![]() |
قاضی ابن ابی لیلیٰ کا حیران کن مقدمہ – ایک عورت کی ذہانت کی داستان |
روایت ہے کہ دو عورتیں مشہور قاضی "ابن ابی لیلیٰ" کے پاس آئیں۔ وہ اپنے زمانے کے معروف قاضی تھے۔
قاضی نے کہا: "پہلے کون بات کرے گی؟"
ان میں سے ایک نے کہا: "تم شروع کرو۔"
تو دوسری نے کہنا شروع کیا:
اے قاضی! میرا کوئی بہن بھائی نہیں ہے … میری ماں کا اچانک انتقال ہو گیا۔ میں ابھی اس صدمے سے نکل بھی نہ پائی تھی کہ میرے والد بھی دنیا سے رخصت ہو گئے۔
یہ میری پھوپھی ہیں — جن کی اپنی ایک بیٹی ہے، جو مجھ سے چار پانچ سال چھوٹی ہے — وہ مجھے اپنے گھر لے آئیں کہ جوان لڑکی اکیلی کیسے رہے گی۔
پھر میرے چچازاد بھائی نے رشتہ مانگا، تو پھوپی نے میری شادی اسی سے کر دی۔
چند سال گزرے تو پھوپی نے میرے شوہر کا اخلاق، معاملہ فہمی اور حسنِ سلوک قریب سے دیکھا۔ وہ نہایت خوش مزاج، باادب، اور دیندار شخص تھا۔
یہ سب دیکھ کر پھوپی کے دل میں خیال آیا کہ ایسا نیک مرد اگر ان کی بیٹی کا شوہر بن جائے تو اس کی قسمت سنور جائے گی۔
میری لاعلمی میں، پھوپی نے میری جگہ اپنی بیٹی کو میرے شوہر کے دل میں بٹھانا شروع كر ديا۔ جب اسے یقین ہو گیا کہ میرے شوہر کو اس کی بیٹی پسند آ گئی ہے، تو اس نے شرط رکھی کہ:
'میں تمہیں اپنی بیٹی نکاح میں دوں گی، لیکن شرط یہ ہے کہ تم اپنی پہلی بیوی كا (یعنی ميرا) معاملہ میرے سپرد کر دو۔'
میرے شوہر نے اس شرط کو قبول کر لیا۔
پھر عین اس دن جب ان کی بیٹی کا نکاح مکمل ہوا، پھوپی میرے پاس آئیں اور کہا:
'اب تمہارا شوہر میری بیٹی کا شوہر ہے، اور اس نے تمہارے بارے میں اختیار مجھے دے دیا ہے۔
لہٰذا میں اعلان کرتی ہوں — تم طلاق یافتہ ہو!'
یوں میں ایک ہی لمحہ میں بیوی سے مطلقہ بن گئی۔
پھر پھوپی نے اپنے شوہر کو میری طلاق کی خبر دیے بغیر اپنی بیٹی کے نکاح اور میری طلاق کے فورًا بعد اپنے شوہر کو ایک تجارتی سفر پر روانہ کر دیا۔
کچھ عرصے بعد، پھوپی کا شوہر، جو کہ ایک معروف شاعر تھا، اپنے سفر سے واپس آیا۔
میں نے اس سے کہا: 'اے پھوپی کے شوہر، کیا تم مجھ سے نکاح کرو گے؟'
اس نے پوری بات سننے کے بعد کہا: 'ہاں'
میں نے کہا: 'لیکن ایک شرط ہے — پھوپی کا معاملہ میرے سپرد کر دو۔'
اس نے شرط قبول کی۔
میں نے نکاح کے بعد پھوپی کو پیغام بھیجا:
"اب تمہارا شوہر میرا شوہر بھی ہے، اور اس نے تمہارے بارے میں اختیار مجھے دے دیا ہے۔
لہٰذا میں اعلان کرتی ہوں — تم طلاق یافتہ ہو!"
ایک کے بدلے ایک، قاضی صاحب!
قاضی ابن ابی لیلیٰ یہ سن کر حیرت سے کھڑے ہو گئے اور کہا:
'اللهُ اکبر!'
تو میں نے کہا:
'ٹھہریے قاضي صاحب، ابھی قصه ختم نہیں ہوا!'
کچھ عرصے بعد وہ شاعر بھی وفات پا گیا۔
پھوپی میراث کا مطالبہ لے کر آئی۔
میں نے کہا: ‘ان کی موت کے وقت میں ان کی واحد بیوی تھی، تم کس رشتہ سے میراث کا دعویٰ کر رہی ہو؟’
میری عدت ختم ہوئی تو پھوپی دوبارہ آئی ، تاکہ میراث کے جھگڑے کا فیصلہ کرے۔ مگر اس دفعہ اُس کے ساتھ اس کی بیٹی اور داماد بھی تھے — داماد، جو دراصل میرا پہلا شوہر تھا — اس نے مجھے دیکھا تو پرانی یادیں تازہ ہو گئیں، اور وہ نرمی سے بولا:
'کیا تم دوبارہ میرے نکاح میں آنا چاہو گی؟'
میں نے کہا: 'ہاں، ایک شرط پر — اپنی بیوی (یعنی پھوپی کی بیٹی) کا معاملہ میرے سپرد کر دو۔'
اس نے قبول کر لیا، تو اس سے نکاح کے بعد میں نے پھوپی سے کہا:
"اے پھوپی کی بیٹی! اب تمہارا شوہر میرا شوہر بھی ہے، اور اس نے تمہارے بارے میں اختیار مجھے دے دیا ہے۔
لہٰذا میں اعلان کرتی ہوں — تم طلاق یافتہ ہو!"
یہ سب سن کر قاضی ابن ابی لیلیٰ نے اپنا سر پکڑ لیا اور کہا:
"اچھا، اب سوال کیا ہے؟"
تو پھوپی بولی:
"اے قاضی! کیا یہ حرام نہیں کہ میں اور میری بیٹی طلاق شدہ ہو جائیں، اور یہ عورت ہمارے دونوں شوہر اور میراث بھی لے اُڑے؟"
قاضی نے جواب دیا:
"والله! میں اس میں کوئی حرام نہیں پاتا — ایک مرد نے نکاح کیا، طلاق دی، اور وکالت دی، یہی شریعت ہے!"
بعد میں قاضی ابن ابی لیلیٰ خلیفہ منصور کے دربار میں گئے اور پوری کہانی سنائی۔
خلیفہ اتنا ہنسے کہ ان کے پاؤں زمین پر مارنے لگے اور کہا:
"الله اس بڑھیا کو غارت کرے، وہ دوسروں کے لیے گڑھا کھودتی رہی اور خود اس میں جا گری!"