ایک گلاب – جب گلاب کا پھول قاتل بھی بن جائے
مسٹر ڈی سلوا نے اپنی بیوی کے کھردرے ہاتھوں سے چائے کی پیالی لے لی، اور اسے سامنے کی میز پر رکھنے کے بعد صبح کا اخبار اپنے چہرے کے سامنے تان لیا اور سوچنے لگے کہ بیوی کو قتل کرنے کے لیے آسان سی ترکیب کیا ہو سکتی ہے۔ اب اس سلسلے میں خاصی عجلت کی ضرورت تھی۔ وہ خود بھی اُس کی حرکتوں سے پریشان تھے اور سب سے بڑی بات تو یہ تھی کہ اُن کی محبوبہ لالی بھی خاصے بے صبرے پن کا مظاہرہ کرنے لگی تھی۔
"تم بھولے تو نہیں... آج شام کو ہم اپنی شادی کی دوسری سالگرہ منا رہے ہیں" — انہیں اپنی بیوی کی آواز سنائی دی، جو میز کے دوسری جانب بیٹھی ناشتے میں منہمک تھی۔
"نہیں، نہیں، مجھے اچھی طرح یاد ہے" — انہوں نے جلدی سے جواب دیا — "اور میں تمہیں ایک اچھا سا تحفہ دینے کے لیے بھی سوچ رہا ہوں۔"
اُن کی بیوی اطمینان سے چائے پیتی رہی۔ کچھ دیر بعد اس نے یونہی کہا:
"شاید تم نے نہ دیکھا ہو، ہماری بالکونی کے بالکل نیچے گلاب کا ایک پودا ہوٹل کے لان میں لگا ہوا ہے۔"
"اچھا؟" انہوں نے سرسری طور پر حیرت کا اظہار کیا۔
"میں نے کل شام کو دیکھا تھا اُس میں ایک کلی کھلی ہوئی تھی۔ آج شام تک وہ کھل جائے گی۔ میرا ارادہ ہے شام کو تقریب کے موقع پر میں وہی گلاب اپنے جوڑے میں لگاؤں گی۔"
یہی وہ لمحہ تھا جب بالکل ہی اچانک ان کے ذہن میں ترکیب ابھری۔ ترکیب بالکل سیدھی سی تھی۔ وہ کئی ہفتے سے اس ساحلی ہوٹل میں چھٹیاں منانے کے لیے مقیم تھے۔ ان کا کمرہ ہوٹل کی پانچویں منزل پر تھا اور جس پودے کے بارے میں مسز ڈی سلوا بتا رہی تھیں، وہ نیچے لان میں دیوار کے ساتھ لگا ہوا تھا، اُن کی بالکونی کے بالکل نیچے۔ انہوں نے سوچا شام کو انہیں صرف اتنا کرنا ہوگا کہ بیوی کو پھول دکھانے کے بہانے بالکونی تک لے جائیں، پھر جب وہ جھکے تو انہیں صرف ایک دھکا دینا ہوگا... اور بس۔ ترکیب بالکل سیدھی سی تھی۔ لوگ ہر وقت بالکونی کی سمت نہیں دیکھا کرتے اور وہ ایک محبت کرنے والے شوہر تھے۔
ٹھیک ہے کہ بیوی کی ساری دولت انہیں ہی ملتی اور اس کے باعث ان پر شبہ کیا جا سکتا تھا، لیکن جب تک کوئی ثبوت نہ ملے وہ مطمئن تھے۔ اور ثبوت؟ اس کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا تھا۔ انہیں یوں لگا جیسے سب کچھ ہو ہی گیا ہو۔ اُنہوں نے تصور میں خود کو کہتے سنا:
"دیکھیے نا، ہماری بالکونی کے بالکل نیچے ایک گلاب لگا ہوا ہے... وہ یقینا اُسے دیکھنے جھکی ہوگی۔"
وہ اندر ہی اندر خوش ہو گئے۔ اب وہ لمحہ آگیا تھا کہ انہیں اس بدصورت لیکن خاصی مالدار عورت سے نجات ملنے والی تھی۔ وہ پچھلے دو سال سے ایسے ہی کسی چکر میں تھے۔ اسی لیے انہوں نے شادی بھی کی تھی۔ وہ دو سال سے بڑی صبر کے ساتھ وقت گزار رہے تھے۔ اُدھر بے چاری لالی گندے کوارٹروں میں رہ رہ کر تنگ آگئی تھی۔ یہ ٹھیک ہے کہ وہ اسے حتی المقدور رقم فراہم کرتے رہتے تھے، لیکن مسز ڈی سلوا انہیں جیب خرچ دینے میں خاصی کنجوس تھیں اور وہ بے چارے مجبور تھے۔ بہرحال اب وقت آ چکا تھا۔
"دیکھو، میں ذرا ہوٹل مے فیر جا رہی ہوں رقص کا سبق لینے" — انہیں اپنی بیوی کی آواز پھر سنائی دی — "ممکن ہے کہ میں کھانے کے وقت پر بھی نہ آسکوں۔"
وہ اندر ہی اندر خوش ہو گئے۔ گویا پورا دن ان کا تھا۔ انہوں نے ازراہِ مذاق کہا:
"میں دیکھ رہا ہوں کہ یہ رقص کا چکر بڑھتا ہی جا رہا ہے۔" وہ ذرا رکے، پھر اخبار کے پیچھے سے جھانک کر بولے: "کہیں اُس لڑکے پیری نے تمہیں اپنے چکر میں تو نہیں لے لیا جو وہاں رقص کرنے آتا ہے؟"
"تم ہمیشہ بھونڈا مذاق کرتے ہو" — مسز ڈی سلوا نے برا مانتے ہوئے کہا۔ "تمہیں تو خود بہت اچھا رقص آتا ہے، تم کیوں نہیں چلتے؟"
"ارے، اب میں کیا ناچوں گا؟" وہ مسکرائے۔ "میں اب ایک شادی شدہ آدمی ہوں۔"
"وہ کتنے اچھے دن تھے..." یکایک مسز ڈی سلوا نے کہا — "جب تم مجھے اُس پارٹی میں ملے تھے۔ ہم نے ایک ساتھ رقص کیا تھا، اور پھر میں نے تمہیں سونے کا ایک قلم تحفتاً پیش کیا تھا۔"
"ہاں..." انہوں نے ایک لمبی سانس لے کر مصنوعی حیرت کا مظاہرہ کیا۔
بیوی کے رخصت ہونے کے بعد وہ تھوڑی دیر بیٹھے کچھ سوچتے رہے، پھر بازار کی سمت نکل گئے۔ شام کو وہ اپنی شادی کی دوسری سالگرہ منانے والے تھے اور اس مقصد کے لیے انہیں ایک تحفہ خریدنا تھا۔ انہوں نے کافی چکر لگانے کے بعد ہیرے کا ایک کلپ خرید لیا۔ اس کی قیمت خاصی تھی، لیکن انہوں نے سوچا: بعد میں یہ کلپ لالی کو دے دوں گا، بہرحال میرے کام آئے گا۔
اس کا ایک مقصد اور بھی تھا۔ جو شوہر بیوی کو سالگرہ پر ہیرے کا کلپ تحفے میں دے سکتا ہے، اس پر قتل کا شبہ کوئی بھی نہیں کر سکتا۔ لہٰذا ہیرے کا یہ کلپ بہت ضروری تھا۔ وہ اسے اپنی بیوی کو پیش کرنے والے تھے، آخر اسی میں تو اُسے گلاب کا پھول بھی ٹانکنا تھا؟
اس لمحے مسز ڈی سلوا ہوٹل مے فیر میں نوجوان رقاص پیری کی بانہوں میں لیٹی ہوئی ڈانس کر رہی تھیں۔
"پیری، تم کتنا اچھا ناچتے ہو" — اُس نے پیری کے بازو کی مچھلیاں ٹٹولتے ہوئے کہا۔
"اور تم بھی تو اچھا ناچتی ہو" — نوجوان نے اس کی کمر کے گرد اپنا بازو اور سخت کر دیا، پھر بولا: "کل تم ناراض ہو گئی تھیں شاید... میں نے تمہارا تحفہ واپس کر دیا تھا نا۔ دیکھو نا، میں نہیں چاہتا کہ ہماری محبت کے درمیان دولت کا معاملہ آئے۔"
"تم واقعی بڑے خراب ہو" — وہ ادا سے بولی — "کسی کا دل نہیں رکھتے۔ میں نے تو کتنی محبت سے وہ سونے کی گھڑی تمہیں دی تھی۔"
"ٹھیک ہے، میں اب اُسے لے لوں گا تمہاری خوشی کی خاطر" — اس نے اُسے دو ایک چکر دیئے، پھر وہ دونوں ہنستے ہوئے بار کی سمت چل دیے۔
ہیرے کا کلپ دیکھ کر مسز ڈی سلوا نے خوش ہو کر شوہر کو دیکھا اور بولیں:
"تم کتنے اچھے ہو۔ تمہارا تحفہ بڑا خوبصورت ہے۔" پھر وہ اُسے لے کر کمرے میں چلی گئیں۔
شام ہو رہی تھی اور تقریب کی تیاری ضروری تھی۔ مسٹر ڈی سلوا منتظر تھے کہ وہ لباس تبدیل کرلیں۔ پھر نیچے جانے سے قبل اُن کا پروگرام تھا کہ وہ اُسے پھول دکھانے کے بہانے بالکونی تک لے جائیں گے۔
آخر وہ لمحہ آ پہنچا... وہ دونوں ہنستے ہوئے بالکونی کی سمت بڑھے۔
اور پھر —
ایک دہشت زدہ سی چیخ فضا میں تھرائی... اور لہراتی ہوئی پانچ منزلہ عمارت کے نیچے پہنچ کر ختم ہوگئی۔
لان میں چھتریوں کے نیچے بیٹھے افراد اور کرسیوں پر خوش گپیاں کرنے والے جوڑے یکایک گھبرا کر اٹھ کھڑے ہوئے اور اُس طرف دوڑ پڑے جہاں ایک انسانی جسم خاک اور خون میں غلطاں پڑا ہوا تھا۔
"اوہ اوہ..."
"جلدی سے کوئی کپڑا لاؤ!"
"ایمبولینس کو فون کرو!"
"پولیس کو اطلاع دو!"
ایک تہلکہ مچا ہوا تھا۔
جس وقت پولیس ہوٹل کی پانچویں منزل میں واقع اپارٹمنٹ میں گھسی، تو انہیں ایک کوچ پر ایک انسانی ہیولا پڑا ہوا نظر آیا۔ اس کے بال بکھرے ہوئے تھے، آنکھوں میں آنسو تھے، اور چہرے پر غم اور اندوہ کے مصنوعی بادل چھائے ہوئے تھے۔ ہچکیوں اور سسکیوں کے درمیان پولیس نے پوری کہانی سنی۔
"نیچے ہماری بالکونی کے بالکل نیچے ایک گلاب لگا ہوا ہے نا... وہ یقینا اُسے دیک
ھنے کے لیے جھکے ہوں گے" — مسز ڈی سلوا نے سسکیوں پر قابو پاتے ہوئے کہا۔
👉 یہ کہانی بھی پڑھیں: درد آشنا