ایک بدنصیب کی آپ بیتی
تحریر: فرزانہ خان
سنا ہے کہ جب میری ماں گاؤں میں بیاہ کر آئی تو محلے کی عورتیں اس حسین دلہن کو دیکھنے کے لیے ٹوٹ پڑی تھیں۔ ابا بھی خوش شکل تھے، مگر اپنی دلہن سے عمر میں بیس برس بڑے تھے، قد کاٹھ اونچا، لحیم شحیم تھے، تبھی پولیس کے محکمے میں ملازمت مل گئی تھی۔
شادی کے بعد ابا کے من کو بھائی تو میاں بیوی کی حسنِ سلوک سے گزر بسر ہونے لگی۔ ایک سال بعد، جبکہ میں پیدا ہو چکی تھی، ابا والدہ کے میکے انہیں لینے آئے۔ تب پہلی بار اماں کی ایک سوتیلی خالہ نے ان کے کان میں زہریلا جملہ پھونک دیا کہ تمہاری بیوی کی شادی سے پہلے اس کے چچازاد اکرم سے خوب بنتی تھی۔ بڑوں نے ان کا رشتہ بھی طے کر دیا تھا، مگر زمین کے تنازعے کی وجہ سے بھائیوں میں دشمنی پڑ گئی، رشتہ ختم ہو گیا۔ اب ذرا اس کا دھیان رکھنا، کیونکہ اکرم تو اس کی جدائی میں ایسا نڈھال ہوا کہ گھر بار چھوڑ کر مزاروں پر پڑا رہتا ہے۔
ابا کا رویہ اماں سے سخت اور کھردرا ہو گیا۔ گھر سے نکلنے پر پابندی لگ گئی۔ خوامخواہ کے شک و شبہ میں گرفتار ہو گئے۔ ان دنوں امی میرے بھائی کو جنم دینے والی تھیں۔ نانا اور ماموں دوبار ان کو لینے آئے، ابا نے جانے نہ دیا۔ اس کے بعد وہ کبھی بھی میکے نہ جا سکیں۔ اماں ہر ستم سہتی رہیں، ادھر دو بچے ان کے پیروں کی زنجیر بن چکے تھے۔ ان دنوں ہم پانچ بہن بھائی تھے، جب ایک روز یہ واقعہ ہوا۔ صبح اٹھے تو گھر میں شور برپا تھا، والد امی پر تشدد کر رہے تھے۔ انہوں نے مٹی کا تیل چھڑک کر انہیں جلانے کی کوشش کی تو وہ خوف سے بھاگ کر پڑوس میں چلی گئیں۔
زخمی حالت میں پڑوسی ان کو اسپتال لے گئے۔ اماں کی بس ایک ہی غمگسار تھی، یا سہیلی کہہ لیں، وہ تھی خالہ نسیم جو پڑوس میں رہتی تھی۔ جب ماں ٹھیک ہو گئی تو ایک روز خالہ نسیم آئی۔ اس نے قسم دے کر سوال کیا، رحمت سچ بتاؤ کہ اس روز کس بات پر جھگڑا ہوا تھا جو تمہارے شوہر نے اس قدر تم کو مارا؟
وہ مجھے بدچلن ہی گردانتا ہے، جبکہ میں ایسی نہیں ہوں۔ میں سچی عورت ہوں، اور یہ سچ بولنے کی ہی سزا ہے۔
میرے دوسرے بہن بھائی اب اتنے باشعور ہو گئے تھے کہ اس جھگڑے کا سب جاننے کی سعی کرتے۔ ایک روز ماں نے تنگ آ کر کہہ دیا کہ مجھ سے مت پوچھا کرو، اپنے باپ سے پوچھو کیوں اس نے گھر کو جہنم بنا رکھا ہے۔ اس کے بعد ابا کا حجاب جاتا رہا۔ وہ نہایت ہی بودہ اور لچر قسم کے الزامات ہم بچوں کے سامنے ہماری ماں پر لگاتے۔ پس میرے چاروں بہن بھائیوں نے باپ کی باتوں کا گہرا اثر لیا، خاص طور پر میرے بعد والے بھائی بہرام نے۔ رفتہ رفتہ میرے بھائی کے شعور میں وہ زہر سرایت کر گیا جو والد نے اس کے کچے ذہن میں گھول دیا تھا۔ تمہاری ماں اچھی عورت نہیں ہے۔ لہٰذا اس کے دل میں اندر ہی اندر ایک لاوا پکنے لگا۔
ایک روز والد ڈیوٹی سے گھر آئے تو اماں سے مخاطب ہوئے کہ آج اس منحوس اکرم کا دیدار ہو گیا ہے۔ تھانے میں کچھ نشئی بھی لائے گئے، ان میں اکرم بھی تھا، جس کو نشہ کرنے کی وجہ سے جھگڑنے پر پولیس پکڑ لائی تھی۔ میں نے تو چھتر لگوا کر اس کا کام ہی تمام کرا دیا، مگر میرے دل میں جو آگ بھڑکتی ہے وہ پھر بھی ٹھنڈی نہیں ہوتی ہے۔
اماں تو سدا کی بے زبان تھیں، ہر بات کا جواب خاموشی میں دیا کرتی تھیں۔ آج بھی کچھ نہ بولیں۔ والد کو ان کی خاموشی کھل گئی اور زیادہ طیش دلانے کو اول فول بکنے لگے۔
بہرام اٹھا اور منہ سے ایک لفظ نکالے بغیر ابا کا پستول نکال کر لے آیا اور اندھا دھند فائر کھول دیا۔ ماں کی کھوپڑی کے ٹکڑے اڑ کر دور جا پڑے۔ جب وہ خون میں لت پت گر گئیں تو اس نے اپنا رخ ابا کی طرف کر لیا اور ان کے ساتھ بھی یہی سلوک کیا۔ ہم نے جو یہ منظر دیکھا تو خوف سے کمرے میں گھس کر چاروں نے اندر سے کنڈی لگا لی۔ اس قدر خوفناک منظر تھا کہ میری چھوٹی بہن بے ہوش ہو گئی۔ فائر کی آواز پر پڑوسی آ گئے۔ انہوں نے پولیس کو اطلاع دی۔ بھائی نے رضاکارانہ طور پر خود کو پولیس کے حوالے کر دیا۔ میرا کمسن بھائی، جس کے ذہن میں بچپن سے ابا کی نادانی نے زہر بھرا تھا، جیل کی آہنی سلاخوں کے پیچھے چلا گیا۔
کئی دنوں تک ہم ڈرے سہمے رہے، پھر ہم کو چچا اپنے گھر لے آئے۔ میری شادی اپنے بیٹے سے کر دی۔ میری عمر اٹھارہ کے لگ بھگ تھی اور خاصی سمجھدار تھی۔ بھائی تو جیل جا چکا تھا، باقی دو بہنیں اور ایک بھائی چھوٹے چچا کے گھر میں رہنے لگے۔ ماں کی وفات کا غم تھا، ابا کا بھی دکھ تھا۔ ماں تو ایسے شکنجے سے نجات پا چکی تھی۔ زیادہ غم تو مجھے اپنے بھائی بہرام کا تھا، جس کے ہاتھوں ناحق اماں اور ابا کا قتل ہو گیا تھا۔
ماں باپ کے ساتھ زندگی پریشان کن تھی تو ان کے بعد بھی عذاب تھی۔ میں تو پھر اپنے گھر میں سکھی تھی۔ چھوٹا بھائی چچا کے بچوں سے الجھتا، وہ گستاخ اور بدتمیز کہلاتا۔ ذرا بڑا ہوا تو غلط راہ پر چل نکلا۔ مجھے اس سے امیدیں تھیں، مگر وہ گھر سے غائب رہنے لگا۔ چچاؤں نے کافی سمجھایا، سختی کی تو گھر سے بھاگ گیا۔
بعد میں ایک بہن کو میں نے دیورانی بنا لیا اور وہ میرے پاس آ گئی، چھوٹی کو چچا نے دوسرے گاؤں بیاہ دیا۔ مگر وہ شادی کے تین سال بعد طلاق لے کر لوٹ آئی۔ اس کی دونوں بچیوں کو سسرال والوں نے رکھ لیا، جس پر وہ ہر وقت رویا کرتی تھی۔
ہماری بدقسمتی نے ان تمام مصائب کے بعد بھی ہمارا پیچھا نہ چھوڑا، اور ستم در ستم یہ ہوا کہ میرا دیور، جس کی شادی میری بہن کے ساتھ ہوئی تھی، وہ بھی شادی کے چند سال بعد میری بہن پر شک کرنے لگا اور اسی روش پر چل پڑا۔ اس نے بھی میری بہن کی زندگی کو جہنم بنانے میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھی۔ وہ اسے ہر وقت یہی طعنے دیتا کہ تو بدچلن ماں کی بیٹی ہے اور خود بھی بدکردار ہے۔
میری بہن بے قصور تھی اور حساس بھی۔ زیادہ دیر یہ ستم نہ سہہ سکی اور اس نے کیڑے مار دوائی کھا کر خودکشی کر لی۔ والدین کے بعد تمام بہن بھائیوں کا دکھ دل میں لیے جی رہی ہوں، اور اپنے گھر میں خوش ہونے کے باوجود اُداسی کے حصار میں گھری رہتی ہوں....
