کالج کے دنوں کی بات ہے۔کراچی میں ایے دن کے ہنگاموں اور ہڑتالوں سے تعلیمی نظام بری طرح مفلوج ہوگیا تھا۔میرے سب دوست مفت کی چھٹیاں انجوائے کر رہے تھے جبکہ میرا شمار پڑھاکو ٹائپ طالبعلموں میں ہوتا تھا۔باقی دوست عام تعلیمی دنوں میں بھی غیر حاضر رہ کر ہلاگلا اور سیر سپاٹے کیا کرتے تھے جبکہ میں کبھی چھٹی نہیں کرتا تھا۔میرے اکثر دوست برگر فیملیز سے تعلق رکھتے تھے جن کے پاس اپنی کاریں ہوتی تھیں اور میں بسوں میں سفر کرنے والا ۔۔دوست مجھے اپنی محافل میں شریک ہونے پر ہمیشہ زور دیتے لیکن میرا خیال تھا انسان کو ہمیشہ اپنی اوقات کا خیال رکھنا چاہئیے۔ کراچی کے حالات اور آئے دن کالج یونیورسٹی کی بندش کی وجہ سے میں نے ٹیوشن لینے کا سوچا تاکہ امتحان اچھے نمبروں سے پاس ہوجائے۔سفید پوشی کی وجہ سے زیادہ فیس بھی نہیں دے سکتا تھا۔
شمالی ناظم آباد جہاں ہم رہتے تھے وہاں سے ایک دن یوں ہی کسی ٹیوشن سینٹر کی تلاش میں پیدل گھر سے نکل پڑا ۔عصر کے وقت سے شروع ہونے والا یہ مٹر گشت مغرب کے بہت بعد شپ اونرز کالج کے پیچھے اور عبداللہ کالج کے قریب ختم ہوا۔یہاں پہنچ کر مجھے احساس ہوا کہ میں کتنی دور آگیا ہوں۔ایک انجانی سی طاقت نے مجھے جیسے دھکیل کر ایسی جگہ پہنچا دیا جہاں ناظم آباد کی پہاڑی کے ساتھ جڑا آخری مکان نظر آیا۔مکان کافی بڑا تھا جس کے سامنے کے رخ پر دو منزلہ بلڈنگ تھی۔ایک سائیڈ پر لگے مین گیٹ سے بلڈنگ کے پیچھے کافی بڑا لان اور پھر چھوٹی سی رہائشی کوٹھی نما عمارت نظر آرہی تھی۔بلڈنگ کا گیٹ الگ تھا جس پر بڑی کلاسز کا ٹیوشن سینڑ لکھا ہوا تھا۔ساتھ میں ایوننگ اوقات درج تھے۔میں جھجکتے جھجکتے ہوئے اندر داخل ہوا تو مختلف کمروں سے لڑکوں کی بول چال اور استادوں کی آوازیں آرہی تھیں مگر بیرونی راہداریوں میں کوئی آمد ورفت نہیں تھی۔
ایک سائیڈ کمرے پر آفس لکھا دیکھ اندر داخل ہوا تو وہاں بھی کوئی نہیں تھا۔یہ آفس کلرک کا کمرہ لگ رہا تھا۔اسی کمرے سے اندر کی طرف ایک دروازہ تھا جس پر ایڈمن لکھا ہوا تھا۔میں اندر داخل ہوا تو دیکھا 45 یا 50 سال کی انتہائی خوبصورت خاتون کرسی پر بیٹھی ہیں۔انہوں نے ساڑھی باندھ رکھی تھی اور سر ننگا تھا۔بال بہت سیاہ اور لمبے تھے۔جسمانی طور پر وہ بہت بھرے جسم والی تھیں۔میں نے انہیں اپنی آمد کا مقصد بتایا تو انہوں نے سامنے بیٹھنے کا کہا۔انکی آنکھوں میں انتہاہ کی چمک تھی اور چہرے پر سخت سنجیدگی اور رعب تھا۔مجھے انکے سامنے بیٹھے ایسا لگ رہا تھا جیسے میں ایکس رے مشین کے سامنے ہوں۔رعب کی وجہ سے میں اوپر بھی نہیں دیکھ رہا تھا۔انہوں نے مجھے اپنے سینٹر کے قواعد و ضوابط بتائے جن پر سختی سے عمل کرنا تھا۔مجھ سے میرے مضامین پوچھے۔وقت کی پابندی اور چھٹی نہ کرنا ان کے بنیادی اصول تھے۔سب کچھ پوچھ کر میں نے ڈرتے ڈرتے فیس کا پوچھا تو وہ ہنس کر بولیں آپ دو چار دن پڑھ لیں پھر فیس کی بات ہوگی۔
میں شکریہ ادا کرکے اٹھا تو وہ بھی اٹھ کھڑی ہوئیں۔انکا جسم واقعی چند جگہوں سے بہت بھاری تھا مگر یہ بھاری پن بہت اچھا لگ رہا تھا۔انہوں نے ہاتھ بڑھایا تو میں سپ پٹا گیا کہ خواتین سے مصافحے کا رواج تو اب بھی ہمارے ملک میں بہت کم ہے۔خاص کر کسی اجنبی خاتون سے مصافحے کی تو گنجائش ہی نہیں ہوتی۔ انہوں نے خود نرمی سے میرا ہاتھ پکڑ لیا۔مجھے اپنے پورے بازو اور جسم میں تیز برقی رو دوڑتی محسوس ہوئی۔میرا دماغ اس طرح ہوگیا جیسے ہسپتال میں آپریشن سے پہلے بے ہوشی کا انجکشن لگانے کے بعد ہوتا ہے۔مجھے آپ پر اپنا کسی قسم کا کنڑول نہیں محسوس ہورہا تھا۔کمرے کی روشنی دئیے جیسی ہوگئی تھی اور ہر طرف خاموشی اور بھیانک سناٹا چھا گیا تھا۔انہوں نے مجھے قریب کرکے میرے کان میں کہا ۔۔کل سے تم ہر روز شام 6 بجے یہاں آو گے اور میں تمہیں باقی سٹوڈینٹس کے ساتھ نہیں بلکہ الگ پڑھاوں گی۔وقت یاد رکھنا ۔۔۔انکے جسم سے جادوئی مہک آرہی تھی جو کس بھی پرفیوم سے سو گنا زیادہ اثر والی تھی۔میں بالکل بے جان گڈے کی طرح ان سے بالکل لگ کر کھڑا تھا۔انکا بہت زیادہ بھاری سینہ میرے اور انکے بیچ حائل تھا۔۔۔ اچانک انہوں نے میرا ہاتھ چھوڑ دیا اور کہا اب جاو۔۔میں جیسے ٹرانس سے نکل آیا۔وہاں سے باہر نکلا تو مجھے اتنا خوف محسوس ہوا کہ میرے رونگھٹے کھڑے ہوگئے۔جسم پر کپکپی طاری۔لرزتی ٹانگوں کے ساتھ میری سب سے بڑی خواہش تھی کہ کسی طرح اس جگہ سے دور بھاگ جاوں۔
مجھے نہیں معلوم کہ میں گھر تک کیسے پہنچا۔گھر پہنچ کر مجھے تیز بخار ہوگیا۔گرمی کے موسم میں شدید ٹھنڈ لگنے لگی۔گھر والے میرا یہ حال دیکھ کر گھبرا گئے۔فورا محلے کے ڈاکٹر کو بلایا گیا جس نے کہا کہ اسے ٹھنڈا گرم ہوگیا ہے۔انجکشن دوائیاں دیں۔جس کے بعد مجھے ہوش نہیں رہا
اگلے دن میں بھلا چنگا ہوگیا۔رات والی سب باتیں ذہن میں آئیں تو اپنی بزدلی اور خوف پر ہنسی آگئی۔روسیوں کی ایک کہاوت ہے نا کہ دن کے وقت شیر کی دھاڑ پر بھی کوئی توجہ نہیں دیتا مگر رات کے اندھیرے میں گیدڑ کی آواز بھی بہت توجہ سے سنی جاتی ہے۔۔میرا بھی وہی حال تھا۔
خیر شام تک عام نارمل طریقے سے وقت گزرنے کے بعد مجھے دوبارہ یوں محسوس ہونے لگا کہ میرے دماغ پر کوئی طاقت قبضہ جما رہی ہے۔پانچ بجے میں گھر سے نکل آیا اور ٹھیک 6 بجے اسی ٹیوشن سینٹر کے سامنے تھا۔میڈم اپنے آفس میں تھیں۔انہوں نے مجھے دیکھ کر اپنے پیچھے آنے کا اشارہ کیا اور آفس کے پچھلی طرف سے لان پر ہوتی ہوئی رہائشی مکان میں پہنچ گئیں۔ان کا قد چھوٹا تھا اور چال ایسے تھی کی اگر دو قدم آگے چلتی تھیں تو چار قدم درمیان سے دائیں بائیں ہوتیں تھیں۔بال گھٹنوں تک تھے اور سیاہ کالے۔۔اندر کا مکان انتہائی صاف ستھرا تھا۔لگتا تھا جیسے ابھی ابھی کوئی صفائی کرکے گیا ہے۔فرش سفد ماربل کے تھے اور پورا گھر روشنیوں سے جگمگ جگمگ کر رہا تھا۔بیش قیمت ساز وسامان بھرے ہوئے ڈرائنگ روم میں مجھے بٹھا کر انہوں نے پڑھانا شروع کردیا۔انکا پڑھانے کا طریقہ اتنا اچھا تھا کہ ریاضی جیسا خشک مضمون مجھے اردو جیسا لگا۔دو گھنٹے مسلسل پڑھا کر انہوں نے کہا اب جاو ۔مجھے اتنا پڑھنے کے باوجود بالکل تھکن نہیں تھی۔میں نے پھر فیس کا پوچھا تو انہوں نے کہا دو دن بعد بتاوں گی اور اب کل سے سیدھے اندر آیا کرنا۔میں یہاں ہی انتظار کروں گی۔ تقریبا 10 دن تک سلسلہ یوں ہی چلتا رہا۔میں پہلے دن والے خوف سے آزاد ہوگیا۔اب وہ پڑھانے کے بعد ہنسی مذاق اور باتیں بھی کرنے لگیں مگر رعب داب اور حدود کے اندر۔گھر والوں کو میں نے بتایا کہ ایک دوست کے ساتھ مل کر کوچنگ سینٹر جاتا ہوں جس کی فیس نہ ہونے کے برابر ہے۔مجھے ان دس دنوں میں صرف فیس کا خوف طاری رہا کہ نجانے کتنی ہوگی۔باقی پڑھائی کے لحاظ سے میں دس دن میں 4 ماہ کا کورس مکمل کرچکا تھا۔
شائد وہ گیارواں یا بارواں دن تھا۔صبح سے شہر میں بارش ہورہی تھی۔ہر طرف جل تھل تھا۔میں چونکہ روز وہاں پیدل جایا کرتا تھا حالانکہ فاصلہ کافی تھا لیکن میں خرچ کے پیسے بچارہا تھا کہ اگر فیس زیادہ ہوئی تو یہ رقم بھی ساتھ شامل کردوں گا۔اس شام دھواں دھار بارش ہورہی تھی۔مشکل سے ایک رکشہ ملا۔جس کا کرایہ میرے دس دن کی بچت کے برابر تھا۔میں لکھ چکا ہوں کہ ہر شام میرا دماغ میرے کنٹرول سے باہر ہوتا تھا۔اس لئیے مجھے جانا ہی جانا تھا۔اس رات پڑھائی کے بعد انہوں نے مجھے کہا کہ آج یہاں ہی رک جاو۔بارش بہت تیز ہے اور کوئی سواری بھی نہیں ملے گی۔۔میں نے تھوڑی سی ہمت کرکے کہا کہ گھر والے بہت پریشان ہونگے۔ڈھونڈنا شروع ہوجائیں گے۔انہوں نے پہلے دن کی طرح میرا ہاتھ پکڑ لیا اور کہا چلو میرے ساتھ اور چل کر گھر والوں سے اجازت لے آو۔مجھے کچھ ہوش نہیں کہ میں گھر کیسے پہنچا۔نہ بارش تھی نہ فاصلہ تھا۔چند سیکنڈ میں میں گھر کے سامنے تھا۔انہوں نے ہاتھ چھوڑا اور کہا جاو بتا کر آو۔
میں کسی روبوٹ کی طرح گھر کے اندر گیا اور گھر والوں کو بتایا کہ آج کی رات دوست کے ساتھ رہوں گا۔وہ گاڑی لے کر نیچے کھڑا ہے۔پتہ نہیں گھر والوں نے کیا کچھ کہا۔بارش سے ڈرایا۔کچھ علم نہیں۔میں چند سیکنڈ بعد پھر باہر میڈم کے ساتھ کھڑا تھا۔ایک بات مجھے فورا محسوس ہوئی کہ آس پاس گزرنے والے لوگ میڈم کی طرف زرہ بھی توجہ نہیں کر رہے ہیں جیسے انکو دیکھ ہی نہیں رہے ہیں۔حسب سابق چند سیکنڈ میں ہم واپس میڈم کے گھر کے اندر تھے۔ڈرائنگ روم میں انہوں نے صوفے پر بیٹھ کر ایک بٹن دبایا تو گھر کے اندر گھنٹی بجی۔تھوڑی دیر بعد وہ بولیں چلو کھانا لگ گیا ہے۔چل کر کھاتے ہیں۔ڈائننگ ٹیبل انواع واقسام کے لذیذ کھانوں سے بھرا ہوا تھا مگر کوئی نوکر نہیں تھا۔چپ چاپ کھانا کھا کر وہ مجھے ایک کمرے میں لے گئیں ۔میں نے یوں ہی پوچھا گھر کے باقی لوگ اور نوکر چاکر کہاں ہیں تو بولیں کہ نوکر کھانا ٹیبل پر رکھ کر چلا گیا ہے اور گھر کے تمام لوگ ایک شادی پر حیدراباد گئے ہوئے ہیں۔
تقریبا 10 دن تک سلسلہ یوں ہی چلتا رہا۔میں پہلے دن والے خوف سے آزاد ہوگیا۔اب وہ پڑھانے کے بعد ہنسی مذاق اور باتیں بھی کرنے لگیں مگر رعب داب اور حدود کے اندر۔گھر والوں کو میں نے بتایا کہ ایک دوست کے ساتھ مل کر کوچنگ سینٹر جاتا ہوں جس کی فیس نہ ہونے کے برابر ہے۔مجھے ان دس دنوں میں صرف فیس کا خوف طاری رہا کہ نجانے کتنی ہوگی۔باقی پڑھائی کے لحاظ سے میں دس دن میں 4 ماہ کا کورس مکمل کرچکا تھا۔ شائد وہ گیارواں یا بارواں دن تھا۔صبح سے شہر میں بارش ہورہی تھی۔ہر طرف جل تھل تھا۔میں چونکہ روز وہاں پیدل جایا کرتا تھا حالانکہ فاصلہ کافی تھا لیکن میں خرچ کے پیسے بچارہا تھا کہ اگر فیس زیادہ ہوئی تو یہ رقم بھی ساتھ شامل کردوں گا۔اس شام دھواں دھار بارش ہورہی تھی۔مشکل سے ایک رکشہ ملا۔جس کا کرایہ میرے دس دن کی بچت کے برابر تھا۔میں لکھ چکا ہوں کہ ہر شام میرا دماغ میرے کنٹرول سے باہر ہوتا تھا۔اس لئیے مجھے جانا ہی جانا تھا۔اس رات پڑھائی کے بعد انہوں نے مجھے کہا کہ آج یہاں ہی رک جاو۔بارش بہت تیز ہے اور کوئی سواری بھی نہیں ملے گی۔۔میں نے تھوڑی سی ہمت کرکے کہا کہ گھر والے بہت پریشان ہونگے۔ڈھونڈنا شروع ہوجائیں گے۔انہوں نے پہلے دن کی طرح میرا ہاتھ پکڑ لیا اور کہا چلو میرے ساتھ اور چل کر گھر والوں سے اجازت لے آو۔مجھے کچھ ہوش نہیں کہ میں گھر کیسے پہنچا۔نہ بارش تھی نہ فاصلہ تھا۔چند سیکنڈ میں میں گھر کے سامنے تھا۔انہوں نے ہاتھ چھوڑا اور کہا جاو بتا کر آو۔میں کسی روبوٹ کی طرح گھر کے اندر گیا اور گھر والوں کو بتایا کہ آج کی رات دوست کے ساتھ رہوں گا۔وہ گاڑی لے کر نیچے کھڑا ہے۔پتہ نہیں گھر والوں نے کیا کچھ کہا۔بارش سے ڈرایا۔کچھ علم نہیں۔میں چند سیکنڈ بعد پھر باہر میڈم کے ساتھ کھڑا تھا۔
ایک بات مجھے فورا محسوس ہوئی کہ آس پاس گزرنے والے لوگ میڈم کی طرف زرہ بھی توجہ نہیں کر رہے ہیں جیسے انکو دیکھ ہی نہیں رہے ہیں۔حسب سابق چند سیکنڈ میں ہم واپس میڈم کے گھر کے اندر تھے۔ڈرائنگ روم میں انہوں نے صوفے پر بیٹھ کر ایک بٹن دبایا تو گھر کے اندر گھنٹی بجی۔تھوڑی دیر بعد وہ بولیں چلو کھانا لگ گیا ہے۔چل کر کھاتے ہیں۔ڈائننگ ٹیبل انواع واقسام کے لذیذ کھانوں سے بھرا ہوا تھا مگر کوئی نوکر نہیں تھا۔چپ چاپ کھانا کھا کر وہ مجھے ایک کمرے میں لے گئیں ۔میں نے یوں ہی پوچھا گھر کے باقی لوگ اور نوکر چاکر کہاں ہیں تو بولیں کہ نوکر کھانا ٹیبل پر رکھ کر چلا گیا ہے اور گھر کے تمام لوگ ایک شادی پر حیدراباد گئے ہوئے ہیں
کمرے میں بیڈ لگا ہوا تھا۔انہوں نےمجھے رات پہننے کے لئیے ایک جوڑا لاکر دیا اور ٹی وی آن کرکے بولیں تم آرام کرو۔میں آفس بند کرنے جارہی ہوں۔میں واش روم میں کپڑے وغیرہ بدل کر ٹی وی کے سامنے لیٹ گیا۔ادھے گھنٹے میں وہ کمرے میں داخل ہوئیں۔انکا سب انداز بدلا ہوا تھا۔چہرے پر تیز میک اپ تھا۔لباس بہت باریک تھا جس سے تمام جسمانی ابھار اور بھاری حصے جھلک رہے تھے۔انکی آواز بدل چکی تھی اور حسن بہت بڑھ چکا تھا۔
آگے لکھنا ممکن نہیں کیونکہ اس پیج پر یا کسی بھی جگہ ایسا لکھا نہیں جاسکتا۔صرف اتنا لکھ دیتا ہوں کہ مجھے چند منٹوں پتہ چل چکا تھا کہ وہ عورت کی شکل میں تو ہیں مگر انسان نہیں ہیں۔
کمرہ نمبر 302 اور 500 سال پرانی قبر کا خوفناک راز – دو سچی ہارر کہانیاں" --- 2 خوفناک کہانیاں ☠️ "کمرہ نمبر 3…
byNest of Novels June 23, 2025
JSON Variables
Welcome to Nest of Novels! Here, you'll find a collection of captivating Urdu novels, stories, horror tales, and moral stories. Stay tuned for the latest updates and new releases!