![]() |
حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بیٹے کی قربانی مکمل واقعہ |
پیارے دوستو حضرت ابراہیم علیہ السلام وہ پیغمبر تھے جن سے اللہ تعالی نے بہت بڑی بڑی قربانیاں لیں نمرود نے انہیں آگ میں جلانے کی کوشش کی مگر اللہ نے انہیں سلامت اس آگ سے باہر نکال لیا جب حضرت ابراہیم اپنے گھر واپس لوٹے تو ان کے والد نے ان سے کہا اے ابراہیم اگر تم اپنے اللہ کو نہیں چھوڑتے تو میرے گھر سے نکل جاؤ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بنا کسی شکوہ کے اپنا گھر چھوڑ دیا اور مصر کی جانب روانہ ہو گئے جب مصر کے بادشاہ کو یقین ہو گیا کہ ابراہیم اللہ کے نبی ہیں تو اس نے اپنی بیٹی حضرت ہاجرہ کا نکاح ابراہیم سے کر دیا اس کے بعد حضرت ابراہیم اپنی بیوی ہاجرہ کو لے کر فلسطین چلے گئے اور وہیں رہنے لگے حضرت ابراہیم کی کوئی اولاد نہیں تھی تو وہ دن رات اللہ سے دعا کرتے رہتے اے میرے رب مجھے ایک نیک اور فرمانبردار بیٹا عطا فرما سالوں گزرتے گئے لیکن بیٹا نہیں ہوا عمر بھی ڈھلتی چلی گئی مگر دل میں امید باقی رہی 84 سال کی عمر میں بھی وہ اللہ سے یہی التجا کرتے رہے اے اللہ میں تیری رحمت سے مایوس نہیں ہوں مجھے ایک بیٹا عطا کر جو بڑھاپے میں میرا سہارا بنے۔
آخر کار اللہ نے ان کی دعا قبول فرما لی 84 سال کی عمر میں حضرت ابراہیم کو ایک پیارا سا بیٹا عطا ہوا انہوں نے اس کا نام اسماعیل رکھا آپ اندازہ لگائیے ایک باپ جس نے 84 سال کی عمر میں بیٹا پایا ہو اس کی محبت اس بیٹے سے کتنی ہوگی وہ ہر وقت اسے سینے سے لگائے رکھتے چومتے کندھوں پر بٹھا کر بازاروں میں پھراتے اس کے ساتھ کھیلتے اور ہنسی مذاق کرتے ابھی بیٹے کی پیدائش کو ایک ہفتہ بھی نہیں گزرا تھا کہ حضرت جبرائیل علیہ السلام ابراہیم کے پاس آئے اور کہا اے اللہ کے نبی اللہ کا حکم ہے کہ اپ اپنی بیوی اور بچے کو خود سے جدا کر دیں یہ سن کر حضرت ابراہیم کا دل کانپ گیا بولے اے جبرائیل میں اپنی بیوی اور بچے کو کہاں چھوڑوں جبرائیل علیہ السلام نے جواب دیا جہاں اللہ حکم دے گا میں وہاں لے جاؤں گا کل صبح انسانی شکل میں اونٹ پر اؤں گا اپ اپنی بیوی اور بچے کو تیار رکھنا اور میرے پیچھے چلنا اگلی صبح حضرت جبرائیل اونٹ پر سوار ہو کر آئے ابراہیم علیہ السلام نے بھی اپنی بیوی ہاجرہ اور بیٹے اسماعیل کو اونٹ پر بٹھایا اور
خود بھی اونٹ پر سوار ہو گئے جبرائیل کا اونٹ آگے آگے ابراہیم کا اونٹ پیچھے پیچھے چلتا رہا وہ فلسطین سے چلے شہر در شہر گزرے ہفتے مہینوں میں بدلتے گئے اور ایک مہینے کے سفر کے بعد عرب کی سرزمین پر پہنچے اس وقت عرب ویران تھا نہ کوئی انسان نہ پرندہ جبرائیل کا اونٹ کالے سنسان پہاڑوں کے درمیان چلتا رہا اخر کار چار اونچے پہاڑوں کے بیچ ایک وادی میں پہنچے جہاں آج کعبہ موجود ہے لیکن اس وقت وہاں دور دور تک کوئی نہیں تھا جبرائیل نے اونٹ روکا اور کہا اے ابراہیم اللہ کا حکم ہے کہ اپ اپنی بیوی اور بیٹے کو یہیں اتار دیں اور خود واپس چلے جائیں یہ سنتے ہی حضرت ابراہیم علیہ السلام کا دل کانپ اٹھا وہ وہی ابراہیم تھے جو اگ میں پھینکے جانے پر بھی خاموش کھڑے رہے تھے اور صرف اتنا کہا تھا میرا رب میرے لیے کافی ہے مگر آج جب جبرائیل علیہ السلام نے انہیں کہا کہ اپنی بیوی اور بچے کو اس سنسان جگہ پر چھوڑ دو تو ابراہیم علیہ السلام بے چین ہو اٹھے بولے اے جبرائیل یہ تم کیا کہہ رہے ہو یہاں تو نہ پانی ہے نہ کھانا میرے بیوی اور بچے یہاں کیسے زندہ رہیں گے جبرائیل علیہ السلام نے جواب دیا اے اللہ کے نبی یہی اللہ کا حکم ہے اپ انہیں یہیں چھوڑ دیجئے اور فلسطین لوٹ جائیے اتنا کہہ کر جبرائیل چلے گئے اور ابراہیم علیہ السلام رہ گئے اپنی بیوی اور بچے کو حسرت سے دیکھتے ہوئے انہوں نے اسماعیل کو گود میں اٹھایا سینے سے لگایا اور ان کی آنکھوں سے انسو بہنے لگے شاید دل میں یہ خیال آیا ہو کیا میں اب اس بچے سے جدا ہو رہا ہوں پتہ نہیں پھر کبھی اسے دیکھ پاؤں گا یا نہیں انہوں نے جلدی سے لکڑیاں اکٹھا کر کے ایک چھوٹی سی جھونپڑی بنائی اور اپنی بیوی اور بیٹے کو اس میں بٹھا کر اونٹ پر سوار ہوئے اور فلسطین کی اور چل پڑے شوہر کو جاتے دیکھ حضرت ہاجرہ دوڑتی ہوئی پیچھے آئیں روتی ہوئی بولی آپ مجھے اس ویران وادی میں چھوڑ کر کہاں جا رہے ہیں یہاں تو نہ کھانا ہے نہ پانی میں اور میرا بچہ یہاں کیسے زندہ رہیں گے ہم تو مر جائیں گے ابراہیم علیہ السلام کچھ جواب دینے ہی والے تھے کہ جبرائیل پھر ائے اور بولے اے اللہ کے نبی آپ کو حکم ہے کہ بیوی کو کوئی جواب نہ دیں بس خاموشی سے فلسطین لوٹ جائیں دوستوں سوچیے اس بوڑھے باپ کا درد جسے 84 سال کی دعاؤں کے بعد ایک بیٹا ملا انکھوں کی ٹھنڈک دل کا سکون اور اج وہ اسی بیٹے کو ایک ویران زمین پر چھوڑ کر جا رہا ہے اونٹ اگے بڑھ رہا تھا اور ہاجرہ گود میں اسماعیل کو لیے اس کے پیچھے پیچھے دوڑ رہی تھیں روتے ہوئے پوچھ رہی تھی آپ ہمیں کیوں چھوڑ کر جا رہے ہیں میں اپ کے بغیر اس سنسان جگہ میں کیسے زندہ رہوں گی میرا بچہ تو مر جائے گا اپ تو جانتے ہیں یہ بچہ ہمیں کتنی منتوں اور دعاؤں کے بعد ملا ہے کیا آپ ایسے ہی اسے یہاں اکیلا چھوڑ دیں گے وہ بار بار یہی سوال کرتی جا رہی تھی مگر ابراہیم علیہ السلام کو حکم تھا خاموشی اندر ایک طوفان مچا تھا دل ٹکڑے ٹکڑے ہو رہا تھا مگر ان پر تالا تھا صرف اللہ کے لیے ہاجرہ لگاتار پیچھے دوڑتی رہیں کبھی کہتی کوئی تو جواب دیجیے اتنا خاموش کیوں ہیں آپ لگ بھگ نو کلومیٹر تک وہ اپنے شوہر کے اونٹ کے پیچھے بھاگتی رہی ہر دو قدم پر دل چیر دینے والے سوال کرتی رہیں آخر جب ہاجرہ بہت تھک گئی تو ان کے دل میں ایک خیال ایا میرے شوہر تو نبی ہیں وہ کوئی کام اپنی مرضی سے نہیں کرتے کیا یہ اللہ کا حکم ہے کہ مجھے اور میرے بچے کو اس ویران جگہ میں چھوڑ دیا جائے انہوں نے رک کر پوچھا کیا اللہ نے آپ کو حکم دیا ہے کہ مجھے اور میرے بچے کو اس پتھریلی وادی میں چھوڑ دیا جائے ابراہیم علیہ السلام نے زبان سے تو کچھ نہ کہا مگر سر ہلا کر اشارہ کیا ہاں یہ اللہ کا حکم ہے اتنا سنتے ہی ہاجرہ کی آنکھوں میں آنسو تھے مگر دل میں ہمت جاگ گئی انہوں نے بلند آواز میں کہا اگر یہ اللہ کا حکم ہے تو جائیے میرا رب وہ میری اور میرے بیٹے کی حفاظت کرے گا میں اپنے رب کے لیے ہر قربانی دینے کو تیار ہوں اتنا کہہ کر وہ وہیں کھڑی رہیں اور اپنے شوہر کو جاتے ہوئے دیکھتی رہیں حضرت ابراہیم کا اونٹ دھیرے دھیرے دور ہوتا جا رہا تھا اچانک وہ ایک پہاڑ پر چڑھ کر نیچے اترا اور حضرت ہاجرہ کی نگاہ سے شوہر کا اونٹ نظروں سے اوجھل ہو گیا
بی بی ہاجرہ اسی جگہ بیٹھ گئی اور دیر تک روتی رہیں ادھر حضرت ابراہیم جب پیچھے مڑے تو اپنی بیوی نظر نہیں ائی دل بے چین ہو اٹھا آنکھیں بھر آئیں انہوں نے اپنے اونٹ کو پہاڑ کے نیچے روکا سجدے میں گر گئے اور روتے ہوئے کہا اے میرے رب تیرے ہی حکم پر میں نے اپنی بیوی اور بچے کو اس بنجر اور سنسان جگہ پر چھوڑ دیا ہے یہاں نہ پانی ہے نہ کھانا مجھے کچھ نہیں پتا کہ یہ کیسے زندہ رہیں گے مگر اے اللہ تو ہی ان کا پالنے والا ہے تو ان کی حفاظت فرما اتنا کہہ کر وہ فلسطین کی طرف روانہ ہو گئے ادھر بی بی ہاجرہ اپنے ننھے بچے اسماعیل کو گود میں اٹھا کر دھیرے دھیرے اس جھونپڑی کی طرف بڑھنے لگی جو ابراہیم علیہ السلام نے ان کے لیے بنائی تھی ہر طرف سناٹا ہی سناٹا تھا بی بی ہاجرہ کوئی عام عورت نہیں تھی مصر کے بادشاہ کی بیٹی محل کی شہزادی تھی مگر اج اللہ کی طرف سے بہت بڑا امتحان ان کے سامنے تھا وہ جھونپڑی میں پہنچی رات ہو چکی تھی خاموشی سے بچے کو گود میں لیے بیٹھ ہی رہیں چاروں طرف سیاہ پہاڑ تھے آسمان تاروں سے بھرا تھا مگر اس ویرانی میں جیسے خد آسمان بھی ان کا غم دیکھ رہا تھا چاند سوچ رہا ہوگا یہ کون عورت ہے جو ایسی سنسان جگہ میں اکیلی بیٹھی ہے کالے پہاڑ بھی حیران ہوں گے یہ کیسی مجبور ماں ہے جو اپنے بچے کو گود میں لیے تنہا بیٹھی ہے یہ علاقہ تو ایسا ہے جہاں پرندہ بھی پر نہیں مارتا ۔
نہ پانی نہ کوئی انسان تو یہ کون ہے جو یہاں بیٹھی ہے اور کیوں رو رہی ہے دوستو یہ تھی ہماری ماں بی بی ہاجرہ جنہوں نے اپنی پوری زندگی اللہ کے لیے قربان کر دی ایک عام عورت چھوٹی سی مشکل پر گھبرا جاتی ہے مگر بیوی ہاجرہ کے صبر کا کیا کہنا اکیلی ویران پہاڑوں کے بیچ اندھیری رات میں صرف اللہ پر بھروسہ کر کے بیٹھی تھیں ان کے سامنے تو صرف موت تھی وہ اسمان کو دیکھتی ہوں گی اور کہہ رہی ہوں گی یا اللہ میرے ساتھ کیا ہو گیا میں نے تو صرف تیرا کہاں مانا جب ابراہیم علیہ السلام ہاجرہ اور اپنے دودھ پیتے بیٹے اسماعیل کو مکے کے ویران علاقے میں چھوڑ کر چلے گئے تو بی بی ہاجرہ بے حد پریشان ہو گئیں سوچتی تھی اب میں یہاں اپنے اس معصوم بچے کے ساتھ کیسے زندہ رہوں گی ان کی گود میں بچہ تھا چاروں طرف ویرانی تھی کوئی انسان نہیں کوئی آواز نہیں صرف خوف اور تنہائی، بی بی ہاجرہ آسمان کو دیکھتی
آنکھوں سے انسو بہتے اور دل سے اللہ کو پکارتی یا رب میری اور میرے بچے کی حفاظت فرما میں ایک کمزور عورت ہوں اس ویران علاقے میں میرا کوئی مددگار نہیں ہے ان کے پاس ایک گھڑا تھا جس میں تھوڑا سا پانی تھا اسی پانی کو وہ خود بھی پیتی اور اپنے بچے کو بھی پلاتی مگر تین دن میں پانی ختم ہو گیا اب وہ پریشان ہو گئیں اب میرے بچے کو پانی کہاں سے ملے گا انہیں پہلے سے ہی معلوم تھا کہ آ س پاس پانی کا کوئی نام و نشان نہیں ہے مگر کیا وہ اپنے پیارے اسماعیل کو پیاس سے تڑپتے ہوئے دیکھ سکتی تھی ہرگز نہیں اس لیے امید کا دامن تھامے اپنے بچے کو زمین پر لٹایا اور صفا پہاڑ پر چڑھ گئیں شاید اوپر سے کوئی پانی نظر آ جائے مگر کچھ بھی نظر نہ آیا پھر دوڑ کر مروہ پہاڑ پر چھڑی مگر وہاں بھی پانی کا نام و نشان نہیں تھا دوستو جب کسی پر مصیبت آتی ہے تو اس کا کوئی نہ کوئی اپنا ساتھ دیتا ہے مگر اج اس سخت اور پتھریلی زمین پر ایک بے بس ماں تھی اکیلی اپنے بچے کو پیاس سے تڑپتے ہوئے دیکھ رہی تھی اور اس کے لیے کچھ بھی نہیں کر پا رہی تھی بی بی ہاجرہ کی آنکھوں میں آنسو تھے وہ ادھر ادھر دوڑ رہی تھیں شاید۔
ایک قطرہ پانی مل جائے شاید اپنے پیاسے بچے کو موت سے بچا سکوں بس یہی سوچ تھی مگر ہر طرف سوکھا ہی سوکھا تھا نہ کہیں پانی نہ راحت بی بی ہاجرہ مصر کے بادشاہ کی بیٹی تھی ایک شہزادی جس نے بچپن محلوں میں گزارا تھا انہوں نے کبھی ایسے مصیبت کا سامنا نہیں کیا تھا اب وہ بار بار صفا پہاڑ کی طرف دوڑتی شاید اوپر سے کہیں پانی نظر آ جائے پھر بھاگتی ہوئی مروا پہاڑ کی طرف جاتی مگر ہر بار مایوسی ہی ہاتھ لگتی جب بیٹے کا خیال اتا تو دوڑ کر واپس جھوپڑی کی طرف جاتی دیکھنے کے لیے کہ میرا بچہ زندہ ہے یا نہیں یہ تلاش صبح سے دوپہر میں بدل چکی تھی دھوپ تیز ہوتی جا رہی تھی سورج جیسے مکہ کے پہاڑوں کو جلا رہا ہو
بی بی ہاجرہ پیاس سے بے حال تھیں اور ان کا معصوم بچہ بھی پانی کے لیے بلک رہا تھا جھون پڑی کے اندر وہ بچہ رو رہا تھا اور باہر اس کی ماں ہر طرف پانی کی تلاش میں دوڑ رہی تھی اخر کار تھک ہار کر بی بی ہاجرہ صفا پر گر پڑی اب ان کے اندر پانی کی تلاش کی بھی ہے ہمت نہیں بچی تھی موت انہیں اپنی آنکھوں کے سامنے نظر آرہی تھی دور سے بچے کے رونے کی اواز آ رہی تھی مگر اج وہ بے بس ماں کچھ کر نہیں پا رہی تھی اس بچے کی تڑپ دیکھ کر ان کی آنکھوں سے آنسوں رک ہی نہیں رہے تھے وہ بار بار اللہ سے فریاد کرتی رہیں اے اللہ میرے بچے کی حفاظت کر میں اسے اپنی انکھوں کے سامنے مرتے نہیں دیکھ سکتی میں تو یہی اس پہاڑ پر پیاس سے مر جاؤں گی اور میرا بچہ اس جھوپڑی میں تڑپ کر مر جائے گا یا رب ہم بے بس ماں بیٹوں پر رحم فرما اتنا کہہ کر انہوں نے ایک پتھر پر سر رکھا اور انکھیں بند کر لیں مگر بچے کی رلائی ابھی بھی ان کے کانوں میں گونج رہی تھی اور بھلا کوئی ماں اپنے بچے کو تڑپتا چھوڑ سکتی ہے اس لیے پریشان ہو کر پھر سر اٹھایا اور جھوپڑی کی طرف دیکھا جو نظارہ دیکھا وہ دیکھ کر ان کی جان میں جان آگئی انہوں نے دیکھا کہ جھونپڑی کے پاس کوئی انسان کھڑا ہے اور زمین سے بہت تیز پانی نکل رہا ہے حیران ہو کر دوڑتی ہوئی وہاں پہنچی مگر وہ انسان غائب ہو چکا تھا انہوں نے دیکھا کہ پانی ان کے بیٹے اسماعیل کی ایڑیوں کے پاس سے نکل رہا تھا اللہ نے اپنے نبی حضرت اسماعیل اور ان کی ماں کے لیے مکہ کی سخت زمین سے پانی نکال دیا تھا حضرت جبرائیل علیہ السلام آئے تھے انہوں نے چھوٹے اسماعیل کے دل میں یہ خیال ڈالا کہ اپنی ایڑی زمین پر مارو اور جیسے ہی اسماعیل نے ایسا کیا نیچے سے چشمہ پھوٹ پڑا۔
بعد جبرائیل چلے گئے حضرت ہاجرہ نے جب یہ دیکھا تو سجدے میں گر پڑی اور روتے ہوئے اللہ کا شکر ادا کرنے لگی انہوں نے اپنے پیاسے بچے کو پانی پلایا وہ پانی اتنی رفتار سے نکل رہا تھا کہ بی بی ہاجرہ نے مٹی اور پتھروں سے اس کے چاروں طرف ایک منڈیر بنا دی تاکہ پانی ایک جگہ ٹھہر جائے آج اسی چشمے کو زم زم کا کنواں کہا جاتا ہے زم زم کا پانی آج تک کبھی ختم نہیں ہوا بی بی ہاجرہ اپنے بیٹے اسماعیل کے ساتھ اسی جھونپڑی میں رہنے لگی وہ زم زم کا پانی پیتی اور آس پاس اگائے کھجور اور کچھ پھلوں سے اپنی زندگی گزار تی اب جب پانی آگیا تھا تو دھیرے دھیرے پھل اور راحتیں بھی وہاں پہنچنے لگیں کئی مہینے یوں ہی گزر گئے ایک دن ادھر سے 20 لوگوں کا ایک قافلہ گزرا اس قافلے کا سردار ایک سمجھدار آدمی تھا اس نے آسمان میں ایک پرندہ اڑتا دیکھا اور کہا یہ پرندہ ہمیشہ پانی کے آس پاس اڑتا ہے مگر ہم تو جب بھی ان پہاڑوں کے پاس آئے ہیں کبھی پانی نہیں دیکھا اگر یہاں پانی نہ ہوتا تو یہ پرندہ یہاں کیوں اڑتا پھر اس نے ایک آدمی سے کہا جا کر دیکھو کہیں پانی نظر آ رہا ہے وہ آدمی تھوڑی دور چلا ایک پہاڑ پر چڑھا اور سامنے دیکھا ایک چشمہ بہہ رہا تھا اور اس چشمے کے پاس ایک عورت اپنے بچے کو گود میں لیے بیٹھی تھی یہ دیکھ کر وہ ادمی بہت حیران ہوا جلدی سے جا کر اپنے سردار کو بتایا اے میرے سردار اپ کی بات بالکل سچ نکلی وہاں ایک پانی کا چشمہ بہہ رہا ہے اور ایک عورت اپنے چھوٹے بچے کو لیے اسی چشمے کے پاس بیٹھی ہے سردار کو یہ سن کر بے حد حیرانی ہوئی اس ویران سنسان علاقے میں کوئی عورت کیسے رہ سکتی ہے وہ فورا اس چشمے کی طرف گیا جب وہاں پہنچا تو دیکھا حضرت ہاجرہ اپنے ننھے بیٹے حضرت اسماعیل کو گود میں لیے چشمے کے پاس بیٹھی ہیں۔
سردار نے پوچھا اے عورت تم کون ہو حضرت ہاجرہ نے بڑی سادگی سے سب کچھ بتا دیا میں حضرت ابراہیم کی بیوی ہوں اللہ کے حکم پر انہوں نے مجھے ان پہاڑوں کے بیچ چھوڑ دیا اللہ نے ہمارے لیے زمین سے یہ پانی کا چشمہ نکال دیا ہم اسی پر زندگی بسر کر رہے ہیں سردار بہت متاثر ہوا اور بولا اے نیک عورت اگر تم اجازت دو تو ہم اپنی بیوی بچوں کے ساتھ یہاں تمہارے اس پاس گھر بنا لیں ہم یہیں بسنا چاہتے ہیں اسی چشمے کے پاس حضرت ہاجرہ نے کہا ہاں تم یہاں رہ سکتے ہو اس چشمے کا پانی بھی پی سکتے ہو مگر ایک بات کا خیال رکھنا یہ چشمہ کسی کی ملکیت نہیں ہے یہ اللہ نے جاری کیا ہے اس لیے اس پر قبضہ کرنے کی کوشش مت کرنا سردار نے وعدہ کیا اے نیک عورت تم ہماری طرف سے بالکل بے فکر رہو ہم ایسا کوئی کام نہیں کریں گے بلکہ جتنا ہو سکے گا تمہاری مدد کریں گے پھر اس قافلے کے سارے لوگ زم زم کے چشمے کے آس پاس گھر بنا کر بس گئے ادھر فلسطین میں حضرت ابراہیم اپنی بیوی اور بیٹے کو بہت یاد کرتے تھے ہر روز اللہ سے دعا کرتے یا اللہ مجھے اپنی بیوی اور بیٹے سے ملنے کی اجازت دے ایک سال یوں ہی بیت گیا مگر اجازت نہ ملی پھر ایک دن اللہ نے حضرت ابراہیم کو مکہ جانے کی اجازت دی مگر صرف اتنا کہ وہ جا کر انہیں دیکھیں اور واپس آ جائیں ٹھہرنے کی اجازت نہیں دی گئی یہ سنتے ہی حضرت ابراہیم بہت خوش ہوئے اونٹنی لی اور مکہ کی طرف روانہ ہو گئے ایک مہینے کا سفر طے کرنے کے بعد وہ اس ویران علاقے میں پہنچے جہاں انہوں نے اپنی بیوی اور بیٹے کو چھوڑا تھا جب حضرت ہاجرہ نے دور سے اپنے شوہر کو اونٹنی پر آتے دیکھا ان کی خوشی کی کوئی حد نہ رہی دوڑ کر کہا آپ جلدی سے اندر آئیے مگر حضرت ابراہیم نے فرمایا مجھے صرف کھڑے ہو کر ملنے کی اجازت ہے اونٹنی سے اترنے کی نہیں۔
یہ سن کر بی بی ہاجرہ کا دل ٹکڑے ٹکڑے ہو گیا مگر پھر بھی خود کو سنبھالا دل میں کہا میں اپنے اللہ کے لیے ہر تکلیف پر صبر کروں گی اس وقت بیوی ہاجرہ کی گود میں ان کا ایک سال کا دودھ پیتا بچہ تھا حضرت ابراہیم نے فرمایا اپنا بیٹا مجھے دے دو بی بی ہاجرہ نے فورا بچہ پکڑا دیا حضرت ابراہیم نے اپنے بیٹے اسماعیل کو گود میں لیا محبت بھری حسرت بھری نگاہوں سے اسے دیکھا ۔
اس وقت ان کی عمر 87 سال تھی 40 سال کی دعاؤں کے بعد یہ بچہ نصیب ہوا تھا مگر ملا بھی تو جدا ہونا پڑا اب اجازت ملی ہے تو صرف سال میں ایک بار اور وہ بھی کچھ لمحوں کے لیے پھر حکم ایا اے ابراہیم واپس فلسطین چلے جاؤ اپنی بیوی اور بیٹے کو اسی ویرانے میں اللہ کے سپرد کر دو وہی ان کا حافظ ہے دوستوں خود سوچیے جب حضرت ابراہیم جانے لگے تو بی بی ہاجرہ کی کیا حالت ہوئی ہوگی پورا سال شوہر کا انتظار کیا اور جب ملے
بھی تو نہ بیٹھے نہ رکے بس کھڑے کھڑے ملے اور چلے گئے اگر نہ اتے تو شاید صبر آ جاتا مگر اب یادیں پھر سے تازہ ہو گئیں دل میں آگ لگ گئی اور انکھوں سے انسو بہنے لگے وہ کھڑی تھی اس ویران وادی میں اپنے شوہر کو جاتے ہوئے دیکھ رہی تھی وقت گزرتا گیا حضرت ابراہیم فلسطین میں اور بی بی ہاجرہ اپنے بیٹے کے ساتھ اسی ویران علاقے میں زندگی گزار رہی تھی یوں ہی سات سال بیت گئے اور حضرت اسماعیل سات سال کے ہو گئے ان سات سالوں میں حضرت ابراہیم کو دوبارہ مکہ آنے کی اجازت نہیں ملی وہ دن رات اپنی بیوی اور بیٹے کو یاد کرتے ان کے لیے دعائیں کرتے سات سال بعد ایک رات انہوں نے خواب دیکھا کوئی کہہ رہا تھا اے ابراہیم اپنی سب سے قیمتی چیز اللہ کے لیے قربان کر دو یہ سن کر وہ گھبرا کر اٹھے اگلی صبح انہوں نے سو بکریاں اللہ کی راہ میں قربان کر دیں مگر دوسری رات پھر وہیں خواب ایا اے ابراہیم اپنی سب سے قیمتی چیز اللہ کے لیے قربان کر دو اس بار انہوں نے 100 اونٹ قربان کر دیے تیسری رات پھر وہی اواز ائی اب ابراہیم علیہ السلام سمجھ گئے کہ اشارہ ان کے پیارے بیٹے اسماعیل کی طرف ہے کیونکہ انہیں اس دنیا میں سب سے زیادہ محبت اگر کسی سے تھی تو اپنے بیٹے سے انہوں نے محسوس کیا کہ شاید اب میرا رب چاہتا ہے کہ میں اپنے بیٹے کو اس کی راہ میں قربان کر دوں صبح ہوئی انھوں نے ایک تیز دھار کی چھری لی اونٹنی پر سوار ہوئے اور مکہ کی طرف روانہ ہو گئے اس وقت ان کی عمر 92 سال تھی ذرا سوچیے دوستوں جس بیٹے کے لیے 40 سال دعا کی جسے بوڑھاپے میں پایا اسے گلے لگانے تک کا وقت نصیب نہیں ہوا اور جب اب ملنے کی اجازت ملی تو یہ حکم بھی ساتھ تھا
کہ جا کر بیٹے سے ملو اور پھر اسے میری راہ میں قربان کر دو اونٹنی کا ہر قدم ان کے دل پر وار کر رہا تھا ایک طرف بیٹے سے ملنے کی خوشی اور دوسری طرف یہ سوچ کہ اسی کو چھری کے نیچے لٹانا ہے ادھر اسماعیل روز اپنی امی سے پوچھتے اماں جان میرے ابا کون ہیں کب آئیں گے کیا مجھے کبھی ملے گے بی بی ہاجرہ پیار سے جواب دیتیں بیٹا پریشان نہ ہو ایک دن تیرے ابا ضرور ائیں گے اور پھر ہم سب ساتھ رہیں گے اخر وہ دن ایا حضرت ابراہیم ایک مہینے کا سفر کر کے مکہ پہنچے بی بی ہاجرہ نے جیسے ہی انہیں دیکھا خوشی سے ان کی انکھیں بھر ائی اسماعیل نے بھی اپنے ابا کو پہلی بار دیکھا اور دوڑ کر گلے لگ گئے ابراہیم نے بیوی سے کہا میرے بیٹے کو تیار کرو میں اج اسے باہر گھمانے لے جانا چاہتا ہوں بی بی ہاجرہ بہت خوش ہو گئی کہاں انہیں معلوم تھا کہ بیٹے کے نصیب میں آج قربانی لکھی ہے انہوں نے جلدی سے بیٹے کو تیار کیا اور پھر ابراہیم اسے لے کر مینا کی وادی کی طرف روانہ ہوئے اسماعیل خوش تھے ہنستے کھیلتے اپنے ابا کے ساتھ چل رہے تھے ابراہیم کبھی بیٹے کی مسکراہٹ دیکھ کر مسکراتے تو کبھی انکھیں بھر آتییں کہ میں اسے قربان کرنے جا رہا ہوں راستے میں شیطان ایک جان پہچان والے شخص کی صورت میں آیا اس نے پوچھا اے ابراہیم کہاں جا رہے ہو ابراہیم نے کہا ایک کام سے اس نے پوچھا کیا اسماعیل کو ذبح کرنے جا رہے ہو ابراہیم نے کہا کیا کبھی کسی باپ کو دیکھا ہے جو اپنے بیٹے کو ذبح کرے شیطان بولا ہاں دیکھ رہا ہوں آپ یہ
کرنے جا رہے ہو کیا اپ کو یقین ہے کہ یہ اللہ کا حکم ہے ابراہیم نے فرمایا اگر یہ میرے رب کا حکم ہے تو میں اس کی فرمانبرداری ضرور کروں گا پھر شیطان حضرت اسماعیل علیہ السلام کی امی جان حضرت ہاجرہ رضی اللہ عنہ کے پاس ایا اور ان سے پوچھا ابراہیم اپ کے بیٹے کو لے کر کہاں گئے ہیں حضرت ہاجرہ رضی اللہ عنہ نے جواب دیا وہاں اپنے کام سے گئے ہیں شیطان نے کہا کیا تم نے کبھی کسی باپ کو دیکھا ہے جو اپنے بیٹے کو ذبح کرے وہ یہ سمجھتے ہیں کہ اللہ نے انہیں اس بات کا حکم دیا ہے یہ سن کر حضرت ہاجرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا اگر ایسا ہے تو انہوں نے اللہ پاک کی فرمانبرداری کر کے بہت اچھا کیا اس کے بعد شیطان حضرت اسماعیل علیہ السلام کے پاس ایا اور انہیں بھی بہکانے کی کوشش کی لیکن انہوں نے وہی جواب دیا اگر میرے ابو جان اللہ پاک کے حکم پر مجھے ذبح کرنے کے لیے جا رہے ہیں تو وہ بہت اچھا کر رہے ہیں .
جب شیطان باپ بیٹے کو بہکانے میں ناکام ہوا تو وہ جمرات پتھر مارنے کی جگہ کے پاس آیا حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اسے سات کنکریاں ماری شیطان راستے سے ہٹ گیا۔
وہاں سےناکام ہو کر شیطان دوسرے جمرہ پر گیا فرشتے نے دوبارہ حضرت ابراہیم علیہ السلام سے کہا اسے ماریے انہوں نے پھر سات کنکریاں ماری شیطان پھر راستہ چھوڑ کر ہٹ گیا اب شیطان تیسرے جمرہ کے پاس پہنچا حضرت ابراہیم علیہ السلام نے فرشتے کے کہنے پر ایک بار پھر سات کنکریاں ماریں شیطان نے راستہ چھوڑ دیا شیطان کو تین مقاموں پر کنکریاں مارنے کی یاد آج بھی باقی ہے اور انہی تین جگہوں پر کنکریاں مارتے ہیں جب حضرت ابراہیم علیہ السلام حضرت اسماعیل علیہ السلام کو لے کر کوہ صبیر قربانی کی جگہ پہنچے تو انہوں نے اللہ تعالی کے حکم کی خبر دی جس کا ذکر قرآن میں کچھ اس طرح آیا ہے اے میرے بیٹے میں نے خواب میں دیکھا کہ میں تجھے ذبح کر رہا ہوں تیری کیا رائے ہے فرمانبردار بیٹے نے یہ سن کر جواب دیا اے میرے باپ آپ وہی کیجیے جس کا آپ کو حکم ملا ہے خدا نے چاہا تو آپ مجھے صبر کرنے والوں میں پائیں گے حضرت اسماعیل علیہ السلام نے اپنے والد سے مزید عرض کیا ابو جان ذبح کرنے سے پہلے مجھے رسیوں سے مضبوطی سے باندھ دیجئے تاکہ میں ہل نہ سکوں کہیں مجھے ڈر ہے کہ میرے ثواب میں کمی نہ ہو جائے اور میرے خون کے چھینٹوں سے اپنے کپڑے بچا کر رکھیے تاکہ میری امی جان غمگین نہ ہو جائیں چھری کو خوب تیز کر لیجئے تاکہ گلا اچھے سے کٹ جائے کیونکہ موت بہت سخت ہوتی ہے مجھے زبہ کرتے وقت میرا چہرہ زمین کی طرف کر دیجئے تاکہ آپ کی نظر مجھ پر نہ پڑے اور جب میری امی سے ملیں تو انہیں میرا سلام کہیے اگر مناسب سمجھیں تو میری قمیض انہیں دے دیجئے شاید انہیں تسلی مل جائے ۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ارشاد فرمایا اے میرے بیٹے تم اللہ تعالی کے حکم پر عمل کرنے میں میرے کتنے مددگار ثابت ہو رہے ہو پھر جس طرح حضرت اسماعیل علیہ السلام نے کہا تھا انہیں ویسے ہی باندھ دیا اپنی چھری تیز کی حضرت اسماعیل علیہ السلام کو پیشانی کے بل لٹایا اور ان کے چہرے سے نظر ہٹا لی پھر ان کے گلے پر چھری چلا دی لیکن چھری نے اپنا کام نہیں کیا گلا نہ کٹا اس وقت حضرت ابراہیم علیہ السلام پر وہی نازل ہوئی اے ابراہیم بے شک تو نے خواب سچ کر دکھایا ہم ایسا ہی صلہ دیتے ہیں نیکوں کو یہ سچ مچ ایک روشن امتحان تھا۔
اور ہم نے ایک عظیم قربانی بھیج کر اس کے بدلے میں تیرے بیٹے کو بچا لیا۔
جب حضرت ابراہیم علیہ السلام نے حضرت اسماعیل علیہ السلام کو ذبح کرنے کے لیے زمین پر لٹایا، تو اللہ تعالیٰ کے حکم سے حضرت جبرائیل علیہ السلام جنت سے ایک مینڈھا لے کر آئے۔ انہوں نے دور سے بلند آواز میں فرمایا: اللہ اکبر، اللہ اکبر!
حضرت ابراہیم علیہ السلام نے سر اُٹھایا اور سمجھ گئے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی آزمائش پوری کر دی ہے، اور بیٹے کی جگہ فدیہ بھیج دیا ہے۔
خوش ہو کر کہا: لا إله إلا الله، والله أكبر
حضرت اسماعیل علیہ السلام نے کہا: الله أكبر، ولله الحمد
ان پاک الفاظ کی یہ سنت آج بھی قربانی کے وقت زندہ ہے، اور قیامت تک جاری رہے گی۔
پاکستان، ہندوستان، بنگلہ دیش اور دنیا بھر میں جہاں کہیں بھی مسلمان رہتے ہیں، وہ اس عظیم دن کو عقیدت و احترام کے ساتھ مناتے ہیں اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنت پر عمل کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی راہ میں جانوروں کی قربانی دیتے ہیں۔
یہ سلسلہ تین دن تک جاری رہتا ہے، جس میں دنبہ، بکری، گائے اور اونٹ جیسے جانوروں کی قربانی کی جاتی ہے۔
قربانی کے بعد گوشت کو تین حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے: پہلا حصہ غریبوں اور مستحقین کے لیے، دوسرا حصہ رشتہ داروں اور دوستوں کے لیے، اور تیسرا حصہ اپنے گھر والوں کے لیے رکھا جاتا ہے۔
قربانی کا یہ عمل نہ صرف سنتِ ابراہیمی کی یاد دلاتا ہے بلکہ اس میں ایثار، قربانی، ہمدردی اور معاشرتی بھلائی کا عظیم پیغام بھی پوشیدہ ہے۔
ہمیں اُمید ہے کہ آپ کو ہماری یہ اسٹوری پسند آئی ہوگی۔ اگر آپ کو پسند آئی معلوماتی اور مفید لگی ہو تو ہماری ویب سائٹ کو ضرور وزٹ کرتے رہیں ، اور شئیر کریں تاکہ ہم اسی طرح کا اسلامی، معلوماتی اور مفید مواد آپ تک پہنچاتے رہیں۔
چینل کا نام ہے ۔
@Urdukissecorner