![]() |
حضرت محمّد صلی اللہ علیہ وسلم اور ہرنی کا واقعہ |
ایک دن حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم جنگل کے پاس سے گزر رہے تھے تبھی انہوں نے دیکھا کہ ایک یہودی نے ایک ہرن کو باندھ رکھا ہے جیسے ہی اس ہرن کی نظر نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم پر پڑی وہ روتے ہوئے بول پڑا یا رسول اللہ آج صبح میں اپنے بچوں کو چھوڑ کر کھانے کی تلاش میں نکلا تھا اسی دوران یہ یہودی آیا اور مجھے پکڑ کر باندھ دیا صبح سے اب تک میں یوں ہی قید ہوں یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں صبح سے میں نے انہیں دودھ نہیں پلایا وہ مجھے نہ پا کر پریشان ہو گئے ہوں گے شاید ان کا گلا دودھ نہ ملنے کی وجہ سے سوکھ گیا ہوگا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میری آپ سے التجا ہے کہ آپ میری مدد کریں مجھے میرے بچوں سے ملنے اور انہیں دودھ پلانے کی اجازت دے دیں ہرن کی درد بھری گزارش سن کر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھوں سے آنسوں چھلک پڑے آپ نے اس یہودی سے فرمایا اے یہودی تم نے اس معصوم ہرن کو کیوں باندھ رکھا ہے یہودی نے جواب دیا میں نے اس کا شکار کیا ہے جنگل کے جانوروں کا شکار کرنا جائز ہے اس لیے اسے باندھا ہے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا تم نہیں دیکھ رہے کہ یہ ایک ماں ہے اس کے تھن دودھ سے بھرے ہوئے ہیں یہ اپنے بچوں کو دودھ نہ پلا پانے کی وجہ سے پریشان ہے اسے چھوڑ دو تاکہ یہ اپنے بچوں کو دیکھ سکے اور انہیں دودھ پلا سکے یہودی نے کہا میں نے اسے بڑی محنت سے پکڑا ہے اب تمہاری بات مان کر اسے کیوں چھوڑ دوں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے نرمی سے سمجھاتے ہوئے فرمایا اس ماں ہرن کو ایک بار اپنے بچوں کے پاس جانے دو وہ انہیں دودھ پلا کر اور مل کر واپس تمہارے پاس لوٹ آئے گی یہودی نے تنز سے کہا باندھا ہوا جانور آج تک واپس آیا ہے کیا ایسی کوئی مثال ہے اگر میں اسے چھوڑ دوں تو یہ کبھی نہیں لوٹے گا جب نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا کہ یہودی کسی بھی طرح سے ہرن کو چھوڑنے کے لیے تیار نہیں ہے تو
آپ
نے فرمایا اے یہودی اس ہرن کو آزاد کر دو اس کے بدلے تم مجھے باندھ لو اگر یہ واپس نہ لوٹے تو تم مجھے عمر بھر قید میں رکھ سکتے ہو یہودی نے کہا ٹھیک ہے ایک شرط پر میں اسے چھوڑ رہا ہوں اگر یہ واپس نہ آئے تو میں تمہیں عمر بھر کے لیے قید کر لوں گا آخر کار یہودی نے ہرن کو چھوڑ دیا اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو باندھ دیا آزاد ہوتے ہی ہرن تیزی سے جنگل کی طرف بھاگ گیا یہودی دل ہی دل میں ہنستے ہوئے سوچنے لگا ہرن اب کبھی لوٹ کر نہیں آئے گا اس آدمی کو میں ہمیشہ کے لیے قید میں رکھوں گا اس سے بڑا بے وقوف میں نے پوری دنیا میں نہیں دیکھا ایک جنگل کے جانور کے لیے اس نے اپنی زندگی دانوں پر لگا دی ہرن تیزی سے اپنے بچوں کے پاس پہنچا بچوں نے اسے دیکھ کر حیرانی سے پوچھا اماں آپ صبح سے کہاں تھیں ہم آپ کا انتظار کرتے کرتے تھک گئے بنا دودھ کے ہمارا گلا سوکھ گیا ہے کیا ہو گیا ہے کہ آپ ہمیں چھوڑ کر چلی گئی تھیں ماں ہرن نے بچوں کو سمجھاتے ہوئے کہا میرے پیارے بچوں آج صبح جب میں تمہارے لیے کھانے کی تلاش میں نکلی تھی تو ایک یہودی نے مجھے پکڑ لیا وہ مجھے باندھ کر لے گیا پھر اللہ کے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس راستے سے گزرے میں نے ان سے تمہاری حالت کے بارے میں کہا۔
"اور اس نے مدد کی فریاد کی۔ ہرنی نے آگے کہا: ‘نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے میری مدد کرنے کے لیے خود کو اُس یہودی کے پاس گروی رکھ دیا، تاکہ میں تم سے آخری بار مل سکوں۔ اب مجھے واپس لوٹ کر جانا ہوگا، کیونکہ میں نے وعدہ کیا ہے کہ ضرور واپس آؤں گی۔’
ماں ہرنی نے اپنے بچوں سے کہا: ‘میرے پیارے بچو! وہ سنگ دل یہودی اللہ کے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو باندھ کر رکھے ہوئے ہے۔’"
"جلدی سے میرا دودھ پی لو، مجھے فوراً واپس جانا ہے۔ میں اپنے نبی کو تکلیف میں چھوڑ کر نہیں رہ سکتی۔"
جب ہرنی کے بچوں نے یہ سنا کہ ان کی ماں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک یہودی کے پاس گروی رکھ کر صرف انہیں دودھ پلانے اور ملنے آئی ہے، تو وہ روتے ہوئے بولے:
"اماں! آپ کیسے سوچ سکتی ہیں کہ ہم اس نبی کے ہوتے ہوئے آپ کا دودھ پی لیں، جنہیں ایک ظالم یہودی نے قید کر رکھا ہے؟
نہیں! ہم ہرگز آپ کا دودھ نہیں پی سکتے۔
آپ چلیں، ہم بھی آپ کے ساتھ چلیں گے۔ ہم اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تکلیف برداشت نہیں کر سکتے۔"
یہ کہہ کر ماں ہرنی اپنے بچوں کے ساتھ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس واپس چل پڑی۔
دوسری طرف جب ہرن کے لوٹنے میں تھوڑی دیر ہوئی تو وہ یہودی تنز کرتے ہوئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہنے لگا تم سے زیادہ بے وقوف انسان میں نے اس دنیا میں کبھی نہیں دیکھا ایک جنگل کے ہرن کے لیے تم نے خود کو میرے پاس گروی رکھ دیا کیا تم واقعی سوچتے ہو کہ وہ ہرن واپس آئے گا قیامت تک وہ ہرن لوٹ کر نہیں آئے گا اور قیامت تک تم میری قید میں رہو گے۔
یہ سن کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نہایت نرمی اور اطمینان سے فرمایا:
"اے یہودی! تھوڑا صبر کرو، وہ ہرنی ضرور واپس آئے گی۔ ان شاء اللہ، وہ تمہارے پاس اللہ کے حکم سے لوٹ کر آئے گی۔"
یہودی طنزیہ انداز میں ہنستے ہوئے بولا:
"اے محمد! اپنے وہم و گمان چھوڑ دو۔ میں پورے یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ وہ ہرنی قیامت تک واپس نہیں آئے گی!"**
*کچھ وقت گزر گیا۔
یہودی دل ہی دل میں سوچنے لگا:
"میں نے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کو گروی رکھا ہے، اب میں ان کے ساتھیوں سے خوب مال و دولت حاصل کروں گا۔
کیا کبھی کوئی ہرنی محض ماں کی محبت کے باعث واپس آئی ہے؟"
تھوڑی دیر بعد، اس نے حیرت سے دیکھا کہ نہ صرف وہ ہرنی واپس آ رہی ہے، بلکہ اس کے ساتھ اس کے بچے بھی ہیں!
یہ منظر دیکھ کر وہ ششدر رہ گیا۔
پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نرمی سے ہرنی سے پوچھا:
"اے ہرنی! تم اپنے بچوں کو ساتھ کیوں لائی ہو؟"
وعدہ تو یہ تھا کہ تو اکیلے لوٹے گی ماں ہرن نے جواب دیا یا رسول اللہ جب میں اپنے بچوں کے پاس پہنچی اور انہیں بتایا کہ اللہ کے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خود کو ایک یہودی کے پاس گروی رکھ دیا تاکہ میں تم سے آخری بار مل سکوں اور تمہیں دودھ پلا سکوں تو میرے بچوں نے روتے ہوئے کہا اماں اپ کیسے سوچ سکتی ہیں کہ ہم اللہ کے نبی کو قید میں چھوڑ کر اپ کا دودھ پییں گے نہیں ہم ایسا کبھی نہیں کر سکتے اس کے بعد میرے بچے بھی میرے ساتھ چل پڑے ماں ہرن نے اگے کہا
اگر میری وجہ سے آپ کو کسی طرح کی تکلیف ہوئی ہو تو مجھے معاف کر دیجیے میں نے جانے انجانے آپ کو پریشانی دی پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہودی کی طرف دیکھا اور فرمایا اے یہودی دیکھو تمہاری ہرنی لوٹ آئی ہے وہ اکیلی نہیں آئی بلکہ اپنے بچوں کو بھی ساتھ لے کر آئی ہے اب تم ان کا جو چاہو استعمال کر سکتے ہو اور ایک بات یاد رکھو میں صرف انسانوں کا نبی نہیں ہوں میں جنگل کے جانوروں پرندوں اور پوری کائنات کا نبی ہوں یہ بات کہہ کر جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جانے لگے تو وہ یہودی پیچھے سے پکارتے ہوئے بولا یا رسول اللہ وہ ہرن جو آپ کے حکم سے واپس لوٹ آیا میں سمجھ گیا کہ آپ اللہ کے سچے نبی ہیں یا رسول اللہ مجھے اپنے ہاتھوں سے کلمہ پڑھا کر مسلمان بنا دیجئے مجھے اب اس ہرن کی کوئی ضرورت نہیں ہے میں اسے آپ کو سونپتا ہوں اور اپ کی خدمت میں اپنی زندگی گزارنا چاہتا ہوں اس کے بعد وہ یہودی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھوں پر کلمہ پڑھ کر مسلمان ہو گیا سبحان اللہ
**ایک دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ کرام کے ساتھ ایک مجلس میں تشریف فرما تھے۔
اسی دوران ایک غریب بدّو (دیہاتی) وہاں آیا۔
اس کے ہاتھ میں ایک گوہ (گرگٹ نما صحرائی جانور) تھی، جسے وہ مضبوطی سے پکڑے ہوئے تھا۔
اس نے صحابہ کرام کی طرف اشارہ کرتے ہوئے پوچھا:
"یہ شخص کون ہے؟"
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے جواب دیا:
"یہ اللہ کے رسول ہیں، اور تمام جہانوں کے لیے نبی بنا کر بھیجے گئے ہیں۔"
یہ سن کر بدو نے کہا:
"میں لات اور عُزّیٰ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ میں انہیں نبی نہیں مانتا!"
بدو نے کہا:
"لیکن اگر میرے ہاتھ میں جو گوہ ہے، وہ آپ کی نبوت کی گواہی دے دے، تو میں آپ کو نبی مان لوں گا؟
اے محمد! جب تک یہ گوہ (گرگٹ نما جانور) آپ کی نبوت کو سچ نہ کہے، میں آپ کو نبی نہیں مان سکتا۔"
یہ کہہ کر وہ بدو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف دیکھنے لگا۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسکرا کر اس سے فرمایا:
"اے بدو! سچ سچ بتاؤ، اگر یہی گوہ تمہاری بات مان کر میری نبوت کی گواہی دے دے، تو کیا تم یقیناً مجھ پر ایمان لے آؤ گے؟"
بدو نے جواب دیا:
"اگر یہ واقعی ہو گیا، تو میں بلا شک و شبہ آپ کو اللہ کا نبی مان لوں گا، اور آپ پر ایمان لے آؤں گا۔"
تب اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"تو پھر، تم اس گوہ کو آزاد کر دو۔"
بدو نے حکم کے مطابق گوہ کو چھوڑ دیا۔
پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے گوہ کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا:
"اے گوہ! ہمارے پاس آ، اور جواب دے!"
جیسے ہی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے پکارا،
وہ گوہ سب کی سمجھ میں آنے والی فصیح عربی زبان میں بول پڑی:
"لبّیک یا رسول اللہ!"
گوہ (گرگٹ) نے کہا:
"میں آپ کی خدمت میں حاضر ہوں، اور آپ کی مدد کے لیے تیار ہوں!"
یہ سن کر مجلس میں موجود تمام لوگ حیرت میں پڑ گئے۔
سب جان گئے کہ یہ کوئی عام واقعہ نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کا ایک معجزہ ہے۔
پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے گوہ سے سوال فرمایا:
"بتا! جس نے جنت کو اپنی رحمت سے آباد کیا، اور جہنم کو اپنے عذاب سے، وہ کون ہے؟"
گوہ نے نہایت ادب سے جواب دیا:
"وہ اللہ ربّ العالمین ہے!"
اس کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا:
"اے گوہ! کیا تو جانتی ہے میں کون ہوں؟"
گوہ نے فوراً جواب دیا:
"آپ اللہ کے سچے رسول ہیں۔
جو بھی آپ کی نبوت کو تسلیم کرے گا، وہ کامیاب ہوگا،
اور جو آپ کو جھٹلائے گا، وہ ضرور ناکام و نامراد رہے گا۔"
پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس غریب دیہاتی (بدو) کی طرف محبت سے دیکھا اور فرمایا:
"اب بتاؤ! کیا تمہارے دل میں میری نبوت کے متعلق کوئی شک باقی رہ گیا ہے؟"
بدو نے عاجزی سے جواب دیا:
"یا رسول اللہ! جس گوہ (گرگٹ) نے آپ کی نبوت کی گواہی دی،
اس کے بعد شک کرنا میری بساط سے باہر ہے۔
اے اللہ کے رسول! مجھے اسلام میں داخل فرما دیجیے،
اور اپنی خدمت کا موقع عطا فرمائیے۔"
یہ کہہ کر اُس بدو نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دستِ مبارک کو تھاما،
اور کلمۂ طیبہ پڑھ کر دائرۂ اسلام میں داخل ہو گیا۔
سبحان اللہ! کیا ایمان افروز منظر تھا!
ایک دن ابو جہل، علی بن مغیرہ اور اکرمہ بن ابو جہل جیسے سرکش کفار، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے۔
انہوں نے گستاخی سے کہا:
"اے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم)!
اگر آپ واقعی سچے نبی ہیں،
تو آسمان پر چمکتا ہوا چاند دو ٹکڑوں میں تقسیم کر کے ہمیں دکھائیں،
ہم اسی وقت آپ پر ایمان لے آئیں گے اور اسلام قبول کر لیں گے۔"
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے ارشاد فرمایا:
"اگر میں تمہارے سامنے چاند کو دو حصوں میں بانٹ کر دکھا دوں،
تو کیا تم واقعی ایمان لے آؤ گے اور اللہ کو اپنا رب مان لوگے؟"
انہوں نے قسم کھا کر کہا:
"ہاں، اگر تم یہ معجزہ دکھا دو، تو ہم ضرور تم پر ایمان لائیں گے،
اللہ کو رب مانیں گے، اور تمہیں نبی تسلیم کر لیں گے۔"
تب نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رب، اللہ ربّ العالمین سے عاجزانہ دعا کی:
"اے اللہ! آسمان کے چاند کو میرے اشارے سے دو ٹکڑوں میں تقسیم فرما دے۔"
اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب کی دعا قبول فرما لی۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی مبارک انگلی سے آسمان کی طرف اشارہ فرمایا۔
اُسی لمحے چاند دو ٹکڑوں میں تقسیم ہو گیا۔
چاند کے دونوں ٹکڑے اتنی دوری پر ہو گئے کہ ان کے درمیان جبلِ حرا (غارِ حرا والا پہاڑ) صاف دکھائی دینے لگا۔
یہ حیرت انگیز منظر کفار نے اپنی آنکھوں سے دیکھا۔
پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان میں سے ہر ایک کو پکار کر فرمایا:
"اے ابو جہل! تم گواہ بنو،
اے علی بن مغیرہ! تم گواہ بنو،
اے ربیع بن عُمیل! تم سب گواہ بنو۔
میں نے تمہاری شرط کے مطابق آسمان کے چاند کو دو ٹکڑوں میں تقسیم کر دیا ہے۔
اب تم اپنی بات پوری کرو، اللہ کو اپنا رب مانو اور مجھے اللہ کا نبی تسلیم کرو!"
لیکن کفار، جن کے دلوں پر کفر کی مہر لگی ہوئی تھی،
ہنستے ہوئے کہنے لگے:
"اے محمد! (نعوذباللہ)
ہم تو یہ سمجھتے تھے کہ تم صرف زمین کی چیزوں پر جادو کر سکتے ہو،
مگر اب تم نے آسمان پر بھی جادو کر ڈالا!"
لیکن کفار، جن کی آنکھوں نے معجزہ تو دیکھ لیا، مگر دلوں پر کفر کی مہر تھی، وہ کہنے لگے:
"اب تو ہم یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ تم آسمان کے چاند پر بھی جادو کر سکتے ہو۔
تمہاری طرح بڑا جادوگر ہم نے کبھی نہیں دیکھا۔
لیکن یاد رکھو، ہم کبھی کسی جادوگر کو نبی تسلیم نہیں کر سکتے!"
حقیقت یہ تھی کہ اللہ ربّ العزت نے ان کے نصیب میں ایمان کی دولت لکھی ہی نہیں تھی۔
اس لیے وہ اتنا عظیم معجزہ اپنی آنکھوں سے دیکھنے کے باوجود بھی، حق کو نہ پہچان سکے اور اسلام قبول نہ کر سکے۔
یہ وہ عظیم معجزہ تھا جس کا ذکر اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں سورۃ القمر کے آغاز میں فرمایا ہے:
> اقْتَرَبَتِ السَّاعَةُ وَانْشَقَّ الْقَمَرُ
(سورۃ القمر: آیت 1)
ترجمہ: قیامت قریب آ گئی ہے اور چاند پھٹ چکا ہے۔
ایک اور واقعہ ایک مرتبہ جب نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم جنگ سے لوٹ رہے تھے تو ایک درخت کی چھاؤں میں آرام فرما رہے تھے ان کی تلوار پاس میں رکھی تھی اسی وقت ان کا ایک دشمن وہاں اگیا اس نے تلوار اٹھا لی میان کور ہٹایا اور سیدھا نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم پر تان دی اے محمد اب بتاؤ تمہیں مجھ سے کون بچائے گا ۔
نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے بڑے اطمینان اور ہمت سے جواب دیا ۔اللہ بچائے گا ۔اس کا جسم کانپنے لگا ہاتھ پاؤں تھر تھرا نے لگے اور ڈر کے مارے تلوار اس کے ہاتھ سے گر گئی پھر نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے تلوار اٹھائی اور فرمایا ۔
اب بتاؤ تمہیں میرے ہاتھ سے کون بچائے گا اب وہ شخص کانپتے ہوئے کہنے لگا اگر کوئی عزت دار شخص میری جان بخش سکتا ہے تو وہی بچا سکتا ہے اس پر نبی نے فرمایا جا میں تمہیں معاف کرتا ہوں اور تجھے کوئی نقصان نہیں پہنچاؤں گا ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس رحمت اور عظیم انسانیت کو دیکھ کر وہ شخص حیران رہ گیا وہ اپنے قبیلے کے پاس لوٹ گیا اور کہنے لگا ۔
’’میں ایسے انسان سے ملا ہوں…
جس کی شفقت، عظمت اور بڑائی کی دنیا میں کوئی مثال نہیں۔
اے میری قوم! آج کے بعد میں تم سے الگ ہو رہا ہوں…
اب اگر ضرورت پڑی تو میں اپنی جان بھی، اس عظیم ہستی پر قربان کر سکتا ہوں!‘‘
اتنا کہہ کر وہ شخص تیزی سے واپس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں آیا۔
اور عرض کیا:
’’یارسول اللہ! مجھے مسلمان بنا دیجیے، اور مجھے اپنے قدموں میں رہ کر خدمت کا شرف عطا فرمایئے۔‘‘
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے محبت سے اپنے قریب بلایا،
کلمہ پڑھایا،
اور وہ شخص اسلام کے نور سے منور ہو گیا۔
سبحان اللہ!