خود کشی یا قتل
خودکشی یا قتل قسط نمبر2
ملک صفدر حیات ناول
میرے حوصلہ دلانے پر اس نے بتانا شروع کیا اس نے کہا تھانے دار صاحب میں نے کٸ بار خالہ فضل بی بی سے کہا تھا کہ وہ ماسڑ یونس کو گھر میں نہ رکھے وہ اچھا آدمی نہیں ہے کیونکہ میں نے بار بار محسوس کیا تھا کہ وہ راحت کو بڑی مشکوک نظروں سے دیکھتا ہے
لیکن خالہ نے میری کسی بات پر بھی دھیان نہیں دیا رفتہ رفتہ میں نے بھی کہنا چھوڑ دیا تاہم میں نے ان معاملات پر گہری نظر رکھی
میرا یار ملک سے باہر پردیس میں تھا اور اس کے گھر میں کوی اور ہی کھیل کھیلا جا رہا تھا مجھے یقین ہو گیا کہ بھابھی راحت بھی ماسڑ یونس کی طرف ماٸل ہوتی جا رہی ہے میں اندر ہی اندر کڑھتا رہتا تھا
مگر بے بس تھا کچھ کر نہیں سکتا تھا خالہ میری کوی بات سننے کو تیار نہیں تھی میں انتظار کے سوا کیا کر سکتا تھا
سو میں سکندر کے واپس آنے کا انتظار کرنے لگا
میں نے کٸ بار سوچا کہ براہ راست ماسڑ یونس سے بات کروں مگر پھر ہمت نہ ہوی
خالہ پوری طرح ماسڑ یونس کی طرف داری کرتی تھی ماسڑ یونس نے بھی خالہ کو پوری طرح اپنا گرویدہ بنا رکھا تھا وہ ماسڑ یونس کے خلاف کوی بھی بات سننے کو تیار نہ تھی
میں نے کہا تمہارا کہنے کا مطلب یہ ہے کہ سکندر علی کی ماں بھی راحت اور ماسڑ یونس کے تعلقات سے واقف تھی ؟
اور وہ جان بوجھ کر انہیں موقع دے رہی تھی ؟
سجاول بولا نہیں جناب یہ بات نہیں تھی خالہ کے تو فرشتوں کو بھی علم نہ تھا کہ اس چار دیواری میں کون سا کھیل کھیلا جا رہا ہے
میں نے کہا پھر تو تمہارا فرض بنتا تھا کہ جیسے بھی کرتے ایک دفعہ اپنے دوست کی ماں کو صورت حال کی سنگینی سے آگاہ ضرور کرتے
وہ روھانسے لہجے میں بولا میں نے تو پوری کوشش کی تھی جناب مگر الٹا خالہ نے مجھے ہی جھڑک دیا تھا اور سختی سے کہا کہ میں اپنے کام سے کام رکھوں اور دوسروں کی ٹوہ میں نہ رہوں
میں نے کہا پھر تم نے کیا کیا ؟ سجاول نے کہا میں نے کیا کرنا تھا جناب پھر میں سکندر کے وطن واپس آنے کا انتظار کرنے لگا اور جیسے ہی سکندر علی واپس اپنے گھر آیا میں نے اسے تمام صورت حال سے آگاہ کر دیا
میں نے پوچھا یہ بتاو تمہاری باتیں سننے کے بعد سکندر علی کا رد عمل کیا رہا ؟
سجاول نے کہا سکندر علی میری بات سنتے ہی مشتعل ہو گیا تھا مگر جب میں نے اسے تفصیل بتای تو بات اس کی سمجھ میں آ گٸ دراصل سکندر ماسڑ یونس سے واقف نہیں تھا سکندر علی کے بیرون ملک جانے کے بعد وہ کراے دار کی حیثیت سے یہاں آیا تھا
سجاول کی باتیں سن کر میں نے سوچا اگر سجاول غلط بیانی سے کام نہیں لے رہا تھا تو پھر یہ بات ضروری تھی کہ سکندر علی اپنی بیوی راحت سے اس سلسلے میں پوچھ تاچھ کرتا اور اگر واقعی راحت کا ماسڑ یونس کے ساتھ کوی تعلق تھا تو پھر ہنگامہ ہونا ضروری تھا
میں نے سجاول سے کہا پھر اس کے بعد سکندر علی نے تم سے اس سلسلے میں کوی بات کی ؟
سجاول نے بتایا نہیں جناب بات تو کوی نہیں کی مگر وہ کچھ بجھ سا گیا تھا گزشتہ رات دونوں میاں بیوی کے درمیان خاصا جھگڑا ہوا تھا
میں نے چونک کر سجاول کی طرف دیکھا اور پوچھا تمہیں ان کے جھگڑے کے بارے میں کیسے پتہ چلا تم تو کہہ رہے تھے کہ آج تمہاری سکندر سے کوی ملاقات نہیں ہوی
سجاول پر اعتماد لہجے میں بولا میں نے کوی جھوٹ نہیں بولا حضور ! اس بارے میں میری سکندر سے کوی بات نہیں ہوی اور نہ ہی ابھی تک ملاقات ہوی ہے وہ تو رات میں نے ان کے جھگڑے کی آوازیں سنی تھیں
سجاول کی بات میں وزن تھا کیونکہ ان دونوں کے گھروں کی درمیانی دیوار اتنی نیچی تھی کہ ادھر ادھر کی باتیں با آسانی سے سنی جا سکتی تھیں اور پھر جھگڑے کی صورت میں تو اس بات کے امکانات کچھ زیادہ ہی تھے
میں نے اس سے پوچھا کیا تم یہ بتا سکتے ہو کہ وہ کس بات پر جھگڑ رہے تھے
سجاول نے کہا نہیں جناب میں کوی یقینی بات تو نہیں کہہ سکتا مگر میرا خیال ہے کہ غیرت مند مرد کے لیے ڈوب مرنے کا مقام ہے کہ اس کی بیوی ! سجاول اپنی بات ادھوری چھوڑ کر خاموش ہو گیا لیکن میں بخوبی سمجھ رہا تھا کہ وہ کیا کہنا چاہ رہا ہے
میں نے دوسرے انداز میں سوال کیا ماسڑ یونس کون سے کارخانے میں کام کرتا ہے ؟
اس نے ایک ٹیکسٹاٸل مل کا نام بتایا میں نے کہا اسے ماسڑ کیوں کہتے ہیں کیا وہ کسی سکول وغیرہ میں پڑھاتا بھی ہے ؟ سجاول نے کہا کہ ماسڑ یونس کسی بھی سکول میں نہیں پڑھاتا بلکہ وہ کارخانے میں تانا ماسڑ ہے اس وجہ سے لوگ اسے ماسڑ یونس کہتے ہیں
پھر میں نے اچانک سے سوال کیا کہ سجاول تم زرا سوچ کر بتاو کہ راحت کو کس نے قتل کیا ہے ؟
قت قت قتل اس کی زبان تھتھلانے لگی اور اس کا رنگ سرسوں کی طرح زرد ہو گیا
میں نے ٹھوس لہجے میں کہا ہاں قتل کیونکہ راحت کو قتل کیا گیا ہے اور تم مجھے یہ بتاو گے کہ ایسا کون کر سکتا ہے
وہ خوف زدہ آواز میں بولا میں کیا بتا سکتا ہوں میں کچھ نہیں جانتا
میں نے کہا تم بہت کچھ جانتے ہو تم نے مجھے بتایا ہے کہ جب تم لوگ راحت کے گھر داخل ہوے تھے تو باورچی خانے کے دروازے کو باہر سے کنڈی لگی ہوی تھی
سجاول بولا جناب میں تو خود حیران تھا کہ کنڈی باہر سے کیسے لگ گٸ
میں نے کہا راحت اس وقت گھر میں اکیلی تھی وہ باورچی خانے میں بند ہو کر باہرسے کنڈی نہیں لگا سکتی تھی
یقینأ اسے اندر بند کیا گیا تھا اور وہ بھی اسے موت کے گھاٹ اتارنے کے بعد ورنہ اگر وہ زندہ ہوتی اور اس کے کپڑوں میں آگ بھڑک جاتی تو وہ چیختی چلاتی اپنی جان بچانے کی کوشش کرتی
کیا تم نے اس کے چیخنے چلانے کی آواز نہیں سنی تھی ؟
سجاول بولا نہیں جناب میں نے تو ایسی کوی آواز نہیں سنی تھی
میں نے کہا تم سن بھی نہیں سکتے تھے تم تو کیا کوی بھی نہیں سن سکتا تھا کیونکہ راحت اس قابل ہی کہاں تھی کہ وہ چیختی چلاتی اسے تو پہلے ہی موت کی ننید سلا دیا گیا تھا پھر باورچی خانے میں ڈال کر اس پر مٹی کا تیل یا پٹرول چھڑک دیا گیا اس کے بعد راحت کی لاش کو آگ لگا کر دروازہ باہر سے بند کر دیا گیا
قاتل سے اتنی غلطیاں سرزد ہویں تھیں کہ عام آدمی بھی سمجھ سکتا ہے کہ راحت نے نہ تو خودکشی کی ہے اور نہ ہی وہ اتفاقی حادثے کا شکار ہوی ہے بلکہ اسے دیدہ دانستہ قتل کیا گیا ہے
میں نے ایک لمیے کو رک کر سجاول کی طرف دیکھا اس کے چہرے پر خوف کے گہرے ساے لہرا رہے تھے
میں نے محسوس کیا کہ اس کا وجود ہولے ہولے لرز رہا ہے میں نے کہا قاتل جو کوی بھی ہے اس کا تعلق اسی گھر سے ہے یا پھر کوی ایسا شخص ہے جو آسانی سے اس گھر میں آ جا سکتا ہو وہ تھر تھر کانپنے لگا اور بولا
مای باپ مجھے کچھ پتہ نہیں میں نے کسی کو قتل نہیں کیا
حوالدار کرم داد نے اسے ایک جھانپڑ رسید کرتے ہوے کہا ہم نے کب کہا ہے کہ قتل تم نے کیا ہے تم تو اس شخص کی نشاندہی کرو گے جس نے قتل کیا ہے
سجاول باقاعدہ رونے لگا اور کہنے لگا مجھے معاف کر دیں جناب میری شامت آی تھی کہ میں فورأ تھانے اطلاع دینے جا پہنچا کسی نے سچ ہی کہا ہے کہ تھانے کچہری سے دور ہی رہنا چاہیے اب پتہ نہیں کب جان چھوٹے گی اس مصیبت سے ؟
میں نے حوالدار سے کہا اسے ہتھکڑی لگا لو
وہ زارو قطار رونے لگا تاہم حوالدار کے دو چار تھپڑ کھا کر اس نے گرفتاری دے دی
مجھے یقین تھا کہ اگر قتل اس نے نہیں بھی کیا تھا تو بھی یہ اس قتل کے بارے میں بہت کچھ بتا سکتا تھا
اتنی دیر میں پتہ چلا کہ سکندر علی اور اس کی والدہ واپس آ گیے ہیں
انہیں گھر پہنچنے سے پہلے ہی اس سانحے کی اطلاع مل چکی تھی انھوں نے آتے ہی واویلا شروع کر دیا
سکندر علی کی حالت کافی خراب ہو رہی تھی فضل بی بی تو رو رہی تھی ان کی حالت زرا سنبھلی تو میں نے باری باری ان کا بیان قلم بند کیا
دونوں کا بیان ملتا جلتا تقریبأ ایک جیسا تھا وہ دونوں آج صبح سات بجے گھر سے نکلے تھے سکندر علی اپنی ماں کو آنکھوں کے ہسپتال لے کر گیا تھا اور ابھی ابھی وہ دونوں واپس گھر آے تھے
(جاری ہے )
خودکشی یا قتل قسط نمبر 3
راحت کو پیش آنے والے حادثے کے بارے میں وہ کچھ بھی نہیں جانتے تھے میں نے سکندر علی کو الگ بٹھا دیا اور تنہای میں فضل بی بی سے سوالات کرنے لگا
میں نے کہا فضل بی بی مجھے پتہ چلا ہے کہ تم نے اپنے بیٹے کی غیر موجودگی میں اپنے گھر کی بیٹھک کسی کو کراے پر دے رکھی تھی ؟ فضل بی بی نے کہا جی ہاں یہ بات سچ ہے ماسڑ یونس میرا کراے دار ہے
میں نے کہا وہ اس وقت کہاں ہے ؟ اس نے کہا صبح تو کارخانے گیا تھا وہیں ہو گا میں نے کہا اس کے کارخانے کا نام کیا ہے ؟ فضل بی بی کے جواب نے سجاول کے بیان کی تصدیق کر دی تھی میں نے پوچھا چھٹی کے بعد ماسڑ یونس کب تک کر گھر آ جاتا ہے
اس نے بتایا کہ عام طور پر پانچ بجے تک آ جاتا ہے پر آج وہ نہیں آے گا میں نے پوچھا اس کی کوی خاص وجہ؟
فضل بی بی نے وضاحت کرتے ہوے کہا کیونکہ آج ہفتے کا دن ہے کل اتوار کی چھٹی ہے ہفتے کے روز وہ کارخانے سے چھٹی کر نے کے بعد سیدھا اپنے پنڈ چلا جاتا ہے
چھٹی کا دن وہ اپنے پنڈ میں گزارتا ہے میں نے کہا اس کا مطلب ہے کہ وہ کل شام تک یہاں ٹے گا
فضل بی بی نے کہا نہیں جناب وہ کل بھی نہیں آے گا وہ اپنے پنڈ سے سوموار کو سیدھا کارخانے چلا جاتا ہے یہاں تو اب وہ پرسوں شام کو آے گا
میں نے سوال کیا فضل بی بی اچھی طرح سوچ کر بتاو جب آج صبح تم اپنے بیٹے کے ساتھ گھر سے روانہ ہوی تھی تو کیا اس وقت ماسڑ یونس گھر میں ہی تھا ؟
فضل بی بی نے کہا مجھے اچھی طرح یاد ہے وہ ہمارے نکلنے سے کچھ دیر پہلے ہی گھر سے چلا گیا تھا
میں نے زرا مختلف انداز میں سوال کیا راحت کا تمارے ساتھ سلوک کیسا تھا ؟ اس نے سوالیہ نظروں سے میری جانب دیکھا میں نے کہا میرا مطلب ہے کہ تم دونوں کی آپس میں کوی ناراضگی تو نہیں تھی
وہ کانوں کو ھاتھ لگاتے ہوے بولی اللہ معاف کرے میں تو اسے اپنی بیٹی سمجھتی تھی اور راحت بھی میری بہت عزت کرتی تھی ہمارے درمیان آج تک کوی معمولی سا جھگڑا بھی نہیں ہوا تھا
میں نے اس کی آنکھوں میں جھانکتے ہوے کہا فضل بی بی جن لوگوں نے موقع پر پہنچ کر راحت کو باورچی خانے سے نکالا ہے ان کا بیان ہے کہ جب وہ وہاں پہنچے تو باورچی خانے کا دروازہ باہر سے بند تھا
اس کا صاف مطلب یہی ہے کہ کسی نے اسے باہر سے بند کر دیا تھا تمہارے خیال میں ایسا کون کر سکتا ہے ؟
وہ الٹا سوالیہ نظروں سے میری طرف دیکھنے لگی اور بولی یہ تو آپ نے عجیب بات بتای ہے میں نے کہا فضل بی بی یہ عجیب بات ہی نہیں بلکہ تشویش ناک بات بھی ہے
تمہاری بہو کو قتل کیا گیا ہے اور قاتل تک تم ہماری رہنمای کرو گی وہ بولی میری تو مت ہی ماری گٸ ہے میری سمجھ میں نہیں آ رہا کہ آپ کیسی باتیں کر رہے ہیں راحت کو بھلا کون قتل کر سکتا ہے ابھی صبح تو میں اسے بھلی چنگی چھوڑ کر گٸ ہوں
پھر وہ دو ہتڑ سینے پر مار کر دھای دینے والے انداز میں بولی ھاے وے میریا ربا یہ کیا ہو گیا میری جوان جہان بہو میری بچی !
میں نے تسلی آمیز لہجے میں کہا دیکھو فضل بی بی مجھے تم سے ہمدردی ہے مگر ہم بھی مجبور ہیں آخر قانونی تقاضے بھی تو پورے کرنے ہیں پچھ پرتیت تو کرنی پڑتی ہے وہ آنسو صاف کرتے ہوے بولی پوچھیں جی آپ کیا پوچھنا چاہتے ہیں
میں نے دانستہ نرم رویہ اختیار کر لیا تاکہ اسے بہلا پھسلا کر کوی کام کی بات اگلوا سکوں کیونکہ سکندر علی اور اس کی ماں کی ذات ابھی تک شک سے پاک نہیں تھی
میں نےپوچھا فضل بی بی تمہارا کراے دار کیسا آدمی ہے فضل بی بی نے کہا ماسڑ یونس بڑا ہی بیبا بندہ ہے جی!
میں نے کہا وہ کتنے عرصے سے تمارے گھر میں کراے دار کی حیثیت سے رہ رہا ہے ؟ فضل بی بی نے کہا اسے یہاں رہتے ہوے کوی دو سال ہو گیے ہیں
میں نے پوچھا ان دو سالوں میں تمہیں اس سے کوی شکایت تو نہیں ہوی ؟
اس نے کہا بلکل نہیں جناب وہ تو بلکل گھر کے ایک فرد کی طرح ہے اس نے کبھی بھی کسی شکایت کا موقع نہیں دیا
میں نے کہا فضل بی بی تم ایک ایک جوان عورت کے ساتھ اس گھر میں اکیلی رہ رہی تھی ایسی صورت میں کسی انجان اور چھڑے چھانٹ مرد کو کراے دار بنا لینا بڑا عجیب سا لگتا ہے کیا تمہیں کبھی خیال نہیں آیا کہ لوگ باتیں کریں گے اور تمارا بیٹا سکندر علی بھی اس بات کو ناپسند کر سکتا ہے ؟
وہ بولی لو دسو جی ! آپ بھی کیسی الٹی باتیں کرے کر رہے ہیں تھانے دار صاحب ہم عزت دار لوگ ہیں اور اپنے اچھے برے کو آپ سے زیادہ جانتے ہیں اور پھر سکندر کوی مجھ سے باہر تھوڑا ہی ہے وہ مجھ پر بھروسہ کرتا ہے میں اس کی ماں ہوں وہ میری کسی بات کو نا پسند کیوں کرے گا
میں نے زرا سخت لہجے میں کہا تمہیں اگر اچھے برے کا خیال ہوتا ! وہ میری بات کو کاٹتے ہوے بولی آپ کہنا کیا چاہتے ہیں ؟ صاف صاف بات کریں نا !
میں نے کہا صاف صاف بات یہ ہے کہ اس گھر میں ایک قتل ہوا ہے اور قاتل کوی باہر کا آدمی نہیں
وہ بولی آپ یہ بار بار قتل کا کیا زکر کر رہے ہیں گھر کا کوی آدمی راحت کو کیسے قتل کر سکتا ہے وہ تو گھر میں اکیلی تھی
میں نے کہا وہ گھر میں اکیلی تھی اس نے خود کو باورچی خانے میں اس طرح بند کیا کہ جادو کے زور سے دروازے کی کنڈی لگای پھر اس نے خود کو آگ لگای اور بڑے آرام اور سکون سے جان دے دی
کوی بڑے سے بڑا بیوقوف بھی اس بات پر یقین نہیں کر سکتا ہے اب تم بتاو تم کیا کہتی ہو کیا ایسا ہونا ممکن ہے
وہ ہراساں نظروں سے مجھے دیکھنے لگی اور پھر بولی تھانے دار صاحب میں کیا کہہ سکتی ہوں جناب
ہم تو صبح کے گیے ہوے ابھی آپ کے سامنے ہی واپس آے ہیں میں نے کہا تماری غیر موجودگی میں بھی اس گھر میں کوی آ سکتا ہے اس نے کہا پر کون آ سکتا ہے کسی کو راحت سے بھلا کیا دشمنی ہو سکتی ہے ؟
میں نے کہا ماسڑ یونس کو تو کوی یہاں آنے سے نہیں روک سکتا نا وہ جلدی سے بولی وہ دن میں کبھی گھر نہیں آتا
دوپہر کا کھانا وہ ادھر کارخانے میں ہی کھاتا ہے میں نے کہا یہ بات ناممکن تو نہیں کہ آج وہ خلاف معمول یہاں آ گیا ہو آخر یہ اس کی رہاٸش گاہ ہے
وہ بولی پر ایسا پہلے تو کھبی نہیں ہوا میں نے کہا مجھے پتہ چلا ہے کہ تمہارا کراے دار ماسڑ یونس چھپ چھپ کر راحت سے ملتا ملاتا رہتا تھا
فضل بی بی نے چونک کر میری طرف دیکھا اور بولی آپ کو یہ بات کسنے بتای ؟ میں اسے ڈانٹ کر کہا تم مجھ سے سوال نہ کرو صرف میرے سوالوں کے جواب دو
راحت اور ماسڑ کے درمیان کیا کھچڑی پک رہی تھی ؟
وہ ناگوار انداز میں بولی کسی نے آپ کے کان بھرے ہیں اور وہ اس مردود کے سوا اور کوی نہیں ہو سکتا
میں نے کہا کون مردود ؟
اس کے منہ سے مغلظات کا طوفان پھٹ پڑا
ٹٹ پینا مر جاناں وہی کانا سور اللہ کرے وہ کسی کی آی سے مرے اس کانے دجال نے تو ہر حد مکا دی ہے
میں سمجھ گیا کہ فضل بی بی کا اشارہ سجاول کی طرف ہے اس کے لہجے سے اندازہ ہوتا تھا کہ وہ سجاول کی طرف سے بھی بیٹھی تھی
میں نے اسے مزید کریدنے کی خاطر کہا تم یہ گالیاں کس کو سنا رہی ہو فضل بی بی ؟
وہ نفرت آمیز لہجے میں بولی جس شیطان نے آپ کو غلط سلط پٹیاں پڑھای ہیں یہی خبیث میری راحت کو بدنام کرنے پر تلا بیٹھا تھا
میں نے کہا کسی کا نام بھی لو گی یا یونہی اپنی زبان گندی کرتی رہو گی
اس نے کہا آپ ٹھیک کہتے ہیں تھانے دار صاحب اس کا نام لینے واقعی زبان گندی ہو جاے گی وہ بھڑک کر بولی اس نے تو میری راحت کو تباہ کرنے میں کوی کسر نہیں چھوڑی تھی میرے بیٹے کے واپس آتے ہی اس کے کان بھر دیے تھے وہ تو بھلا ہو میرے لال کا کہ اس نے میرے سمجھانے پر عقل سے کام لیا اور بات اس کی سمجھ میں آ گٸ
ورنہ تو وہ کل ہی راحت کو فارغ کر دینے کا فیصلہ کر چکا تھا وہ کمینہ خود کو سکندر کا دوست کہتا ہے اور دوست کا اجاڑتے ہوے اسے زرا بھی شرم نہ آی
کڑی سے کڑی مل رہی تھی اور بات آگے بڑھ رہی تھی سجاول کی شخصیت کا ایک نیا پہلو میرے سامنے آ رہا تھا
میں نے فضل بی بی سے کہا لیکن سجاول کو راحت سے ایسی کون سی دشمنی تھی جو وہ ایسی حرکتیں کرتا پھرتا ہے
فضل بی بی نے انکشاف زدہ لہجے میں کہا کیونکہ میری بہو راحت نے اس کانے کے منہ پر تھوک دیا تھا
( جاری ہے )
Beautiful ❤️❤️
ReplyDeletewaoo 😮❤ nice ☺️
ReplyDelete