![]() |
#اندھیری_رات_کا_سفر "سب سے پہلے میں آپ کو اپنا تعارف کروا دیتا ہوں اسکے بعد کہانی کا آغاز کرتے ہیں میرا نام عمران ہے اور پیشے سے میں ایک بس ڈرائیوار ہوں شہر شہر گاوّں گاوّں پھرنا میرا روز کا معمول ہے ۔ میری بس آج بھی شہر جانے کے لیے تیار ہو رہی تھی زور سفر کرنے سے پہلے میں اسے مکمل ٹھیک کرواتا ہوں تاکے راستے میں کوئی مسئلہ نہ کرے اس لیے اسے مکمل ٹھیک کروانے کے بعد ہی میں سفر کے لیے جاتا ہوں ابھی بھی ایک میکنیک اسے ٹھیک کر رہا تھا اس لیے میں اسکی دکان پر بیٹھا بور ہو رہا تھا میں جب بھی بور ہوتا ہوں کسی نہ کسی کتاب کی ورق گردانی کرتا ہوں آج کتاب لانا بھول گیا تھا اس لیے ارد گرد کے ماحول کا جائزہ لینے لگا آج سردی کچھ معمول سے ہٹ کر تھی رات ہونے والی تھی بادلوں نے آسمان کو اپنی لپٹ میں لے رکھا تھا دن میں بھی ہر طرف اندھیرا پھیلا ہوا تھا ۔ پہلو در پہلو تاریکی کا راج تھا ۔ نہ کوئی راستہ دکھائی دے نہ ہی ہاتھ کو ہاتھ سجھائی دے ۔ چاند کی آخری تاریخ تھی اوپر سے اندھیرے کے غلاف میں لپٹے تاریک سیاہ بادلوں نے ماحول کو اور بھی ہیبتناک بنایا ہوا تھا ۔ آدھا دن ڈھل چکا تھا تقریباً رات ہونے والی تھی ۔ آج تو ہوا میں بھی نمی کا تناسب پہلے سے کہیں زیادہ تھا ۔ بھیگی بھیگی ہوا بارش کا پتہ دے رہی تھی کہ وہ اب برسے کہ تب برسے بادل تھے کہ لمحہ با لمحہ بڑھتے ہی جا رہے تھے ۔ کبھی کبھی جب وہ گرجتے تو ایسا لگتا جیسے بہت سے لوگوں نے مل کر کوئی دیوہیکل ڈرم لڑکھڑاتے ہوئے لے جا رہے ہوں ۔ حشرات الارض کی مخصوص آوازوں نے ماحول کی پراسراریت حد درجہ بڑھا دی تھی ۔ تاریکی بادلوں کی گرج ۔ بجلی کی چمک ۔ تیز ہوا کے تھپڑے اور حشرات کی ڈراونی آوازیں کیا کم ہولناک تھی ایک دم سے آسمانی بچلی چمکی اور ایک انتہائی دھماکہ ہوا تھا جیسے کہیں آس پاس کوئی زرو دار بم پھٹا ہو ۔ شاید کہیں بجلی گری تھی ۔ ایک دم سے بجلی کی چمک پیدا ہوئی تھی رات میں دن کا سماں ہوگیا تھا لیکن وہ بس ایک لمحے کے لیے تھا وہ چمک ایک دم سے بجھی تھی تاریکی نے پھر سے اپنا تسلسل جما لیا تھا تب ہی میکینک نے اوکے کا اشارہ کیا تو میں بھی کرسی سے اٹھ کھڑا ہوا اسے پیسے دینے کے بعد میں بس کی طرف بڑھ گیا تھا میری بس ایک گاؤں سے شہر کی طرف رات کے سفر پر گامزن ہوئی تھی۔ مسافروں کی تعداد کم تھی، کیونکہ رات کے وقت کم لوگ سفر کرتے ہیں۔ بس میں صرف 10 سے 12 مسافر تھے، جن میں چند بزرگ، ایک نوجوان جوڑا، اور کچھ مزدور شامل تھے۔ سفر کا آغاز عام تھا۔ بس گاؤں کی سنسان سڑکوں پر دھیرے دھیرے چل رہی تھی میں ان راستوں سے خوب واقف تھا کیونکہ یہ میرا روز کا کام ہے اور دن میں میری بس ان راستوں پر دو دفعہ گزرتی ہے صبح شام میں یہ کام کرتا ہوں ۔ میں یہ راستہ کئی بار دیکھ چکا ہوں ۔ مجھے ان راستوں سے بہت پیار ہے ۔ لیکن آج رات ماحول کچھ عجیب سا لگ رہا تھا۔ جیسے ہوا میں کوئی بھاری پن تھا، اور ہر طرف گہری خاموشی تھی۔ جیسے آج کچھ برا ہونے والا ہو میری چھٹی حس نے مجھے الرٹ کر دیا تھا کہ آج ضرور کچھ غلط ہو گا میں نے دل ہی دل میں آیت الکرسی بھی پڑھنی شروع کر دی تھی میرا دل بار بار کہہ رہا تھا کہ آج میں سفر نہ کروں دماغ کہتا اگر سفر نہیں کروں گا تو مجھے بہت نقصان ہو گا میرے بچے بھوکے رہ جائیں گے نا چاہتے ہوئے بھی میں اپنے بچوں کے لیے سفر پر جانے کے لیے تیار ہوگیا تھا تقریباً آدھی رات کا وقت ہوگا جب بس ایک گھنے جنگل کے قریب پہنچی۔ یہ راستہ کم ہی لوگ استعمال کرتے تھے۔ اچانک ایک مسافر نے شور مچایا کہ "ڈرائیور، بس روکو!" میں نے بس کی بریک لگائی تو دیکھا کہ ایک خوبصورت لڑکی سڑک کے کنارے کھڑی بس روکنے کے لیے ہاتھ ہل رہی تھی۔ اُس نے ایک سادہ سفید لباس پہنا ہوا تھا، اور اُس کے بال کمر تک لمبے تھے۔ میں نے بس کے شیشے سے اس لڑکی کی طرف دیکھا تھا ایک سرسری سی نگاہ ڈال کر جیسے ہی میں نے اپنی اپنی نظر اسے سے ہٹانی چاہی کہ دوسرے ہی پل مجھے ایسا لگا جیسے اس لڑکی کے پاوّں الٹ ہوں وہ مجھ سے تھوڑی دور کھڑی تھی میں نے بغور اسکی طرف دیکھا تب تک وہ بس میں سوار ہو چکی تھی تو میں نے بھی اپنا دماغی خلل سمجھتے ہوئے اپنے سر کو جھٹکتے ہوئے آگے والے شیشے سے پیچھے دیکھا وہ بس میں سوار ہوئی اور خاموشی سے سب سے پچھلی سیٹ پر جا کر بیٹھ گئی۔ کسی نے اُس سے کوئی سوال نہیں کیا، لیکن سب اُسے عجیب نظروں سے دیکھ رہے تھے۔ میرے مطابق، لڑکی کا چہرہ بےحد سرد اور جذبات سے عاری تھا۔ اسکی آنکھیں سوجی ہوئیں تھیں جیسے وہ رو ریی ہو وہ بنا کسی دوپٹے کے تھی بنا کسی شال کے تھی اور کپڑے بھی موسم کی نسبت ہلکے سے پہنے تھے " یہ لڑکی ہے یا کوئی پتھر نہ شال پہنی ہے نہ کوئی ڈھنگ کے کپڑے پتہ نہیں اسے سردی کیوں نہیں لگ رہی "۔۔ میں نے دل میں سوچتے ہوئے اپنی بس آگے بڑھائی ۔۔۔ جنگل کے درمیان بس نے اپنا سفر دوبارہ شروع کیا۔ لیکن چند منٹ بعد بس میں ایک عجیب واقعہ ہوا۔ ایک بزرگ جو لڑکی کے قریب بیٹھا تھا، اچانک چیخنے لگا۔ وہ چیخ رہا تھا، "یہ کون ہے؟ یہ انسان نہیں ہے!" میں نے فوراً بس روکی اور سب پیچھے مڑے تو دیکھا کہ وہ لڑکی غائب ہو چکی تھی۔ مسافروں میں خوف و حراست پھیل گیا تھا کوئی کچھ بول رہا تھا تو کوئی کچھ ۔ ایک پل کے لیے اسکے پاوّں میری نظروں میں آ بسے تھے مجھے اس وقت اندازہ ہو گیا تھا وہ انسان نہیں کوئی ماورائی مخلوق تھی جس انداز سے وہ کھڑی تھی وہ کہیں سے بھی انسان نظر نہیں آئی جب میں نے خود ایک بار پھر سے پیچھے مڑ کر دیکھا تو واقعی وہ لڑکی وہاں نہیں تھی۔ سب نے فیصلہ کیا کہ بس کو فوراً شہر کی طرف لے جایا جائے۔ لیکن جیسے ہی میں نے بس دوبارہ چلائی عجیب و غریب واقعات ہونے لگے۔ بس کے انجن سے عجیب آوازیں آنے لگیں، اور کھڑکیاں خودبخود کھلنے اور بند ہونے لگیں۔ مسافر چیخنے لگے، اور میری سمجھ میں کچھ نہیں آ رہا تھا کہ میں کیا کروں اچانک، جنگل کے درمیان ایک مقام پر بس بند ہو گئی۔ میں نے نیچے اتر کر انجن چیک کیا تو دیکھا کہ انجن کے گرد کسی کے ہاتھوں کے نشان تھے، جیسے کوئی اُس پر دباؤ ڈال رہا ہو۔ یہ منظر دیکھ کر میرا دل دہل گیا مجھے آیت الکرسی پڑھنی تک بھول گئی تھی میرا دل جیسے حلق میں آ گرا ہو دل یوں دھڑک رہا تھا جیسے ابھی پسلیوں کی ہڈیاں توڑ کر باہر آ گرے گا ہاتھ پاوّں تک ٹھنڈے پڑ چکے تھے کام کرنا بھی بند ہو رہے تھے میں جلدی سے بس میں واپس آ کر دوبارہ گاڑی اسٹارٹ کرنے کی کوشش کی، لیکن ناکام رہا۔ اتنے میں ایک مزدور نے کہا، "ہمیں قرآن کی تلاوت کرنی چاہیے۔" جیسے ہی مسافروں نے سورہ فاتحہ پڑھنا شروع کی، بس کے اندر ایک زور دار چیخ گونجی، اور وہی لڑکی سامنے آ کر کھڑی ہو گئی۔ اُس کے چہرے پر ایک شیطانی مسکراہٹ تھی۔ اُس نے کہا، "تم لوگوں کو یہاں نہیں ہونا چاہیے تھا۔ یہ میرا علاقہ ہے چلے جاو یہاں سے ورنہ تمھارا وہ حشر کروں گی کہ تمھیں اپنے ہونے پر پچتھوا ہو گا !" " ہم نہیں جائیں گے تم جو کرنا ہے کرو "۔۔۔۔ میں نے ڈرتے ہوئے کہا اور آیت الکرسی کو پڑھنے لگا لیکن میرے ساتھ ہمیشہ یہی ہوتا ہے ڈر کی وجہ سے میں آیت الکرسی کو بیچ بیچ میں پڑھنا بھول جاتا ہوں اس بار بھی یہی ہوا تھا اس لیے وہ شیر ہو گئی تھی اُس کے بعد جو کچھ ہمارے ساتھ ہوا مجھے الفاظ میں بیان کرنا نہیں آتا ۔ لڑکی نے ایک ایک کر کے سب کو خوفزدہ کیا۔ آخرکار، بس کسی طرح چلنے لگی، اور سب مسافر دعا کرتے ہوئے اُس جنگل سے نکلنے میں کامیاب ہوئے۔ جب بس شہر پہنچی، تو میں نے دیکھا کہ اُس کی پچھلی سیٹ خون سے رنگی ہوئی تھی، اور لڑکی کے ناخنوں کے نشان ہر طرف موجود تھے۔ اختتام: حقیقت یا وہم؟ میں آج بھی وہ رات نہیں بھول سکا۔ میرے مطابق، وہ لڑکی کوئی انسان نہیں تھی، بلکہ کوئی غیر مرئی مخلوق تھی جو اُس علاقے کی حفاظت کرتی تھی۔ تب سے میں نے وہ روٹ چھوڑ دیا اور کبھی رات کی ڈیوٹی نہیں کی تھی لیکن مجھے یہ تجسس ضرور تھا کہ آخر وہ لڑکی تھی کون اور کیوں ہمیں خوفزدہ کرتی رہی مجھے اس تجسس نے کہیں سکون نہ لینے دیا میں اسی کھوج میں مبتلا رہا تھا کہ آخر وہ کون تھی بالآخر ایک دن میں نے اُس واقعے کے بارے میں تحقیق کرنے کا فیصلہ کیا۔ مجھے لگتا تھا کہ اُس جنگل میں کچھ نہ کچھ ایسا ضرور ہے جس کی حقیقت تک پہنچنا ضروری ہے۔ میں نے اپنے ایک دوست کامران سے بات کی، جو ایک رپورٹر تھا اور ماضی میں کئی پراسرار کہانیوں پر کام کر چکا تھا۔ کامران نے کہا، "تمہیں اس واقعے کی سچائی معلوم کرنے کے لیے دوبارہ اُس جنگل جانا ہوگا، لیکن اس بار احتیاط کے ساتھ۔" چند دن کی منصوبہ بندی کے بعد میں اور کامران، دو اور ساتھی، شبیر اور ساجد، اُس جنگل کی طرف روانہ ہوئے۔ وہ ایک علیحدہ گاڑی میں جا رہے تھے، کیونکہ میں نے قسم کھا لی تھی کہ میں کبھی دوبارہ اُس بس کو ہاتھ نہیں لگاوں گا۔ رات کا وقت تھا، اور وہی سنسان راستہ، جس پر چند روز پہلے میں نے وہ خوفناک رات گزاری تھی۔ جنگل کے قریب پہنچتے ہی ماحول دوبارہ بدلنے لگا۔ ہوا کی رفتار بڑھ گئی، اور عیجب و غریب آوازیں چاروں اطراف گونج رہی تھیں اور سڑک کے دونوں طرف کھڑے درخت عجیب آوازیں نکالنے لگے، جیسے کسی نے اُنہیں جھنجھوڑا ہو کامران کے پاس ایک پرانا نقشہ تھا، جس میں اُس جنگل کے اندر ایک مزار کا ذکر تھا۔ کہا جاتا تھا کہ یہ مزار کسی ایسی عورت کا تھا، جسے اُس کے خاندان نے صدیوں پہلے بے رحمی سے قتل کر دیا تھا۔ کامران نے بتایا، "یہ کہانی گاؤں کے بزرگوں سے سنی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ عورت اب ایک روح بن چکی ہے، جو اُس جگہ کی حفاظت کرتی ہے۔" اُنہوں نے گاڑی جنگل کے کنارے روکی اور پیدل مزار کی طرف چلنے لگے۔ تقریباً بیس منٹ کے سفر کے بعد وہ مزار تک پہنچے۔ یہ جگہ خستہ حال تھی، جیسے کئی دہائیوں سے کسی نے اُس کی دیکھ بھال نہ کی ہو۔ مزار کے قریب پہنچتے ہی میں نے محسوس کیا کہ ہوا میں دوبارہ وہی بھاری پن تھا، جو اُس رات بس میں تھا جیسے ہی ہم مزار کے قریب پہنچے، ایک عجیب آواز ہمارے کانوں میں گونجی۔ یہ آواز کسی عورت کے ہنسنے کی تھی، جو نہایت خوفناک تھی۔ شبیر نے فوراً قرآن پاک کی آیت پڑھنی شروع کی، لیکن آواز اور تیز ہو گئی۔ اچانک، ایک سایہ مزار کے اندر سے نکلا اور اُن کے سامنے کھڑا ہو گیا۔ یہ وہی لڑکی تھی جسے میں نے بس میں دیکھا تھا۔ لیکن اس بار اُس کی حالت اور زیادہ ڈراؤنی تھی۔ اُس کی آنکھوں سے خون بہہ رہا تھا، اور اُس کے ہاتھ لمبے اور نوکیلے ہو چکے تھے۔ اُس نے کہا، "یہ جگہ چھوڑ دو! یہ میرا گھر ہے۔ تم نے یہاں آنے کی ہمت کیسے کی؟" سب کے دل خوف سے کانپ رہے تھے۔ ساجد نے بھاگنے کی کوشش کی، لیکن جیسے ہی اُس نے مزار کے دروازے سے باہر قدم رکھا، زمین جیسے اُس کے پاؤں کے نیچے سے نکل گئی۔ وہ چِلّایا، "مجھے بچاؤ!" لیکن کوئی اُسے نہ بچا سکا۔ وہ زمین میں دھنس گیا، اور اُس کا وجود غائب ہو گیا۔ کامران نے کہا، "ہمیں اُس سے معافی مانگنی چاہیے۔ شاید یہ ہمیں بخش دے۔" میں نے کانپتی ہوئی آواز میں کہا، "ہم معافی چاہتے ہیں۔ ہم یہاں صرف سچائی جاننے آئے تھے۔" لڑکی نے ایک لمحے کے لیے خاموشی اختیار کی اور کہا، "یہ جگہ چھوڑ دو اور کبھی واپس مت آنا۔ اگر دوبارہ دیکھا، تو کوئی نہیں بچے گا۔" ہم سب بھاگتے ہوئے واپس اپنی گاڑی کی طرف آئے۔ مجھے یوں محسوس ہوا جیسے وہ لڑکی ہمارا پیچھا کر رہی ہو مجھے اُس رات شہر واپس پہنچنے تک بار بار اُس لڑکی کے سایے کو پیچھے محسوس کیا۔ اگلے دن، کامران نے گاؤں کے ایک بزرگ سے ملاقات کی، جنہوں نے کہا، "تم لوگ بہت خوش قسمت ہو کہ زندہ واپس آ گئے۔ یہ جگہ صدیوں سے خوفناک کہانیوں کا مرکز ہے۔ یہاں جو بھی آیا، وہ یا تو کبھی واپس نہیں گیا یا پھر پاگل ہو گیا۔" اختتام: سچائی یا خوف؟ میں نے اُس کے بعد اپنی ڈرائیونگ کی نوکری چھوڑ دی اور ہمیشہ کے لیے اُس علاقے سے دور ہو گیا۔ لیکن میرا دوست شبیر اب بھی اسے اپنے خواب میں دیکھتا جو اُسے کہتی ہے، "تمہیں واپس آنا ہوگا!" جی ہاں، یہ کہانی آگے بڑھ سکتی ہے، اور اسے مزید حقیقت کے قریب رکھنے کے لیے ہمیں اُس علاقے، مزار، اور وہاں موجود پراسرار طاقتوں کے پیچھے چھپی اصل کہانی کو کھولنا ہوگا۔ کہانی میں مزید کردار، تحقیقات، اور ایسے واقعات شامل کیے جا سکتے ہیں جو حقیقی زندگی کی کہانیوں سے متاثر ہوں۔ میں نے اس واقعے کے بعد اپنی نوکری چھوڑ دی، لیکن اُس واقعے نے میری زندگی کو ہمیشہ کے لیے بدل دیا۔ کامران، جو ایک رپورٹر تھا، نے اُس مزار اور علاقے کے بارے میں مزید تحقیق شروع کی۔ اُس نے گاؤں کے بزرگوں سے بات کی اور پرانی دستاویزات کو کھنگالا۔ اُس کی تحقیق میں یہ بات سامنے آئی کہ وہ جگہ صرف ایک مزار نہیں تھی بلکہ وہاں صدیوں پہلے ایک قتل ہوا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ ایک زمیندار نے اپنی نوجوان بیٹی کو اُس وقت قتل کر دیا تھا جب اُس نے اپنی پسند سے شادی کرنے کی ضد کی تھی۔ قتل کے بعد، گاؤں کے لوگوں نے اُس لڑکی کی قبر پر مزار بنا دیا۔ لیکن زمیندار نے مرنے سے پہلے لعنت بھیجی تھی کہ "یہ جگہ ہمیشہ خون کا بدلہ مانگے گی۔" کامران نے مجھے دوبارہ اُس جگہ جانے کے لیے قائل کیا۔ اُس نے کہا، "ہمیں سچائی تک پہنچنا ہوگا، ورنہ یہ سب لوگ خوف میں مبتلا رہیں گے۔" اس بار وہ دونوں اکیلے نہیں تھے۔ اُن کے ساتھ ایک روحانی عالم، مولوی صاحب بھی تھے، جنہوں نے اُن سے کہا، "اگر یہ واقعی کسی ناحق مارے گئے کی روح ہے، تو ہمیں دعا اور معافی کے ذریعے اسے سکون دینا ہوگا۔ لیکن اگر یہ کوئی اور مخلوق ہے، تو ہمیں اس کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار رہنا ہوگا۔" وہ رات کے وقت دوبارہ اُس جنگل کی طرف روانہ ہوئے۔ راستے میں مولوی صاحب نے مسلسل قرآن کی تلاوت کی، تاکہ کسی بری چیز سے بچا جا سکے۔ جنگل میں پہنچ کر اُنہوں نے مزار کے قریب خیمہ لگایا اور وہاں رات گزارنے کا فیصلہ کیا رات کا وقت تھا۔ خیمے کے قریب ایک عجیب سی سرگوشی سنائی دی، جیسے کوئی "مدد" مانگ رہا ہو۔ مولوی صاحب نے دعا شروع کی، اور اچانک ایک زوردار ہوا کا جھونکا آیا۔ اُنہوں نے کہا، "یہ جگہ واقعی بوجھل ہے۔ یہاں کچھ چھپا ہوا ہے۔" میں نے اور کامران نے ہمت کر کے مزار کے اندر جھانکا تو ایک زنگ آلود صندوق دیکھا۔ صندوق کو کھولنے کی کوشش کی، تو اچانک لڑکی کا سایہ دوبارہ ظاہر ہوا۔ اُس نے کہا، "یہ میرا راز ہے۔ تم نے اسے چھونے کی جرات کیوں کی؟" مولوی صاحب نے اُس سے بات کرنے کی کوشش کی۔ اُنہوں نے کہا، "ہم تمہیں سکون دینے آئے ہیں۔ اگر تم واقعی ناحق قتل ہوئی ہو، تو ہم دعا کریں گے کہ تمہیں انصاف ملے۔" لڑکی کی آنکھوں سے آنسو نکلنے لگے، لیکن ساتھ ہی اُس کا چہرہ غصے میں بدل گیا۔ اُس نے کہا، "یہ زمین لعنتی ہے۔ یہاں کسی کو سکون نہیں ملے گا!" مولوی صاحب کی دعا کے دوران، صندوق خودبخود کھل گیا۔ اُس کے اندر ایک پرانا خط اور خون سے سنے ہوئے کپڑے تھے۔ خط میں اُس لڑکی نے اپنی موت کی کہانی لکھی تھی۔ اُس نے لکھا: "مجھے میرے باپ نے مار ڈالا۔ میری غلطی صرف یہ تھی کہ میں نے محبت کی تھی۔ اگر کوئی یہ خط پڑھ رہا ہے، تو اُس سے میری آخری گزارش ہے: مجھے انصاف دلاؤ، ورنہ یہ جگہ ہمیشہ خون مانگے گی۔" مولوی صاحب نے اُس خط کو گاؤں کے بزرگوں کو دکھایا۔ گاؤں کے لوگ اُس لڑکی کے لیے اجتماعی دعا کرنے پر راضی ہو گئے، تاکہ اُس کی روح کو سکون مل سکے۔ لیکن عجیب بات یہ تھی کہ دعا کے باوجود اُس علاقے میں پراسرار واقعات ختم نہ ہوئے۔ میں آج بھی کہتا ہوں کہ وہ مزار اب بھی لوگوں کو اپنی طرف کھینچتا ہے۔ کامران نے اُس علاقے کی کہانی ایک دستاویزی فلم میں پیش کی، لیکن عجیب طور پر اُس کے نشر ہونے کے بعد وہ پراسرار طور پر لاپتہ ہو گیا۔ یہ کہانی یہیں ختم نہیں ہوتی۔ وہ جگہ آج بھی ویران ہے، اور کئی لوگوں کا دعویٰ ہے کہ رات کے وقت اُس مزار کے قریب ایک لڑکی کی ہنسنے کی آوازیں سنائی دیتی ہیں۔ کیا آپ کو لگتا ہے کہ یہ سب محض وہم ہے؟ یا پھر واقعی اُس جگہ کوئی بدروح موجود ہے؟ کیا یہ کہانی مزید کھل سکتی ہے؟ یا یہ اسرار ہمیشہ کے لیے راز ہی رہے گا؟ |
Buss Driver horror story written
0
December 30, 2024
Tags