خودکشی یا قتل قسط نمبر 7
میں نے سجاول سی کہا کیا یہ بھی سچ ہے کہ تم نے اپنی بے عزتی کا بدلہ لینے کے لیے ہی سکندر علی کے کان بھرے تھے ؟ سجاول نے جناب اس میں آدھا سچ ہے میں نے سوالیہ نظروں سے اس کی طرف دیکھا اور پوچھا کیا مطلب ہے تمہارا ؟ اب یہ آدھے سچ والی کون سی نٸی کہانی شروع کرنے والے ہو ؟
اس نے دہشت زدہ نظروں سے حوالدار کی طرف دیکھا اور کہا نہیں جناب اب تو میں جھوٹ بولنے کا تصور بھی نہیں کر سکتا میں ابھی زندہ رہنا چاہتا ہوں
میں نے کہا پھر بتاو یہ آدھا سچ کیا ہے وہ بولا سکندر کو راحت کی بے وفای کا قصہ سنانے میرا ایک مقصد تو یہ تھا کہ میں اپنی بے عزتی کا انتقام لینا چاہتا تھا اور دوسری بات یہ تھی کہ راحت واقعی ماسڑ یونس سے محبت کی پینگنیں بڑھا رہی تھی
میں چونک کی سجاول کی جانب دیکھا اور کہا اگر تمہاری دوسری بات محض بہتان ہوی تو یاد رکھو میں تماری کھال کھنچوا کر نمک لگا دوں گا
سجاول پر اعتماد انداز میں بولا آپ چاہیں تو مجھے جان سے مار دیں مجھے اس کے انداز پر حیرت ہوی
میں نے کہا میں ماسڑ یونس سے بھی اس بات کی تصدیق کروں گا یہ نہ سمجھنا کہ راحت اگر مر گٸ ہے تو کوی تمہاری بات کی تصدیق یا تردید نہیں کر سکتا سجاول ایک بار پھر ثابت قدمی سے بولا جناب اگر میری بات غلط ثابت ہو جاے تو میں ہر سزا کے لیے تیار ہوں
میں نے اس کی آنکھوں میں جھانکتے ہوے کہا سزا سے تو تم ویسے بھی نہیں بچ سکتے کیونکہ قتل ایک سنگین جرم ہوتا ہے وہ میرے قدموں میں گر گیا اور گڑ گڑانے لگا
اللہ رسول کی قسم میں نے کسی کو قتل نہیں کیا میں نے اسے کھڑا کرتے ہوے کہا سنو سجاول میری بات غور سے سنو میں تمہیں زیادہ سے زیادہ ایک دن کی مہلت دے سکتا ہوں تم اچھی طرح سوچ سمجھ لو کل پوسٹمارٹم رپورٹ آ جاے گی اور پھر سارا بھید کھل جاے گا
تم اگر رپورٹ سے پہلے پہلے اقبال جرم کر لو گے تو میں تمہیں کم سے کم سزا دلوانے کی کوشش کروں گا ورنہ پھانسی کا پھندہ تو تمہارے سر پر لٹک ہی رہا ہے وہ کسی وقت بھی تہماری گردن میں فٹ ہو سکتا ہے
سجاول پھر رو رو کر قسمیں کھانے لگا کہ راحت کا قتل اس نے نہیں کیا
میرے حکم پر حوالدار سجاول کو لے گیا اور حوالات میں بند کر دیا اتنی دیر میں جو اے آی ایس ماسڑ یونس کے کارخانے گیا تھا وہ ایک سنسنی خیز خبر کے ساتھ واپس آ گیا اس نے کارخانے کے مالک سے تفصیلی بات چیت کی تھی مالک کے کہنے پر کارخانے کے مینجر نے ماسڑ یونس کے بارے میں جو معلومات فراہم کیں ان معلومات کے مطابق کل یعنی وقوعہ کے روز ماسڑ یونس کارخانے گیا ہی نہیں تھا اپنے نہ آنے اطلاع اس نے ایک روز پہلے ہی دے دی تھی یعنی وہ جمعے کے روز آخری بار کارخانے گیا تھا نہ صرف یہ بلکہ اس نے مینجر سے تین روز بعد آنے کا کہا تھا
ہفتہ اور پیر کی ماسڑ یونس نے فیکڑی سے چھٹی لی تھی اتوار کی تو ویسے ہی چھٹی تھی
اس طرح مینجر کے مطابق اب اسے منگل کو فیکڑی آنا تھا یہ اطلاعات میرے لیے خاصی ہنگامہ خیز تھیں
جبکہ وقوعہ کے روز ماسڑ یونس فضل بی بی سے کارخانے کا کہہ کر نکلا تھا مگر اسے کارخانے نہیں جانا تھا پھر اس نے فضل بی بی سے جھوٹ کیوں بولا ؟
میں نے فورأ فضل بی بی کو تھانے بلوا لیا اور فضل بی بی سے ماسڑ یونس کی چھٹیوں کے بارے میں پوچھا مگر فضل بی بی نے اس سلسلے میں لا علمی کا اظہار کیا
فضل بی بی کے بیان کے مطابق حسب معمول ماسڑ یونس کو پیر کی شام کو ہی آنا تھا
میں سوچنے لگا ماسڑ یونس نے کمال چالاکی سے کام لیا تھا اس نے جس انداز سے دو چھٹیاں لی تھیں اس سے پتہ چلتا تھا وہ یہ بات فضل بی بی سے بھی چھپانا چاہتا تھا
مگر کیوں ؟
اسے جھوٹ بولنے کی ضرورت کیوں پیش آی ؟
کیا وہ کسی جرم کا ارتکاب کرنے جا رہا تھا ؟
تو کیا واقعی ماسڑ یونس کا راحت کے ساتھ کوی چکر چل رہا تھا ؟
لیکن اگر ان دونوں کے درمیان واقعی کوی تعلق تھا تو پھر راحت کی موت کیا معنی رکھتی تھی ؟
میں جوں جوں سوچ رہا تھا میرا دماغ الجھتا جا رہا تھا
سجاول نے جس انداز اور اعتماد سے ماسڑ یونس اور راحت کے تعلق کا زکر کیا تھا میں اسے نظر انداز نہیں کر سکتا تھا اور ویسے بھی یہ کوی ناممکن بات نہیں تھی ایک ہی گھر میں رہتے ہوے ایسا ہو جانا کوی عجوبہ نہیں تھا
اور ایسی صورت میں کہ راحت کا شوہر شادی کے فورأ ہی بعد پردیس چلا گیا تھا اور ایک طویل عرصے سے وہ راحت سے دور تھا
یہ سب کچھ تو اپنی جگہ تھا ہی لیکن جو بات مجھے زیادہ تشویش میں مبتلا کر رہی تھی وہ یہ تھی کہ ماسڑ یونس پر اسرار انداز میں کہاں غاٸب ہو گیا تھا
اور وہ بھی ایسی صورت میں کہ اس کے غاٸب پر راحت کی موت واقع ہو گٸ تھی
کہیں ماسڑ یونس نے ہی تو راحت کو ٹھکانے نہیں لگا دیا تھا اس سوال کے ساتھ ہی ایک اور سوال دماغ میں ابھرتا تھا کہ آخر کیوں ؟ اسے ایسا اقدام کرنے کی ضرورت کیوں پیش آ گٸ تھی ؟وہ وجہ جاننا میرے لیے بہت ضروری تھا ویسے اگر ماسڑ یونس نے ہی راحت کو موت کے گھاٹ اتارا تھا تو اس کی پلاننگ قابل داد تھی
لیکن ایک بات الجھن پیدا کر رہی تھی یعنی ہفتے اور پیر کی چھٹی اس نے کس مقصد کے لیے حاصل کی تھی
اور بھی بہت سی باتیں ابھی جواب طلب تھیں مگر ایک بات یقینی تھی کہ ماسڑ یونس بھی برابر کا مشکوک تھا
پیر کی صبح میں نے حوالدار کرم داد کو ماسڑ یونس کے گاوں روانہ کر دیا کہ یہ تو معلوم ہو کہ وہ اپنے گھر بھی پہنچا ہے نہیں ؟
پھر میں اپنے معمول کے کاموں میں مصروف ہو گیا
اسی روز دوپہر کے بعد ہسپتال سے راحت کی پوسٹمارٹم شدہ لاش بھی واپس آ گٸ اور ساتھ ہی پوسٹمارٹم رپورٹ بھی تھی
اس رپورٹ کے مطابق راحت کی موت بدھ اور جمعرات کی درمیانی شب واقع ہوی تھی رپورٹ میں مزید لکھا گیا تھا کہ راحت زچگی کے دوران میں حرکت قلب بند ہو جانے کے باعث موت سے ہمکنار ہوی تھی اور یہ کہ لاش کو بعد میں جلا دیا گیا تھا
پوسٹمارٹم کی رپورٹ نے تہلکہ مچا دیا تھا میں سر پکڑ کر بیٹھ گیا یہ عجیب راز تھا راحت کو ہفتے کے روز بھلی چنگی چھوڑ کر ماں بیٹا ہسپتال گیے تھے
مگر رپورٹ بتا رہی تھی کہ وہ دو روز پہلے ہی اس جہان فانی سے کوچ کر گٸ تھی
میرے دماغ میں طرح طرح کے سوالات سر اٹھا رہے تھے جب راحت بدھ اور جمعرات کی درمیانی شب انتقال کر گٸ تھی وہ پھر ہفتے کی صبح وہ زندہ کیسے تھی ؟
رپورٹ میں یہ بھی لکھا تھا راحت کی موت زچگی کے دوران ہوی مگر کیسی زچگی ؟
راحت کا خاوند تو گزشتہ تین سال سے اس کی تنہای میں نہیں آیا تھا
میں سوچنے لگا کیا ایسا ممکن ہے کہ یہ لاش راحت کی نہ ہو اس سوال کے جواب میں ایک اور سوال پیدا ہوا اگر یہ لاش راحت کی نہیں ہے تو پھر کس کی ہے ؟
اور پھر راحت کہاں ہے ؟
اچانک میرے دماغ میں ایک تیز روشنی کا جھماکا سا ہوا اور ساری صورت حال واضع ہو گٸ
( جاری ہے )