خود کشی یا قتل قسط نمبر 6
سکندر نے کہا میں نے ہمیشہ سچ ہی بولا ہے جھوٹ بولنا میری عادت نہیں میں نے کہا تم نے مجھے بتایا تھا کہ جمعے کی رات تمہارا اپنی بیوی راحت سے کسی بات پر جھگڑا ہو گیا تھا
سکندر بولا میں اس کا جواب آپ کو دے چکا ہوں میں نے اس سے کہا تم نے غالبأ مجھے یہ بتایا تھا کہ تمہارے درمیان کوی غلط فہمی پیدا ہو گٸ تھی ؟
وہ خفگی سے بولا جی ھاں میں نے یہی بتایا تھا میں نے کہا اب میں وہ غلط فہمی جاننا چاہتا ہوں میری بات سن کر وہ ایک دم بھڑک اٹھا اور بولا وہ ہمارا میاں بیوی کا معاملہ تھا میں آپ کو اپنے ذاتی معاملات میں دخل دینے کی اجازت نہیں دوں گا
میں نے کہا سکندر علی یہ یہ معاملہ اب صرف تمہارا نہیں رہا تمہاری بیوی قتل ہو چکی ہے کل پوسٹ مارٹم کی رپورٹ آ جاے گی اور پتہ چل جاے گا کہ اس کی موت کب اور کیسے ہوی ہے تمہارا جو ذاتی معاملہ تھا اب قانونی معاملہ بن گیا ہے اور تمہاری پوزیشن اس میں بہت نازک ہے سکندر بولا کیوں میں نے کیا کیا ہے ؟
میں نے کہا یہ بھی پتہ چل جاے گا ہم یہاں کس لیے بیٹھے ہیں تم یہ بتاو تمہارا اپنی بیوی کے ساتھ جھگڑا کس بات پر ہوا تھا
میری بات سن کر وہ خاموش ہو گیا اسے خاموش دیکھ کر میں نے کہا سکندر اگر تم نے اپنی زبان نہ کھولی تو مجبورأ مجھے دوسرا طریقہ استمال کرنا پڑے گا
وہ بولا میری سمجھ میں یہ نہیں آ رہا کہ آپ ایک ہی بات بار بار کیوں پوچھ رہے ہیں
میں نے کہا تم اس چھوٹی سی بات کے لیے اپنا ننھا سا زہن
نہ تھکاو اور شرافت سے میرے سوالوں کا جواب دو
اگر اب بھی تم نے جھگڑے کی وجہ نہ بتای تو میں تمہارا کوی لحاظ نہیں کروں گا
اس کی آنکھوں میں خوف کی لہر دکھای دی اور وہ ھارے ہوے لہجے میں بولا میرا خیال ہے کہ اب باتوں کا کوی فاٸدہ نہیں ہے
میں نے اسے طمانچہ مارتے ہوے کہا میں نے تمہیں اپنا خیال ظاہر کرنے کا نہیں کہا اور نہ ہی تو فاٸدے نقصان کے چکر میں پڑ کہیں یہ چکر تمہیں پھانسی کے پھندے تک نہ لے جاے
تھپڑ کھا کر وہ سیدھا کھڑا ہو گیا اور خوف زدہ نظروں سے مجھے دیکھنے لگا تھپڑ کی آواز سن کر ایک ہٹا کٹا کانسٹیبل اندر آ گیا اس نے پوچھا کیا ہوا جناب !
ہم بھی یہاں موجود ہیں ہم کس مرض کی دوا ہیں زرا ہمیں بھی اس کی خدمت کرنے کا موقعہ دیں
میں نے سکندر کی طرف دیکھتے ہوے کہا ھاں بھٸ پوستی بدمعاش اب کیا ارادہ ہے تمہارا ؟
سکندر نے فورأ بولنا شروع کر دیا اس نے کہا جناب بات یہ تھی کہ مجھے اپنی بیوی راحت کے کردار کے بارے میں کوی اچھی رپورٹ نہیں ملی تھی
میں نے پوچھا اچھی رپورٹ نہ ملنے سے تمہاری کیا مراد ہے
وہ نظریں نیچی کر کے بولا میری بیوی میری غیر موجودگی میں وفا دار نہیں رہی تھی
میں نے کہا تمہیں یہ بات کس نے بتای کہ تمہاری بیوی بے وفای کی مرتکب ہوی ہے ؟ وہ بولا مجھے یہ بات میرے دوست نے بتای میں نے پوچھا کیا نام ہے تمہارے اس دوست کا ؟
وہ بول سجاول ! میں نے کہا سجاول نے تمہیں جو کہا تم نے اس پر یقین کر لیا وہ بولا جناب بات ہی ایسی تھی لیکن اللہ کا شکر ہے کہ میری ماں نے میری غلط فہمی دور کر دی ورنہ میں تو میں نے اس کی بات کاٹتے ہوے کہا سکندر علی یہ کہانی نہیں چلے گی
میں نے سنا ہے کہ جھگڑا کرتے وقت تم نے اپنی بیوی کو قتل کی دھمکی بھی لگای تھی وہ بولا وہ تو جی میں نے اسے ڈرانے دھمکانے کے لیے کہا تھا ورنہ میرا ارادہ تو یہ تھا کہ اس جیسی بد کردار عورت اپنی زندگی سے ہی نکال دوں گا میں نے کہا اور پھر تم نے صبح ہوتے ہی اس سے چھٹکارہ حاصل کر لیا
وہ رونے والے انداز میں بولا آپ کو میری بات پر یقین کیوں نہیں آتا میں نے اسے ڈانٹتے ہوے کہا شرافت سے اپنے جرم کا اقرار کر لو اور بتا دو تم نے راحت کو کس طرح قتل کیا ہے؟ وہ دونوں ھاتھ جوڑ کر بولا تھانیدار صاحبمیں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ میں نے اپنی بیوی کو قتل نہیں کیا میں تو بلکل بے گناہ ہوں میں نے اپنی ماں کی بات پر یقین کر لیا تھا ماں نے مجھے سجاول کا اصلی چہرہ دکھا دیا تھا راحت کی طرف سے میرے دل میں جو غصہ تھا وہ بلکل ختم ہو گیا تھا اور میرا دل صاف ہو گیا تھا
اور ماں نے ہم دونوں کے بیچ صلح بھی کروا دی تھی اور پھر صلح کے بعد ہم میاں بیوی نے ازدوجی تعلق بھی قاٸم کیا تھا
پھر میں نے سوالات کا زاویہ بدل لیا اصل بات یہ تھی کہ جب تک پوسٹمارٹم کی رپورٹ نہ آ جاتی تب تک کوی بھی حتمی بات نہیں کہی جا سکتی تھی
تاہم مجھے پکا یقین تھا کہ قتل تو ضرور ہوا ہے اور قاتل ان تینوں میں سے کوی ایک ہے
میں نے سکندر سے پوچھا یہ بتاو تمہارا کراے دار ماسڑ یونس کیسا آدمی ہے وہ بولا میں اس کے بارے میں کچھ نہیں جانتا اسے میری غیر موجودگی میں رکھا گیا تھا
سکندر نے مزید کہا صبح جب ماں کے ساتھ ہسپتال گیا تو میں نے ماں سے کہہ دیا تھا کہ وہ جلدازجلد ماسڑ یونس سے بیٹھک خالی کروالے
میں نے اس سے پوچھا صبح تم لوگ کتنے بجے گھر سے نکلے تھے سکندر نے بتایا کہ وہ صبح سات بجے کے قریب گھر سے نکلے تھے میں نے پوچھا صبح جب تم گھر سے روانہ ہوے تو اس وقت ماسڑ یونس گھر پر ہی تھا ؟
سکندر نے کہا نہیں جناب وہ اس وقت کارخانے جا چکا تھا میں نے سوالات کا سلسلہ جاری رکھتے ہوے کہا تم ماں بیٹے صبح صبح گھر سے نکل گیے گھر میں تمہاری بیوی اکیلی تھی تمہیں اس بات کا کوی خیال نہیں آیا خصوصأ اس صورت حال میں بھی کہ تمہیں سجاول کی کمینگی کا بھی علم ہو چکا تھا وہ بولا ماں کی آنکھیں چیک کروانا بھی ضروری تھا میں نے کہا تم راحت کو ساتھ بھی تو لے جا سکتے تھے وہ بولا اس طرف میرا دھیان ہی نہیں گیا
میں نے کہا اس وقت اگر تمہارا دھیان اس طرف چلا جاتا تو راحت آج زندہ ہوتی !
سکندر نے کہا شاٸد اللہ کی یہی مرضی تھی میں نے زرا نرم لہجے میں کہا جب تک ہسپتال سے راحت کی لاش اور پوسٹ مارٹم رپورٹ نہیں آ جاتیاور میں کسی واضح نتیجے پر نہیں پہنچ جاتا تم تھانے میں ہی رہو گے
وہ مسکین صورت بنا کر بولا یہ تو میرے ساتھ بہت زیادتی ہو گی جناب گھر میں ماں اکیلی ہے
کمرے میں موجود کانسٹیبل نے اس کی طرف بڑھتے ہوے کہا اوے اماں کے گھوڑے ! تین سال تک تم کہاں تھے اس وقت تمہیں بے بےیاد نہیں آی اس کے اکیلے پن کا خیال نہیں آیا اب لگے ہو محبت جتانے !
میں نے کہا سکندر علی تم فضل بی بی کی طرف سے بے فکر رہو ہنستا بستا محلہ ہے اسے کچھ نہیں ہو گا
پھر میری ہدایت پر کانسٹیبل سکندر کو وہاں سے لےگیا
تھوڑی دیر بعد حوالدار کرم داد سجاول کو لے آیا سجاول کی حالت کافی بدل چکی تھی
سجاول میرے سامنے آتے ہی رونے لگا تھانیدار صاحب انہوں نے مجھے بہت مارا ہے
حوالدار نے غصے سے کہا اوے کھوتے دے پتر اگر ہم نے تمہیں مارا ہوتا تو تو مر نہ گیا ہوتا
میں نے سجاول کی منت سماجت کو نظر انداز کرتے ہوے سوالات کا سلسلہ وہیں سے شروع کیا یہاں منقطع ہوا تھا
میں نے پوچھا اب بتاو راحت نے تمہارے منہ پر کیوں تھوکا تھا سجاول بولا جناب او بڑی اتھری رن تھی زرا غصہ کھا گٸ تھی میں نے کہا یہ بھی بتاو کس بات پر غصہ کھا گٸ تھی وہ بولا رب دی سوں تھانیدار صاحب میرا کوی قصور نہیں تھا بھلا کسی سے محبت کرنا کوی گناہ ہے ؟
وہ مجھے بہت اچھی لگتی تھی میں چپکے چپکے اسے چاہنے لگا تھا اور بس !
میں نے سخت لہجے میں کہا جسے چاہا جاتا ہے اس کا راستہ بدمعاشوں کی طرح نہیں روکا جاتا
وہ بولا جناب میں تو کوی بدمعاشی نہیں دکھای تھی میں نے تو شرافت سے اسے دل کی بات کہی تھی
میں نے دھاڑ کر کہا تماری شرافت کو تو میں اس طرح نچوڑ دوں گا کہ تمہیں خواب میں نانی اور دادی نظر آ جاییں گی
میں نے اس سے پوچھا کیا یہ سچ ہے کہ جب راحت نے تمہیں راستہ چھوڑنے کے لیے کہا تو تم نے نہایت بے حودگی سے اسے سینے سے لگ جانے کی فرماٸش کی تھی
اس نے کچھ کہنے کے لیے منہ کھولا ہی تھا کہ میں نے حولدار کو اشارہ کیا اور کہا اب اگر یہ جھوٹ بولے تو اس کا کچومر نکال دینا
میرے اشارے کا خاطر خواہ اثر ہوا وہ بولا جناب میں دل کے ھاتھوں مجبور ہو گیا تھا میں بہت شرمندہ ہوں جناب
میں نے اس سے کہا کیا یہ بھی سچ ہے کہ تم نے راحت سے کہا کہ اگر ماسڑ یونس سے چھپ چھپ کر مل سکتی ہو تو مجھ میں کیا کمی ہے ؟
وہ بولا مجھے معاف کر دیں جناب مجھ سے بہت سخت غلطی ہو گٸ تھی
میں نے کہا ایک طرف تم سکندر علی کو اپنا دوست اور بھای کہتے ہو اور دوسری طرف اس کی عزت سے چھیڑ چھاڑ بھی کرتے ہو ایسا کرتے ہوے تمہیں زرا شرم حیا نہیں آی ؟
وہ گلو گیر آواز میں بولا میری آنکھوں پر شیطان نے پٹی باندھ دی تھی حوالدار نے گرج کر کہا اوے شیطان کی اولاد تمہاری پٹی تو اب ہم کھولیں گے زرا تم تھانیدار صاحب سے فارغ ہو جاو
میں نے کہا جب تم نے راحت کے ساتھ بد تمیزی کی تھی تو اس نے جوابأ کیا طرز عمل اختیار کیا تھا
وہ ندامت سے بولا اس نے مجھے جھڑکا تھا اور گالیاں بھی دی تھیں اور برا بھلا بھی کہا تھا اور پھر جاتے جاتے میرے منہ پر تھوک دیا تھا
(جاری ہے )
Note ye crime story hamare YouTube channel per bhi upload ho rahi hai agar aap video mein dekhna Pasand karte Hain to visit our channel
@urduanokhekhaniyan