ملکہ بلقیس اور حضرت سلیمان علیہ السلام کا حیران کن واقعہ | جنات، تخت اور شیشے کا محل
0Nest of Novels July 23, 2025
"ڈیئر فرینڈز! دنیا کی ایک عجیب و غریب بادشاہت کی کہانی، جس سلطنت کا بادشاہ ہوا میں سفر کرتا تھا، اور ایک ایسی حسین و جمیل ملکہ، جو جنات کی اولاد میں سے تھی۔ یہ اپنی سلطنت کی سب سے خوبصورت ملکہ تھی، جہاں آگ اور سورج کی پوجا کی جاتی تھی۔
آج سے ہزاروں سال قبل، جزیرۂ عرب کے اُن علاقوں میں، جو یمن کے گردونواح میں واقع تھے، ایک شہر آباد تھا جسے "سَبا" کہا جاتا تھا، اور ہم اُسے "صَبا" کہہ کر پکارتے ہیں۔
یہاں کے لوگ نہایت ہی نعمتوں سے مالامال تھے۔ ہر طرف لہلہاتی فصلیں، پھلوں سے لدے درخت، اور خوشحال زندگی کے آثار نمایاں تھے۔ مگر یہ قوم شرک اور گمراہی میں مبتلا تھی — وہ سورج کی پوجا کیا کرتے تھے۔
جب بادشاہ شِرَجِیل بن مالک کی وفات ہوئی، تو اُس کی بیٹی بلقیس نے حکومت کی باگ ڈور سنبھالی۔ بعض مورخین کا کہنا ہے کہ بلقیس کے والدین میں سے ایک جنات میں سے تھا، مگر اس نظریے کے کوئی مضبوط دلائل موجود نہیں۔
ملکہ بلقیس ایک نہایت قابل، ذہین اور مدبر خاتون تھیں، جنہوں نے یمن پر نو سال تک بہت حکمت و فہم کے ساتھ حکومت کی۔ دنیا کے مختلف خطوں میں جو بھی تجارت ہوتی، وہ سب ان سبائیوں کے ہاتھ میں تھی، اسی وجہ سے یہ قوم بہت دولت مند شمار کی جاتی تھی۔
یہ وہ زمانہ تھا جب مشرق سے مغرب تک، ایک عظیم مہربان بادشاہ کی حکومت تھی، جس کی طاقت، حکمت اور جاہ و جلال کا شہرہ عام تھا۔ تاریخ اُسے حضرت سلیمان بن داؤدؑ کے نام سے جانتی ہے۔
حضرت سلیمان علیہ السلام کی حکومت دنیا کے بیشتر ممالک پر قائم تھی، جس کا..." دارالخلافہ یروشلم شہر تھا۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت سلیمان علیہ السلام کو ہوا، جنات، چرند و پرند، اور جانوروں پر حکمرانی عطا فرمائی تھی۔
ایک دن کا واقعہ ہے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام نے دربار لگایا۔ جن و انس، جانور اور پرندے سب حاضر تھے، مگر ان کا مشہور پرندہ "ہُدہُد" غائب تھا۔
آپؑ نے دریافت فرمایا: "ہُدہُد کہاں ہے؟" جب وہ نظر نہ آیا تو حضرت سلیمان علیہ السلام نے فرمایا: "اگر اس نے اپنی غیر حاضری کی کوئی معقول وجہ پیش نہ کی، تو میں اُسے ضرور ذبح کر دوں گا۔"
ابھی یہ بات ہو ہی رہی تھی کہ ہُدہُد حاضر ہو گیا۔ حضرت سلیمان علیہ السلام نے پوچھا: "کہاں تھا تُو؟"
ہُدہُد نے بڑے ادب اور احترام سے جواب دیا: "اے اللہ کے پیغمبر! میں پرواز کرتے ہوئے ایک ایسے ملک پہنچ گیا، جہاں کے لوگ شرک میں مبتلا ہیں۔ وہ آگ اور سورج کی پوجا کرتے ہیں۔ اُس ملک کی ایک رانی ہے جسے 'بلقیس' کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ وہ ایک عظیم و شان و شوکت والے تخت پر بیٹھ کر حکومت کرتی ہے، جس میں قیمتی ہیرے، جواہرات، لال اور زمرد جڑے ہوئے ہیں۔ اس کے پاس تمام شاہی آرائش و زیبائش کا سامان موجود ہے۔"
حضرت سلیمان علیہ السلام نے فرمایا: "اگر تمہاری بات سچ ہے، تو میرا ایک خط اُس ملکہ تک پہنچاؤ، تاکہ وہ شرک سے باز آجائے۔ خط دینے کے بعد وہیں رہنا اور دیکھنا کہ وہ کیا ردعمل اختیار کرتی ہے، پھر واپس آ کر مجھے اطلاع دینا۔"
پھر حضرت سلیمان علیہ السلام نے وہ خط لکھا، جس کا آغاز ان الفاظ سے کیا:
"شروع اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان، نہایت رحم والا ہے۔ یہ خط سلیمان بن داؤد کی طرف سے ملکہ سبا، بلقیس کے نام ہے۔ جو ہدایت کی پیروی کرے، اُس کے لیے سلامتی ہے۔ مجھ پر غلبہ حاصل کرنے کی کوشش نہ کرنا، نہ میرے مقابلے میں سرکشی کرنا، بلکہ فرمانبردار ہو کر میرے پاس آ جاؤ!"
یہ خط دراصل ملکہ سبا اور اس کی قوم کو دعوتِ اسلام تھا۔
ہُدہُد نے یہ خط لے جا کر ملکہ بلقیس کی گود میں گرا دیا۔ اس وقت اُس کے دربار میں تقریباً تین سو کے قریب سردار موجود تھے۔
جب اُنہوں نے خط پڑھا تو طیش میں آگئے اور کہا: "یہ تو ہماری توہین ہے! ہمیں اس کا سخت جواب دینا چاہیے!"
ملکہ بلقیس بہت سمجھدار اور دانا خاتون تھی۔ اس نے اپنے درباریوں کو سمجھایا: "اس خط سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ کوئی عام انسان نہیں، بلکہ اللہ کا کوئی پیغمبر ہے۔ لہٰذا ہمیں جذبات میں آ کر جنگ کی راہ اختیار نہیں کرنی چاہیے، بلکہ حکمت و تدبر سے کام لینا چاہیے۔"
اس نے کہا: "میں حضرت سلیمان علیہ السلام کی خدمت میں ایک تحفہ بھیجتی ہوں۔ اگر انہوں نے اسے قبول کر لیا، تو مطلب یہ ہوگا کہ وہ بادشاہ ہیں، اور پھر میں ان سے جنگ کروں گی۔ لیکن اگر انہوں نے تحفہ قبول نہ کیا، تو میں سمجھ جاؤں گی کہ وہ نبی ہیں، اور میں ان کی پیروی اختیار کر لوں گی۔"
یہ ساری گفتگو ہُدہُد سن رہا تھا۔ وہ فوراً واپس آ کر حضرت سلیمان علیہ السلام کو تمام تفصیل سے آگاہ کر گیا۔
حضرت سلیمان علیہ السلام نے جنات کو حکم دیا کہ اُس راستے پر، جہاں سے ملکہ بلقیس کے قاصد آنے والے تھے، سونے اور چاندی کی اینٹوں سے فرش بچھا دیا جائے۔ راستے کے دونوں جانب سونے کے عجیب الخلقت جانور کھڑے کیے جائیں۔ وزیروں اور خزانے کی تمام کرسیوں کو سونے سے منقش کر دیا جائے۔ اور دربار کو قیمتی ہیرے جواہرات سے مزین کیا جائے۔
اُدھر بلقیس نے حضرت سلیمان علیہ السلام کے لیے تحائف روانہ کیے، جن میں سونے کی اینٹیں، جواہرات، غلام، کنیزیں، اور ملکہ کا ایک خط بھی شامل تھا۔
جب یہ تحائف لے کر قاصد حضرت سلیمان علیہ السلام کے دربار میں پہنچے اور انہوں نے اُس دربار کی شان و شوکت کو اپنی آنکھوں سے دیکھا، تو حیران اور شرمندہ رہ گئے۔
حضرت سلیمان علیہ السلام نے قاصدوں سے فرمایا: "کیا تم لوگ مال و دولت کے ذریعے میری مدد کرنا چاہتے ہو؟ دیکھ لو، جو کچھ اللہ نے مجھے عطا کیا ہے، وہ اس مال و دولت سے کہیں زیادہ ہے جو تم لائے ہو۔ لہٰذا تمہارا تحفہ تمہیں ہی مبارک ہو۔ اب واپس جاؤ اور اپنی ملکہ سے کہنا کہ ہمارا انتظار کرے، کیونکہ ہم ایک عظیم لشکر کے ساتھ آئیں گے!"
جب یہ خبر ملکہ بلقیس تک پہنچی تو وہ جان گئی کہ واقعی یہ کوئی عام بادشاہ نہیں بلکہ اللہ کے برگزیدہ نبی ہیں۔ لہٰذا اس نے جنگ کے بجائے حضرت سلیمان علیہ السلام کے دربار میں خود حاضر ہو کر اطاعت و فرماں برداری کا فیصلہ کیا۔
جب حضرت سلیمان علیہ السلام کو اطلاع ملی کہ ملکہ ان کے دربار میں آنے والی ہے، تو انہوں نے اپنے درباریوں سے پوچھا:
"تم میں سے کون ہے جو ملکہ کے یہاں پہنچنے سے پہلے اس کا تخت میرے پاس لا سکتا ہے؟" تب ایک جن نے کہا: "آپ کے دربار کو برخاست کرنے سے پہلے میں اُس (تخت) کو آپ کے پاس لا سکتا ہوں۔ میں اس کام کی پوری طاقت رکھتا ہوں اور امانت دار بھی ہوں۔"
مگر پھر ایک اور شخص، جس کے پاس کتاب کا علم تھا، اس نے کہا: "میں وہ تخت آپ کو آپ کے پلک جھپکنے سے پہلے ہی لا دیتا ہوں!"
چنانچہ جب حضرت سلیمان علیہ السلام نے وہ تخت اپنے سامنے رکھا ہوا دیکھا، تو فوراً پکار اٹھے:
"یہ میرے رب کا فضل ہے، تاکہ وہ مجھے آزمائے کہ میں شکر گزار بنتا ہوں یا ناشکری کرتا ہوں۔ اور جو شکر ادا کرے، وہ دراصل اپنے ہی فائدے کے لیے کرتا ہے، اور جو ناشکری کرے، تو میرا رب بے نیاز اور خود بزرگی والا ہے۔"
مفسرین کے مطابق، وہ شخص جس نے پلک جھپکنے سے پہلے تخت حاضر کیا، حضرت سلیمان علیہ السلام کا ایک دوست تھا جس کا نام آصف بن برخیہ بتایا جاتا ہے، اور بعض نے لکھا ہے کہ وہ آپؑ کا خالہ زاد بھائی تھا۔
کہا جاتا ہے کہ اس تخت کی لمبائی 80 ہاتھ، چوڑائی 40 ہاتھ، اور اونچائی 30 ہاتھ تھی۔ اس میں موتی، سرخ یاقوت، اور سبز زمرد جڑے ہوئے تھے۔
حضرت سلیمان علیہ السلام نے اس تخت میں کچھ رد و بدل کر دیا اور اسے پہلے سے بھی زیادہ خوبصورت اور شاندار بنا دیا۔
جب ملکہ بلقیس حضرت سلیمان علیہ السلام کے دربار میں حاضر ہوئی، تو آپؑ نے اس سے پوچھا: "کیا تمہارا تخت بھی اسی طرح کا ہے؟"
بلقیس نے کہا: "یہ تو ہو بہو وہی معلوم ہوتا ہے!" اور مزید کہا: "ہمیں تو پہلے ہی علم ہو چکا تھا اور ہم پہلے ہی اطاعت اختیار کر چکے ہیں۔"
بلقیس کے آنے سے پہلے، حضرت سلیمان علیہ السلام نے ایک شفاف عمارت بنانے کا حکم دیا، جس کا فرش شیشے کا تھا اور نیچے پانی رواں دواں تھا۔ پانی میں مچھلیاں اور دیگر آبی جانور تیر رہے تھے۔
حضرت سلیمان علیہ السلام اس شاندار محل میں اپنے شاہی تخت پر جلوہ افروز تھے، جبکہ شیشے کے نیچے سے پانی اپنی پوری آب و تاب سے بہہ رہا تھا۔ جب بلقیس کو اس شیشے کا فرش نظر نہیں آیا، تو اُسے اُس محل میں لایا گیا۔ جب اُس نے فرش کو دیکھا، تو وہ یہ سمجھ بیٹھی کہ یہ پانی کا کوئی حوض ہے۔
لہٰذا اُس نے اپنی پنڈلیاں ظاہر کرتے ہوئے کپڑا اٹھا لیا تاکہ پانی میں داخل ہو سکے۔
تب حضرت سلیمان علیہ السلام نے فرمایا: "یہ تو شیشے کا چمکدار فرش ہے!"
یہ سن کر بلقیس شرمندہ ہو گئی اور بے اختیار بول اُٹھی:
"اے میرے پروردگار! میں سورج کی پوجا کر کے اپنے آپ پر ظلم کرتی رہی ہوں، اور اب میں سلیمان کے ساتھ اللہ رب العالمین کی اطاعت کو قبول کرتی ہوں۔"
اس موقع پر بلقیس پر یہ حقیقت عیاں ہو گئی کہ جس طرح وہ شیشے کے فرش کو پانی کی لہریں سمجھ بیٹھی تھی، اسی طرح وہ اور اس کی قوم سورج کی چمک دمک کو دیکھ کر اسے معبود اور خدا سمجھ بیٹھی تھی۔
اسے اپنی اس فاش غلطی پر نہایت شدید شرمندگی ہوئی۔
بعض مورخین نے لکھا ہے کہ اس واقعے کے بعد ملکہ سبا مسلمان ہو گئی اور حضرت سلیمان علیہ السلام کے نکاح میں آ گئی۔
جبکہ کچھ مؤرخین نے ذکر کیا ہے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام نے بلقیس کو واپس یمن بھیج دیا اور اُس کے لیے وہاں تین عظیم الشان محل تعمیر کروائے۔ اگر اپ اسلامی کہانیاں ہماری آواز میں سننا پسند کریں تو ہمارے چینل ضرور وزٹ کریں @urdukissecorner
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم اللہ تبارک و تعالیٰ کے نام سے آغاز کرتے ہیں جو بڑا مہربان اور نہایت رحم کرنے والا ہے۔ Dear Fr…
byNest of Novels August 18, 2025
JSON Variables
Welcome to Nest of Novels! Here, you'll find a collection of captivating Urdu novels, stories, horror tales, and moral stories. Stay tuned for the latest updates and new releases!