا جمع ہو گئ. یہاں تک کے پولیس کی تعداد زیادہ کرنی پڑی..
واصف کو شک ہی نہیں پورا یقین تھا یہ حرکت ولید کی ہے.
عورت پولیس کو اپنا مکمل بیان دے چکی تھی.
ولید کا کوئی پتہ نہیں چل رہا تھا کہ کہا گیا. چھ مہینے تک پولیس ڈھونڈتی رہی.
پر کوئی سراخ نہ ملا..وقتی طور پر انہوں نے کیس بند کر دیا.تاکہ ولید جہاں چھپا ہے باہر آ جائے.
واصف یہ مکان آدھی قیمت پر فروخت کر کے کہیں اور شفٹ ہو گیا.
ایک سال بعد گھر والوں کی مرضی سے اس کی شادی عافیہ کی چھوٹی بہن شازیہ سے کروا دی.جسے ولید نے طلاق دے دی تھی.
طلاق کی وجہ سے اسکی شادی بھی نہیں ہو پا رہی تھی..
واصف اب تک سنھبل نہیں سکا تھا.ہر وقت ولید کی تلاش میں تھا.رہ چلتے ہر انسان کو غور سے دیکھتا.
آخر کب تک چوہا بل میں چھپ سکتا ہے.بھوک مجبور کر دیتی ہے.
آخر کار دو سال بعد ولید نے اپنی شادی شدہ بہن کلثوم کو خط لکھا.
اسے امید تھی کہ کلثوم پولیس کو یا واصف کو نہیں بتائے گئ.
ولید کو کچھ رقم کی ضرورت تھی.جس وجہ سے اس نے خود کلثوم سے رابطہ کیا.
فقیر کا بھیس بدل کر وہ کلثوم کے در پر آیا.جب کلثوم خیرات دینے آئی تو ایک خط پکڑا کر تیزی سے چلا گیا.
کلثوم ہکی بکی کھڑی دیکھتی رہی. پھر بے خیالی میں خط کھولا.
خط میں یہ لکھا تھا:
"پیاری بہن میں تمہارا بھائی ولید ہوں.سوچا یہی تھا بہت دور چلا جاوں گا.پر یہ ممکن نہ ہو سکا.زمانے کی ٹھوکریں کھا کر میں تمہارے پاس آیا ہوں.تھک گیا ہوں چھپ چھپ کر. مجھے کچھ پیسے دے دو تاکہ دبئی چلا جاوں.
وہاں جا کر تمہیں ہر مہینے پیسے بیجھو گا.اور تمہارے بچوں کو وہاں بلوا لوں گا.میں کل یا پرسوں آؤں گا.امید ہے تم مجھے مایوس نہیں کرو گئ.تمہیں ہمارے پچپن کی قسم.جب ہم دونوں کالج سے واپسی پر ائس کریم کھانے جایا کرتے تھے. عافیہ کے ساتھ میں نے جو کیا وہ اسی کی حق دار تھی."
تمہارا بھائی ولید
خط پڑھ کر کلثوم سوچ میں پڑگئ.یہ تو ایک بھائی سے دھوکہ تھا اگر وہ ولید کی مدد کرتی.
کلثوم کو سمجھ آ چکی تھی ولید اسے جذباتی طور پر کمزور کرنا چاہ رہا ہے. اسے اپنے کیا کا ذرا پچھتاوا نہیں.
دو دن بعد ولید پھر سے فقیر کے بھیس میں آیا.
دروازہ کھٹکھٹایا.اندر سے کلثوم آئی.
"بھائی آپ آ گے.پیسے اندر رکھے ہیں لاتی ہوں۔"
"مجھے پتہ تھا میری بہن تم مجھے دھتکار نہیں سکتی تبھی تو تمہارے پاس آیا تھا."
پھر اچانک ولید کو ایک بھاری ہاتھ کندھے پر محسوس ہوا.پیچھے مڑ کر دیکھا تو پولیس اور واصف کھڑے تھے.
آخرکار چوہا ہاتھ آ ہی گیا. بہت کر لی عیش.چلو اب جیل جانے کے دن آ گے.ایک پولیس نے والے کہا.
ولید نے واپس بہن کی طرف دیکھا۔
جسکی آنکھو میں ولید کے لیے نفرت تھی. کلثوم کے پیچھے سے ولید کی ماں بھی آ گئ. ماں کو دیکھ کر ولید ماں کی بڑھنے لگا.
"امی جان مجھے بجائے .اپنے گناہوں کا احساس ہے مجھے،میں واصف کے پاوں پکڑ لوں گا.پلیز امی جان"
ولید نے مگر مچھ کے آنسوں بہائے.
"تم جیسا درندہ میرا بیٹا ہو ہی نہیں سکتا.میرا صرف ایک بیٹا ہے واصف سنا تم نے .کیا لگا تمہیں اس گناہ کے بعد میں تمہارا ساتھ دوں گئ.لےجاو اسے اور اسکے جسم کے بھی اتنے ہی ٹکڑے کرنا.جتنے اس نے اس معصوم کے کیے تھے.سنو میری بات(ماں پولیس والوں سے بولی)یہ مر گیا تو اسکی لاش کوڑے میں پھینک دینا ہمارا اس سے کوئی لینا دینا نہیں."
یہ کہ کر ماں نے زور سے دروازہ بند کیا.
پولیس ولید کو گھیسٹے ہوئی لے گئ.تفشیش کے دوران اس نے بتایا .کئ دنوں سے قتل کے منصوبے بنا رہا تھا.لیکن موقع ہاتھ نہیں لگ رہا تھا.اس دن موقع ہاتھ لگا.تو جلدی سے آری اور پلاسٹک بیگز کا انتظام کیا.
قتل کا یہ طریقہ اس نے کسی ہندی فلم میں دیکھا تھا.
ولید کو اپنے کیے گناہ کا اخر تک کوئی پچھتاوا نہیں تھا.پولیس والوں کا کہنا تھا وہ دماغی مریض بن چکا تھا.
مزید ولید کے والدین نے انکشاف کیا کہ وہ پچپن سے ہی ولید کی ہر جائز نا جائز خواہش پوری کرتے تھے.بشتر اوقات واصف کی چیزیں اٹھا کر ولید کو دے دیتے.
شاید یہی سے اسے ہر بات منوانے کی عادت پڑی.بعض اوقات والدین کی غفلت بچوں کو یہاں تک پہنچا دیتی ہے.ورنہ کوئی بھی انسان پیدائشی مجرم پیدا نہیں ہوتا.۔۔۔۔۔۔
ولید کو بھانسی کی سزا ملی.اسکی میت کو کوئی لینے نہ گیا۔اطلاع ملنے پر ولید کے والد نے کہا ہمارا کوئی ولید نامی بیٹا نہیں.. اسکی لاش کو لاوارث لاش کی طرح دفنا دی۔۔۔
وہ مکان آج بھی خالی ہے.اس میں کوئی بس نہیں سکا. اگر کوئی رہے تو شکایت کرتے ہیں گھر سے خون کی بو نہیں جاتی اور رات کو رونے کی آوازیں آتی ہیں. شاید یہ گناہ کے بعد وہاں ناپاک مخلوق نے رہنا شروع کر دیا.پتہ نہیں اس بات میں کتنی سچائی ہے۔لیکن جو کوئی بھی وہاں رہنے آئے تو ہفتے سے زیادہ ٹک نہیں سکا.البتہ محلے والوں کو کھبی محسوس نہیں ہوا۔
نوٹ: اس واقع میں بیان کردہ قتل کا طریقہ بلکل سچ ہے..البتہ تھوڑے رودوبدل سے لکھا گیا ہے اور کرداروں کے نام تبدیل کیے گئے ہیں..
نوٹ :
اگر اپ اسی طرح کی خوفناک گانے سننا پسند کرتے ہیں تو نیچے دیا گیا چینل کا نام کاپی کریں اور یوٹیوب پر سرچ کریں ہمارے چینل پر دیکھ سکتے ہو
@KarimVoice

