ایمبولنس ڈرائیور کا خوفناک واقعہ
یہ کہانی لکھنے کا مقصد صرف ایک ہے۔ میں نے اس رات جو کچھ دیکھا اور محسوس کیا، وہ میری سمجھ سے باہر ہے۔ یہ سب اتنا حقیقی تھا کہ اب بھی جب میں اُس رات کے بارے میں سوچتا ہوں، تو میرے ہاتھ کانپنے لگتے ہیں۔
میں یہ کہانی آپ کو اس لیے سنا رہا ہوں کیونکہ میں چاہتا ہوں کہ لوگ جانیں کہ دنیا میں ایسی چیزیں بھی ہوتی ہیں جو ہماری عقل اور منطق سے بالاتر ہیں۔ میں نے ہمیشہ حقیقت پسند انسان ہونے کا دعویٰ کیا ہے، لیکن اس رات نے میری دنیا کو ہلا کر رکھ دیا۔
میرا نام زبیر ہے، اور میں لاہور کے ایک پرانے علاقے شاہدرہ
میں رہتا ہوں۔ میں پیشے سے ایمبولینس ڈرائیور ہوں اور پچھلے آٹھ سال سے اس کام سے وابستہ ہوں۔ میری زندگی ہمیشہ معمول کے مطابق رہی، لیکن میرا کام کبھی معمولی نہیں رہا۔ موت اور زندگی کے بیچ کی کشمکش کو میں روز دیکھتا ہوں۔ اکثر میں لوگوں کی جان بچا لیتا ہوں، لیکن کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ موت میرے سامنے آتی ہے اور میں کچھ نہیں کر پاتا۔
میرا یہ کام صرف نوکری نہیں، بلکہ ایک مشن ہے۔ میرے والد بھی ایک ایمبولینس ڈرائیور تھے، اور ان کی اچانک وفات کے بعد میں نے ان کے نقش قدم پر چلنا شروع کیا۔ والدہ ہمیشہ کہتی تھیں کہ یہ کام عبادت کے برابر ہے، لیکن انہوں نے یہ بھی خبردار کیا تھا کہ ایمبولینس کا کام صرف جسمانی نہیں، بلکہ ذہنی اور روحانی طور پر بھی انسان کو تھکا دیتا ہے۔
میرا دن عام طور پر ایسے گزرتا ہے کہ میں اپنے چھوٹے سے کمرے میں رات کا کھانا کھا کر تھوڑا آرام کرتا ہوں اور پھر ڈیوٹی کے لیے نکل پڑتا ہوں۔ لیکن اس رات کچھ مختلف تھا۔
حادثے کی رات
16 دسمبر کی وہ سرد رات میری زندگی میں ہمیشہ یادگار رہے گی۔ رات کے دو بجے کنٹرول روم سے کال آئی۔ بتایا گیا کہ شاہدرہ بائی پاس کے قریب ایک عورت کا ایکسیڈنٹ ہوا ہے۔ مجھے فوراً وہاں پہنچنا تھا۔
اس لمحے میں، میرے ذہن میں میرے ماضی کی تصویریں گونجنے لگیں۔ میں ہمیشہ ایک عام زندگی کا خواب دیکھتا تھا۔ لیکن میرے والد کے انتقال کے بعد، یہ خواب میری ذمہ داریوں میں دفن ہو گیا۔ ایمبولینس ڈرائیور بننے کا فیصلہ میرے لیے آسان نہیں تھا۔
میں نے اس کام کے دوران کئی مشکل لمحے دیکھے تھے۔ کچھ مریض ایسے ہوتے تھے جو راستے میں دم توڑ دیتے، اور کچھ ایسے جو زندگی کی امیدوں کے ساتھ اسپتال پہنچتے۔ ہر واقعہ میرے ذہن پر ایک نشان چھوڑ جاتا تھا، لیکن اس رات جو ہو رہا تھا، وہ کسی عام دن جیسا نہیں تھا۔
جب میں وہاں پہنچا تو منظر کافی خوفناک تھا۔
ایک چھوٹی سی کار درخت سے ٹکرائی ہوئی تھی۔
اور ایک خاتون زمین پر گری ہوئی تھی،اس کے کپڑے خون سے بھرے ہوئے تھے اور وہ بے ہوش لگ رہی تھی،میں نے ادھر ادھر دیکھا تو وہاں کوئی نہیں تھا،میں نے خاتون کو فورا اٹھایا اور ایمبولنس میں ڈالا،مجھے اس کا وزن بہت ہلکا محسوس ہو رہا تھا جو مجھے بالکل عجیب لگ رہا تھا،لیکن اس رات میرے پاس زیادہ سوچنے کا وقت بالکل بھی نہیں تھا،ایمبولنس ہسپتال کی طرف چلنے لگی لیکن جیسے جیسے ہم ہسپتال کے قریب بڑھ رہے تھے ماحول کچھ عجیب لگنے لگا،اندر درجہ حرارت غیر معمولی طور پر سرد ہو رہا تھا،میں نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو خاتون نے اچانک انکھیں کھول دیں،
اس کے چہرے پر ایک عجیب سی مسکراہٹ تھی،اس نے کہا شکریہ تم نے میری جان بچائی،اس کی اواز میں ایک غیر معمولی سردی تھی،
جیسے وہ کسی گہرے راز کو چھپا رہی ہو،
میں نے اس سے پوچھا اپ کا نام کیا ہے اور یہ حادثہ کیسے ہوا؟
اس نے دھیمی اواز میں جواب دیا میرا نام سمیرا ہے،
لیکن یہ مت پوچھو کہ یہ سب کیسے ہوا،
تم بس مجھے ہسپتال لے کے جاؤ،
اس کی یہ بات مجھے بے چین کرنے لگی۔
لیکن میں نے یہ سوچا کہ شاید ایکسیڈنٹ کی وجہ سے وہ کسی شوق میں ہے۔
پھر کچھ منٹ بعد میں نے بیک مرر میں دیکھا اور میرا دل دھل گیا سمیرا جو خون میں بھیگی ہوئی تھی،اب بالکل صاف ستھری لگ رہی تھی،اس کے کپڑوں پر ایک بھی دھبہ نہیں تھا۔اور وہ سیدھی ہو کر بیٹھ گئی تھی اس کی نظر مسلسل مجھ پر تھی۔
ایمبولنس سنسان سڑک پر تیزی سے دوڑ رہی تھی ،میں جتنا اگے بڑھ رہا تھا ماحول اتنا ہی خوفناک ہوتا جا رہا تھا۔
پھر اچانک ایمبولنس میں لائٹس جھپکنے لگیں
میں نے گاڑی روکنے کی کوشش کی لیکن بریک کام نہیں کر رہی تھی۔گاڑی اپنی مرضی سے چل رہی تھی جیسے کسی اور کے کنٹرول میں ہو میرے کنٹرول میں نہیں ہو۔
سمیرا نے ہنستے ہوئے کہا تم بہت بہادر ہو زبیر لیکن کیا تم مجھے یہاں سے لے جا پاؤ گے اس جگہ سے جہاں سے کوئی بھی نہیں جا سکتا
اس کی بات سن کر میرے ہاتھ کانپنے لگے لیکن میں نے ہمت نہیں ہاری دل ہی دل میں دعائیں پڑھنے لگا
پھر اس نے کہا کہ کیا تم جانتے ہو یہاں کیا ہوا تھا
یہ جگہ تمہارے لیے نہیں ہوگی لیکن میرے لیے نہیں
اس کی باتیں میرے اعصاب پر حاوی ہو رہی تھیں
میں نے اسے نظر انداز کرنے کی کوشش کی،اور ہسپتال پہنچنے کی امید میں میں نے گاڑی کی رفتار بڑھا دی،اچانک ایمبولنس کے شیشے پر کچھ ٹکرانے کی اواز ائی۔
میں نے دیکھا کہ ایک کوا زور سے شیشے پر ٹکرایا تھا اور خون کے دھبے چھوڑ گیا تھا۔
میں نے پوچھے مڑ کر دیکھا تو سمیرا غائب تھی میں نے ایک لمحے کے لیے سکون کا سانس لیا لیکن یہ سکون زیادہ دیر نہیں رہا چند سیکنڈ بعد وہ دوبارہ ایمبولنس میں نمودار ہوئی لیکن اس بار اس کی انکھیں سرخ تھی اور ایک خوفناک اس کے چہرے پر مسکراہٹ تھی
میں نے اپنی پوری ہمت جمع کی اور دل ہی دل میں دعائیں پڑھنے لگا۔ گاڑی کی رفتار خودبخود کم ہو رہی تھی، اور ثمیرہ اب خاموشی سے میری طرف دیکھ رہی تھی۔ اُس کی آنکھیں اب عام نہیں لگ رہی تھیں۔ وہ سرخ ہو چکی تھیں، اور اُس کے چہرے پر ایک خوفناک مسکراہٹ تھی۔
"تمہیں لگتا ہے کہ تم مجھے یہاں سے لے جا سکتے ہو؟" اُس نے کہا۔ اُس کی آواز کسی گہرے کنویں سے آ رہی محسوس ہو رہی تھی۔
میں نے ہمت کرتے ہوئے کہا، "تم کون ہو؟ اور تمہارے ساتھ کیا ہوا تھا؟"
اُس نے میری طرف دیکھتے ہوئے کہا، "یہی سوال ہے جو تمہیں نہیں پوچھنا چاہیے تھا۔"
یہ کہتے ہی اُس نے اپنا ہاتھ اُٹھایا اور گاڑی کا انجن بند ہو گیا۔ ایمبولینس اب مکمل طور پر ساکت تھی، اور میں نے باہر دیکھا تو ایسا لگا جیسے ہم کسی دوسرے مقام پر آ گئے ہوں۔ چاروں طرف دھند اور اندھیرا تھا، اور راستہ ایسا لگ رہا تھا جیسے ختم ہو چکا ہو۔
جیسے ہی میں گاڑی سے نیچے اترا، ثمیرہ بھی ایمبولینس سے باہر نکل آئی۔ لیکن اب وہ وہی خاتون نہیں لگ رہی تھی جسے میں نے سڑک سے اٹھایا تھا۔ اُس کی آنکھوں سے خون رس رہا تھا، اور اُس کا چہرہ مکمل طور پر بدل چکا تھا۔
"تمہیں پتہ ہے، زبیر، یہ راستہ تمہارے لیے عام ہوگا، لیکن یہ میری کہانی کا آخری حصہ ہے۔" اُس نے کہا۔
میں نے ہمت جُٹائی اور پوچھا، "تم کیا چاہتی ہو؟ اور مجھے یہاں کیوں لایا ہے؟"
اُس نے کہا، "میں یہاں سے جانے والوں کو روکنے آئی ہوں۔ تم اُن چند لوگوں میں سے ہو جو مجھے یہاں سے لے جانے کی کوشش کر رہے ہو۔ لیکن کیا تم جانتے ہو کہ یہاں کیا ہوا تھا؟"
اُس نے اپنی کہانی سنانی شروع کی۔ کئی سال پہلے، ثمیرہ کا قتل اسی سڑک پر ہوا تھا۔ وہ ایک نوجوان خاتون تھی جو اپنے شوہر کے ساتھ سفر کر رہی تھی، لیکن ایک گروہ نے اُنہیں لوٹنے کی کوشش کی۔ مزاحمت پر ثمیرہ کو گولی مار دی گئی، اور وہ اسی جگہ پر مر گئی۔ اُس کے شوہر نے اُسے چھوڑ کر بھاگنے کی کوشش کی، لیکن وہ بھی مارا گیا۔
"تب سے، جو بھی اس سڑک سے گزرتا ہے، میں اُس کے ساتھ اپنا حساب برابر کرتی ہوں۔" اُس نے کہا۔
لیکن میں نے ہمت نہیں ہاری۔ میں نے دل ہی دل میں دعائیں پڑھنی شروع کیں اور خدا سے مدد کی فریاد کی۔ ثمیرہ کی چیخیں بڑھنے لگیں، اور اچانک دھند چھٹنے لگی۔ وہ دھیرے دھیرے غائب ہو گئی، اور میں نے اپنی ایمبولینس دوبارہ اسٹارٹ کی۔
کسی نہ کسی طرح میں ہسپتال کے قریب پہنچا اور زور زور سے چلانے لگا جیسے ہی ایمبولنس رکی میں جلدی سے اترا اور مدد کے لیے چلایا نرس اور وارڈ بوائے ائے۔
لیکن جب ہم نے ایمبولنس کا دروازہ کھولا تو تو بالکل خالی تھی وہ ایمبولنس میں نہیں تھی میں نے انہیں یقین دلانے کی کوشش کی کہ میں ایک زخمی عورت کو یہاں لیکر آیا تھا
میں نے اپنی پوری کہانی سنائی تو ایک نرس نے کہا کہ
کیا تم اسی سنسان حائی وے کی بات کر رہے ہو جہاں کہیں سال پہلے ایک حادثہ ہوا تھا
میں نے اسباب میں سر ہلایا نرس نے مزید بتایا وہاں ایک عورت کا قتل ہوا تھا کہا جاتا ہے کہ اس عورت کی روح وہاں بھٹکتی ہے کئی لوگوں نے اس کے بارے میں بتایا ہے لیکن کوئی اسے زندہ ہسپتال تک نہیں لا پایا یہ سن کر میرے ہاتھ پیر شل ہو گئے
اس رات کے بعد میں نے اس راستے پر کبھی دوبارہ جانے کی ہمت نہیں کی لیکن جب بھی میں ایمبو
لنس میں ڈیوٹی کرتا ہوں تو مجھے لگتا ہے کہ کوئی پیچھے بیٹھا مجھے گور رہا ہے
Agar ye stories ap hamary channel par dekhna chahty Han please visit
@KarimVoice