خودکشی یا قتل؟ - قسط نمبر 1
اس روز سورج گویا سوا نیزے پر تھا۔ چاروں طرف چلچلاتی دھوپ پھیلی ہوئی تھی۔ دن کے آغاز ہی سے آسمان آگ برسا رہا تھا۔ زمین تپ کر تانبے کی مانند ہو چکی تھی، اور ہوا بھی صبح سے بند تھی۔ حبس اور گھٹن نے ہر ذی روح کا جینا محال کر رکھا تھا۔
جب میں تھانے میں داخل ہوا تو گھڑی دس بجا رہی تھی۔ تھانے کا پورا عملہ موجود تھا اور اپنے فرائض نہایت ذمہ داری سے انجام دے رہا تھا۔
میں پسینے میں شرابور اپنے دفتر میں جا بیٹھا۔ فوراً ایک کانسٹیبل مٹکے سے ٹھنڈا پانی لے کر آیا، گلاس میری میز پر رکھا، چھت والے پنکھے کی رفتار بڑھائی اور باہر نکل گیا۔
میں کرسی کی پشت سے ٹیک لگا کر نیم دراز ہو گیا اور آنکھیں موند لیں۔
ابھی پسینہ خشک بھی نہیں ہوا تھا کہ حوالدار کرم داد نے آ کر اطلاع دی کہ ساتھ والے محلے میں ایک عورت جل کر مر گئی ہے۔
میں فوراً سیدھا ہو کر بیٹھ گیا۔
"یہ کب کی بات ہے؟" میں نے پوچھا۔
"جناب، ابھی تھوڑی دیر پہلے ہی ہمیں اطلاع ملی ہے،" کرم داد نے جواب دیا، "اطلاع دینے والا شخص باہر برآمدے میں بیٹھا ہے۔"
"کیا کوئی کارروائی کی گئی؟" میں نے استفسار کیا۔
"بس آپ کا انتظار ہو رہا تھا، جناب۔"
میں نے باہر بیٹھے شخص کو اندر بلا لیا۔ وہ تیس سے بتیس سال کا ایک شخص تھا۔ اپنا نام سجاول بتایا۔ اس نے کہا کہ آگ اس کے پڑوس کے گھر میں لگی۔
میں نے اس سے چند ابتدائی سوالات کیے، پھر حوالدار کرم داد کو ساتھ لے کر جائے وقوعہ پر پہنچ گیا۔
آگ گھر کے باورچی خانے میں لگی تھی، اور جل کر مرنے والی عورت کا نام راحت تھا۔ محلے داروں نے آگ پر قابو پا لیا تھا۔ راحت کی جلی ہوئی لاش گھر کے صحن میں چادر سے ڈھکی پڑی تھی۔
میں نے چادر اٹھا کر لاش کو دیکھا تو ایک جھرجھری لے کر رہ گیا۔ راحت کا پورا جسم سیخ کباب کی طرح بھن چکا تھا، خاص طور پر چہرہ شدید مسخ ہو چکا تھا۔
میں نے چادر دوبارہ ڈال دی اور مکان کا جائزہ لینے لگا۔ مکان تقریباً پانچ مرلے پر بنا ہوا ایک درمیانے درجے کا گھر تھا۔
مکان کے پچھلے حصے میں دو ایک جیسے کمرے، ان کے آگے آٹھ فٹ کا برآمدہ، اس کے بعد کچا صحن، اور صحن کی دیوار کے ساتھ باورچی خانہ اور واش روم بنے ہوئے تھے۔ اگلے حصے میں بیٹھک نما ایک بڑا کمرہ اور اس کے ساتھ ڈیوڑھی بنی ہوئی تھی۔
آگ کو سب سے پہلے سجاول نے دیکھا تھا، جو راحت کا ہمسایہ تھا۔ واقعے کے وقت وہ اپنے گھر کی چھت پر موجود تھا۔
سجاول ایک آنکھ سے کانا تھا، اور چھت پر کبوتر پال رکھے تھے، اسی لیے زیادہ وقت چھت پر گزرتا تھا۔
اس نے بتایا:
"میں حسبِ معمول کبوتروں کو دانہ ڈال رہا تھا کہ اچانک ساتھ والے گھر سے دھواں اٹھتا نظر آیا۔ شروع میں میں نے دھیان نہیں دیا، لیکن جب دھواں بادلوں کی مانند پھیلنے لگا تو میں مجبوراً چھت کے کنارے پر آ کر پڑوس کے صحن میں جھانکا، تو سکتے میں آ گیا۔
پورا باورچی خانہ آگ کی لپیٹ میں تھا۔
میں فوراً نیچے آیا، گلی میں لوگوں کو آگاہ کیا۔ گھر کا دروازہ کھلا ہوا تھا۔
کافی لوگ اندر داخل ہوئے، میں بھی ان کے ساتھ تھا۔ بڑی مشکل سے ہم نے آگ پر قابو پایا۔
باورچی خانے کا دروازہ باہر سے بند تھا۔
ہم نے دروازہ توڑا، راحت کی لاش باہر نکالی اور پھر آپ کو اطلاع دینے تھانے آ گیا۔"
سجاول کے بیان میں کئی سنسنی خیز نکات تھے۔ میں بیک وقت کئی زاویوں پر غور کر رہا تھا۔
یہ واقعہ نہ تو اتفاقی لگتا تھا اور نہ ہی خودکشی۔
اگر آگ حادثاتی ہوتی تو راحت خاموشی سے نہ مر جاتی۔
ایسے موقع پر انسان چیخ و پکار کرتا ہے، بچنے کی کوشش کرتا ہے۔
اور اگر یہ خودکشی تھی، تو سوال یہ تھا کہ باورچی خانے کا دروازہ باہر سے بند کیسے تھا؟
یہ معاملہ مجھے قتل کا لگتا تھا۔
میں نے جائے وقوعہ کا مکمل نقشہ بنایا، اور موجود افراد کے بیانات لینا شروع کیے۔
اس وقت راحت کے سوا گھر میں کوئی اور موجود نہیں تھا۔ پورے گھر میں جلے گوشت کی بدبو پھیلی ہوئی تھی، وہاں کھڑا ہونا مشکل ہو گیا تھا۔
میں ناک پر رومال رکھ کر گلی میں آ گیا اور وہیں بیٹھ کر بیانات لینے لگا۔
زیادہ تر افراد کے بیانات ملتے جلتے تھے۔
ان کے مطابق گھر میں تین افراد رہتے تھے:
راحت
راحت کی بوڑھی ساس فضل بی بی
اور ایک کرایہ دار ماسٹر یونس
ماسٹر یونس کسی دوسرے علاقے سے تعلق رکھتا تھا، اور یہاں ایک کپڑے کی مل میں ملازم تھا۔
راحت کا شوہر سکندر علی تین سال سے سعودی عرب میں تھا، اور ابھی دو دن پہلے واپس آیا تھا۔
سکندر اور اس کی ماں کی غیر موجودگی کے بارے میں کسی کو کوئی علم نہ تھا۔
کسی نے رائے دی کہ شاید سکندر، ماں کو آنکھوں کے علاج کے لیے اسپتال لے گیا ہو، کیونکہ فضل بی بی کی آنکھوں میں تکلیف تھی۔
میری نظر میں سجاول سب سے اہم گواہ تھا۔
میں نے سب کو رخصت کر کے سجاول کو بلا لیا۔
وہ ہاتھ جوڑ کر میرے سامنے کھڑا ہو گیا۔
میں نے سخت لہجے میں پوچھا:
> "کیا تمہیں علم ہے کہ حقائق چھپانے یا جھوٹ بولنے کی سزا کیا ہوتی ہے؟"
وہ روہانسا ہو کر بولا:
> "سرکار، میں نے کوئی غلط بیانی نہیں کی، نہ کوئی بات چھپائی ہے۔"
میں نے پوچھا:
> "کیا تمہیں معلوم تھا کہ آج راحت گھر میں اکیلی ہے؟"
"نہیں جی، میں دوسروں کے معاملات میں دخل نہیں دیتا۔"
میں نے کہا:
> "مجھے معلوم ہوا ہے کہ سکندر علی دو دن پہلے سعودیہ سے واپس آیا ہے؟"
"ہاں جی! وہ پرسوں ہی آیا ہے،" سجاول نے فوراً کہا۔
میں نے پوچھا:
> "تم اسے کیسا آدمی سمجھتے ہو؟"
سجاول نے ایک آنکھ سے مجھے دیکھا اور کہا:
> "جناب، وہ میرا پرانا یار ہے، ٹھیک ٹھاک بندہ ہے۔"
میں نے پوچھا:
> "پھر تمہیں یہ بھی پتہ ہو گا کہ آج وہ کہاں گیا ہے؟"
سجاول نے کہا:
> "نہیں سرکار، وہ میرے جاگنے سے پہلے ہی کہیں چلا گیا تھا۔ آج اس سے ملاقات نہیں ہوئی۔
ہاں، کل وہ کہہ رہا تھا کہ ماں کو آنکھوں کے اسپتال لے کر جانا ہے۔ شاید وہ اسپتال گیا ہو۔"
میں نے تنبیہ کرتے ہوئے کہا:
> "تمہارے گھر کی دیوار اس گھر سے ملی ہوئی ہے۔
اور تم سارا دن چھت پر رہتے ہو۔
تم اس گھر کے حالات سے انجان نہیں ہو سکتے۔"
سجاول کانوں کو ہاتھ لگاتے ہوئے بولا:
> "توبہ سرکار! میں اپنے دوست کے گھر پر نظر کیسے رکھ سکتا ہوں؟"
حوالدار نے اسے ایک چپت ماری اور کہا:
> "اوے توبہ کے گھوڑے! صاحب کی بات کا مطلب غلط نہ نکال!"
میں نے کہا:
> "سجاول! تم سکندر علی کو اپنا دوست کہتے ہو، تو راحت تمہاری بھابھی ہوئی۔
کوئی اپنی بھابھی پر بری نظر رکھتا ہے؟"
وہ عاجزانہ انداز میں بولا:
> "معاف کر دیں سرکار، میں مطلب نہ سمجھ سکا۔
ویسے آپ فکر نہ کریں، سکندر کے نہ ہونے پر میں نے اس کے گھر کا پورا خیال رکھا۔
اور اس کے آتے ہی سب کچھ اسے بتا دیا تھا۔"
میں نے سختی سے کہا:
> "اوے کیا بجھارتیں ڈال رہا ہے؟ کھل کر بتا کہ کیا بات بتائی ہے؟"
سجاول بولا:
> "دوستی کا سوال ہے سرکار، میں نہیں بتا سکتا۔"
میں نے ڈانٹ کر کہا:
> "سب سچ سچ بتا دے ورنہ سختی ہو گی!"
حوالدار نے کہا:
> "جناب، اسے تھانے لے چلتے ہیں، یہ نرمی سے نہ مانے گا۔"
سجاول گھبرا کر بولا:
> "سرکار! میں خطاوار نہیں۔ میں نے تو صرف دوست کے بھلے کے لیے سب کچھ بتایا تھا۔
لیکن اگر آپ وعدہ کریں کہ سکندر کو یہ بات نہیں بتائیں گے، تو میں سب کچھ کہنے کو تیار ہوں…"
Good
ReplyDelete