![]() |
ٹرین کا خوفناک سفر |
بنگال کے گھنے جنگلوں اور دلدلی زمینوں کے درمیان سے گزرتی ایک ٹرین، "بمبئی ایکسپریس"، اپنی منزل کلکتہ کی طرف رواں دواں تھی۔ یہ برطانوی راج کے ابتدائی ریلوے نظام کا حصہ تھی، جو دیہاتوں اور شہروں کو جوڑتی تھی، لیکن اس رات کا سفر ایک خوفناک خواب بننے والا تھا۔ آسمان پر بادل چھائے ہوئے تھے، اور چاند کی مدھم روشنی جنگل کے گھنے درختوں کے درمیان سے چھن کر زمین پر پڑ رہی تھی، جیسے کوئی راز کھولنے کی کوشش کر رہی ہو۔ مقامی لوگ اس جنگل کو ملعون سمجھتے تھے۔ کہانیاں تھیں کہ یہاں رات کے وقت عجیب مخلوقات گھومتی ہیں—کچھ انہیں "بھوتنی" کہتے، کچھ "راکشس"، اور کچھ "نرہ پشاچ"—ایک ایسی مخلوق جو انسان کا روپ دھارتی تھی لیکن رات کو خون کی پیاسی ہو جاتی تھی۔ ٹرین کے اندر بیٹھے مسافر ان کہانیوں سے بے خبر تھے، لیکن ان کی یہ بے خبری زیادہ دیر نہ رہنے والی تھی۔ ٹرین کا گارڈ، رام دیال، ایک تیس سالہ مضبوط جوان تھا، جو اپنی ذمہ داریوں کو جان سے زیادہ عزیز رکھتا تھا۔ وہ ایک غریب کسان کا بیٹا تھا، لیکن ریلوے کی ملازمت نے اسے عزت اور روزگار دیا تھا۔ اس کی وردی پر مٹی کے دھبے لگے تھے، کیونکہ وہ ٹرین کے پچھلے ڈبے کو چیک کرتے ہوئے جنگل کی کیچڑ والی زمین پر پھسل گیا تھا۔ اس کی جیب میں ایک پرانی لالٹین تھی، جو اس دور کی واحد روشنی تھی۔ رام دیال کا دل بوجھل تھا—اس کی ماں گاؤں میں بیمار پڑی تھی، اور وہ اس رات کے سفر کو جلد ختم کرنا چاہتا تھا۔ لیکن اسے کیا معلوم تھا کہ یہ رات اس کی زندگی کی سب سے خوفناک رات بننے والی ہے۔ ٹرین کے اندر مختلف پس منظر کے مسافر بیٹھے تھے، ہر ایک اپنی کہانی لیے۔ سریش کمار، ایک کلکتہ کا تاجر، اپنی دکان کے لیے مال لے کر جا رہا تھا۔ وہ باتونی اور چالاک تھا، لیکن اس کی باتیں اکثر دوسروں کو پریشان کرتی تھیں۔ اس کے پاس ایک بڑا صندوق تھا، جو وہ ہر وقت اپنے قریب رکھتا، جیسے اس میں کوئی راز چھپا ہو۔ لاجونتی، ایک جوان بیوہ، اپنے میکے سے کلکتہ اپنی بہن کے گھر جا رہی تھی۔ وہ خاموش تھی، لیکن اس کی آنکھوں میں ایک عجیب سا خوف جھلکتا تھا، جیسے وہ کوئی راز چھپا رہی ہو۔ مولوی عبدالرحیم، ایک بزرگ عالم دین، اپنی دینی کتابوں کے ساتھ سفر کر رہے تھے۔ وہ اکثر دعائیں پڑھتے اور مسافروں کو جنگل کی "بھوتنی" کہانیوں سے ڈراتے رہتے تھے۔ پنڈت رگھوناتھ، ایک مقامی پنڈت، گاؤں میں ایک رسم کے بعد واپس جا رہا تھا۔ اس کے پاس کچھ پرانے سنسکرت مخطوطات تھے، جن کے بارے میں وہ کہتا تھا کہ وہ "قدیم رازوں" سے بھرے ہیں۔ بیکٹو، ایک شرارتی لڑکا، اپنی دادی کے ساتھ سفر کر رہا تھا۔ وہ ٹرین کے ڈبوں میں ادھر ادھر بھاگتا رہتا، جس سے رام دیال کو کافی پریشانی ہوتی تھی۔ ٹرین کا ڈرائیور، بشن سنگھ، ایک تجربہ کار سکھ تھا، جو ریلوے سے پہلے فوج میں تھا۔ اس کا اسسٹنٹ، منوج، ایک جوان لڑکا تھا جو ہنسی مذاق میں مصروف رہتا تھا۔ بشن سنگھ اس رات کے سفر سے ناخوش تھا۔ اسے مقامی افواہوں کا علم تھا کہ اس جنگل میں رات کو عجیب چیزیں ہوتی ہیں۔ وہ اپنی پگڑی کو درست کرتے ہوئے منوج سے کہہ رہا تھا، "یہ جنگل اچھا نہیں، منوج۔ رات کو یہاں سے گزرنا خطرناک ہے۔" منوج نے ہنستے ہوئے جواب دیا، "بشن جی، آپ بھی ان دیہاتیوں کی کہانیوں پر یقین کرتے ہیں؟ یہ بس کوئی بھالو یا چیتا ہوگا۔" رات گہری ہوتی جا رہی تھی، اور ٹرین کی رفتار اچانک سست پڑ گئی۔ مسافر بے چین ہو رہے تھے۔ سریش کمار بلند آواز میں شکایت کر رہا تھا، "یہ بمبئی ایکسپریس کبھی وقت پر نہیں پہنچتی!" لاجونتی اپنی سیٹ پر خاموشی سے دعا مانگ رہی تھی، اس کی انگلیاں اس کے گلے میں پڑے تعویذ پر پھر رہی تھیں۔ مولوی عبدالرحیم نے اپنی تسبیح نکالی اور بلند آواز میں آیات پڑھنی شروع کیں، جس سے ڈبے کا ماحول اور بھی بھاری ہو گیا۔ بیکٹو اپنی دادی سے کہہ رہا تھا، "دادی، یہ مولوی اتنا کیوں ڈرا رہا ہے؟" لیکن اس کی دادی نے اسے چپ کرا دیا۔ رام دیال ڈرائیور کے ڈبے کی طرف بڑھا تاکہ وجہ معلوم کرے۔ بشن سنگھ نے بتایا کہ ٹریک پر کوئی رکاوٹ ہے—شاید کوئی بڑا پتھر یا درخت کی شاخ۔ رام دیال نے اپنی لالٹین اٹھائی اور منوج کے ساتھ ٹریک چیک کرنے کے لیے اترا۔ جنگل کی خاموشی غیر معمولی تھی۔ نہ پرندوں کی آواز، نہ جھینگر کی سرسراہٹ۔ صرف ہوا کی ایک عجیب سی سرگوشی تھی، جو درختوں کے پتوں سے ٹکراتی ہوئی کانوں میں گونج رہی تھی۔ رام دیال کے ہاتھ میں لالٹین ہلکی سی لرز رہی تھی۔ اسے اپنے گاؤں کی کہانیاں یاد آ رہی تھیں، جہاں بڑوں نے "نرہ پشاچ" کا ذکر کیا تھا—ایک مخلوق جو چاندنی راتوں میں انسانوں کا شکار کرتی تھی۔ جب وہ ٹریک پر آگے بڑھے، انہیں زمین پر عجیب نشانات نظر آئے۔ بڑے بڑے پنجوں کے نشانات تھے، جو نہ بھالو کے تھے، نہ چیتے کے۔ وہ اتنا گہرے تھے کہ جیسے کوئی بھاری مخلوق یہاں سے گزری ہو۔ منوج نے ہنستے ہوئے کہا، "یہ کوئی جنگلی جانور ہوگا، رام بھائی۔ ڈرو مت!" لیکن اس کی آواز میں ایک ہلکی سی لرزش تھی۔ اچانک، جنگل سے ایک خوفناک آواز گونجی—جیسے کوئی زخمی جانور چیخ رہا ہو، لیکن اس میں ایک عجیب سی انسانی سی کیفیت تھی۔ رام دیال کا دل دھک سے رہ گیا۔ اس نے منوج کو کہا، "جلدی واپس چلو!" لیکن اس سے پہلے کہ وہ مڑتے، ایک سایہ جنگل سے نکل کر ان کی طرف لپکا۔ وہ دونوں بھاگ کر ٹرین کی طرف لوٹے، لیکن جب وہ ڈبے کے قریب پہنچے، ایک زوردار دھماکے کی آواز آئی۔ ٹرین کا ایک ڈبہ زور سے ہلا، جیسے اسے کسی نے دھکا دیا ہو۔ مسافروں میں افراتفری مچ گئی۔ سریش کمار چیخا، "یہ کیا ہو رہا ہے؟ ہم سب مر جائیں گے!" بیکٹو اپنی دادی کے پیچھے چھپ گیا، اور لاجونتی کی آنکھوں میں خوف اور گہرائی بڑھ گئی۔ مولوی عبدالرحیم نے بلند آواز میں دعا پڑھنی شروع کی، جبکہ پنڈت رگھوناتھ اپنے مخطوطات پر جھکا ہوا کچھ منتر ڈھونڈ رہا تھا۔ رام دیال نے ڈبے میں داخل ہونے کی کوشش کی، تو اسے ایک گندی بدبو آئی—جیسے گیلی مٹی، خون، ۔ اس نے اپنی لالٹین اٹھائی اور دیکھا کہ ڈبے کی کھڑکی ٹوٹ چکی تھی۔ شیشے کے ٹکڑے زمین پر بکھرے ہوئے تھے، اور کھڑکی کے باہر دو چمکتی ہوئی آنکھیں نظر آئیں، جو چاند کی روشنی میں خون کی طرح سرخ دمک رہی تھیں۔ اس سے پہلے کہ وہ کچھ سمجھ پاتا، ایک بہت بڑی مخلوق نے ڈبے پر حملہ کر دیا۔ اس کا جسم انسان جیسا تھا، لیکن چہرہ بھیڑیے جیسا—لمبے، نوکیلے دانت، بالوں سے ڈھکا جسم، اور پنجوں والی انگلیاں جو دھات کو چیر سکتی تھیں۔ اس کی چیخ اتنی خوفناک تھی کہ مسافروں کے خون جم گئے۔ رام دیال نے اپنی بندوق اٹھائی، جو اسے ریلوے سیکیورٹی کے لیے دی گئی تھی، اور مخلوق پر گولی چلائی۔ گولی اسے لگی، لیکن وہ صرف ایک قدم پیچھے ہٹی اور پھر اور زیادہ غصے سے حملہ آور ہوئی۔ اس نے ڈبے کی دیوار کو چیر دیا، اور اس کی پنجوں والی ہتھیلی ایک مسافر کی طرف بڑھی، جو چیختے ہوئے پیچھے ہٹا۔ جنگل سے مزید چیخیں آ رہی تھیں—جیسے ایک نہیں، کئی مخلوقات وہاں موجود ہوں۔ ہوا میں خون کی بو گھل گئی تھی، اور ٹرین کے اندر کا ہر لمحہ موت کے قریب لے جا رہا تھا۔ افراتفری میں، منوج غائب ہو چکا تھا۔ رام دیال نے ٹریک پر خون کے دھبے دیکھے، جہاں منوج کی لالٹین زمین پر پڑی تھی، اس کی شعلہ مدھم ہو رہی تھی۔ وہ سمجھ گیا کہ یہ کوئی عام جانور نہیں ہے۔ اس نے مسافروں کو ڈبے کے اندر بند ہونے کا حکم دیا اور دروازوں کو مضبوط کرنے لگا۔ لیکن اسے احساس تھا کہ یہ صرف آغاز ہے۔ جنگل کی خاموشی اب ٹوٹ چکی تھی، اور ہر طرف سے عجیب آوازیں آ رہی تھیں—کبھی ہنسی کی طرح، کبھی رونا، کبھی گرجنا۔ رام دیال نے مسافروں کو جمع کیا اور کہا، "ہمیں مل کر مقابلہ کرنا ہوگا۔ یہ کوئی عام جانور نہیں ہے۔ ہمیں بمبئی ایکسپریس کو دوبارہ چلانا ہوگا، ورنہ ہم سب مارے جائیں گے۔" سریش کمار نے احتجاج کیا کہ وہ اپنا صندوق نہیں چھوڑ سکتا، جیسے اس میں اس کی جان بسی ہو۔ لاجونتی خاموشی سے رام دیال کو دیکھ رہی تھی، اس کی آنکھوں میں ایک عجیب سی چمک تھی، جیسے وہ جانتی ہو کہ یہ مخلوق کیا ہے۔ مولوی عبدالرحیم نے کہا، "یہ شیطان کا کام ہے۔ صرف دعائیں ہمیں بچا سکتی ہیں۔" پنڈت رگھوناتھ نے اپنے مخطوطات سے سر اٹھایا اور دھیمی آواز میں کہا، "یہ 'نرہ پشاچ' ہے۔ میرے مخطوطات میں اس کا ذکر ہے۔ یہ چاندنی راتوں میں خون مانگتا ہے، اور اسے روکنے کا ایک ہی طریقہ ہے—لیکن اس کے لیے ہمت چاہیے۔" رام دیال نے فیصلہ کیا کہ وہ بشن سنگھ کے ساتھ مل کر ٹرین کو دوبارہ چلانے کی کوشش کرے گا۔ لیکن اس سے پہلے کہ وہ انجن روم کی طرف بڑھتا، ایک اور چیخ گونجی۔ یہ بیکٹو کی دادی کی آواز تھی۔ رام دیال بھاگ کر ڈبے میں پہنچا، لیکن وہاں صرف خون کے چھینٹے اور ایک ٹوٹی ہوئی کھڑکی تھی۔ بیکٹو زمین پر بیٹھا رو رہا تھا، اور اس کے ہاتھ میں اس کی دادی کا ٹوٹا ہوا کنگن تھا۔ لاجونتی اسے گلے لگا کر تسلی دے رہی تھی، لیکن اس کی اپنی آنکھیں خوف سے بھری ہوئی تھیں۔ جنگل سے ایک اور گرجدار آواز آئی، جیسے کوئی بھاری چیز ٹرین کی طرف بڑھ رہی ہو۔ رام دیال نے دروازے کی طرف دیکھا، جہاں چاند کی روشنی میں ایک اور سایہ نظر آیا۔ اس کی آنکھیں سرخ تھیں، اور اس کے دانتوں سے خون ٹپک رہا تھا۔ رام دیال کا دل زور زور سے دھڑک رہا تھا، لیکن وہ جانتا تھا کہ اب پیچھے ہٹنا موت ہے۔ اس نے اپنی بندوق مضبوطی سے پکڑی اور مسافروں کو پکارا، "تیار ہو جاؤ! یہ رات ہم سب کی آزمائش ہے!" لیکن اس کے دل میں ایک سوال تھا—کیا وہ اس رات سے زندہ بچ پائیں گے؟
چاند کی مدھم روشنی اب تقریباً ختم ہو چکی تھی، اور بنگال کے گھنے جنگل کی تاریکی بمبئی ایکسپریس کے ڈبوں پر چھا گئی تھی۔ ٹرین، جو کبھی کلکتہ کی طرف امیدوں کے ساتھ رواں دواں تھی، اب موت کے سائے میں کھڑی تھی۔ رام دیال کی بندوق کی نال ابھی تک گرم تھی، لیکن اس کے ہاتھ ٹھنڈے پڑ رہے تھے۔ جنگل سے آنے والی چیخوں نے مسافروں کے دل جما دیے تھے۔ بیکٹو کی دادی کا غائب ہونا اور خون کے چھینٹوں سے بھری کھڑکی ہر ایک کے ذہن میں ایک ہی سوال اٹھا رہی تھی—کیا وہ اس رات سے زندہ بچ پائیں گے؟
رام دیال نے مسافروں کو ڈبے کے وسط میں جمع کیا۔ سریش کمار اپنا صندوق مضبوطی سے پکڑے ہوئے تھا، جیسے اس کی جان اسی میں بند ہو۔ لاجونتی بیکٹو کو سینے سے لگائے خاموش کھڑی تھی، لیکن اس کی آنکھوں میں ایک عجیب سی چمک تھی، جیسے وہ کوئی راز جانتی ہو۔ مولوی عبدالرحیم تسبیح پھیرتے ہوئے آیات پڑھ رہے تھے، ان کی آواز میں ایک عجیب سی شدت تھی۔ پنڈت رگھوناتھ اپنے مخطوطات پر جھکا ہوا تھا، اس کی انگلیاں پیلے پڑے صفحات پر پھر رہی تھیں۔ بیکٹو روتے ہوئے اپنی دادی کا کنگن پکڑے زمین پر بیٹھا تھا۔ بشن سنگھ انجن روم سے واپس آیا، اس کا چہرہ پریشانی سے بھرا ہوا تھا۔ "ٹرین کا انجن ٹھیک ہے، لیکن ٹریک پر کوئی بڑی چیز ہے۔ ہمیں اسے ہٹانا ہوگا، ورنہ ہم یہاں پھنس جائیں گے۔"
رام دیال نے گہری سانس لی اور کہا، "ہم سب کو مل کر مقابلہ کرنا ہوگا۔ یہ کوئی عام جانور نہیں۔" اس نے اپنی بندوق دوبارہ لوڈ کی اور دروازے کی طرف بڑھا۔ لیکن اس سے پہلے کہ وہ باہر قدم رکھتا، ایک زوردار دھماکہ ہوا۔ ڈبے کی چھت پر کچھ بھاری چیز گرنے کی آواز آئی، اور اس کے ساتھ ایک خوفناک چیخ نے فضا کو چیر دیا۔ مسافروں نے خوف سے ایک دوسرے کی طرف دیکھا۔ سریش کمار چیخا، "یہ کیا ہے؟ ہم سب مر جائیں گے!" اس کی آواز اب ہسٹیریا کے قریب تھی۔
رام دیال نے دروازہ کھولنے کی کوشش کی، لیکن وہ جام ہو چکا تھا۔ اچانک، کھڑکی سے ایک بڑا پنجہ اندر آیا اور ڈبے کی دیوار کو چیر دیا۔ اس کے ساتھ خون کی بو اور ایک عجیب سی گندگی کی بدبو پھیل گئی۔ مخلوق کا سایہ اب واضح تھا—ایک انسان نما جسم، لیکن اس کا چہرہ بھیڑیے جیسا، آنکھیں خون کی طرح سرخ، اور دانت نوکیلے، جن سے خون ٹپک رہا تھا۔ اس نے ایک زوردار چیخ ماری اور سریش کمار کی طرف لپکا۔ سریش نے اپنا صندوق آگے کیا، لیکن مخلوق نے اسے ایک جھٹکے میں چھین لیا اور دیوار سے ٹکرا دیا۔ صندوق کھلا اور اس میں سے سونے کے سکے اور جواہرات بکھر گئے۔ سریش چیختا ہوا زمین پر گر پڑا، اور اس سے پہلے کہ کوئی کچھ کر پاتا، مخلوق نے اس کے سینے پر اپنا پنجہ مارا۔ سریش کی چیخ فضا میں گونجی اور پھر خاموشی چھا گئی۔ اس کا جسم بے جان ہو کر گر پڑا، خون کا ایک تالاب اس کے نیچے بن گیا۔
مسافروں میں افراتفری مچ گئی۔ لاجونتی نے بیکٹو کو مضبوطی سے پکڑا اور ڈبے کے کونے میں چھپ گئی۔ مولوی عبدالرحیم نے بلند آواز میں دعا پڑھنا شروع کی، لیکن ان کی آواز لرز رہی تھی۔ پنڈت نے یہ نرہ پشاچ ہے، ایک قدیم لعنت۔ اسے روکنے کا ایک ہی طریقہ ہے—ہمیں اس کے دل میں ایک مقدس تعویذ گھونپنا ہوگا۔" اس نے اپنی جیب سے ایک چھوٹا سا دھاتی تعویذ نکالا، جس پر عجیب سے نشانات کندہ تھے۔
رام دیال نے کہا، "ہمارے پاس اور کوئی راستہ نہیں۔ اگر ہم یہاں رہے، یہ ہمیں ایک ایک کر کے مار ڈالے گا۔" اس نے بشن سنگھ کو اشارہ کیا کہ وہ انجن روم تیار رکھے۔ "ہم ٹرین کو چلائیں گے، اور اس مخلوق سے لڑیں گے۔" لیکن اس سے پہلے کہ وہ منصوبہ بناتے، ایک اور چیخ گونجی۔ یہ مولوی عبدالرحیم کی آواز تھی۔ سب نے مڑ کر دیکھا تو وہ زمین پر گرے ہوئے تھے، ان کا گلہ چیرا ہوا تھا، اور ان کی تسبیح خون میں ڈوبی ہوئی تھی۔ ایک اور مخلوق ڈبے کے اندر داخل ہو چکی تھی۔ اس کی آنکھیں رام دیال پر جمی تھیں، جیسے وہ اسے چیلنج کر رہی ہو۔
رام دیال نے بندوق اٹھائی اور گولی چلائی، لیکن اس بار مخلوق نے گولی کو جھیل لیا اور اس کی طرف لپکی۔ بشن سنگھ نے ایک لوہے کی راڈ اٹھائی اور مخلوق کے سر پر ماری، لیکن اس کا اثر کم تھا۔ مخلوق نے بشن سنگھ کو دیوار سے ٹکرا دیا، اور وہ بے ہوش ہو کر گر پڑا۔ رام دیال نے لاجونتی اور بیکٹو کو پکارا، "بھاگو! ڈبے کے پچھلے دروازے کی طرف!" وہ خود مخلوق سے مقابلہ کرنے لگا، لیکن اسے احساس ہوا کہ اس کی بندوق اس کے خلاف بے اثر ہے۔
لاجونتی نے بیکٹو کا ہاتھ پکڑا اور پنڈت رگھوناتھ کے ساتھ ڈبے کے پچھلے حصے کی طرف بھاگی۔ پنڈت نے اپنے مخطوطے سے ایک پرانا منتر پڑھنا شروع کیا، لیکن اس کی آواز خوف سے کانپ رہی تھی۔ اچانک، لاجونتی رکی اور اپنے گلے سے ایک تعویذ نکالا۔ اس نے رام دیال کی طرف دیکھا اور کہا، "یہ وہی تعویذ ہے جو اس مخلوق کو روک سکتا ہے۔ میری ماں نے بتایا تھا کہ یہ ہمارے خاندان کی لعنت ہے۔" رام دیال حیران رہ گیا۔ "تم جانتی تھیں؟ پھر تم نے پہلے کیوں نہیں بتایا؟"
لاجونتی کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے۔ "میں ڈرتی تھی۔ یہ نرہ پشاچ ہمارے خاندان کی وجہ سے وجود میں آیا۔ میرا بھائی اسی جنگل میں غائب ہوا تھا، اور اس کے بعد سے یہ مخلوق ہر چاندنی رات کو شکار کرتی ہے۔" اس نے تعویذ رام دیال کے ہاتھ میں دیا اور کہا، "اسے اس کے دل میں چھیدو...
رام دیال نے تعویذ پکڑا اور دیکھا کہ اس پر عجیب سے نشانات کندہ تھے، جیسے کوئی قدیم رسم کا حصہ ہوں۔ اس نے لاجونتی سے کہا، "تم بیکٹو کو لے کر ڈبے کے اندر چھپو۔ میں اسے روکوں گا۔" وہ دروازے کی طرف بڑھا، جہاں مخلوق ابھی تک ڈبے کے اندر گھوم رہی تھی۔ جنگل سے مزید چیخیں آ رہی تھیں، جیسے اور بھی مخلوقات جمع ہو رہی ہوں۔
رام دیال نے تعویذ کو اپنی بندوق کے سرے پر لگایا اور مخلوق کی طرف بڑھا۔ اس کی آنکھیں سرخ تھیں، اور اس کے دانتوں سے خون ٹپک رہا تھا۔ رام دیال نے پوری ہمت جمع کی اور تعویذ کو اس کے سینے کی طرف زور سے مارا۔ مخلوق نے ایک خوفناک چیخ ماری اور پیچھے ہٹی، لیکن وہ ابھی تک زندہ تھی۔ اس نے رام دیال کو زمین پر گرا دیا اور اس کے گلے کی طرف جھکی۔ اسی لمحے، پنڈت رگھوناتھ نے اپنا منتر بلند آواز میں پڑھا، اور ایک عجیب سی روشنی تعویذ سے نکل کر مخلوق کے جسم میں داخل ہوئی۔ مخلوق نے ایک آخری چیخ ماری اور دھول میں تبدیل ہو کر غائب ہو گئی۔
لیکن رام دیال زخمی ہو چکا تھا۔ اس کا بازو چیرا ہوا تھا، اور خون بہہ رہا تھا۔ لاجونتی اور بیکٹو اس کے پاس بھاگے، لیکن جنگل سے ایک اور گرجدار آواز آئی۔ ایک اور نرہ پشاچ، اس بار اور بھی بڑا، ٹرین کے سامنے نمودار ہوا۔ بشن سنگھ، جو ہوش میں آ چکا تھا، نے انجن کو زور دیا، اور ٹرین تیزی سے آگے بڑھی۔ رام دیال نے آخری ہمت جمع کی اور تعویذ کو دوبارہ اٹھایا۔ اس نے مخلوق کے سینے میں تعویذ گھونپ دیا، لیکن مخلوق نے اسے اپنے پنجوں سے پکڑ کر ہوا میں اٹھا لیا۔ رام دیال نے اپنی آخری سانسوں میں تعویذ کو اور گہرائی سے دھنسایا، اور ایک زوردار دھماکے کے ساتھ مخلوق غائب ہو گئی۔ لیکن رام دیال کا جسم زمین پر گر پڑا، اس کی آنکھیں بند ہو چکی تھیں۔
بشن سنگھ نے ٹرین کو کلکتہ کی طرف موڑ دیا۔ لاجونتی، بیکٹو، اور پنڈت رگھوناتھ خاموشی سے رام دیال کی لاش کے پاس بیٹھے تھے۔ سریش کمار، مولوی عبدالرحیم، اور بیکٹو کی دادی اس رات کی دہشت کا شکار ہو چکے تھے۔ رام دیال نے اپنی جان دے کر باقی مسافروں کو بچایا تھا، لیکن اس کی قربانی نے سب کے دل پر ایک گہرا زخم چھوڑ دیا۔
ٹرین کلکتہ پہنچی، لیکن اس رات کی کہانی مسافروں کے ذہنوں میں ہمیشہ کے لیے نقش ہو گئی۔ نرہ پشاچ کی لعنت شاید اس رات ختم ہو گئی تھی، لیکن بنگال کے جنگل کی خاموشی اب بھی خوف کی داستان سنانے کے لیے کافی تھی۔ بمبئی ایکسپریس اس راستے سے دوبارہ کبھی نہیں گزری، اور رام دیال کی بہادری ایک داستان بن کر رہ گئی۔
ختم شد ۔
Train Horror Story, 1870 Train Incident, Urdu Horror Story, Haunting Train Journey, Karim Voice, Purani Train Kahani, Urdu Darawani Kahani, Jinnat Kahani, Haunted Train, Urdu Hindi Story, Nest of Novels, Urdu Blog Stories, Scary Train Tales, Bhootiya Kahani, Real Horror Story