سانگھڑ کی ملکہ
ناول . . . . . . . . . سانگھڑ کی ملكہ
رائٹر جن زاد 💕 قسط نمبر 5
شکو ملہی کے وہاں سے جاتے ہی وڈیرہ امجد نے اپنے ایک خاص گرگے کالو کو اپنے قریب بلايا اور گمبھیر لہجے میں بولا۔۔ . . باڑے میں موجود چھوری کو لے جا۔۔۔۔اس کو پچھلی حویلی کے کسی کوٹھے میں رکھ۔ اس کو نہلا دھلا کر صاف کپڑے پہنا اور روٹی بھی دے . . . میں ایک دو دن بعد بتاتا ہوں کہ اس کا کیا کرنا ہے۔
کالو وڈیرے کی رگ رگ سے واقف تھا اس لئے بنا چوں چراں کے اثبات میں سر ہلا کر باڑے کی طرف چل دیا . . . . . ، شکو کے پاس پہنچ کر کالو نے اسے اپنے ساتھ چلنے کا اشارہ کیا اور بیرونی راستے سے ہوتا ہوا حویلی کے عقبی حصے میں لے آیا۔ حویلی کے اس عقبی حصے میں اناج کا گودام اسٹور روم اور کچھ خاص ملازمین کے رہائشی کمرے تھے۔ کالو نے انھیں کمروں میں سے ایک کا تالا کھولا اور شکو کو اندر جانے کا اشارہ کیا . . . . . شکو جیسے ہی کمرے میں داخل ہوئی کالو نے فورا کمرے کا دروازہ بند کر کے باہر سے تالا لگا دیا . . .
ایک گھنٹہ بعد کالو دوبارہ واپس آیا تو اسکے ایک ہاتھ میں کھانے کی ٹرے اور دوسرے ہاتھ میں ایک تھیلا تھا . . . . . . . .
چل چھوری ۔۔۔۔۔جلدی سے یہ کھانا کھا لے . . . . کالو نے کمرے کے فرش پر موجود اكلوتی چٹائی پر ٹرے رکھتے ہی سہم کر کونے میں بیٹھی شکو کو تنبیہ کی اور خود بھی دیوار سے ٹیک لگا کر اسی چٹای پر بیٹھ گیا . . . . .
کھانے کا نام سنتے ہی برسوں کی بھوکی شکو زندگی میں پہلی بار میسر آنے والی اس عمدہ پلاؤ پر کسی آفت کی طرح ٹوٹ پڑی ۔۔۔۔۔۔۔۔
جتنی دیر وہ کھانا کھانے میں مشغول رہی کالو چپ چاپ بیٹھا اسکا جائزہ لیتا رہا . . . . . .
منٹوں میں پلاؤ کی ٹرے ختم کرنے کے بعد شکو نے اپنے سر کو اوپر اٹھایا اور کالو کی طرف سوالیہ نظروں سے ایسے دیکھنے لگی جیسے اسے اسکے اگلے حکم کا انتظار ہو . . .
چل اٹھ میرے ساتھ چل اور نہا دھو کر خود کو صاف کر لے . . . . . . . . کالو نے اسے چلنے کا حکم دیا اور کمرے سے باہر نکل کر داہنی طرف کو مڑ گیا . . . . . . . . شکو بھی فورا کمرے سے باہر نکلی اور اسکے پیچھے پیچھے چل پڑی ۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔ چلتے چلتے کالو ایک چھوٹے سے کمرے کے سامنے رکا اور شکو کو گھور کر دیکھتے ہوے بولا . . . چل اندر چل اور نہا کر جلدی سے واپس آ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور ہاں واپسی پر اپنے کپڑے وہیں چھوڑ آیو ۔۔۔۔اندر ایک تولیہ موجود ہے اسے اپنے گرد لپیٹ لیو ۔۔۔۔شکو جیسے ہی اندر داخل ہوئی کالو نے اسے ایک اور حکم دے دیا . . . . . .
چند منٹوں بعد شکو نہا کر باہر نکلی تو اسنے اپنے بدن کو ایک میلے کچیلے تولیہ نما کپڑے میں لپیٹ رکھا تھا ۔۔۔۔۔۔۔چل واپس اسی کمرے میں آجا . . . . . . . اسے باہر نکلتا دیکھ کر کالو نے حکم دیا تو شرم کے مارے خود کو اس تولیہ میں سونگیڑتی ہوئی شکو تیزی سے اسکے آگے آگے چلنے لگی . . . . .
چل اسے اتار دے اب . . . . . کمرے میں پہنچتے ہی کالو نے دروازے کو اندر سے بند کیا اور شکو کو اس تولیہ کو اتار پھیکنے کو کہا . . . . .
لگتا ہے میرے آگے کچھ زیادہ ہی عزت دار بن رہی ہو . . . . . . جب کالو کا حکم سننے کے باوجود بھی شکو نے خود کو تولیے کی قید سے آزاد نہ کیا تو کالو منہ ہی منہ میں کچھ بڑبڑاتے ہوے آگے بڑھا اور اسکی گردن کے قریب سے تولیہ کو کھینچنے لگا ۔۔۔۔کالو کے ہاتھ لگانے کی دیر تھی کہ شکو غیر اضطراری طور پر مزاحمت کرنے لگی . . . . لیکن کالو بھلا اسکی کہاں ماننے والا تھا ۔۔۔ اس نے گھمبیر آواز میں غوں غاں کر کے اسے جھڑ کا تو شکو نے گھبرا کر تولیہ سے اپنی گرفت ڈھیلی کر دی .... اگلے ہی لمحے اپنی دونوں چھاتیوں کو بازوں کے حصار میں چپانے کی ناکام کوشش کرتی شکو چٹای پر ننگی کھڑی تھی اور کالو اس کے جسم کو جگہ جگہ سے ٹٹولا کر اس کا معائنہ کر رہا تھا ۔ ۔۔۔اسکے بدن کی اچھی طرح سے جانچ پڑتال کرنے کے بعد کالو نے چٹائی پر پڑے اس تھیلے کو انڈیلا تو اس میں سے ایک عدد کپڑوں کا جوڑا اور دوائی کی شیشی برامد ہوئی ۔۔۔۔کالو نے اس شیشی کا ڈھکن کھولا اور اسمیں موجود سيال مادے کو اپنی انگلیوں کی مدد سے شکو کے جسم پر آے زخموں کو لیپ کرنے لگا ۔۔۔ لیپ لگتے ہی شکو کو اپنے سلگتے زخموں پر برف جیسی ٹھنڈک کا احساس ہونے لگا اور دیکھتے ہی دیکھتے درد کا احساس بھی دھواں ہوگیا ۔۔۔۔
یہ اس کی زندگی کی پہلی دوا تھی جس نے اسے درد اور تکلیف سے چھٹکارا دیا تھا۔
کالو نے اس کی پیٹھ ، بازو، رانوں اور جہاں جہاں لاٹھی یا خراشوں کے نشان تھے ، وہاں وہاں لیپ لگا دیا۔
چل اب یہ کپڑے پہن لے اور سکون سے سوجا ۔۔۔۔لیپ لگانے کے بعد کالو نے چٹائی پر پڑے کپڑوں کی طرف اشارہ کیا اور کمرے سے باہر نکل کر دروازے کو دوبارہ مقفل کر دیا ۔۔۔۔۔
💕💕💕💕💕
میشو گھر میں داخل ہوا تو بلونتی دوڑ کر اس کے پاس گئی اور دروازہ کھول کر باہر جھانکا۔ گلی میں شکو کو نہ پاکر سینہ پیٹ کر روتے ہوئے بولی ؛ ہائے بھگوان میری بیٹی۔۔ میری شکو۔۔
میشو اس کا منہ دبوچ کر اسے چپ کراتے ہوئے بولا ، ۔۔ چپ کر منحوس عورت ۔ کچھ نہیں ہوا شکو کو۔۔۔۔۔۔
۔۔۔تو پھر وہ کہاں ہے۔۔۔۔۔ ۔
میشو نے اسے دھکا دیا اور جھنجھلا کر بولا ۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔شکو زندہ ہے اور وڈیرے کے ڈیرے پر ہے۔ اس نے کہا ہے کہ وہ اسے واپس بھجوادے گا۔ تو اپنی زبان بند کر اور کسی کو مت بتانا کہ وہ ڈیرے پر ہے۔
بلونتی حیرت سے بولی ؛ یہ ۔۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے میشو کہ وڈیرے نے اسے قتل نہ کیا ۔۔۔۔۔ایسے کیسے ہو سکتا ہے . . . . . . .تو جھوٹ بول رہا ہے میشو۔۔
میشو چار پائی پہ لیٹ کر اپنے دکھتے جسم کو دباتے ہوئے بولا ، بھگوان نے وڈیرے کے دل میں رحم ڈال دیا۔ اس نے شکو کو پاس بلایا اور اس کی پوری بات سنی۔ پھر مجھے کہا کہ تو جا، اسے میں بھجوادوں گا۔
بلونتی بولی ؛ اگر اس نے نہ بجھوایا تو ؟
تو پاگل ہے کیا ۔ وہ وڈیرہ ہے اسے جھوٹ بولنے کی کیا ضرورت ہے۔ اس نے نہ بھیجنا ہوتا تو صاف کہہ دیتا کہ میں اسے کاٹ کر کہیں پھینک دوں گا یا اسے کبھی واپس نہی بھجوں گا ۔ کوئی اس کا کیا بگاڑ لیتا۔ اگر وہ شکو کو نہ بھیجے تو بھی ہم بلکہ پوری ملہی برادری بھلا اسکا کیا بگاڑ سکتی ہے ؟؟
مشو کی یہ بات بلونتی کی سمجھ میں آگئی اور وہ سر کو اثبات میں ہلاتے ہوے بولی . . . ؛ مگر وڈیرہ اس کے ساتھ کرے گا کیا؟
میشو سوچتے ہوئے بولا میرا خیال ہے کہ وہ شکو کو وڈیرے سلطان کھوڑو کے سامنے پیش کرے گا اور فرزند کے ظلم کا بتائے گا۔ کیونکہ اندر اندر سے امجد فرزند کو پسند نہیں کرتا۔
؛ اس طرح تو فرزند ہمارا اور شکو کا جانی دشمن بن جائے گا۔بلونتی اپنا خدشہ ظاہر کرتے ہوئے بولی۔۔۔۔
اس بات پر میشو اسے ڈپٹ کر بولا؛ منحوس باتیں نہ کر ۔ چپ چاپ ادھر آ اور میرے پاؤں دبا ۔
بلونتی جلدی سے اسکے قریب بیٹھ کر اس کا جسم دبانے لگی جبکہ دل ہی دل میں دونوں میاں بیوی خائف بھی تھے کہ بلونتی کی بات سچ ثابت ہوئی تو ہمارا کیا بنے گا ۔
☆☆
اکھاڑا سج چکا تھا لنگوٹ باندھے دو مضبوط مرد آمنے سامنے تھے۔ ایک طرف سے بھاری بھر کم پہاڑ جیسا سخت اور تگڑار پہلوان شیدا نکلا تو دوسری طرف لمبے قد کاٹھ والا مضبوط اور کسرتی سانول نمودار ہوا۔ سانول کے پنڈال میں آتے ہی شور مچ گیا۔ سانول نے مسکرا کر ایک ہاتھ سے اپنے گھنگریالے بالوں کو سمیٹا اور دوسرا ہاتھ اٹھا کر سب کی داد وصول کی۔ رئیس بختاور نے بھی مسکرا کر اس کی حوصلہ افزائی کی۔یہ سب دیکھ کر شیدے کا سیاہ چہرا سرخ ہو گیا تھا جبکہ سانول کا سنہری رنگ مزید دمک رہا تھا۔
شیدے نے اپنی پھیلی ہوئی چھاتی پہ ہاتھ مار کر چٹاخ کی آواز پیدا کی تو سانوں بھی اپنی ران پر ہاتھ مار کر مسکرایا اور شیدے کو مزید غصہ دلایا۔
اسی دوران درمیان میں کھڑا ثالث چیخ کر بولا ؛ گوٹھ لانگڑ پور کا رشید پہلوان جو کشتی، کبڈی اور ملاکھڑے کا منجا ہوا کھلاڑی ہے۔ آج ڈھول نگر کے سانول کا مقابلہ کرے گا۔ سانول جو ڈھول نگر کے وڈیرے سائیں رئیس بختاور کا بچہ ( پہلوان ) ہے . . . کلہاڑی، لٹھ بازی اور کشتی کا بے تاج بادشاہ ہے۔
؛ وڈیرے سلطان کھوڑو کی موجودگی میں وڈیرہ مراد لانگڑی نے اپنے پہلوان شیدے کے ذریعے سانول کو مقابلے کے لیے پکارا ہے۔ جسے رئیس بختاور نے قبول کر لیا ہے۔۔۔۔۔۔
سالث مزید بھی بہت کچھ بولتا رہا مگر اسکی آواز شور میں دب کر رہ گئی . . . .
اسی دوران سلطان کھوڑو قریب ہی بیٹھی مراد لانگڑی اور بختاور کی طرف متوجه ہو کر بولا ؛ بابا مراد ! تیرا پہلوان شیدا تو بڑا ہی تجربہ کار معلوم ہوتا ہے ۔
رئیس بختاور تو بھلا کیوں اپنے جوان کی ہڈیاں تڑوانا چاہتا ہے۔
اس بات پر رئیس بختاور ہنسا اور بولا ؛ چا چا سائیں ! یہ جوان نہیں ہے بلکہ یہ میرا بچہ ہے ۔۔بے شک مراد لانگڑی کا پہلوں وزنی اور طاقتور ہے لیکن مرد طاقت سے نہیں دلیری سے جیتا کرتے ہیں۔
میرا بچہ( پہلوان ) کٹ جائے گا، پر اپنے سائیں کا نام نہیں ڈوبنے دے گا۔
رائس بختاور کی یہ بات سن کر مراد لانگڑی ہنسا اور بولا ؛ سلطان سائیں اگر اج یہ بچہ اپنے پیروں پر چل کر واپس چلا گیا نا۔ تو میں اپنی حویلی کی سب سے جوان چھوری رئیس بختاور کے بستر پر سلاؤں گا۔
اس بات پر رئیس بختاور ہنسا اور بولا ؛ مراد لانگڑی ! دیکھ لینا تیری حویلی میں چھوریاں ختم ہو جائیں گی پر میرا پہلوں کبھی ہارے گا نہی ۔۔۔
ہا ہا ہا ہا ۔۔۔
اس بات پہ قہقہہ پڑا جس میں سب سے اونچی آواز مراد لانگڑی کی تھی۔
مقابلہ شروع ہونے لگا ہے ۔۔۔۔۔۔۔ ثالث نے بلند آواز میں سدا لگائی اور دونوں پہلوانوں کو آمنے سامنے آنے کا اشارہ کیا ۔۔۔۔
سانول نے اکھاڑے کی مٹی کو چھو کر چوما۔اور ساتھ ہی کانوں کو ہاتھ لگا کر آسمان کی طرف دیکھ کر توبہ کی۔۔۔۔۔۔مولا مجھے غرور سے دور رکھنا۔ ۔۔۔۔۔۔۔
اسی دوران دونوں پہلوان دوڑ کر ایک دوسرے کے قریب آگیے اور ایک دوسرے سے ہاتھ ملانے لگے ۔۔۔۔تبھی شیدا بولا ، آج تو اپنی ٹانگوں پر واپس نہیں جائے گا سانول۔
یہ سن کر سانول لا پرواہی سے ہنستے ہوے بولا ؛ ٹانگیں بھی جائیں گی اور میں بھی جاؤں گا ۔
اسی دوران ثالث سلطان کھوڑو کی طرف دیکھ کر مقابلہ شروع کرنے کی اجازت مانگنے لگا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سلطان نے اثبات میں سر ہلا کر اجازت دی تو ثالث نے بھی ہاتھ نیچے گرا کر مقابلے کا آغاز کر دیا . . . ۔
کشتی شروع ہوی تو ۔ شیدا کسی اڑیل سانڈ کی طرح سانول پر پل پڑا۔ اس نے پوری طاقت سے سانول پر حملہ کیا مگر سانول نے نیچے جھک کر خود کو اس کی گرفت میں آنے سے با مشکل بچایا اور سرک کر کر دور ہٹ گیا۔
یہ دیکھ کر مراد لا نگڑی ہنسا اور بولا؛ لے بختاور چھوری تو بچ گئی۔
اسی طرح کافی دیر تک جب رشید اپنی کئی بار کی کوشش کے باوجود سانول کو زیر نہ کر سکا تو تب رشید نے تعش میں آکر سانول کو زور دار تھپڑ جڑ دیا . . . . . . اس حرکت پر ثالث نے رشید کو سمجھایا کہ یہ کھیل کے اصولوں کے خلاف ہے . . . دوبارہ ایسی حرکت نہ کرنا . . . . . . مگر رشید شرمندہ ہونے کے بجاے تن کر بولا کہ ،، اس سے کہو اگر مار سکتا ہے تو مجھے بھی تھپڑ مار کر اپنا بدلہ لے لے ۔۔۔۔۔
رشید کی اس بات پر سانول مسکرایا اور ثالث کو دوبارہ سے راونڈ کا آغاز کرنے کا اشارہ دیا . . . . .
راونڈ کا آغاز ہوتے ہی رشید پھر سے آگے بڑھا اور جونہی اس نے بازو اٹھا کر سانول کے گلے میں ہاتھ ڈالنے کی کوشش کی تبھی اچانک اس کے گال پر زور دار تھپڑ پڑا۔ اس کے اٹھے ہاتھ ہوا میں ہی اٹھے رہ گئے۔ اس کا منہ کھلا کا کھلا رہ گیا۔ اس نے سانول کی طرف دیکھا تو اس کے گال پر ایک اور تھپڑ پڑا۔
دوسرا تھپڑ لگتے ہی اس کا منہ پھر گیا . . . اس نے جھٹ سے اپنہ منہ دوبارہ سیدھا کیا تو ایک اور تھپڑ پڑا ۔ اس نے سر جھٹک کر دوبارہ منہ سیدھا کیا تو ایک اور ، پھر ایک اور ، پھر ایک اور ۔
لگاتار چھ سات تھپڑوں کے بعد رشید پہلوان کا سر ہی چکرا گیا۔ اس نے سر کو سنبھالتے ہوئے سانول کی طرف دیکھا تو اس کی ناک اور منہ سے خون کی بوندیں ٹپک پڑیں ۔
تبھی رشید کی اس بوکھلاہٹ کا فائدہ اٹھاتے ہوے سانول نے جھٹکے سے اس کا بازو موڑا اور گھما کر اسے زمین پر دے مارا۔
یہ دیکھ کر پورا پنڈال چیخ اٹھا۔ ۔۔۔۔۔۔۔جیو سانول پہلوان جیو . . . . . . .
رشید نے فورا خود کو سمبھالا اور جونہی دوبار اٹھا تو
سانوں نے اس کی ٹانگ میں ٹانگ پھنسا کر اسے قینچی لگا کر منہ کے بال زمین پر دے مارا۔ پنڈال میں ڈھول پیٹنے کی آوازیں آنے لگیں۔
رشید تیسری بار اٹھا تو سانول نے اس کی کمر میں شکنجہ بنا کر اسے اٹھا کر پشت کے بل زمین پر دے مارا۔ اس بار رشید نے اٹھنے کی کوشش ہی نہ کی۔
سانول کی اس جیت پر سندھی شہنائیاں بجنے لگیں تو مراد لانگڑی طیش میں آکر سلطان کھوڑو کی طرف دیکھ کر بولا : سائیں اس نے تھپڑ مار کر میرے پہلوان کو زیر کیا ہے ۔۔
یہ سن کر سلطان کھوڑو بولا ہاں، تیرا پہلوان دماغ چکرانے سے زیر ہوا ہے۔ مگر اس غلط حرکت کی پہل اسی نے خود کی تھی۔۔۔۔اب چپ چاپ اپنی اور اپنے پہلوان کی ہار تسلیم کرلو . . . .
سلطان کھوڑو کی یہ بات سن کر مراد لانگڑی بھیگی بلی بن گیا . . . .
اسی دوران ڈھول کی تاپ پر سانول کو اٹھا کر سٹیج پر لایا گیا جہاں رئیس بختاور نے روپے روپے والی نوٹوں کی گڈیاں اس پر وار کر ہوا میں اڑا دیں۔ یہ دیکھ کر سانول نے رئیس بختاور کے گٹھنے کو ہاتھ لگایا اور پھر اس ہاتھ کو اپنی پیشانی سے لگا لیا۔
اسی دوران سلطان کھوڑو نے اس کے مضبوط جسم کو تھپتھپا کر داد دی اور جیب سے دس دس روپے کے کڑکتے نوٹ نکل کر انعام کے طور پر سانول کو تھما دیئے۔
شام ڈھلے یہ محفل ختم ہوئی تو سلطان کھوڑو اٹھ کر اپنی بگھی کی طرف چل پڑا ،، بھگی میں بیٹھتے ہی سلطان کھوڑو نے اشارہ کیا تو رئیس بختاور سلطان کھوڑو کے قریب چلا آیا . . . . .
سلطان کھوڑو بختاور کے کاندھے پر ہاتھ رکھ کر بھگی پر سوار ہوتے ہوے سرگوشی کے انداز میں اس سے بولا . . . ؛ تیرا یہ بندہ سانول، کوئی معمولی کھلاڑی نہیں ہے بختاور ۔۔۔۔۔ اور تیرا اعتماد بتاتا ہے کہ تو بھی اس بات کو باخوبی جانتا ہے۔
رئیس بختاور نے سلطان کی اس بات کا کوئی جواب نہ دیا اور صرف مسکرا کر سلطان کو رخصت کر دیا ۔۔۔۔۔
💕💕💕💕💕💕💕
ڈیرے پر وڈیرہ سلطان کھوڑو اور امجد کھوڑو آمنے سامنے بیٹھے تھے کہ تبھی سلطان بیٹے سے بولا ؛ ہاں بابا ! بتا کیا کیا تو نے اس چھوری کا ؟؟؟
پہلے تو امجد کھوڑو اس سوال پر گڑ بڑا گیا کیونکہ اس کو امید نہیں تھی کہ سلطان کھوڑو شکو کے متعلق سوال کرے گا۔
تحریر جن زاد
Channel name
@urduanokhekhaniyan