خود کشی یا قتل قسط نمبر
خودکشی یا قتل قسط نمبر 4
ملک صفدر حیات ناول
میں نے پوچھا راحت نے سجاول کے منہ پر کیوں تھوکا تھا کیا بات ہوی تھی ؟فضل بی بی ٹھنڈی آہ بھر کا بولی بات کیا ہونی تھی جناب جس عورت کا ساییں سر پر موجود نہ ہو سجاول جیسے آوارہ بدمعاش لچے لفنگے اسے چھڑنے کے چکر میں رہتے ہیں اس خبیث نے بھی ایسی ہی کوشش کی تھی پر میری شیر جیسی دھی نے اسے منہ توڑ جواب دیا تھا
میں نے پوچھا کیا سجاول نے راحت سے کوی بد تمیزی کی تھی ؟ فضل بی بی نے کہا وہ تو ہے ہی ذلیل آدمی اس سے کسی اچھی بات کی توقع بھلا کیا کی جا سکتی ہے
وہ حرام زادہ گاہے بگاہے راحت سے چھیڑ چھاڑ کرتا رہتا تھا
راحت اس کی حرکتوں سے مجھے آگاہ کرتی رہی
میں نے اپنے تاییں اس کانے سور کو سمجھانے کی کوشش کی مگر وہ بدذات سمجھنے کی بجاے ڈھٹای پر اتر آیا
ایک روز وہ راحت کا راستہ روک کر کھڑا ہو گیا میں نے راحت سے کہہ رکھا تھا کہ وہ کسی بھی موقع پر اس کی حوصلہ افزای نہ کرے بلکہ بری طرح دھتکار دے
جب اس نے راحت کا راستہ روکا تو راحت نے غصے سے کہا ہٹ جاو میرے راستے سے ! لیکن وہ ہٹ دھرمی سے بولا کیسے ہٹ جاوں تم پر دل بے ایمان ہو گیا ہے ایک بار سینے سے لگ جاو پھر ہٹ جاوں گا تمہارے راستے سے
راحت نے بپھرے ہوے انداز میں اس سے کہا تمہیں شرم نہیں آتی پرای عورتوں کو چھیڑتے ہوے
اس نے کہا جب تمہیں کوی شرم و حیا نہیں تو میں تو پھر مرد ہوں راحت نے اس سے کہا لعنت ہے ایسی مردانگی پر کہیں ڈوب مرو
تو اس نے راحت سے کہا مجھے غصہ دلانے کی کوشش نہ کرو ورنہ مجھ سے برا کوی نہ ہو گا راحت نے کہا ویسے بھی تم سے برا کوی ہو بھی نہیں سکتا !
وہ راحت کی بات کا برا مناے بغیر بولا آخر تمہیں مجھ میں کیا کمی نظر آتی ہے راحت بولی مجھ سے زیادہ فری ہونے کی کوشش نہ کرو ورنہ ابھی شور مچا کر پورا محلہ اکھٹا کر لوں گی وہ ڈھٹای سے بولا ماسڑ یونس میں ایسے کون سے سرخاب کے پر لگے ہیں جو مجھ میں نہیں ہیں
یہ سن کر راحت کے تن بدن میں آگ لگ گٸ اس نے آو دیکھا نہ تاو فورأ سجاول کے منہ پر تھوک دیا
اس سے پہلے کہ وہ سنبھل پاتا راحت وہاں سے چلی آی
وہ دن ہے اور آج کا دن سجاول راحت کا پکا دشمن بن گیا تھا مجھے تو لگتا ہے کہیں اسی شیطان نے تو کوی اوچھا وار نہیں کر دیا
میں نے کہا یہ سب تم نے مجھے پہلے کیوں نہیں بتایا میں نے تم سے پوچھا بھی تھا کہ راحت کی کسی سے کوی دشمنی تو نہیں
وہ ماتھے پر ھاتھ مارتے ہوے بولی پریشانی میں میرا اس طرف دھیان ہی نہیں گیا جناب آپ نے اس کا زکر کیا تو مجھے اس کا خیال آیا
فضل بی بی نے جو اندیشہ ظاہر کیا تھا اس کے پیش نظر سجاول کی ذات مشکوک ہو چکی تھی البتہ راحت کے شوہر سکندر علی اور کراے دار ماسڑ یونس کو بھی شک سے باہر نہیں سمجھا جا سکتا تھا
میں نے فورأ حولدار کو ہدایت کی کہ وہ سجاول کو تھانے لے جاے اور اسے حوالات میں بند کر دے باقی باتیں اس سجاول سے تھانے میں ہی ہوں گیں
میں نے اسے تاکید کر دی کہ تھانے پہنچ کر وہاں سے دو کانسٹیبوں کو یہاں بھیج دے
حوالدار کے جانے کے بعد میں نے محلے ہی کے ایک متعبر آدمی کو ماڑس یونس کے کارخانے کا پتہ سمجھا کہا کہ وہ فورأ ماسڑ کو بلا لاے اور ساتھ ہی اسے یہ سمجھایا کہ ماسڑ کو راحت والے واقعے کے بارے میں کچھ بھی نہ بتاے بلکہ اگر وہ پوچھے تو اسے صرف یہ کہے کہ فضل بی بی کی طبعیت اچانک خراب ہو گٸ ہے
وہ آدمی جب وہاں سے روانہ ہو گیا تو میں ایک بار پھر فضل بی بی کے پاس آ گیا اور اس سے پوچھا تم نے مجھے بتایا تھا کہ سجاول نے راحت اور ماسڑ یونس کے بارے میں کچھ الٹی سیدھی باتیں سکندر کو بتای تھیں جن کو سن کر وہ کافی برہم ہوا تھا
میں نے مزید کہا مجھے پتہ چلا ہے کہ کل رات دونوں میاں بیوی کے درمیان اچھا خاصا جھگڑا بھی ہوا تھا
میری بات سن کر فضل بی بی گڑ بڑا گٸ اور بولی میں نے آپ کو بتایا ہے ناں !
سکندر سجاول کی باتوں میں آ گیا تھا پر میں نے بعد میں سب کچھ ٹھیک ٹھاک کر لیا تھا
میں نے اندھیرے میں تیر چھوڑتے ہوے کہا مجھے یہ بھی پتہ چلا ہے کہ سکندر نے طیش کے عالم میں راحت کو قتل کی دھمکی بھی دی تھی
فضل بی بی بیٹے کی طرف داری کرتے ہوے بولی سکندر دراصل اس وقت بہت غصے میں تھا اور آپ کو تو پتہ ہی ہے کہ غصے میں انسان کے منہ سے کچھ بھی نکل جاتا ہے
پر اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ ایسا لازمی کرے گا
میرا اندھیرے میں چھوڑا گیا تیر نشانے پر لگ گیا تھا
میں چبھتے ہوے لہجے میں کہا تو اس کا مطلب ہے سکندر نے واقعی راحت کو قتل کی دھمکی دی تھی
وہ جلدی سے بولی اس شدین ( پاگل ) کو رب جانے کیا ہو گیا تھا کہ سکندر کے سامنے بلکل گونگی بہری بن گٸ تھی
سکندر اس سے سوال پر سوال کر رہا تھا پر راحت نے تو جیسے چپ شاہ کا روزہ رکھ لیا تھا
جبکہ راحت کو چاہیے تھا کہ وہ سجاول کے کرتوت کھل کر اپنے خاوند کو بتاتی مگر اسے تو جیسے سکتہ ہو گیا تھا
راحت کی خاموشی سے سکندر نے یہی مطلب نکالا کہ یقینأ اسے سجاول نے جو بتایا ہے وہ سچ ہے
بار بار پوچھنے پر بھی جب راحت کی زبان نہ کھلی تو سکندر نے اس کے بال مٹھی میں جکڑ لیے اور چلا کر بولا میں تیرے یار کا نام تیری زبان سے سننا چاہتا ہوں جلدی بول نہیں تو میں بہت برا پیش آوں گا
مگر راحت بد دستور خاموش رہی اس کی خاموشی ایک بپھرے ہوے خاوند کے غصے کو ہوا دے رہی تھی
وہ غصے سے بولا زبان کھول نہیں تو میں تمہیں زندہ نہیں چھوڑوں گا ابھی تیرے ٹکڑے ٹکڑے کر کے صحن میں دبا دوں گا کسی کو کانوں کان خبر نہ ہو گی
راحت کی زبان پھر بھی بند رہی مگر آنکھوں نے بولنا شروع کر دیا تھا وہ ٹپ ٹپ آنسو بہا رہی تھی سکندر کا غصہ بڑھتا ہی جا رہا تھا سکندر نے راحت سے کہا تم کیا سمجھتی ہو یہ آنسو بہا کر تم سچی بن جاو گی نہیں میں آج تمہارا فیصلہ کر کے ہی چھوڑوں گا میں تمہاری خاطر پردیس میں دن رات محنت مزدوری کرتا رہا اور تو یہاں یاریاں لگاتی رہی جلدی بتا اپنے یار کا نام ورنہ پہلے میں تیرا پیٹ پھاڑوں گا اور پھر تیرے ٹوٹے کروں گا
جب کسی طور سکندر کا غصہ ٹھنڈا ہونے میں نہ آیا اور راحت نے بھی اپنی بے گناہی ثابت کرنے کے لیے زبان نہ کھولی تو میں نے ساری صورت حال سکندر کو بتا دی میری پوری بات سننے کےبعد وہ ہوش میں آ گیا صبح تک سب کچھ ٹھیک ٹھاک ہو چکا تھا
فضل بی بی کی بات ختم ہوی تو میں نے پوچھا یہ سارا ہنگامہ گزشتہ رات کو ہوا تھا ؟ اس نے اثبات میں سر ہلایا میں نے کہا ماسڑ یونس بھی اس وقت یقینأ گھر میں ہی موجود ہو گا اور اس نے بھی یہ ساری آوازیں سنی ہوں گیں فضل بی بی نے کہا ظاہر ہے ایک گھر میں رہتے ہوے اس نے بھی یہ سب کچھ ضرور سنا ہو گا
میں نے کہا تو کیا ماسڑ یونس نے اس بارے میں تم سے کچھ پوچھا نہیں ؟
وہ بولی صبح اٹھ کر پوچھا تھا مگر میں اسے کہا کہ ابھی تو میں ہسپتال جا رہی ہوں واپس آ کر بتاوں گی اور وہ میرا جواب سن کر کارخانے چلا گیا تھا
میں نے پوچھا وہ تمہارا جواب سن کر مطمن ہو گیا تھا ؟
وہ عجیب سے لہجے سے بولی پتہ نہیں میری بات سن کر وہ خاموش ہو گیا بولا کچھ نہیں تھا
میں نے مزید دو چار سوالات کے بعد فضل بی بی کو فارغ کر دیا اسی دوران تھانے سے دو کانسٹیبل پہنچ گیے
میں نےان میں سے ایک کی ڈیوٹی لگای کہ وہ راحت کی جلی ہوی لاش کو پوسٹمارٹم کے لیے ہسپتال لے جاے
میری بات سنتے ہی سکندر علی بول اٹھا تھانے دار صاحب کچھ خدا کا خوف کریں اب اس بیچاری میں بچا ہی کیا ہے جس کا آپ پوسٹمارٹم کرایں گے
میں نے اس کی آنکھوں میں جھانکتے ہوے کہا تمہیں کیوں پریشانی ہو رہی ہے
وہ بولا پریشانی کی بات تو ہے جناب پہلے کیا اس کے ساتھ کم زیادتی ہوی ہے جو اب آپ اس کی چیر پھاڑ بھی کرایں گے میں نے بددستور اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوے کہا سچ اگلوانے کے لیے تو ہم زندہ انسانوں کی بھی چیر پھاڑ کرنے سے دریغ نہیں کرتے تم کس کھیت کی مولی ہو
وہ میرے اس جملےکے آخری الفاظ پر چونک گیا اور بولا یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں جناب
میں نے کہا تم پوسٹمارٹم کو وی معمولی چیز نہ سمجھو راحت کی جلی لاش بھی بہت سے رازوں سے پردہ اٹھاے گی پھر دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہونے میں زرا بھی دیر نہیں لگے گی
( جاری ہے )
نوٹ یہ کرائم سٹوری ہمارے یوٹیوب چینل پر بھی اپلوڈ ہورہی ہے اگر آپ اس کو ویڈیو میں دیکھنا پسند کرتے ہیں تو نیچے ھمارے چینل کی لنک پر کلک کریں
https://www.youtube.com/@Urduanokhekhaniya