خود کشی یا قتل قسط نمبر 5
سکندر بیزاری سے بولا پتہ نہیں آپ کیسی باتیں کر رہے ہیں میرے تو کچھ پلے نہیں پڑ رہا میں نے سر کو اوپر نیچے حرکت دیتے ہوے کہا ابھی تو میں نے تم سے کوی بات کی ہی نہیں ہے بھولے بادشاہ تمہارے پلے کیا خاک پڑے گا ؟
سکندر نے پوچھا آپ کا کہنے کا مطلب کیا ہے ؟
میں نے کہا مطلب تو تمہیں تھانے جا کر ہی پتہ چلے گا
تھانے ؟ وہ حیرت آمیز لہجے میں بولا میں تھانے کیوں جاوں گا ؟
میں نے ایک ایک لفظ پر زور دے کر کہا تھانے تو تمہیں جانا ہی پڑے گا کیونکہ تمہارا عزیز از جان جگری دوست سجاول تھانے پہنچ چکا ہے اب تمہاری باری ہے اور تمہارے بعد ماسڑ یونس کا نمبر ہے
اب ہم تھانے میں بیٹھ کر آرام سے باتیں کریں گے کیا خیال ہے تمہارا ؟
وہ غصے سے بولا ایک تو میری بیوی جل کر ہلاک ہو گٸ الٹا آپ مجھے ہی تھانے لے جانا چاہتے ہیں
میں نے کہا جل کر ہلاک نہیں ہوی بیوقوف بلکہ ہلاک ہونے کے بعد جلی ہے
سکندر نے کہا میں سمجھا نہیں آپ کیا کہنا چاہتے ہیں
میں نے اسے موقع کی تفصیلات بتانے کے بعد کہا راحت کو باقاعدہ قتل کیا گیا ہے وہ بے یقینی سے بولا قتل ؟
کس نے قتل کیا ہے راحت کو ؟ میں نے کہا تم تینوں میں سے کسی ایک نے !
سکندر بولا میں تو صبح سے ہی ماں کے ساتھ ہسپتال گیا ہوا تھا میں نے کہا دوسرے دو تو یہیں تھے
وہ دونوں ھاتھوں سے سر تھام کر بولا میرا تو سر چکرا رہا ہے اس سے اچھا تھا میں واپس ہی نہ آتا
میں نے اس سے اچانک پوچھا کل رات تم نے اپنی بیوی کو قتل کی دھمکی بھی دی تھی ؟
وہ گھبرا گیا اور بولا وہ تو جی بس وقتی اشتعال تھا صبح تک سب ٹھیک ہو گیا تھا ایک لمہہ رک کر وہ بولا دراصل مجھے ایک غلط فہمی ہو گٸ تھی لیکن جلد ہی ماں نے میری وہ غلط فہمی دور کر دی تھی
میں نے کہا ایسی غلط فہمیاں اتنی جلدی دور نہیں ہوتیں
اتنی دیر میں کانسٹیبل نے لاش لے جانے کے لیے سواری وغیرہ کا انتظام کر لیا تھا وہ لاش لے کر وہاں سے روانہ ہو گیا اب موقع کی کاروای مکمل ہو چکی تھی اور میرا وہاں کوی کام نہ رہا تھا
میں نے وہاں پر موجود دوسرے کانسٹیبل سے کہا تم یہاں رکو جیسے ہی ماسڑ یونس آے تو اسے لے کر تھانے چلا آے میں سکندر کو ساتھ لے کر تھانے کی طرف روانہ ہو گیا
دوسرے دن اتوار تھا اور چھٹی تھی گزشتہ رات سکندر علی اور سجاول نے سرکاری مہمان خانے میں گزاری تھی میں انہیں رات والے عملے کے حوالے کر کے گھر چلا گیا تھا جس کانسٹیبل کو میں ماسڑ یونس کے انتظار میں جاے وقوعہ پر چھوڑ آیا تھا وہ مغرب سے کچھ دیر پہلے واپس آ گیا تھا مگر اکیلا ! ماسڑ یونس اس کے ساتھ نہیں تھا
جس شخص کو میں نے ماسڑ یونس بلانے اس کے کارخانے بھیجا تھا وہ وہاں سے یہ خبر لایا تھا کہ وقوعہ کے روز ماسڑ یونس کارخانے گیا ہی نہیں تھا
ماسڑ یونس کے متعلق یہ اطلاع خاصی اہم تھی فضل بی بی نے بتایا تھا کہ ہسپتال روانہ ہونے سے پہلے ماسڑ یونس کارخانے چلا گیا تھا اب سوال یہ تھا کہ اگر وہ کارخانے نہیں گیا تھا تو کہاں گیا تھا ؟ یہ سوال بہت اہم تھا
میں نے فورأ اپنے اے ایس آی کو اس ٹیکسٹاٸل کا پتہ سمجھا کر روانہ کر دیا میں نے اسے تاکید کی کہ وہ فیکڑی کے منشی یا منیجر سے مل کر ماسڑ یونس کے بارے میں مکمل معلومات حاصل کرے اور اس کا اتا پتہ بھی معلوم کر کے آے اے ایس آی کے جانے کے بعد میں نے سجاول کو اپنے کمرے میں بلا لیا
فضل بی بی نے مجھے بتایا تھا کہ وہ ماسڑ یونس کے گھر کے پتے سے واقف نہیں ہے اس صورت میں ماسڑ کی ذات پر شک اور گہرا ہو گیا تھا
ایک کانسٹیبل سجاول کو لے کر آیا وہ آتے ہی میرے سامنے کرسی پر بیٹھنے لگا تو کانسٹیبل نے اسے کالر سے پکڑ کر سیدھا کھڑا کر دیا اور کہا اوے لاٹ صاحب کے پتر یہ تمہاری خالہ کا واڑہ نہیں ہے تھانہ ہے الف کی طرح سیدھا کھڑا رہ ! ورنہ مار مار کر باندر بنا دوں گا
سجاول نے سہمی ہوی نظروں سے میر طرف دیکھا اور بولا غلطی ہو گٸ جناب !
میں نے نرم لہجے میں کہا رات کیسی گزری سجاول کوی تکلیف تو نہیں ہوی ؟ وہ بولا کوی تکلیف نہیں ہوی صاحب مگر آپ سے درخواست ہے کہ آپ میری یہ ہتھکڑی کھلوا دیں میں نے اس کے چہرے کو گھورتے ہوے کہا یہ ہتھکڑی تو اب اس وقت کھلے گی جب تم کو پھانسی کے پھندے کی طرف لے جایا جاے گا
وہ رونے والے انداز میں بولا جناب میرا قصور کیا ہے ؟
میں نے کہا تمہارا سب سے بڑا قصور یہ ہے کہ تم نے مجھ سے جھوٹ بولا قانون کو دھوکہ دینے کی کوشش کی
وہ بولا میں نے کوی جھوٹ نہیں بولا سرکار آپ کو سب کچھ سچ سچ بتایا ہے زرا بھی غلط بیانی نہیں کی
میں نے اس سے پوچھا کیا یہ بات سچ ہے کہ راحت چھپ چھپ کر ماسڑ یونس سے ملتی رہتی تھی
اس نے کہا جی ھاں میں نے خود کٸ بار انہیں آپس میں بات چیت کرتے دیکھا ہے
میں نے کہا یہ کوی انوکھی بات نہیں ماسڑ یونس ان کے گھر پر رہتا تھا ایسے میں بات چیت ہونا تو لازمی بات ہے وہ بولا مگر ان کے درمیان دوسری قسم کی بات چیت ہوتی تھی میں نے اس سے پوچھا تمہیں راحت سے کیا دشمنی تھی وہ چونک کر بولا میری بھلا راحت سے کیا دشمنی ہو سکتی ہے وہ تو میرے دوست کی عزت تھی میں تو راحت کی طرف سے پریشان تھا
میں نے اس سے کہا میں فضل بی بی سے تمہارے بارے میں ایک نٸ کہانی سن کر آیا ہوں اس نے پوچھا خالہ نے آپ کو کیا بتایا ہے وہ ایک دم سے پریشان نظر آنے لگا تھا
میں نے اب اگر تمہاری زبان سے ایک لفظ بھی جھوٹ نکلا تو سمجھ لینا تمہاری خیر نہیں میں نے کہا تم مجھے یہ بتاو کہ راحت نے تمہارے منہ پر کیوں تھوکا تھا
وہ کمزور سی آواز سے بولا یہ سب جھوٹ ہے میں نے دیکھا کہ میرا یہ سوال سن کر وہ لرزنے لگا تھا
میں نے حوالدار سے کہا اسے لے جاو وہ چلانے لگا رحم کرو سرکار رحم وہ چلاتا رہا حوالدار اسے حوالات میں لے گیا
تھوڑی دیر بعد میں راحت کے شوہر سکندر علی کو بلا لیا سکندر میرے کمرے میں آیا تو اس کے چہرے پر برہمی کے آثار واضح طور پر نظر آ رہے تھے
میں نے کرسی کی جانب اشارہ کرتے ہوے کہا بیٹھ جاو سکندر علی !
کرسی پر بیٹھنے کے بعد اس نے شکایتی لہجے میں کہا تھانے دار صاحب آپ نے میرے ساتھ بڑی زیادتی کی ہے میں نے پوچھا وہ کیسے ؟
وہ بگڑ کر بولا ایک تو میری جان سے گٸ الٹا مجھے ہی تھانے میں بند کر دیا
میں نے کہا مجھے تم کو یہاں رکھنے کا کوی شوق نہیں ہےاگر تم چاہو تو یہاں سے جا سکتے ہو یہ تو تمہارے اپنے ھاتھ میں ہے
وہ الجھن آمیز حیرت سے مجھے تکنے لگا میں نے کہا اس میں حیران ہونے کی کوی بات ہے تم واقعی جا سکتے ہو پر تمہیں کرنا یہ ہے کہ میرے سوالوں کا تسلی بخش دے دو اور جاو
اس نے کہا میں آپ کے ہر سوال کا جواب دے تو چکا ہوں میں نے کہا میں نے تسلی بخش جواب کی بات کی ہے وہ بولا آپ کی تسلی کس طرح ہو گی
میں نے اس کی طرف دیکھتے ہوے کہا تم سچ اگل دو تو میں مطمن ہو جاوں گا
( جاری ہے )