ابھی چند دن قبل ہی میں رات لیٹ ہو گیا تو میرے دوست مجھے گھر کہ قریب مین روڈ پہ ہی ڈراپ کر کے چلے گئے تو مجھے کچھ دیر پیدل چلنا پڑا اپنے گھر تک پہنچنے کے لیے
تو میں نے سوچا کہ شارٹ کٹ لیتے ہیں ہمارے گھر سے دو گلیاں چھوڑ کے تیسری گلی میں خالی پلاٹ تھا تو میں نے سوچا کہ ذرا جلدی پہنچ جاؤں گا اور دھند کافی زیادہ پڑ رہی تھی جس کی وجہ سے مجھے سامنے کچھ نظر ہی نہیں آرہا تھا میں نے موبائل کی لائٹ آن کی اور تاکہ اگر کوئی بائیک والا یا کوئی آتا ہے تو اسے پتہ چلے کہ کوئی آ رہا ہے یہ نہ ہو کے مجھے چوٹ لگ جائے اور بائیک والے کو بھی
میں نے جیسے ہی خالی پلاٹ میں پاؤں رکھا تو دیکھا وہاں دس بارہ کتے موجود ہیں جنہوں نے چاروں طرف سے مجھے گھیرا ڈال لیا اور مجھ پہ بھونکنا شروع کر دیا چونکہ میں نے سیاہ لباس پہنا ہوا تھا جس وجہ سے وہ مجھ پہ زیادہ بھونک رہے تھے میں ایک جگہ پہ کھڑا ہو گیا میں نے سوچا اگر میں بھاگا تو یہ مجھے زخمی کر دیں گے اور اگر میں نے نیچے سے پتھر اٹھایا تو یہ اور اگریسو ہو جائیں گے
میں بنا ڈرے وہاں پہ کھڑا ہو گیا لیکن وہ کتے مسلسل مجھ پہ بھونک رہے تھے مگر میرے قریب نہیں آ رہے تھے میرے ارد گرد چکر لگا رہے تھے تو اچانک سے ایک کتا میرے سامنے آ کر کھڑا ہو گیا وہ دم ہلانے لگا اور وہ باقی سب کتوں پہ بھونکنا شروع ہو گیا
اب وہ کتا کسی دوسرے کتے کو میرے قریب نہیں آنے دے رہا تھا اب اس نے اپنی زبان میں پتہ نہیں کیا کہا کہ وہاں سے سارے کے سارے کتے چلے گئے میں نہیں جانتا اس نے اپنی زبان میں کیا کہا
پھر میں نے اپنے موبائل کی ٹارچ آن کی اور اس کتے کی طرف دیکھا تو مجھے وہ کچھ جانا پہچانا لگا پھر وہ کتا گھر تک میرے ساتھ آیا اور میرے گھر کے دروازے کے باہر ہی بیٹھ گیا رات کا ٹائم تھا میرے پاس کچھ تھا نہیں کہ اس کو کھلاتا لیکن میں کچن میں گیا تو میں نے دیکھا ایک روٹی بچی پڑی ہے میں نے اس کو وہ روٹی ڈال دی اور وہ روٹی لے کر چلا گیا
لیکن میں رات کو سوچنے لگا بار بار کہ آخر اس نے مجھے کیوں بچایا پھر مجھے یاد آیا کہ جب وہ کتا چھوٹا تھا تو تو اکثر میرے پیچھے جنرل سٹور تک ا جاتا تھا اور میں اس کو بسکٹ کھلاتا تھا پھر اس کے بعد وہ غائب ہو گیا ملا ہی نہیں شاید میں نے اس کو دو یا تین دفعہ ہی بسکٹ کھلائے تھے
اور جب وہ کتا چھوٹا تھا تو جب وہ میرے ساتھ جنرل سٹور تک جاتا تھا تو میں اس کی حرکات و سکنات دیکھ کر حیران ہو جاتا تھا کہ وہ میرے راستے میں آنے والے شاپر یا کچھ بھی کچرا اٹھا کے سائیڈ پہ کرتا تھا اور جنرل سٹور تک وہ ایسے ہی کرتا تھا اور اگر میں بسکٹ نیچے پھینک دیتا تھا تو وہ کھاتا ہی نہیں تھا اگر میں اپنے ہاتھ سے کھلاتا تھا تو وہ کھا لیتا تھا
یہ واقعہ آپ کو سنانے کا مقصد صرف یہی تھا کہ کبھی کبھار ہماری چھوٹی سی نیکی ہمارے بہت کام آتی ہے دنیا میں بھی اور آخرت
میں بھی شکریہ