ہماری یوٹیوب چینل پر آپ کی بھیجی گئی کہانیوں میں سے آج ہم ایک ایسی سچی اور خوفناک کہانی پیش کر رہے ہیں جو کراچی کے ایک ڈرائیور، علی اکبر، نے ہمیں ارسال کی ہے۔ علی اکبر پیشے سے ٹرک ڈرائیور ہیں اور رات کی شفٹ میں کام کرتے ہیں۔ انہوں نے ہمارے چینل کی کئی کہانیاں سنیں اور اپنی زندگی کا ایک ایسا واقعہ ہمارے ساتھ شیئر کیا جو ان کے لیے ناقابلِ فراموش ہے۔
کہانی کا آغاز:
یہ 1990 کی دہائی کا واقعہ ہے۔ علی اکبر کراچی کے معروف اخبار میں ملازم تھے اور رات کی شفٹ میں کام کرتے تھے۔ ایک رات، تقریباً تین بجے، وہ اپنی گاڑی میں شارع فیصل پر بلوچ کالونی فلائی اوور سے اتر کر نرسری کی طرف جا رہے تھے۔ سڑک سنسان تھی اور سردیوں کی رات کا سناٹا ہر طرف چھایا ہوا تھا۔
پراسرار ملاقات:
پل سے اترتے ہوئے، علی اکبر نے دیکھا کہ سامنے کچھ فاصلے پر ایک انتہائی بوڑھی خمیدہ کمر عورت ہے جو اپنے ہاتھ میں ایک گٹھڑی لیے پل کے فٹ پاتھ پر پیدل چل رہی ہے۔ انہوں نے گاڑی کی رفتار کم کی اور اس کے قریب جا کر پوچھا، "ماں، آپ اس وقت کہاں جا رہی ہیں؟" لیکن اس بوڑھی عورت نے کوئی توجہ نہ دی اور اپنی سیدھ میں آگے بڑھتی رہی۔
عجیب پیشکش:
علی اکبر نے دوبارہ پوچھا، "اماں، آپ کو کہاں جانا ہے؟ میں چھوڑ دیتا ہوں۔" اس بار عورت رکی اور ان کی طرف دیکھا۔ علی اکبر نے گاڑی روکی اور دروازہ کھول دیا۔ بوڑھی عورت اندر آ کر بیٹھ گئی اور گٹھڑی اپنی گود میں رکھ لی۔ جیسے ہی دروازہ بند ہوا، گاڑی میں اچانک ایک عجیب ناگوار سی بُو پھیل گئی۔
خوفناک انکشاف:
علی اکبر نے گاڑی آگے بڑھاتے ہوئے پوچھا، "اماں، آپ کو کہاں جانا ہے؟" عورت نے سرسراتی اور گونجتی سی آواز میں جواب دیا، "محمود آباد جانا ہے۔" علی اکبر نے کہا، "اماں، میں آپ کو نرسری اسٹاپ پر اتار دیتا ہوں۔ وہاں سے آپ چنیسر گوٹھ پھاٹک کراس کر کے محمود آباد چلی جانا۔"
خوف کا لمحہ:
علی اکبر نے ایک لمحے کے لیے سڑک سے نظریں ہٹائیں اور ایک نظر اماں پر ڈالی، لیکن جو منظر انہوں نے دیکھا، وہ انہیں بے ہوش کرنے کے لیے کافی تھا۔ بوڑھی عورت اپنی گٹھڑی گود میں لیے بیٹھی تھی، لیکن اس کا سر گول گول گھوم رہا تھا۔ 360 ڈگری پر اس کا سر ایک فٹ بال کی طرح تیزی سے چکر کھا رہا تھا کہ اس کے چہرے کے خدوخال بھی دکھائی نہیں دے رہے تھے۔
فرار کی کوشش:
علی اکبر کے بدن میں جھرجھری سی آئی اور یکا یک جسم کے سارے رونگٹے کھڑے ہو گئے۔ انہوں نے فوراً گاڑی روکی اور دروازہ کھول کر باہر نکل آئے۔ انہوں نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو گاڑی میں کوئی نہیں تھا۔
کہانی کا اختتام:
اس واقعے کے بعد، علی اکبر نے رات کے وقت اکیلے سفر کرنے سے گریز کرنا شروع کر دیا۔ یہ واقعہ ان کی زندگی کا سب سے خوفناک تجربہ تھا، اور انہوں نے ہمیں یہ کہانی اس لیے بھیجی تاکہ ہم سب کو آگاہ کریں کہ رات کے وقت سنسان سڑکوں پر محتاط رہیں۔
---
نوٹ: یہ کہانی علی اکبر کی زبانی ہے، اور ہم نے اسے من و عن آپ تک پہنچایا ہے۔ اگر آپ کے پاس بھی ایسی کوئی سچی کہانی ہے تو ہمیں ضرور بھیجیں تاکہ ہم اسے اپنے ناظرین تک پہنچا سکیں۔
اگر اپ خوفناکانیاں ہماری اواز میں سننا پسند کریں تو ہمارے چینل کو وزٹ کریں بہت شکریہ @Karimvoice
کمرہ نمبر 302 اور 500 سال پرانی قبر کا خوفناک راز – دو سچی ہارر کہانیاں" --- 2 خوفناک کہانیاں ☠️ "کمرہ نمبر 3…
byNest of Novels June 23, 2025
JSON Variables
Welcome to Nest of Novels! Here, you'll find a collection of captivating Urdu novels, stories, horror tales, and moral stories. Stay tuned for the latest updates and new releases!