اولڈ ہاسٹل – شکنتلا دیوی نے خودکشی کیوں کی؟
میری یہ کہانی ان دنوں کی ہے جب میں نے لاہور کالج برائے
خواتین یونیورسٹی میں داخلہ لیا تھا۔ شہر سے باہر کے علاقے سے آئی تھی اور ہوسٹل میں رہائش ملی۔ اولڈ ہوسٹل کی ایک پرانی عمارت کا ایک خاموش، اداس گوشہ میرے لیے مختص کیا گیا — کمرہ نمبر 13۔
پہلے ہی دن جب میں کمرے کی طرف بڑھی، میری رہنمائی کے لیے ساتھ چلنے والی وارڈن اچانک رک گئیں۔ ان کا چہرہ یکدم سنجیدہ ہو گیا۔ "بیٹا... یہ کمرہ... تم یہاں اکیلی تو نہیں رہو گی نا؟"
"نہیں میڈم، میری کزن بھی ساتھ ہے۔" میں نے ہلکی سی مسکراہٹ سے جواب دیا۔
انہوں نے محض سر ہلا دیا اور ہمیں کمرہ کھول کر دے دیا۔
کمرے کے اندر داخل ہوتے ہی ایک ٹھنڈی سی ہوا کا جھونکا چہرے پر لگا۔ میں نے حیرت سے چھت کی طرف دیکھا، کوئی پنکھا نہیں چل رہا تھا۔ کمرہ صاف تھا مگر عجیب سی خاموشی اور سرد پن تھا، جیسے یہاں وقت ٹھہر گیا ہو۔
دیوار پر کسی وقت لگا ہوا آئینہ ٹوٹ چکا تھا اور صرف لکڑی کا فریم بچا تھا۔ کمرے کے بالکل ساتھ ایک کھڑکی کھلتی تھی، جس کے باہر ایک پرانا، سوکھا سا درخت نظر آ رہا تھا۔
"یہ درخت بھی عجیب ہے نا، بلکل سوکھا مگر گرتا نہیں…" میری کزن نے کہا۔
میں نے بس اثبات میں سر ہلا دیا، دل میں ایک عجیب سا احساس جاگا۔
کچھ دن گزرے، یونیورسٹی کا ماحول بہت خوبصورت اور دوستانہ تھا۔ لیکن ہر بار جب شام کو ہم ہوسٹل واپس آتے تو جیسے کوئی ہماری کھڑکی سے جھانکتا ہو۔
ایک رات میری کزن نے آہستہ سے کہا:
"تم نے سنا… کھڑکی کے پاس جیسے کسی نے 'کشن مہاراج کی جے ہو' کہا؟"
میں نے چونک کر اس کی طرف دیکھا، "یہ تم نے خواب میں سنا ہوگا۔"
لیکن حقیقت یہ تھی کہ میں نے بھی وہی آواز سنی تھی۔
ایک دن ہماری ایک سینیئر نے، جس کا نام ثریا تھا، ہم سے کہا:
"تمہیں نہیں بتایا کسی نے؟ تمہیں کمرہ نمبر 13 دیا ہے؟"
"ہاں، کیوں؟" میں نے پوچھا
ثریا نے ادھر ادھر دیکھا، جیسے کسی نے سن نہ لیا ہو۔ پھر آہستہ بولی:
"یہی وہ کمرہ ہے جہاں... شکنتلہ دیوی رہتی تھی…
"کون شکنتلہ؟" میری کزن نے بے ساختہ پوچھا۔
"ہندو لڑکی تھی، برطانوی دور میں یہاں پڑھنے آئی تھی۔ یہی کمرہ تھا، وہ اسی میں رہتی، اسی کے باہر اس درخت پر چڑھ کر خودکشی کی تھی۔"
"کیا؟ واقعی؟"
ثریا نے لمبا سانس لیا، اور اپنی بات جاری رکھی:
"کہتے ہیں وہ ایک لڑکے سے محبت کرتی تھی، لیکن اس لڑکے نے کسی اور سے شادی کر لی۔ دل برداشتہ ہو کر، ایک دن صبح سویرے وہ کمرے سے نکلی، درخت پر چڑھی، اور رسی سے پھندا لگا لیا۔ لیکن... پھانسی لگاتے وقت زور زور سے چلّا رہی تھی: ‘کشن مہاراج کی جے ہو!’"
اس وقت تو ہم نے یہ بات ایک قصہ سمجھ کر ٹال دی، لیکن اگلے دن میری زندگی کی سب سے حیران کن بات معلوم ہوئی۔
یونیورسٹی کی لائبریری میں پرانے ریکارڈز دیکھنے کا اتفاق ہوا۔ وہاں ایک فائل ملی جس میں 1927 کا ایک واقعہ درج تھا — ایک "شکنتلہ دیوی" نامی لڑکی کی بے نام ایف آئی آر، جس میں لکھا تھا:
"ایک ہندو طالبہ نے ہوسٹل کے درخت سے لٹک کر خودکشی کر لی۔ وجہ نامعلوم۔ تحقیقات بند۔"
میں لرز گئی۔ یہ واقعی سچ تھا۔
ایک دن شام کے وقت جب ہوسٹل میں بریک تھی، میں نے دیکھا کہ ہمارا وارڈن ایک ملازم کے ساتھ ہمارے کمرے کے باہر کھڑے تھے۔ ان کے ہاتھ میں کچھ اینٹیں اور سیمنٹ تھی۔
"یہ کیا ہو رہا ہے؟" میں نے پوچھا۔
وارڈن نے چونک کر میری طرف دیکھا، پھر مسکرا کر کہا، "کچھ نہیں بیٹا، اس کھڑکی کو مکمل بند کر رہے ہیں۔"
لیکن اندر کی بات یہ تھی کہ اس درخت کی جڑیں دیوار توڑ کر اندر آ رہی تھیں۔ وہ درخت جو کئی سال پہلے کاٹا گیا تھا، وہ دوبارہ اُگ آیا تھا۔
اسی رات…
بارش ہو رہی تھی۔ کمرہ نیم تاریک تھا، باہر سے کبھی کبھار بجلی چمکتی تو کمرے میں روشنی سی پھیل جاتی۔
اچانک میری آنکھ کھلی… کھڑکی کے باہر کوئی سفید لباس میں کھڑا تھا۔ چہرہ دھند میں چھپا ہوا، لیکن… آنکھیں جل رہی تھیں۔
"کشن مہاراج کی جے ہو…" آواز گونجی۔
میں زور سے چیخی اور بستر سے کود گئی۔ میری کزن بھی جاگ گئی۔
ہم نے وارڈن کو بلایا، سیکیورٹی آئی… لیکن کھڑکی کے باہر کچھ نہیں تھا۔ درخت ساکت کھڑا تھا۔ لیکن اس کی ایک شاخ… اندر کی طرف جھکی ہوئی تھی… جیسے ہمیں چھونا چاہتی ہو۔
اگلے دن میں نے اس واقعے کے بارے میں لائبریرین سے بات کی۔ انہوں نے بتایا:
"یہ فائل 112/27 یونیورسٹی کی سب سے پرانی کیس فائل ہے۔ اسے کبھی بند نہیں کیا گیا… بس اسے نظر انداز کر دیا گیا ہے۔"
میں نے فائل دوبارہ کھولی۔ آخری صفحے پر ہاتھ سے لکھا ہوا تھا:
"درخت کی جڑوں میں کسی شے کو دفن کیا گیا تھا۔ اسے نکالا نہ جائے۔"
نیچے دستخط تھے: ASP Brigham – British CID
اب ہر دن ہمارے لیے خوف کا ایک نیا باب تھا۔
ایک دن کمرے کی دیوار پر، دھوپ کے وقت، ہم نے ایک سایہ دیکھا جو اندر کی طرف حرکت کر رہا تھا… لیکن کھڑکی بند تھی، باہر کوئی نہیں تھا۔
کمرے میں ایک پرانا لالٹین تھا، جو ہم نے کبھی نہیں جلایا تھا۔ اُس دن اچانک وہ خودبخود جل اُٹھا۔
یونیورسٹی کے ایک پرانے ملازم سے بات ہوئی، نام تھا اشرف چاچا۔
پوچھا، "چاچا، آپ اس کمرے میں کچھ کام کیوں نہیں کرتے؟"
کہنے لگے، "بیٹا، میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے، جو دیکھنا نہیں چاہیے تھا۔"
"کیا دیکھا؟"
"اس درخت سے، ایک بار میں نے دیکھا، جیسے کوئی لڑکی اتر کر آئی ہو… اور آہستہ آہستہ دیوار میں گم ہو گئی ہو۔ اس کے پاؤں زمین سے اوپر تھے…"
ہوسٹل میں اس واقعے کے بعد جیسے سب کچھ بدل چکا تھا۔
کمرہ نمبر 13 کی دیواریں مزید سنجیدہ، چھت مزید جھکی جھکی، اور وہ درخت... اور زیادہ جیتا جاگتا لگنے لگا۔
ہماری نیندیں اڑ چکی تھیں۔ وارڈن سے شکایت کی، لیکن وہ کچھ نہ کر سکیں۔ انہوں نے ہمیں صرف یہی مشورہ دیا:
"قرآن کی تلاوت کیا کرو… یہ جگہ پرانی ہے… بہت کچھ دیکھا ہے۔"
لیکن جو ہم نے دیکھا، وہ اب کسی تلاوت سے نہیں رُک رہا تھا۔
اسی دوران، یونیورسٹی میں نئے سمسٹر کا آغاز ہوا۔
ایک نئی لڑکی، ثمن حیدر، راولپنڈی سے آئی، اور اسی اولڈ ہوسٹل میں اُس کی کلاسز لگیں۔
ثمن کا تعلق سوشل ورک ڈیپارٹمنٹ سے تھا۔ وہ بہادر، تجسس پسند اور بہت ذہین تھی۔
ایک دن، جب ہم کینٹین میں بیٹھے شکنتلہ دیوی کی باتیں کر رہے تھے، ثمن نے سن کر پوچھا:
"یہ کون تھی شکنتلہ دیوی؟"
ہم سب نے چونک کر اُسے دیکھا۔ کوئی نئی لڑکی ان دنوں اس بارے میں نہیں پوچھتی تھی۔
میں نے اُسے تفصیل سے سب کچھ بتایا۔
ثمن نے گہری سانس لی:
"مجھے کچھ دنوں سے عجیب خواب آ رہے ہیں… خواب میں ایک سفید لباس والی لڑکی آتی ہے، جو درخت پر چڑھی ہوتی ہے اور کہتی ہے… 'کشن مہاراج کی جے ہو!'"
ثمن نے اگلے دن ہی فیصلہ کیا کہ وہ اس واقعے کی تحقیق کرے گی۔
اس نے لائبریری سے ASP Brigham کی لکھی ہوئی رپورٹ نکالی۔ اس میں لکھا تھا:
> "شکنتلہ دیوی کی لاش کو درخت سے اتار کر، مقامی افراد نے ایک بے نام جگہ دفن کر دیا۔ لیکن دفنانے سے پہلے، اس کے ہاتھ میں موجود ایک "پتھر کا پوجا لوٹا" واپس درخت کی جڑ میں رکھ دیا گیا، تاکہ بد روح پیچھا نہ کرے۔"
ثمن نے وہیں فیصلہ کیا:
"میں اس درخت کی جڑ کے نیچے کیا ہے، جاننا چاہتی ہوں۔"
رات 10 بجے، جب سیکیورٹی اہلکار جا چکے تھے، ثمن، میں، اور میری کزن – تینوں درخت کے پاس پہنچے۔
ثمن کے ہاتھ میں ایک چھوٹا سا کھُرپا تھا۔ ہم نے وہ جگہ کھودنی شروع کی جہاں سے درخت کی جڑیں زمین میں گئیں۔
کچھ ہی لمحوں بعد ہمیں ایک تانبے کی چھوٹی سی تھالی ملی، جس پر کچھ سنسکرت میں لکھا تھا، اور نیچے ایک بوسیدہ کاغذ لپٹا ہوا تھا۔
کاغذ پر لکھا تھا:
"جب تک یہ لوٹا یہاں ہے، میں بند ہوں۔ اگر نکالا تو… سب ختم۔
ہم نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا۔
ثمن نے سر جھٹکا:
"یہ سب افسانے ہوتے ہیں۔"
اس نے وہ لوٹا اٹھایا… اور اگلے لمحے ہوا تھم گئی
پوری عمارت کی لائٹس ایک دم گل ہو گئیں۔
دور کہیں سے، لائبریری کی عمارت کی کھڑکی کھڑکائی۔ پھر ہوا تیز ہو گئی، درخت کی شاخیں جھومنے لگیں۔
ثمن ایک دم پیچھے گری اور اس کی آنکھیں چندھیا گئیں۔
میں نے اسے اٹھانے کی کوشش کی، لیکن وہ چپ تھی۔
اس کی سانس تو آ رہی تھی… مگر جیسے وہ… کچھ اور بن چکی ہو۔
اگلے دن صبح، ثمن بالکل نارمل لگ رہی تھی۔ لیکن اس کی آنکھیں سوجی ہوئی تھیں، اور وہ بار بار خالی خلا میں دیکھتی۔
"رات کو کیا ہوا تھا؟" میں نے پوچھا۔
وہ مسکرائی… عجیب، خاموش مسکراہٹ۔
"میں… میں اب سمجھ گئی ہوں۔ وہ اکیلی تھی، کوئی اس کی بات نہیں سنتا تھا…"
"کون؟ شکنتلہ دیوی؟"
ثمن نے میرا ہاتھ پکڑا اور آہستہ سے کہا:
"نہیں… میں… شکنتلہ ہوں…"۔
اس دن کے بعد سے ہوسٹل میں واقعات تیز ہو گئے۔
باتھ روم میں شیشہ خود بخود ٹوٹا
کمرہ نمبر 13 میں دوبارہ آوازیں آنا شروع ہوئیں
ایک ملازم کو درخت کے نیچے بیہوش پایا گیا
یونیورسٹی میں افواہیں اڑ گئیں کہ اولڈ ہوسٹل میں "کچھ" واپس آ گیا ہے۔
ثمن سے پوچھنے پر، وہ کہتی:
"میں خواب میں اُس لڑکے کو دیکھتی ہوں… جس نے شکنتلہ کا دل توڑا۔ وہ یہاں کسی فیکلٹی کا حصہ بن چکا ہے۔"
"کیا؟ وہ آج بھی زندہ ہے؟"
"اس کی روح شاید…"
ہم نے ہمت کی، اور یونیورسٹی کے ایک پرانے پروفیسر ڈاکٹر قریشی سے ملاقات کی۔ وہ واحد شخص تھے جو انگریزوں کے بعد کے دور سے واقف تھے۔
ڈاکٹر قریشی نے لمبی خاموشی کے بعد کہا:
"ہاں… شکنتلہ دیوی نے خودکشی کی تھی۔ میں اُس وقت سات سال کا تھا۔ میرے والد اس وقت ہوسٹل وارڈن تھے۔ انہوں نے بتایا تھا کہ شکنتلہ آخری دن بار بار کہتی تھی: وہ وعدہ کر کے گیا ہے… وہ مجھے لینے آئے گا…"
"کون تھا وہ لڑکا؟"
ڈاکٹر قریشی نے آہستہ سے کہا:
"میرا چچا زاد بھائی… وہ بھی یونیورسٹی میں پڑھاتا تھا… لیکن اس نے کسی مسلمان لڑکی سے شادی کر لی…"
اس رات ثمن اچانک لاپتہ ہو گئی۔
یونیورسٹی کے CCTV کیمروں نے ریکارڈ کیا کہ وہ سفید لباس میں، درخت کی طرف جا رہی تھی، ہاتھ میں وہی لوٹا پکڑے۔
جب ہم وہاں پہنچے… تو درخت کی جڑ میں آگ لگی ہوئی تھی… اور ثمن زمین پر بے ہوش پڑی تھی۔
لیکن درخت… مکمل راکھ بن چکا تھا۔
ثمن کو ہسپتال لے جایا گیا۔ وہ ہوش میں تو آئی، لیکن اسے کچھ یاد نہ تھا۔
ڈاکٹرز نے بتایا کہ اس کا دماغ کچھ دنوں تک دباؤ میں رہا، جیسے کسی بہت پرانی یاد نے اسے جکڑ لیا ہو۔
کمرہ نمبر 13 کو مستقل طور پر بند کر دیا گیا۔
یونیورسٹی نے اس جگہ پر سیمنٹ کی دیوار اٹھا دی اور وہاں نیا بلاک بنانے کا اعلان کیا۔
آج بھی جب میں اولڈ ہوسٹل کے پاس سے گزرتی ہوں تو دل دھڑکنے لگتا ہے۔
یاد آتی ہے شکنتلہ کی وہ آواز… وہ زنجیر… جو شاید اب ٹوٹ چکی ہے… یا شاید ہم سمجھتے ہیں کہ ٹوٹ چکی ہے۔
کیونکہ آج بھی… کبھی کبھی…
کسی طالبہ کی زبانی یہ آواز سنائی دیتی ہے…
"کشن مہاراج کی جے ہو…"
⚠️ کاپی رائٹ نوٹس:
یہ کہانی مکمل طور پر ہمارے رائٹر کی محنت کا نتیجہ ہے۔ اس کی کسی بھی قسم کی کاپی، ری اپلوڈ یا دوبارہ استعمال بغیر اجازت کے سختی سے منع ہے۔ خلاف ورزی کی صورت میں
قانونی کارروائی کی جائے گی۔
اگر آپ اس کہانی کو اپنے یوٹیوب چینل یا کسی اور پلیٹ فارم پر اپلوڈ کرنا چاہتے ہیں تو برائے مہربانی ہم سے فیس بک پر رابطہ کریں اور مناسب قیمت ادا کر کے باقاعدہ اجازت حاصل کریں۔