![]() |
امام حسن علیہ السلام کو زہر کیوں دیا گیا؟ یزید کی سازش کی دردناک داستان |
ڈیئر فرینڈز کیا آپ جانتے ہیں کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے نواسے حضرت امام حسن علیہ السلام کو زہر کیوں دیا گیا اور ان کی زندگی میں ان پر کتنے ظلم کیے گئے اور پھر ساری زندگی پریشان رہنے کے بعد ظالم یزید نے حضرت امام حسن علیہ السلام کی بیوی کو اپنے مکار جال میں پھنسا کر ایسا زہر دلوایا کہ ان کی آنتیں کٹ کٹ کر باہر آنے لگیں حضرت امام حسن علیہ السلام کو جس دن زھر دیا گیا وہ اسلامی تاریخ کا سب سے بڑا اور سب سے دردناک دن تھا ایک ایسا دن جس کی داستان اگر پتھر جیسے دل والا انسان بھی سنے تو اس کی انکھوں میں انسو آ جائے ڈیئر فرینڈز حضرت امام حسن علیہ السلام کو ان کی زندگی میں کئی بار زھر دیا گیا لیکن اللہ تعالی ہر بار ان کی حفاظت فرماتا رہا لیکن جب اللہ کا فیصلہ پہنچا تو اللہ نے چاہا کہ میرے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ پھول اب میرے پاس آ جائے تو اس بار زہر اثر کر گیا حضرت امام حسن علیہ السلام نے زہر دینے والے کا نام تک نہیں بتایا لیکن تاریخ لکھنے والوں نے جو بیان کیا ہے وہ اب ہم آپ کے سامنے رکھتے ہیں ڈیئر فرینڈز یزید نے حضرت امام حسن علیہ السلام کی بیوی کو بھلا پھسلا کر اس بات پر تیار کر لیا کہ وہ انہیں زہر دے دے تو اس نے کہا کہ اگر تم امام حسن علیہ السلام کو زہر دے دو تو میں تم سے شادی کر دوں گا اور اس طرح تم محل کی رانی بن جاؤ گی یزید بہت وقت سے سازش میں تھا کہ کسی بھی طرح حضرت امام حسن علیہ السلام اور حضرت امام حسین علیہ السلام کو اپنے راستے سے ہٹا دے کیونکہ یزید جانتا تھا کہ جب یہ دونوں بھائی راستے سے ہٹ جائیں گے تو وہ اکیلے ہی پوری سلطنت پر راج کر سکے گا یزید کی اس بات پر لالچ میں آ کر امام حسن علیہ السلام کی بیوی راضی ہو گئی اس نے کئی بار انہیں زہر دیا لیکن ہر بار اللہ کے حکم سے زہر کا کوئی اثر نہ ہوا ۔
آخر کار اس نے زہر کو باریک پیس کر پانی میں ملا دیا اور وہ پانی اسی پیالے میں ڈالا گیا جس سے حضرت امام حسن علیہ السلام رات کو اٹھ کر پانی پیا کرتے تھے سن 50 ہجری 17 سفر کی رات حضرت امام حسن علیہ السلام سو رہے تھے کہ اچانک انہیں پیاس لگی انہوں نے اپنی بہن حضرت زینب کو آواز دی حضرت بی بی زینب اس وقت مصلے پر بیٹھی اللہ تعالی کی عبادت کر رہی تھی بڑے بھائی کی آواز سنی تو فوراً جلد بازی میں اپنے بھائی کے پاس پہنچی تب حضرت امام حسن علیہ السلام نے فرمایا بی بی زینب میں نے بڑا عجیب و غریب خواب دیکھا ہے میں وہ تمہیں بتانا چاہتا ہوں بی بی زینب نے عرض کیا بھائی جان آپ نے کیا خواب دیکھا حضرت امام حسن علیہ السلام نے فرمایا میں نے خواب میں دیکھا کہ میرے نانا حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم میرے والد حضرت علی علیہ السلام اور میری والدہ بی بی فاطمہ زہرا مجھے جنت کی سیر کروا رہے ہیں میں نے اپنے نانا حضور سے شکایت کی اے نانا جان اپ کے جانے کے بعد مدینے میں مجھے اور میرے بھائی حضرت امام حسین علیہ السلام کو بہت ستایا گیا اور لوگوں نے ہمارے والدین کو بھی برا بھلا کہا تو اس پر نانا جان بولے اے میرے پیارے بچے پریشان مت ہو تم بہت جلد مجھ سے ملنے والے ہو یہ بات سنتے ہی بی بی زینب کی آنکھوں میں آنسو آگئے وہ سمجھ گئی کہ اب ان کے بڑے بھائی حضرت امام حسن علیہ السلام کے ساتھ کچھ ہونے والا ہے بی بی زینب کے والد حضرت علی علیہ السلام اور والدہ بی بی فاطمہ زہرا تو پہلے ہی دنیا چھوڑ چکے تھے اور اب معصوم بی بی زینب کے لیے ان کے دونوں بھائی حضرت امام حسن علیہ السلام اور حضرت امام حسین علیہ السلام ہی سہارا تھے بی بی زینب کی آنکھوں سے بے اختیار آنسو بہنے لگے اسی وقت حضرت امام حسن علیہ السلام نے فرمایا بہن مجھے پیاس لگ رہی ہے پانی پلا دو بی بی زینب گڑھے سے پانی نکالنے لگی اس معصوم بہن کو کیا پتہ تھا کہ جس بات سے وہ ڈر رہی ہیں وہی آج ہونے والی ہے بہن نے گڑھے سے پانی نکال کر بھائی کو پلا دیا اور یہی وہ پانی تھا جس میں امام حسن علیہ السلام کی بیوی نے زہر ملا دیا تھا زہر ملا پانی پینے کے کچھ ہی دیر بعد امام حسن علیہ السلام کی آنتیں اندر ہی اندر کٹنے لگی آپ کو خون کی الٹیاں شروع ہو گئیں ۔
اور آنتیں
کٹ کٹ کر باہر آنے لگیں یہ منظر دیکھ کر بی بی زینب بہت ڈر گئیں اور زور زور سے رونے لگی تاریخ لکھنے والوں نے بیان کیا ہے کہ زہر کے اثر سے حضرت امام حسن علیہ السلام کی آنتوں کے سو ٹکڑے ہو گئے تھے اور آپ کو تین دنوں تک لگاتار خون کی الٹیاں آتی رہیں زہر کے اثر سے اپ کے چہرے کا رنگ نیلا پڑ گیا تھا ان تین دنوں میں حضرت امام حسن علیہ السلام ایسی ایسی تکلیفوں سے گزر رہے تھے جو اگر کسی اور پر ڈال دی جاتی تو وہ کبھی برداشت نہ کر پاتا مگر آج اگر کوئی مدینہ آ کر دیکھ لے تو سمجھ سکے گا کہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا پیارا نواسہ زہر کے اثر سے کیسے تڑپ رہا تھا کچھ لوگ ایسے بھی تھے جو حضرت امام حسن علیہ السلام کی اس تکلیف کو دیکھ کر خوش ہو رہے تھے ۔
مگر مدینے میں نیک اور درد مند دلوں کی بھی بڑی تعداد تھی جو اس منظر کو دیکھ دیکھ کر رو رو کر بے حال ہو گئے تھے بی بی زینب اپنے بڑے بھائی حضرت امام حسن علیہ السلام کو تڑپتے ہوئے دیکھتی اور ایک خاموش فریاد کے ساتھ اللہ کے حضور اپنا دامن پھیلا کر دعا کرتی اے میرے اللہ میرے بھائی کو شفا عطا فرما ڈیئر فرینڈز آج مدینے کے ایک کچے گھر میں جو زہر سے تڑپتا ہوا انسان پڑا تھا وہ کوئیعام شخص نہیں تھا بلکہ وہ مبارک ہستی تھی جسے ان کے نانا حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے کاندھوں پر بٹھا کر بازاروں کی سیر کرواتے تھے اور فرماتے تھے اے لوگو یہ دونوں حضرت امام حسن اور حضرت امام حسین علیہ السلام میرے بچے ہیں میری آنکھوں کی ٹھنڈک ہے جس نے انہیں تکلیف دی اس نے مجھے تکلیف دی مگر آج اسی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیارے نواسے کو زہر دے کر اس طرح تڑپایا گیا کہ ان کا چہرہ مبارک نیلا پڑ گیا آنتیں کٹ کٹ کر باہر آنے لگی اور خون کی الٹیاں شروع ہو گئیں اب تقدیر کا فیصلہ ہو چکا تھا اور اللہ نے اپنے فرشتوں کو حکم دے دیا تھا اے فرشتو جاؤ میرے جنت کے پھول حضرت امام حسن علیہ السلام کو میرے پاس لے آؤ ۔
کیونکہ میرے اس پھول کو ظالموں نے بہت تڑپایا ہے حضرت امام حسن علیہ السلام جانتے تھے کہ اس گھڑے میں زہر کس نے ملایا ہے کیونکہ باہر کا کوئی شخص یہ سب نہیں کر سکتا تھا یہ گھر کا ہی ایک شخص تھا ان کی اپنی بیوی لیکن امام حسن علیہ السلام نے اپنی بیوی سے ایک لفظ بھی نہیں کہا یہاں تک کہ جب ان کے چھوٹے بھائی حضرت امام حسین علیہ السلام کو خبر ہوئی تو وہ دوڑتے ہوئے ائے اور عرض کیا بھائی جان ایک بار بس ایک بار مجھے اس کا نام بتا دیجیے جس نے آپ کو زہر دیا ہے حضرت امام حسن علیہ السلام نے پوچھا تم اس کا کیا کرو گے حسین علیہ السلام نے فرمایا میں اسے قتل کر دوں گا یہ سن کر حضرت امام حسن علیہ السلام فرمانے لگے پھر تو میں تمہیں اس کا نام نہیں بتاؤں گا کیونکہ اگر زہر دینے والا وہ انسان نہ ہوا تو مرتے مرتے مجھ پر ایک بے گناہ کے قتل کا الزام پڑ جائے گا اور اگر زہر دینے والا وہی شخص ہے تو اللہ تعالی بہتر بدلہ لینے والا ہے پھر تین دن بعد وہ دن بھی آگیا جب حضرت امام حسن علیہ السلام کو اپنی وفات بہت قریب محسوس ہونے لگی اپ نے اپنے چھوٹے بھائی حضرت امام حسین علیہ السلام سے فرمایا جاؤ اور میری نانی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ سے اجازت مانگ کر اؤ تمہارا بھائی حضرت امام حسن علیہ السلام اپنے نانا حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں میں دفن ہونا چاہتا ہے کیا وہ اس کی اجازت دیتی ہیں حضرت امام حسین علیہ السلام فورا حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے گھر تشریف لے گئے انہوں نے عرض کیا حضرت امام حسن علیہ السلام چاہتے ہیں کہ انہیں رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں میں دفن کیا جائے کیا اپ اس کی اجازت دیتی ہیں حضرت عائشہ اپنے نواسے کی حالت سن کر رونے لگی جیسے ہی یہ بات سنی فورا بولی ہاں میری طرف سے پوری اجازت ہے جب حضرت امام حسین علیہ السلام نے آ کر یہ خوشخبری اپنے بڑے بھائی حضرت امام حسن علیہ السلام کو سنائی تو انہوں نے فرمایا اے حسین مجھے ڈر ہے کہ نانی نے یہ اجازت صرف میری لاج میں دی ہو اس لیے جب میری وفات ہو جائے تو ایک بار پھر سے اجازت لینا اگر اس وقت بھی وہ اجازت دے دیں تو وہیں دفن کر دینا ورنہ مجھے مسلمانوں کے قبرستان کے بیچ میں دفن کرنا اور ہاں حسین ایک بات کا خیال رکھنا اگر میری نبی کے قدموں میں دفن کے وقت کوئی رکاوٹ ڈالے کوئی جھگڑا کرے تو ان سے لڑائی مت کرنا ایسی صورت میں مجھے میری امی بی بی فاطمہ زہرا رضی اللہ عنہا کے پہلو میں جا کر دفن کر دینا اخر وہ وقت بھی اگیا حضرت امام حسن علیہ السلام نے کلمہ پڑھا۔
اپنی روح کو اللہ تعالی کے حوالے کر دی ان کی وفات کی خبر پھیلتے ہی ہر طرف کہرام مچ گیا بازاروں اور شہروں سے لوگ مدینہ شریف آنے لگے اتنی بھیڑ جمع ہو گئی کہ تاریخ لکھنے والوں نے لکھا اگر اس وقت ایک سوئی بھی پھینکی جاتی تو وہ زمین تک نہ پہنچ پاتی حضرت امام حسن علیہ السلام کو غسل دیا گیا کفن پہنایا گیا اور ان کا جنازہ تیار کر کے مسجد نبوی کے سامنے رکھا گیا ایک صحابی آگے بڑھے اور انہوں نے حضرت امام حسن علیہ السلام کا جنازہ پڑھایا پھر جنازہ لے کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے روزہ انور کی طرف بڑھے لیکن جیسے ہی مروان کے لوگوں کو یہ خبر لگی کہ حضرت امام حسن علیہ السلام کو رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں میں دفن کیا جا رہا ہے تو وہ سب تلواریں لے کر لڑنے آگئے اور کہنے لگے جب ہمارے خاندان کے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو وہاں دفن نہیں کیا گیا تو اب ہم حضرت امام حسن علیہ السلام کو بھی وہاں دفن نہیں ہونے دیں گے یہ سن کر حضرت امام حسین علیہ السلام کو غصہ آگیا آپ نے فرمایا تم لوگ ہوتے کون ہو جو میرے بھائی کو ان کے نانا کے قدموں میں دفن ہونے سے روکتے ہو یاد رکھنا جو بھی میرے راستے میں ایا میں اس کی گردن کاٹ دوں گا ایسا عالم تھا کہ اگر مروان کے لوگوں اور حضرت امام حسین علیہ السلام کے درمیان جنگ چھڑ جاتی تو سارا مدینہ صحابہ کرام کے پاکیزہ خون سے بھر جاتا مگر اسی وقت حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ آگے بڑھے اور فرمانے لگے تم کیسے ظالم ہو کہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے اپنے نواسے کو بھی ان کے قدموں کے پاس دفن نہیں ہونے دے رہے مگر مروان کے لوگوں پر اس بات کا کوئی اثر نہ ہوا وہ تو تلواریں لے کر بالکل امادہ جنگ ہو چکے تھے جب ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے یہ حالت دیکھی تو انہوں نے حضرت امام حسین علیہ السلام سے کہا اے میرے پیارے بچے کیا تمہیں اپنے بھائی حضرت امام حسن علیہ السلام کی وصیت یاد نہیں ہے جو انہوں نے وفات کے وقت کی تھی انہوں نے فرمایا تھا اگر نانا کے قدموں میں دفن کرنے پر لوگ رکاوٹ ڈالیں تو لڑائی جھگڑا مت کرنا بلکہ مجھے میری امی حضرت فاطمہ زہرا رضی اللہ عنہا کے پہلو میں دفن کر دینا یہ سنتے ہی حضرت امام حسین علیہ السلام کا غصہ ٹھنڈا ہوا انہوں نے فرمایا چلو جنت البقی چلیں اج میرے بھائی حضرت امام حسن علیہ السلام کی قبر ان کی امی حضرت فاطمہ زہرا کے پہلو میں ہی بنائی جائے گی۔
سارے لوگ فورا جنت البقی پہنچ گئے وہاں حضرت امام حسن علیہ السلام کے لیے قبر کھودی گئی شام ہوتے ہوتے انہیں ان کی امی حضرت فاطمہ زہرا رضی اللہ عنہا کے پہلو میں دفن کر دیا گیا حضرت امام حسن علیہ السلام کی وفات کوئی عام وفات نہ تھی اس کا ایسا اثر پڑا کہ پورا اسلامی عالم غم میں ڈوب گیا بنو ہاشم کی عورتوں نے ایک مہینہ تک سوگ منایا بازار بند ہو گئے لوگوں نے کام کرنا چھوڑ دیا حضرت امام حسن علیہ السلام کا غم ایسا گہرا تھا کہ لوگوں نے اپنے نجی غم تک بھلا دیے۔۔
امام حسن, یزید کی سازش, امام حسن کو زہر, کربلا, اہل بیت, اسلامی تاریخ, شہادت, Imam Hassan, Yazid, Islamic History, Karbala, Ahlulbayt, Poisoning of Imam Hassan, Shia Sunni History, Imam Hassan Shahadat, Tragedy of Islam