چرس پینے والے کا نصیب
یہ ایک ایسا واقعہ ہے جس نے سننے والوں کو حیران کر دیا۔ فقیر محمد ایک عام مزدور تھا، جو اپنی تنخواہ کا زیادہ تر حصہ چرس پر خرچ کرتا تھا۔ لیکن اس کی زندگی میں ایسا کون سا عمل تھا جس نے اسے اللہ کے گھر بلا لیا؟
یہ ایک سچی اور سبق آموز کہانی ہے جو ہمیں یہ سکھاتی ہے کہ کسی کے ظاہر کو دیکھ کر اس کے اعمال پر فیصلہ نہیں کرنا چاہیے۔
جس نے سنا حیران ہوا کہ ایک چرسی کے ایسے نصیب
مگر کیسے
ایسا کیا عمل تھا اس کا ؟
اسٹیج پر فقیر کا نام پکارا گیا تو وہ آہستہ سے اٹھ کر سٹیج کی طرف چل دیا فقیر محمد شکل سے بھی فقیر ہی لگتا تھا غربت اس کے چہرے پہ گویا چسپاں تھی
ایک مل میں کام کرتا تھا اور تنخواہ کی چرس پی جاتا یا تھوڑا بہت گھر دے دیتا تنخواہ میں گزاراہ کہاں ہوتا بھلا تو کبھی کسی سے تو کبھی کسی سے ادھار مانگتا تھا
اب تو لوگ ادھار بھی نہیں دیتے تھے اسے اسکے
دو بچے اور بیوی تھی
بیوی صابر تھی جو بھی دے دیتا اسی میں گزارہ کر لیتی
وہ سٹیج کی طرف چلا تو لوگوں میں چہ مگوئیاں شروع ہوگئیں ہر کسی کا یہی خیال تھا کہ یہ اس بار بھی انکار کردیگا یہ مل مالکان کی طرف سے ہر سال کسی ایک خوش نصیب ورکر کو حج پہ بھیجنے کی تقریب تھی جس میں پچھلے دو سال کی طرح اس سال بھی فقیر محمد کا نام ہی آیا تھا پچھلے دو سال حج پہ جانے کی بجاۓ فقیر محمد نے حج کے خرچ کے پیسے لے لیے تھے اور اس سال پھر اسی کا نام نکل آیا تھا
اس چرسی کے نصیب میں بھلا اللًّہﷻ کے گھر کی زیارت کہاں ؟
یہ حاجی وحید حسن تھا جو اپنے کولیگز کو کہ رہا تھا
حاجی وحید چھ ماہ پہلے عمرہ کرکے آیا تھا اور اب اپنے نام کے ساتھ حاجی بھی لکھتا تھا۔
حالانکہ حاجی صاحب وہاں جاکر آنے کو دل ہی نہیں کرتا کسی کا بھی اور یہ بدقسمت جانے کی بجاۓ پیسے لےلیتا ہے
یہ شیخ ایوب تھا جو حاجی وحید سے مخاطب تھا یہ بھی عمرہ کر چکا تھا
اور شاید جتانا چاہ رہا تھا کہ میں بھی "حاجی" ہوں
فقیر محمد اسٹیج پہ پہنچ چکا تھا
مل مالک شیخ عمر نے اسے مبارک باد دی اور کہا بھئ فقیر محمد تیاری کر لو
فقیر محمد نے ایک نظر اپنے کولیگز پر ڈالی اور
آہستہ سے بولا
میں حج پر نہیں جاؤنگا
مجھے پیسے دے دیں
وہاں موجود تمام لوگوں کو شاید اسی جواب کی توقع تھی
کسی کے چہرے پر بھی حیرانگی نہیں تھی
شیخ عمر زرا سا مسکراۓ اور بولے
اس دفعہ تو ہر صورت تمہیں حج پہ جانا ہی ہوگا فقیر محمد ،
جناب میں کیا کرونگا حج پہ جا کے ؟
آپ مجھے پیسے دے دیں
فقیر محمد نے دھیمی سی آواز میں کہا
نہیں فقیر محمد اس بار تمہیں حج پہ جانا ہی ہوگا شیخ عمر بھی گویا اسے بھیجنے کا تہیہ کرچکے تھے
مگر فقیر محمد کا ایک ہی جواب تھا
جناب میں کیا کرونگا جاکر
میں گنہگار آدمی ہوں چرسی ہوں میرا کیا کام وہاں ؟
اور ویسے بھی صاحب جی مجھے پیسوں کی ضرورت ہے
ٹھیک اگر تم حج پر جاؤ تو پورے سال کی تنخواہ بونس کے طور پہ دونگا
شیخ عمر نے آفر کی تو فقیر محمد کی آنکھوں میں چمک سی آگئی
کہنے لگا ٹھیک ہے صاحب میں راضی ہوں
شیخ عمر بولے دیکھو تین سال سے مسلسل تمہارا ہی نام نکل رہا ہے اور جانہیں رہے اللّٰہﷻ پاک ہر صورت تمہیں بلانا چارہا ہے
روانگی کا دن آگیا سال کی تنخواہ فقیر محمد لے چکا تھا
گھر والوں اور جو ایک دو جاننے والے تھے ان سے مل کر فقیر محمد حج پہ روانہ ہوگیا
حج کیا روضہ رسولﷺ پہ حاضری دی حج مکمل کر کےدو دن بعد فقیر محمد کی واپسی تھی مگر آنے سےایک دن پہلے ہی مکہ مکرمہ میں اس کا انتقال ہوگیا
اس کے گھر اطلاع دی گئی اور اس کی بیوی سے اجازت لیکر اس کو دنیا کے دوسرے بہترین قبرستان جنت المعلی مکہ میں دفن کردیا گیا
جس نے سنا حیران ہوا کہ ایک چرسی کے ایسے نصیب
مگر کیسے ؟
ایسا کیا عمل تھا اس کا ؟
کچھ دن بعد مل مالک شیخ عمر فقیر محمد کی بیوی کے پاس تعزیت کے لیے گئے تو اس کی بیوی سے پوچھا بہن ایس کونسا عمل تھا اس کا کہ
تین سال مسلسل اسی کا نام نکلا گیا تو دفن بھی وہیں ہوا
اس کی بیوی نے کہا صاحب جی
میں اور تو کچھ نہیں جانتی مگر ایک عمل اس کا جانتی ہوں شاید اسی کے سبب یہ رتبہ ملا ہو اسے
کہنے لگی ہمارے محلے میں ایک جوان بیوہ ہے اس کی تین چھوٹی بچیاں ہیں جب اس کا خاوند فوت ہوا تو وہ بےچاری لوگوں کے گھروں میں کام کرنے لگی وہ عزت دار عورت ہے اور یہ بھیڑیوں کا معاشرہ ہر جگہ
اسے لوگوں کی ہوس کی وجہ سے کام چھوڑنا پڑا اس نے بھوک قبول کرلی مگر عزت کا سودا نہیں کیا
میرے خاوند کو پتہ چلا تو اس نے اس بیوہ عورت کو اپنی بہن بنا لیا اور اس کے گھر کا سارا خرچ دینے لگا میرے شوہر کی تنخواہ میں دو گھروں کا گزارہ مشکل تھا اور وہ نشہ بھی کرتا تھا تووہ ادھار لیکر جیسے بھی کسی سے لوٹ کھسوٹ کر اس کو خرچہ ضرور دیتا تھا
دو بار حج پہ نہ جانے کی وجہ بھی یہی تھی کہ پیچھے اس بیوہ عورت اور اس کی بچیوں کا خیال کون رکھتا اس نے دو بارحج کے پیسے لیکر بھی ان کو ہی دیے اور کچھ مجھے
وہ اس بار نہیں جاتا اگر آپ اسے پورے سال کی تنخواہ نہ دیتے
اس نے پیسے لیکر کچھ گھر کا سامان لیا اور کچھ اس عورت کو لیکر دیا تب وہ حج پہ گیا
شیخ عمر کا دل چاہ رہا تھا کہ فقیر محمد اس کے سامنے ہوتا تو وہ اس کے ہاتھ چومتا
وہاں سے وہ اس بیوہ عورت کے گھر گئے
اس نے بتایا کہ لوگوں کی نظروں میں چرسی شرابی میرے اور میری بچیوں کے لیے فرشتہ تھا
کہنے لگی وہ کہتا تھا بہن میرے لیے دعا کردیا کرو بس
اور میں اس کے لیے ایک ہی دعا کرتی تھی
یتیموں کے سر پہ ہاتھ رکھنے سے جتنے بال ہاتھ نیچے آتے ہیں اتنے گناہ معاف ہوتے
کسی کی ظاہری حالت سے اس کے اعمال نہ جانچو۔
ایہ کہانی ہمیں ایک اہم سبق دیتی ہے کہ کسی کے ظاہری عمل پر فیصلہ نہیں کرنا چاہیے۔ اللہ کی رحمت جسے چاہے نواز سکتی ہے۔ فقیر محمد کا عمل ہمیں سکھاتا ہے کہ یتیموں اور بیواؤں کی مدد کس قدر عظیم نیکی ہے۔
📢 یہ واقعہ آپ کو کیسا لگا؟ نیچے کمنٹ میں اپنی رائے دیں اور مزید اسلامی واقعات کے لیے ہماری ویب سائٹ کو سبسکرائب کریں!
چرس پینے والے کا نصیب, اسلامی سچی کہانی, سبق آموز واقعہ, حج کا معجزہ, یتیموں کی مدد, بیوہ کی مدد, اللہ کی رحمت, نیکی کا بدلہ, حقیقی اسلامی واقعات, اسلامی کہانیاں, مکہ میں دفن, عبرتناک کہانی
سبق آموز اسلامی کہانی, چرسی کا حج, بیوہ کی مدد کا اجر, نیکی کی پہچان, حج کے معجزات, اسلامی سچا واقعہ, اللہ کی قدرت, اسلامی نصیحت, چرس چھوڑنے کی کہانی, دردلانے والا واقعہ, اسلامی حقیقت, عبرت انگیز قصہ