"رازِ دل"
"قسط نمبر 12"
از۔"کنزہ خان"
منت لاریب سے ملی اور گاڑی کی جانب بڑھ گئی مقدم کی نظروں نے گاڑی کے پورچ سے نکل جانے تک اس کا پیچھا کیا تھا۔
تھی۔ سب ولیمہ کے لیے پہنچ چکے تھے لاریب ہر دن کی طرح آج بھی اتنی ہی خوبصورت لگ رہی تھ
بالاج مناہل کے پیچھے پیچھے گھوم رہا تھا اور دوسری طرف مقدم تائشہ اور نازیہ بیگم سے گفتگو میں مصروف تھا گفتگو کے دوران اس کی نظر منت پر پڑی تو اس کی پیشانی پر شکنیں نمودار ہوئیں۔
منت ایزل کے ساتھ بیٹھی علیانہ سے کھیل رہی تھی جب نجمہ بیگم کو کرسی گھسیٹ کر بیٹھتے دیکھ اس کی
مسکراہٹ سمٹی اور اس نے ناگواری سے انھیں دیکھا
اتنا عرصہ کہاں رہی ہو تم ؟ ۔۔۔۔ "
نجمہ بیگم نے پوچھا تو وہ جو لگا تار انھیں غصے سے گھور رہی تھی جو اب نہیں دیا۔
" میں نے کچھ پوچھا ہے۔"
نجمہ بیگم نے غصے سے کہا
" میں آپ کو جوابدہ نہیں ہوں۔"
منت ان سے زیادہ غصے میں بولی تو ایزل نے اس کے ہاتھ پر ہاتھ رکھا اس نے چہرہ جھکا کر گہر اسانس بھرا۔
دیکھو... میرا اب آپ سے کوئی بھی تعلق نہیں ہے تو میں کہاں تھی، کیوں تھی، آپ کو کوئی مطلب نہیں ہونا چاہیے۔"
اب کی بار اس نے دھیمے لہجے میں کہا کیونکہ وہ لاریب کے ولیمہ میں کوئی تماشا نہیں چاہتی تھی۔
منت ! چلیں نور بلا رہی ہے آپ کو۔ "
ابھی نجمہ بیگم نے کچھ کہنے کے لیے لب کھولے ہی تھے جب مقدم منت کے نزدیک آکر اسے نور کا پیغام دینے لگا۔۔۔۔ اس کی آواز پہ نجمہ بیگم نے سر اٹھایا تو مبہوت کی ہو کر اسے دیکھنے لگیں جبکہ منت خاموشی سے اپنی جگہ سے اٹھی اور اس کے ساتھ چلی گئی۔
" یہ کون تھا ؟۔۔۔۔"
نجمہ بیگم نے ایزل سے پوچھا۔۔۔۔ وہ منت کے پینک اٹیک پر بھی اس لڑکے کو پریشان ہو تا دیکھ رہی تھیں تو تجس کے مارے پوچھا یہ مقدم ہے .... یارم کا چھوٹا بھائی۔"
ایزل نے جواب دیا تو وہ مسکراتے ہوئے اٹھ کھڑی ہو ئیں لیکن نظریں مقدم پہ جم سی گئی تھیں وہ بار بار اسے دیکھنے لگیں۔
ولیمہ کی تقریب ختم ہوئی تو سب لاریب سے مل کر اپنے گھروں کو روانہ ہو گئے کل صبح کی فلائٹ سے انہوں نے ترکی کے لیے نکل جانا تھا۔
" ہو گئی تیاری ؟
یارم کمرے میں داخل ہو ا تو وہ بیگ بند کر رہی تھی اسے دیکھ یارم نے پوچھا
"جی ہو گئی ہے.... کب تک نکلنا ہے؟"
لاریب نے خوشی سے کہا تو یارم نے اس کے چہرے کی مسکراہٹ اور آنکھوں کی چمک دیکھی تو مسکراتے ہوئے آگے بڑھا اور اس کے نزدیک آیا
" اگر مجھے اندازہ ہوتا کہ ہنی مون پر میری بیوی نے اتنی خوشی سے جانا ہے تو نکاح کے ساتھ ہی رخصتی لے کر تمہیں ترکی لے جاتا۔ "
یارم نے کہا تو وہ مسکرائی
میر اہمیشہ سے ہی ترکی جانے کا خواب تھا اب میرا خواب پورا ہو رہا ہے یارم .... میں بہت بہت زیادہ خوش ہوں۔"
وہ بولتے ہی غیر ارادی طور پر یارم کے گلے میں بازو ڈال گئی اور سر اس کے سینے پر رکھ دیا۔۔۔۔ یارم ساکت ہو گیا۔۔۔۔ لاریب نے جب یارم کی خاموشی محسوس کی تو اس سے پیچھے ہونا چاہا جب یارم نے اس کے گرد حصار تنگ کر دیا وہ غیر ارادی طور پر جو کر بیٹھی تھی اس پہ شرمندہ ہوتے اس کی گردن میں منہ چھپا گئی۔
" چلو آ جاؤ اب تم دونوں .... فلائٹ کا ٹائم ہو گیا ہے .... کیا آج دونوں پائلٹس کو انتظار ہی کروانا ہے ؟.... کیونکہ تم دونوں کا جانے کا ارادہ نہیں لگ رہا .... جلدی کر لو ورنہ ان دونوں نے تم دونوں کے بغیر ہی جیٹ اڑا لے جانا ہے۔ "
بالاج اچانک دروازہ کھول کر اندر داخل ہوا تو وہ دونوں فوراً الگ ہوئے۔۔۔۔ یارم نے کھا جانے والی نظروں سے بالاج کو گھورا۔
" اوہ سوری سوری میں بھول گیا تھا کہ یارم اب شادی شدہ ہے مجھے دروازہ کھٹکھٹا کر آنا چاہیے تھا۔ "
بالاج نے مصنوعی شرمندگی سے کہا جب مقدم کمرے میں داخل ہوا۔
کیا ہو رہا ہے ؟.... اتنی دیر کیوں کر رہے ہو تم دونوں ؟"
رومانس سے فرصت ملے ہمارے بھائی کو تب ہی باہر آئے گا نہ "
بالاج نے کہا تو مقدم نے ایک نظر لاریب کے جھکے چہرے پر ڈالی اور ایک نظر یارم پر۔
"کیا واقعی ؟"
مقدم نے حیرت سے پوچھا۔ یارم کی اس پر سنیلٹی کی عادت ہونے میں سب کو وقت لگنا تھا۔
میں بتاتا ہوں تجھے .... یارم نے لاریب کی۔۔۔۔"
" اوے ے ے۔
بالاج مزید بولتا جب یارم فوراً سے بولا تو بالاج جو مزے لے رہا تھا بولتے بولتے خاموش ہوا اور یارم کو دیکھا یارم فوراً اس کے پیچھے بھاگا تو بالاج اس سے بچنے کے لیے کمرے سے باہر بھاگ گیا مقدم بے ساختہ ہنس دیا۔۔۔۔ لاریب کا تو چہرہ اٹھانا بھی محال ہو گیا تھا مقدم آگے بڑھا اور لاریب کے سر پر ہاتھ رکھا پھر اسے لے کر لاونج میں آگیا جہاں وہ دونوں لڑنے میں مصروف تھے یارم بالاج کو صوفے پر پھینکے ، لگا تار تشدد کر رہا تھا اور بالاج کی زبان ابھی بھی بند نہیں ہو رہی تھی پھر جب دونوں تھک گئے تو ایک دوسرے کو دیکھ ، ہنس دیئے اور گلے لگ گئے۔
اب تم دونوں بھائیوں کا تماشا ختم ہو گیا ہو تو میری گڑیا کولے کر چلے جاؤ ... جیٹ بالکل تیار ہے۔" مقدم نے لاریب کو دیکھتے ہوئے محبت سے کہا تو یارم آگے بڑھا اور اسے بھی گلے لگا لیا۔ مقدم اور بالاج انھیں گاڑی تک چھوڑنے پورچ میں آئے وہ دونوں گاڑی میں بیٹھے اور لاریب یارم کے سنگ اپنی زندگی کے نئے اور خوبصورت سفر کے لیے روانہ ہوگئی۔
" یارم"
" جی یارم کی جان"
لاریب کے پکارنے پر یارم نے محبت سے جواب دیا۔ " مجھے بہت ڈر لگ رہا ہے میں پہلے کبھی جہاز میں نہیں بیٹھی ۔
لاریب نے کہا تو یارم مسکرا دیا ان دونوں کا سفر آرام سے گزرنا تھا لا ریب جتنا خوش تھی اب اتنا ہی جہاز میں بیٹھ کر ڈر رہی تھی یارم نے اسے محبت سے اپنے ساتھ لگالیا وہ اس میں چھپ گئی اور پر سکون ہو کر آنکھیں موند گئی کچھ ہی دیر میں اس کی سانسیں بھاری ہو گئیں یارم سمجھ گیا کہ وہ سو چکی ہے اب اس نے ترکی پہنچ کر ہی اٹھنا تھا کیونکہ لاریب کی نیند بہت زیادہ پکی تھی اب چاہے کچھ بھی ہولا ریب نے نہیں اٹھنا تھا۔
ان کے ترکی جانے کے بعد سب اپنی روٹین پر آگئے تھے بالاج اور مقدم آفس میں مصروف ہو گئے تھے۔
نگین بیگم اب کبھی کبھی منت سے ملنے آجاتی تھیں سب کچھ ٹھیک ہو گیا تھا سب بہت خوش تھے۔
لاریب یارم کے ساتھ اپنی زندگی کے خوبصورت لمحات جی رہی تھی اکثر وہ منت کو فون پہ سب دیکھاتی کبھی ویڈیوز بنا کر بھیج دیتی تو کبھی اپنی اور یارم کی تصویریں بھیج دیتی پھر ہر ایک چیز تفصیل سے اسے بتاتی ۔۔۔۔ وہ دونوں پورا دن گھومتے ، فوٹو شوٹ کرواتے پھر رات کو جب ہوٹل آتے تو لاریب سب تصویریں منت کو بھیج کر اسے فون کر لیتی اور ہر تصویر کی تفصیل بتاتی ۔۔۔۔ وہ یارم کے ساتھ بہت زیادہ خوش تھی۔ اسی دوران نور کی طرف سے ملنے والی خوشخبری نے سب کی خوشیوں کو چار چاند لگا دیئے۔
مقدم روز کسی بہانے سے خان مینشن آتا تھا منت کو دیکھنے کیونکہ اب اسے دیکھے بغیر مقدم کا دن نہیں گزرتا تھا۔
ایسے ہی ہنسی خوشی دو مہینے گزر گئے لاریب اور یارم ہنی مون سے واپس آگئے سب انھیں ملنے آئے ہوئے تھے سب کے لیے لائے گئے تحائف دکھائے جارہے تھے۔
اب تم لوگ آگئے ہو اپنی تھکاوٹ اتار و روٹین صحیح کرو پھر ہم نے اسلام آباد جانا ہے۔ "
داجی نے کہا تو منت جو لاریب کے اس خوبصورت سفر کی دیکھی ہوئیں تصویر میں پھر سے دیکھ رہی تھی سر اٹھا کر داجی کو دیکھا اور پھر بالاج کو۔
" اسلام آباد کیوں جانا ہے ؟"
لاریب نے منت کے کان میں سرگوشی کی
بالاج بھائی کو مناہل پسند ہے تو اسی کے رشتے کے سلسلے میں جانا ہے داجی نے۔"
منت نے بتایا تو لاریب نے سن کر اثبات میں سر ہلا دیا۔
مقدم جناب آپ کو بھی کوئی پسند ہے یا پھر میں خود دیکھوں؟"
اب کی بار داجی مقدم سے مخاطب ہوئے تو منت اور لاریب واپس تصویروں میں مگن ہو گئیں۔
مجھے منت پسند ہیں مجھے منت دے دیں۔ "
مقدم کی آواز گونجی تو سب کو ایک دم سانپ سونگھ گیا۔
منت نے چونک کر چہرہ اٹھایا اور مقدم کو دیکھا پھر باقی سب کو جو کبھی مقدم کو دیکھتے کبھی داجی کو اور کبھی اسے۔۔۔۔ کوئی کچھ نہیں بولا سب داجی کے جواب کے منتظر تھے۔
برخوردار میں اپنی پوتی تمہیں کیسے دے دوں ؟.... کیا گارنٹی ہے کہ تم خوش رکھو گے اسے ؟۔۔۔۔"
داجی نے ذرا سخت لہجے میں کہا۔
چہرہ بالکل سنجیدہ تھا۔
" آپ کو ابھی بھی لگتا ہے کہ میں انھیں خوش نہیں رکھ سکتا ؟"
مقدم نے سوال کیا
اگر میں انھیں خوش نہ رکھ سکا تو یہ مجھے خوش رکھ لیں گئیں۔ "
اس کی بات پر یارم اور بالاج کا بیک وقت زور دار قہقہہ گونجا۔
صحیح کہہ رہا ہے یہ راجی .... جو اس جیسے دیو کو ہنسنا سکھا سکتی ہے وہ کیا نہیں کر سکتی۔"
مقدم جو یارم اور بالاج کو اتنی سنجیدہ صورتحال میں قہقہہ لگاتے ہوئے دیکھ ، کھا جانے والی نگاہوں سے گھور رہا تھا آخری بات پر خود بھی دھیما سا مسکرادیا البتہ داجی سنجیدگی سے سب دیکھ رہے تھے۔
مقدم اپنی جگہ سے اٹھا اور راجی کے سامنے گھٹنوں کے بل بیٹھ گیا سب لوگوں کے مقدم کی اس حرکت پر منہ کھل گئے تھے راجی بھی حیرانی سے اسے دیکھ رہے تھے جو ان کے ہاتھ تھامے آنکھوں میں سرخی لیے ان کی جانب دیکھ رہا تھا۔
منت میرے جینے کی وجہ ہے داجی .... میں ان کے بغیر نہیں رہ سکتا ... آج میں آپ کے سامنے بیٹھا آپ سے منت کو مانگ رہا ہوں .... پلیز مجھے خالی ہاتھ نہ لوٹائے گا .... میں نے اللہ کے بعد آج آپ سے مانگا ہے انہیں .... مجھے منت دے دیں۔ "
اس نے امید بھری نظروں سے انہیں دیکھتے ہوئے کہا تو سب کی آنکھوں میں نمی تیر گئی۔
لاریب یارم اور بالاج کل سب لوگ تیار رہنا .... بالاج کا رشتہ پکا کرنے جانا ہے .... سلطان صاحب کو اندازہ ہے کہ ہم سب کیوں آرہے ہیں انہوں نے خوش دلی سے ہمیں آنے کا کہا ہے تو صاف ظاہر ہے کہ انہیں کوئی اعتراض نہیں ہے تو اگر انہیں کوئی اعتراض نہیں ہوا تو میں نے کل ہی رشتہ پکا کر کے بالاج کے نام کی انگوٹھی مناہل کو پہنا دینی ہے اور ڈیٹ فائنل کر دینی ہے تو کل آپ لوگ تیار رہیے گا۔"
داجی کہہ کر اٹھ کھڑے ہوئے اور مقدم وہیں بیٹھا رہ گیا اس نے گردن موڑ کر دیکھا تو داجی باہر چلے گئے تھے مقدم نے کرب سے آنکھیں بند کر لیں اس کی آنکھوں میں ایک دم سے ویرانی چھا گئی تھی وہ اپنی اندرونی کیفیت کسی کو نہیں دکھانا چاہتا تھا تو خاموشی سے اٹھ کر اپنے کمرے کی جانب بڑھ گیا۔
سب نے دکھ سے مقدم کو جاتے دیکھا۔۔۔۔ ضرغام نے منت کو تھاما اور داجی کے پیچھے چلا گیا۔۔۔۔ منت پتھر بنی مقدم کو جاتا دیکھ رہی تھی وہ اس قدر اس سے محبت کرتا تھا منت کو اندازہ بھی نہیں تھا یہ سب سوچتے وہ کب گاڑی میں بیٹھی اور کب گاڑی روانہ ہوئی اسے بالکل اندازہ نہیں ہوا۔
گاڑی میں سب باتیں کر رہے تھے لیکن اسے کچھ سنائی نہیں دے رہا تھا اسے بس مقدم کا داجی سے اسے اپنے لیے مانگنا یاد تھا اس کی آنکھیں آنسوؤں سے لبریز تھیں مقدم کے الفاظ اس کے کانوں میں گونج رہے تھے۔ ضرغام نے اسے دیکھا لیکن اسے کہنے کے لیے ضرغام کے پاس کچھ نہیں تھا وہ کیا تسلی دیتا اسے۔۔۔۔ منت کے آنسو اسے تکلیف دے رہے تھے وہ اپنی بہن کی آنکھوں میں آنسو بر داشت نہیں کر سکتا تھا پر کیا کرتا اس وقت وہ مجبور تھا کیونکہ وہ راجی کے خلاف نہیں جا سکتا تھا تو خاموش ہو کے سرجھکا گیا۔
سب لوگ خاموش ہو گئے تھے آج خان ولا اور خان مینشن دونوں ہی خاموش تھے کسی کو بھی داجی کا بغیر کچھ کہے اٹھ کر جانا اور مقدم کی آنکھوں کی سرخی اچھی نہیں لگ رہی تھی کسی کو کچھ بھی اچھا نہیں لگ رہا تھا یا رم اور بالاج الگ پریشان تھے کہ مقدم پھر سے پہلے کی طرح پتھر نہ ہو جائے اس سب میں اگر کوئی خوش تھا تو وہ نازیہ بیگم اور تائشہ تھیں کیونکہ اب نازیہ بیگم کا ارادہ تائشہ اور مقدم کے لیے دا جی سے بات کرنے کا تھا لیکن قسمت میں جو لکھا تھا ہونا تو وہی تھا اس لیے سب خاموشی سے قسمت کے بدلنے کا انتظار کر رہے تھے۔
" کیا ہوا یہاں اکیلا کیوں بیٹھا ہے ؟"
مقدم لان میں موجود بینچ پہ اداس بیٹھا، سگریٹ کے گہرے کش لگا رہا تھا جب یارم کی آواز اس کی سماعتوں سے ٹکرائی۔۔۔۔ وہ خاموش رہا کوئی جواب نہیں دیا۔۔۔۔ یارم اس کے قریب بیٹھا اور اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا۔
یار تو دل کیوں چھوٹا کر رہا ہے ؟.... پریشان نہ ہو خد ا سب بہتر کرے گا۔"
یارم نے سمجھانا چاہا تو مقدم کی آنکھوں میں نمی تیر گئی اس نے سگریٹ نیچے پھینک کر اپنے جوتے سے مسلا اور اٹھ کھڑا ہوا ابھی وہ اندر جانے کے لئے قدم بڑھاتا جب یارم نے کھڑا ہو کر اسے اپنے سینے سے لگا لیا۔
" میں انھیں نہیں کھو سکتا ... میں بہت محبت کرتا ہوں ان سے ..... مجھے اتنی مشکل سے ہنسنا آیا تھا، جینا آیا تھا .... ماما بابا کے جانے کے بعد سے میں نے زندگی بس گزاری ہے .... جب وہ میرے قریب ہوتی ہیں تو میر اپنے کا، جینے کا دل کرتا ہے .... داجی جانتے تھے انھیں شروع سے اندازہ تھا .... انھیں معلوم ہے کہ میں منت کے بغیر نہیں رہ سکتا .... منت نے مجھے تنہائی سے نکالا ہے .... دواجی جانتے ہیں کہ ان کی پوتی جان ہے میری لیکن .... لیکن وہ خاموشی سے چلے گئے ... مجھے منت چاہیے یارم .... میں پھر سے زندگی گزارنا نہیں چاہتا ... میں جینا چاہتا ہوں، ہنسنا چاہتا ہوں منت کے ساتھ .... مجھے پھر سے اس تنہائی میں نہیں جانا .... مجھے منت چاہیے یارم ۔ "
وہ کسی ننھے بچے کی طرح اپنے بھائی کے سینے سے لگا تڑپ رہا تھا۔
یارم کے آنسو بہہ رہے تھے پر وہ بے بس تھا کیونکہ داجی نے ہاں نہیں کی تھی تو انکار بھی نہیں کیا تھا لیکن مقدم کو کیسے سمجھاتا۔۔۔۔ اسے کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ کیسے مقدم کو سنبھالے اس نے مقدم کے آنسو صاف کیے پھر اسے اس کے کمرے میں لے گیا اس وقت اس کے لیے سکون ضروری تھا یارم نے بہت مشکل سے اسے نیند کی گولی دی اور بستر پر لٹایا جلد ہی مقدم نیند کی وادیوں میں کھونے لگا لیکن اس کے لب لگا تار منت کو پکار رہے تھے۔ یارم اس کے قریب بیٹھ کر اس کے بالوں میں ہاتھ چلانے لگا اور جلد ہی دوائی کے زیر اثر مقدم گہری نیند سو گیا۔
اس کے سونے کے بعد یارم نے دکھ سے اسے دیکھا۔۔۔۔ سب مقدم کو اچھے سے جانتے تھے اگر وہ ٹھان لے تو مشکل سے مشکل کام بھی کر لیتا تھا وہ اپنی ضد کا بہت پکا تھا وہ اگر چاہتا تو بہت آسانی سے منت سے نکاح کر لیتا اور کوئی اسے روک بھی نہیں سکتا تھا لیکن وہ ایسا نہیں کر رہا تھا کیونکہ داجی نے اسے بہت محبت دی تھی ان کے برے وقت میں سہارا دیا تھا اگر منت داجی کے گھر نہ ہوتی تو اب تک وہ مقدم کے نکاح میں ہوتی لیکن وہ راجی کی پوتی کی حیثیت سے اس گھر میں تھی مقدم بے بس تھامنت کو اپنا بنانے کے لیے مقدم کو داجی کی جانب سے رضا مندی در کار تھی ورنہ منت سے نکاح اس کے لیے مشکل نہیں تھا۔ یارم اپنے جان سے پیارے بھائی کے بالوں میں انگلیاں چلاتے ہوئے اس کو دیکھ کر سوچ رہا تھا۔ مقدم گہری نیند سو چکا تھا تو یارم خاموشی سے اٹھا اور اپنے کمرے کی جانب بڑھ گیا۔
یارم آپ داجی سے بات کر کے دیکھیں ہو سکتا ہے وہ مان جائیں۔"
لاریب نے یارم کو کمرے میں داخل ہوتے دیکھ ، پریشانی سے کہا۔
" انہوں نے انکار نہیں کیا لا ریب، تو کیا بات کروں میں ؟"
یارم نے کہا تو لاریب خاموش ہو گئی داجی نے نہ تو ہاں کہا تھا نہ انکار کیا تھا تو کیا بات کرتے سب ان ہ۔
پریشان نہ ہو میری جان انشاء اللہ ، اللہ سب بہتر کرے گا۔"
یارم نے اسے ساتھ لگاتے ہوئے محبت سے کہا تو وہ اس کے سینے پہ سر رکھ کر آنکھیں موند گئی
کل عالم صاحب آ رہے ہیں اپنی فیملی کے ساتھ اور مجھے لگتا ہے کہ وہ بالاج کے لئے مناہل کا رشتہ چاہتے ہیں تو آپ سب لوگ کل کھانے کی تیاری کر لینا ان کا فون آیا تھا کہ کل وہ آنا چاہیے ہیں تو میں نے خوش دلی سے انہیں مدعو کیا ہے۔ "
سلطان صاحب نے لاونج میں داخل ہوتے کہا ۔۔۔۔ سب اپنی اپنی باتوں میں مصروف تھے ان کی آواز پر ان کی جانب متوجہ ہوئے مناہل کا دل بہت زور سے دھڑ کا تھا۔
ابوجی منت بھی آئے گی ساتھ ؟"
مابین بیگم نے پوچھا تو عارف صاحب بھی متوجہ ہوئے۔
نہیں وہ نہیں آئے گی بس یارم کا خاندان اور ساتھ میں عالم صاحب ..... بس یہ لوگ آئیں گے۔"
سلطان صاحب نے کہا تو مناہل کا منہ بن گیا وہ چاہتی تھی کہ منت بھی ساتھ آئے لیکن وہ نہیں آرہی تھی اس صورتحال میں لڑکیوں کو اپنی دوستوں کی ضرورت ہوتی ہے اور ایک اس کی دوست تھی جو اس موقع پر اس کے ساتھ ہی نہیں تھی۔
رات کے کھانے کا وقت تھا پر خان مینشن سنسان تھا راجی سربراہی کرسی پر بیٹھے سب کے آنے کے انتظار میں تھے جب شازیہ بیگم ڈائننگ روم میں داخل ہوئیں اور داجی کو کھانا دینے لگیں۔
"شازیہ بیٹا باقی سب کہاں ہیں ؟"
دا جی نے پوچھا
" کسی کو بھی بھوک نہیں ہے۔ "
شازیہ بیگم نے جواب دیا تو داجی اپنی جگہ سے اٹھ کھڑے ہوئے اور خاموشی سے اپنے کمرے کی جانب بڑھ گئے شازیہ بیگم نے انہیں روکنا مناسب نہ سمجھا اور خاموشی سے کھانا اٹھانے لگیں۔
ضر غام میرے سر میں بہت درد ہو رہا ہے ۔ "
ضر غام واش روم سے شاور لے کر باہر آیا تھا اب شیشے کے سامنے کھڑا اپنے بال برش کر رہا تھا جب اس نے نور کی آواز سنی تو متوجہ ہوا اور آہستہ سے اس کے قریب آیا۔۔۔۔ وہ آنکھیں موندے بستر پہ لیٹی ہوئی تھی ضرغام کو قریب آتا محسوس کر آنکھیں کھولیں تو ضر غام اس کے قریب بیٹھ گیا اور محبت سے اس کا سر دبانے لگا وہ مسکرادی۔
اس کی اچانک ہی طبیعت خراب ہو جایا کرتی تھی بہت موڈ سوئٹنگز ہوتے تھے لیکن ضر غام خاموشی سے برداشت کرتا رہتا تھا کیونکہ وہ یہ سب اپنی حالت کی وجہ سے کرتی تھی اور ویسے بھی ضر غام نور پہ کبھی
غصہ نہیں کرتا تھا کیونکہ وہ جان تھی ضر غام سکندر خان کی ۔
ضر نام آپ کو غصہ آتا ہو گا نہ جب میں چھوٹی سی بات پر بہت بری طرح غصہ ہو جاتی ہوں۔" نور نے انکھوں میں نمی لیے ، پوچھا تو وہ مسکرایا
ایسا بالکل نہیں ہے زندگی .... مجھے تم پر بالکل بھی غصہ نہیں آتا کیونکہ میں جانتا ہوں کہ موڈ سوئنگز کی وجہ سے ہوتا ہے ماں بننا آسان نہیں ہے۔"
ضر غام نے محبت سے اسے ساتھ لگاتے کہا تو وہ اس کا ہاتھ تھام گئی اور آنکھیں موند گئی۔۔۔۔ سکون کے باعث وہ جلد ہی نیند کی وادیوں میں کھو گئی۔
اس کی بھاری سانسیں محسوس کر ضرغام سمجھ گیا کہ وہ سوچکی ہے لیکن اس کے باوجو د بھی وہ بہت دیر تک اس کا سر دباتا رہا پھر کچھ دیر بعد اس کے قریب ہی جگہ سنبھالی اور اسے محبت سے اپنی باہوں میں بھر تا گہری نیند سو گیا۔
ارمغان ہم بھی چلیں گے کیا کل اسلام آباد ؟"
انتقال نے پوچھا تو ارمغان بستر پر لیٹا ہوا تھا اس کی طرف متوجہ ہوا اور آہستہ سے نفی میں سر ہلا دیا۔
" ہم کیوں نہیں جاسکتے ؟"
انتقال نے پو چھا و ارمغان مسکرایا
" تم جانا چاہتی ہو
ارمغان نے محبت سے پوچھا تو اس نے جوش سے اثبات میں سر ہلایا۔
بھی تو سب رشتے کے لئے جارہے ہیں .... بالاج بھائی کی شادی ہو جائے پھر تم اور میں گھومنے چلیں گے میں اپنی چھوٹی سی بیوی کو اسلام آباد دکھلاؤں گا۔"
ارمغان نے محبت سے کہا تو وہ مسکرا کر چہرہ جھکا گئی پھر چھوٹے چھوٹے قدم لیتی بستر پر آئی اور اس کے قریب ہی نیم دراز ہو گئی ارمغان نے اسے محبت سے اپنی پناہوں میں چھپایا اور دونوں نیند کی وادیوں میں کھو گئے۔
" مناہل بیٹا سو جاؤ کل انہوں نے آنا ہے تو جلدی اٹھنا ہے تم نے۔"
مابین بیگم نے مناہل کو ابھی تک لاونج میں بیٹھے ، تکیہ ہاتھوں میں دبوچے کسی گہری سوچ میں گم دیکھا تو
اس کے قریب بیٹھ کر پیار سے بولی۔
بس ماما جار ہی ہوں سونے۔"
مناہل نے کہا
" کیا بات ہے؟.... میری گڑیا اتنی پریشان کیوں لگ رہی ہے ؟۔۔۔۔" اتنی کیوں ؟۔۔۔"
مابین بیگم نے اسے محبت سے اپنے ساتھ لگا کر پوچھا۔
" مما مجھے عجیب ساڈر لگ رہا ہے۔ "
" ڈر کیسا ؟۔۔۔۔"
مابین بیگم نے نرمی سے پوچھا
ما پھپھو اپنی پوری فیملی کے ساتھ آئی ہوئی ہیں انہیں تو منت شروع سے ہی برداشت نہیں ہے تو کل جب وہ لوگ آئیں گے تو پھپھو کوئی تماشانہ کر دیں کیونکہ انہیں منت تب بھی برداشت نہیں تھی جب وہ نجمہ پھپھو کے پاس رہتی تھی
آپ لوگوں نے لاریب کے نکاح کے بعد سے ہی انہیں بتا دیا تھا کہ منت وہاں ہے اور انہیں یہ بھی پتہ ہے کہ منت دا
جی کے گھر پر رہتی ہے .... مما انہوں نے کوئی تماشا کر دیا تو ؟۔۔۔۔"
مناہل نے اپنی پریشانی کی وجہ ماہین بیگم کو بتائی تو وہ بھی پریشان ہو گئی۔
" اب پھر کیا کریں ؟۔۔۔۔"
ماہین بیگم نے پریشانی سے پوچھا۔
ہم کچھ نہیں کر سکتے ما.... ہمیں نہیں پتہ کہ وہ کچھ کہیں گی بھی یا نہیں .... اب وہ کیا کرتی ہیں یہ تو
کل ہی پتہ چلے گا۔ "
مناہل نے کہا اور اپنے کمرے میں چلی گئی پر آج اسے نیند کہاں آئی تھی اس کا دل اپنی پوری رفتار سے دھڑک رہا تھا پھر اس نے سر جھٹک دیا اور سونے کی نیت سے لیٹ گئی پر بالاج کی نظریں وہ ابھی سے خود پر محسوس کر رہی تھی وہ بستر پہ لیٹ گئی اور چھت کو گھور نے لگی اب بس صبح ہونے کا انتظار تھا۔
اگلے دن لاریب، یارم، بالاج اور راجی اسلام آباد چلے گئے مقدم نے جانے سے انکار کر دیا تھا۔ وہ سب جب وہاں پہنچے تو ان کا خوش دلی سے استقبال کیا گیا۔
بالاج کی نظریں تو مناہل پر سے ہٹ ہی نہیں رہی تھی اس کی صاف رنگت تیکھے نقوش خوبصورت آنکھیں بالاج کو اپنا اسیر کر گئی تھی۔
سلطان صاحب کو اندازہ تھا کہ سب کیوں آئے ہیں تو داجی نے سیدھا سیدھا رشتہ مانگ لیا۔ سلطان صاحب تو پہلے ہی سب کو جانتے تھے لاریب کی شادی پہ وہ سب سے مل چکے تھے عارف صاحب اور ماہین بیگم کو بھی فیملی اچھی لگی تھی تو ان سب نے بغیر کسی اعتراض کے ہاں کر دی۔
تو ٹھیک ہے سب راضی ہیں تو ہم بچی کو انگوٹھی پہنا کر جائیں گے۔"
داجی نے کہتے ہوئے لاریب کو اشارہ کیا تو لاریب بڑی بھا بھی ہونے کی حیثیت سے مناہل کو انگوٹھی پہنانے کے لیے اس کے قریب بیٹھ گئی اور اس کا ہاتھ تھاما۔
"ٹھہرو"
سائمہ نجمہ بیگم کی بہن کی آواز نے سب کو متوجہ کیا۔
ہمیں یہ رشتہ منظور ہے پر ہماری ایک شرط ہے۔ "
سائمہ بیگم نے اچانک سے کہا تو سب نے حیرت سے انہیں دیکھا۔۔۔۔ مناہل کے چہرے پر سایہ سا لہرایا اور اس نے پریشانی سے ماہین بیگم کو دیکھا جو خود پریشان ہو گئی تھی پر انہوں نے آنکھوں ہی آنکھوں میں مناہل کو تسلی دی۔کیسی شرط ؟۔۔۔۔"
داجی نے پوچھا۔
" آپ منت کو گھر سے نکال دیں.... ہمیں اس رشتے سے کوئی اعتراض نہیں ہے پر مناہل اس گھر میں
نہیں آئے گی جہاں منت ہو ۔ "
سائمہ بیگم کی بات نے سب کی سماعتوں پر بم پھوڑا تھا۔
مناہل کی شادی کا منت کے اس گھر ہونے یا نہ ہونے سے کوئی تعلق نہیں ہے۔"
سلطان صاحب غصے سے اپنی بیٹی کی جانب دیکھتے ہوئے بولے۔
ایسے کیسے نہیں ہے ابو جی .... منت وہیں رہتی ہے تو یہ اسے نکال دیں کیونکہ ایک مچھلی پورے تالاب کو گندہ کرتی ہے کل کو منت نے ہماری معصوم مناہل کے ساتھ بھی وہی کیا جو میری بہن نجمہ کے ساتھ کیا تھا تو کیا ہو گا۔ "
سائمہ بیگم پریشانی سے بولی پھر داجی کی جانب متوجہ ہوئی
" دیکھیں عالم صاحب
آپ بڑے ہیں اور رشتہ لائے ہیں، ہم آپ کے لائے ہوئے رشتے کی عزت کرتے ہیں پر ہماری بچی اس گھر نہیں جائے گی جہاں منت ہو۔"
سائمہ بیگم نے بد تمیزی سے کہا تو داجی غصے سے اپنی جگہ سے اٹھ کھڑے ہوئے۔ انہیں کھڑا ہو تا دیکھ ،
باقی سب بھی اپنی جگہوں سے کھڑے ہو گئے۔
منت ہمارے ساتھ ہی رہے گی وہ کہیں بھی نہیں جائے گی۔"
داجی غصے سے بولے
تو ٹھیک ہے پھر ... ہمیں یہ رشتہ منظور نہیں ہے آپ یہاں سے جاسکتے ہیں۔"
سائمہ بیگم نے بد تمیزی کی تمام حدیں پار کی تو داجی کا چہرہ سرخ ہو گیا انہوں نے کچھ کہنے کے لیے لب کھولے پر اس سے پہلے کہ وہ اپنے الفاظ ادا کرتے، سلطان صاحب سائمہ بیگم کے قریب پہنچ گئے اور غصے سے دھاڑے
تمہیں کسی نے کہا ہے بیچ میں بولو ؟... تمہیں کیا اتنی تمیز بھی بھول گئی ہے کہ جب بڑے بات کر رہے ہوں تو اپنی زبان بند رکھو۔ "
" میں نے کوئی غلط بات۔۔۔۔۔"
ابھی سائمہ بیگم کی بات مکمل نہیں ہوئی تھی جب سلطان صاحب نے ہاتھ اٹھا کر انہیں بولنے سے روک دیا۔ سب لوگ پریشان سے کھڑے تھے سلطان صاحب نے سب کے پریشان چہرے دیکھے تو دا جی کو مخاطب کیا
عالم صاحب ہمیں رشتہ منظور ہے اور ہمیں منت کے وہاں ہونے سے بھی کوئی اعتراض نہیں ہے۔"
سلطان صاحب نے کہا پھر رخ لاریب کی جانب کیا اور کہنے لگے " لاریب بیٹا! آپ انگوٹھی پہنا دو۔"
سلطان صاحب نے کہا تو لاریب نے داجی کو اجازت طلب نظروں سے دیکھا پر اب ہمیں یہ رشتہ منظور نہیں۔۔۔۔۔"
اس سے پہلے کہ راجی اپنی بات مکمل کرتے بالاج نے ان کا ہاتھ تھام لیا دا جی نے بالاج کی جانب دیکھا جو التجائیہ نظروں سے داجی کو دیکھ رہا تھا۔ داجی کے آدھے الفاظوں نے سب کی جان نکالی تھی سب بہت پریشان ہو گئے سوائے سائمہ بیگم کے ۔۔۔۔ بالاج کی التجائیہ نظروں پر داجی نے ایک گہری ٹھنڈی سانس بھری ٹھیک ہے لاریب پہناؤ اپنی ہونے والی دیورانی کو انگو ٹھی۔
داجی نے کہا تو سب کے چہرے خوشی سے چمک اٹھے اور لاریب نے مناہل کے ہاتھ میں بالاج کے نام کی انگوٹھی پہنادی۔
سائمہ بیگم نے غصے سے یہ سارا منظر دیکھا اور اپنے کمرے میں چلی گئی وہ جانتی تھی کہ منت خان مینشن میں رہتی ہے اور مناہل کی شادی خان ولا میں ہو رہی ہے پھر بھی وہ چاہتی تھی کہ مناہل سے کبھی بھی منت کا سامنانہ ہو اسی لیے انہوں نے یہ سارا تماشا لگایا تھا پر جب اپنے منصوبے میں ناکام ہو گئی تو اپنے کمرے میں چلی گئی، کسی نے بھی انہیں جانے سے نہیں روکا تھا۔
" سلطان صاحب آج سے مناہل ہماری بیٹی ہے ہمارے بالاج کے نام سے منسوب اس کی امانت ..... تو ہم چاہتے ہیں کہ اگلے مہینے شادی کر دی جائے اور بالاج کو اس کی امانت سونپ دی جائے دیر کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے کیونکہ ہمارے بچے میں اتنا صبر نہیں ہے۔"
واجی نے کہا تو سب چونک گئے بالاج نے حیرت سے داجی کو دیکھا جبکہ باقی سب نے چہرے جھکا کر اپنی بنی دبانی چاہی لیکن بچی کی شادی ہے ہم نے تیاریاں کرنی ہیں۔ "
عارف صاحب نے کہا تو مابین بیگم نے بھی ان کی تائید میں سر بلایا عارف بیٹا ہم آپ کو بھی وہ ہی کہیں گے جو زین صاحب کو کہا تھا کہ کسی تیاریوں کی ضرورت نہیں ہے ہمارے بچوں کے پاس اللہ کا دیا ہوا سب کچھ ہے تو ہمیں کچھ بھی نہیں چاہیے آپ صرف ہمیں اپنی بیٹی دے دیں۔
داجی نے کہا تو عارف صاحب مطمئن ہو کر مسکرا دیئے .
تو اگلے مہینے فائنل کریں پھر ؟"
انہوں نے سوال کیا تو سب نے مسکراتے ہوئے سر اثبات میں ہلائے ٹھیک ہے پھر ہم لوگ چلتے ہیں۔
امید ہے آپ سب کو ایپیسوڈ پسند آئی ہوگی۔
راز دل ناول ،قسط نمبر 12، ناول ، کنزہ خان ،اردو ادب،
کہانیاں ،افسانے۔