جب مارتھا روبینہ بنی
پولیس آفیسر احمد یار خان
جب مار تھا روبینہ بنی
قسط نمبر 1
ایک عیسائی لڑکی مسلمان ہو گئی اور کچھ دنوں بعد قتل ہو گئی یہ واردات نہیں دلی کی ہے اور جنگ عظیم فیصلہ کن دور میں داخل ہو چکی تھی میں اس وقت سی ائی اے میں تھا۔
متعلقہ تھانہ تفتیش کر رہا تھا۔
15 16 دنوں بعد یہ کیس سی آئی اے کو دے دیا گیا۔
مقتولہ چونکہ ایئر ہیڈ کوارٹر میں کام کرتی تھی اس لیے ایئر ہیڈ کوارٹر کی درخواست پر کیس تھانے سے سی ائی اے کو دیا گیا تھا اس میں ایئر فورس پولیس کا عمل دخل زیادہ تھا۔
یہ تفتیش سی ائی اے کے انسپیکٹر کلارک کو دی گئی اور مجھے اس کا اسسٹنٹ مقرر کیا گیا۔
اس وقت میں بھی انسپیکٹر تھا۔
ہمارے ڈی ایس پی نے ہمیں بلا کر ضروری ہدایات دیں اور کہا کہ ہم ایئر فورس پولیس کے ہیڈ کوارٹر یعنی ایئر ہیڈ کوارٹر میں چلے جائیں اور وہاں سے ہمیں بتایا جائے گا کہ اس کیس کی کیا اہمیت ہے اور یہ سی ائی اے کو کیوں دیا گیا ہے۔
میں یہ بتا دیتا ہوں؛؛______اس انگریز ڈی ایس پی نے کہا____جس تھانے کا یہ کیس ہے اس دھانے میں ایس ایچ او ہندو ہے چونکہ لڑکی مسلمان ہو گئی تھی اس لیے ہندو مسلمانوں کے خلاف تعصب میں اگیا ہے اور تفتیش میں گڑبڑ کر رہا ہے۔تمہارا مذہب کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہونا چاہیے صرف یہ پیش نظر رکھو کہ ایک عورت قتل ہو گئی ہے اور ہمارا فرض ہے کہ قاتل کو پکڑنا اور اسے سزا دلوانی ہے۔۔
ہم دونوں انسپیکٹر جیپ میں بیٹھے اور ایر ہیڈ کوارٹر چلے گئے وہاں ایر فورس پولیس کے کمانڈر سے ملے اسے دراصل کمانڈر نہیں بلکہ پر دوسٹ مارشل کہا جاتا تھا۔وہ بھی انگریز تھا۔یہ تو مجھے احساس تھا کہ ایک لڑکی قتل ہو گئی اور تفتیش میں ذرا سی بھی کوتاہی نہیں ہونی چاہیے اور قاتل کو پکڑ کر پھانسی دلوانی ہے اور میں یہ بھی جانتا تھا کہ انگریز قتل کے معاملے میں بڑے ہی سخت ہوا کرتے تھے اور تفتیش میں سستی یا کوتاہی برداشت نہیں کرتے تھے ان کا اصول تھا کہ قاتل کو زندہ رہنے کا کوئی حق نہیں میں دیکھ رہا تھا کہ اس لڑکی کے قتل کو یہ انگریز افسر کچھ زیادہ ہی اہمیت دے رہےتھے ۔میں یہی سمجھا کہ لڑکی مسلمان ہو گئی تھی اور یہ ان کے لیے کوئی اچھا واقعہ نہیں تھا بہرحال جو کچھ بھی تھا ہمیں اس واردات کی تفتیش کرنی تھی اور قاتل کو پکڑنا تھا ہم اس وقت ایئر فورس پولیس کے سب سے بڑے افسر کے سامنے بیٹھے ہوئے تھے جس کا عہدہ ونگ کمانڈر تھا۔
یہ قتل کا ایک عام کیس ہے؛؛___
اس انگریز ونگ کمانڈر نے کہا___لیکن ہم لڑکی کو کچھ زیادہ اہمیت دے رہے ہیں ایک اس وجہ سے کہ لڑکی ایئر ہیڈ کوارٹر کی ایک بڑے ہی اہم اور نازک شعبے کی سٹینو گرافر تھی۔اس کا سارا کام اور رابطہ اس شعبے کے ڈائریکٹر کے ساتھ رہتا تھا مجھے ایسا وہم تو نہیں لیکن یہ دیکھنا ہوگا کہ اس کا تعلق جاسوسوں کے ساتھ نہ ہو دوسری بات یہ کہ تھانے کا ایس ایچ او کوئی تسلی بخش تفتیش نہیں کر رہا۔ہم اس کی تفتیش کو غور سے دیکھ رہے ہیں اس نے ایک مسلمان فلائٹ لیفٹیننٹ کو پکڑ کر تھانے میں بٹھا لیا تھا مقتولہ کے باپ نے بھی شکایت کی ہے کہ تفتیش ٹھیک نہیں ہو رہی مقتولہ کا منگیتر بھی ہے شک اس پر ہونا چاہیے لیکن اس سب انسپیکٹر نے منگیتر کو شامل تفتیش کیا ہی نہیں۔
منگے تر کا نام سن کر میچوں کا وہ ٹھیک کہہ رہا تھا کہ پہلا شک منگے در پر ہی ہونا چاہیے ونگ کمانڈر نے دو اور باتیں بتائی ایک یہ کہ لڑکی کچھ زیادہ ہی خوبصورت اور پرکشش تھی دوسری بات یہ کہ اس منگیتر کا بڑا بھائی پولیس انسپیکٹر ہے اور ان دنوں وہ امبالا پولیس ہیڈ کوارٹر میں تھا اور تفتیش کے دوران دلی ایا تھا۔
یہ لڑکی سویلین نہیں بلکہ فوجی تھی میں نے اپنی پہلی کسی کہانی میں بتایا تھا کہ جنگ عظیم کے دوران انگریزوں نے عورتوں کی ایک فوج بنائی تھی یہ فوجیوں کی طرح وردی پہنتی تھی اور ان کے فوجیوں والے ہی عہدے تھے لیکن انہیں کسی محاذ پر نہیں بھیجا جاتا تھا یہ دفتروں میں کام کرتی تھیں ۔اس فورس کی عورت کو ویکائی کہا جاتا تھا۔ویکائی اس فورس کے نام کا مخفف تھا۔یہ بھی ایک وجہ تھی کہ اس لڑکی کے قتل کو زیادہ اہمیت دی جا رہی تھی اس ونگ کمانڈر نے کہا تھا کہ ایک ویکائی کا قتل اسانی سے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ونگ کمانڈر نے ایک دو اور باتیں بھی کھیں جو وہ نہ کہتا تو بھی ضرورت نہیں تھی۔
ہمیں تفتیش کرنی تھی اور پوری دیانت داری اور جان فشانی سے کرنی تھی مقتولہ چونکہ مسلمان ہو گئی تھی اور اس کے بعد قتل ہوئی تھی اس لیے میں نے ایک مسلمان کی حیثیت سے محسوس کیا کہ میں صرف ایک پولیس انسپیکٹر کی حیثیت سے نہیں بلکہ جذباتی لحاظ سے بھی اس کیس میں دلچسپی رکھتا ہوں۔۔۔۔ہم دونوں وہاں سے اٹھے اور اس تھانے کو چلے گئے جس تھانے کے علاقے میں واردات ہوئی تھی اور اب تفتیش ہو رہی تھی۔
وہاں کا ایس ایچ او سب انسپیکٹر پنڈت شنکرداس تھا۔
پنڈت کا مطلب ہے کہ وہ برہمن تھا اور برہمن تو مسلمانوں کے جانی دشمن ہوا کرتے تھے اور اب بھی وہ مسلمانوں کی جانی دشمن ہیں۔شرم کا داغ سے ہم نے اپنا تعارف کرایا اور اس کیس کی فائل مانگی۔فائل دیکھی تو پتہ چلا کہ مقتولہ کا نام مارتھا ولیم تھا اور وہ مسلمان ہو کر ربنا مریم بن گئی تھی شنکر داس نے مقتولہ کا سروس کارڈ بھی دکھایا جس پر مقتولہ کی فوٹو بھی تھی۔فوٹو سے پتہ چلتا تھا کہ وہ صرف خوبصورت نہیں بلکہ کچھ زیادہ ہی خوبصورت تھی۔ہم نے فائل میں لکھی ہوئی کارگزاری اور روز نامچے پڑھنے شروع کر دیے۔
یہ اردو میں لکھے ہوئے تھے اس لیے میں پڑھ پڑھ کر انسپیکٹر کلارک کو سناتا جا رہا تھا۔انسپیکٹر کلارک اردو پڑھ نہیں سکتا تھا پڑھنے کے دوران ہم شنکرداس سے کچھ باتیں پوچھتے بھی جاتے تھے۔میں نے ایک خاص طور پر دیکھا کہ ہماری بات کا وہ جو بھی جواب دیتا ہے وہ تسلی بخش جواب نہیں ہوتا بلکہ اس کے بعض جواب اناڑیوں جیسے تھے مثلا میں نے پوچھا کہ اس نے مقتولہ کے منگیتر کو شامل تفتیش کیوں نہیں کیا؟
""وہ تو مقتولہ کے باپ کے ساتھ رپورٹ لکھوانے ایا تھا""
شنکرداس نے جواب دیا۔
فضول بات مت بولو__انسپیکٹر کلارک نے اسے ڈانٹتے ہوئے کہا__
جو رپورٹ لکھوانے اتا وہ قاتل بھی ہو سکتا ہم تم کو ایسا بہت کیس سنا سکتا ہے کہ ایف ائی ار لکھوانے والا بعد میں خود قاتل نکلا۔
ہمیں جلد ہی پتہ چل گیا کہ پنڈت شنکرداس دانستہ اناڑی بنا ہوا ہے اور اس نے تفتیش میں خاصی گڑبڑ کی ہے ۔
ہمارے کہنے پر اس نے واردات کی تفصیلات سنائی۔
15 16 روز پہلے سوموار کی صبح گھوڑوں کی ریس کے کلب سے تھانے فون ایا کی ریس کورس میں ایک بوری میں بدلاش ملی ہے۔شنکر داس سٹاف کے کچھ ادمی ساتھ لے کر وہاں گیا بوری بندلاش ریسکورس کے میدان میں پڑی ہوئی تھی۔
گھوڑ دوڑ کے اس میدان میں ایک طرف تو قلب کے دفتر کی بلڈنگ تھی اور تماشائیوں کے بیٹھنے کے لیے انتظامات تھے اور اس کے بال مقابل میدان کے چاروں طرف موٹی لکڑی کا جنگلا لگا ہوا تھا لاش اس طرف پھینکی گئی تھی۔
اس طرف ویرانہ تھا یعنی ادھر کوئی بلڈنگ یا کوئی چھوٹا موٹا مکان بھی نہیں تھا لکڑی کے جنگلے سے باہر زمین کا نام و نشان نہ تھا کچی دھول والی زمین تھی اور ایک دوسرے سے دور دور درخت کھڑے تھے لاش جنگلے کے اندر پھینکی گئی تھی۔
زمین ایسی تھی کہ اس پر کھرے بڑے صاف نظر اتے لیکن تماشائیوں نے سارے کھرے مٹا ڈالے تھے لاش بوری میں بند تھی علی الصبح کوئی ادھر سے گزرا تو دیکھا کہ تین چار کتے ایک بوری کو پھاڑنے کی کوشش کر رہے تھے۔اور اپس میں لڑ بھی رہے تھے۔اس شخص نے یا کسی اور نے دیکھ لیا کہ اس بوری میں لاش معلوم ہوتی ہے کتوں کو بھگا کر اور قریب جا کر دیکھا تو وہ لاش ہی معلوم ہوتی تھی۔دیکھنے والوں نے اسے کھولا نہیں۔
ان ادمیوں نے ریس کورس کلب میں جا کر بتایا تو وہاں سے کلب کے کسی ملازم نے تھانے فون کیا شنکر داس نے جا کر بوری کھلوائی تو اس میں ایک جوان سال عورت کی دو ہری کی ہوئی لاش پڑی ہوئی تھی۔لاش اکڑ گئی تھی اس لیے اسے سیدھا نہ کیا جا سکا غور سے دیکھنے پر پتہ چلا کہ یہ تو جواں سال لڑکی تھی۔اس نے بلاؤزر پہن رکھا تھا کمر سے نیچے برہنہ نا تھی۔اس کا لمبا سکرٹ جسے فل سکرٹ کہتے ہیں۔
بوری میں سے برامد ہوا۔صاف پتہ چلتا تھا کہ قتل سے پہلے اس کی آبرو ریزی کی گئی ہوگی۔
بوری میں سے مقتولہ کا پرس بھی برامد ہوا۔
پرس میں سے اس کا شناختی کارڈ جسے سروس کارڈ بھی کہہ سکتے ہو ۔برامد ہوا ۔
اس سے یہ پتہ چل گیا کی مقتولہ ایئر ہیڈ کوارٹر میں ملازم تھی۔کارڈ پر اس کے گھر کا ایڈریس نہیں تھا۔اور ہونا بھی نہیں چاہیے تھا۔
پرس میں سے ایک خبر و جواں سال ادمی کا فوٹو برامد ہوا جس کے پیچھے لکھا ہوا تھا فلائٹ لیفٹیننٹ ایم اے امجد تھانے کی فائل میں بھی یہ نام لکھا ہوا تھا اس شخص کو شنکرداس نے شامل تفتیش کیا تھا اور تین دن تھانے میں ہی رکھا تھا انسپیکٹر کلارک نے تھانے میں شنکرداس سے پوچھا تھا کہ اس امجد کو کیوں شامل تفتیش کیا تھا۔؟
مجھے اس پر شک تھا شنکر داس نے جواب دیا تھا اسی نے مقتولہ کو مسلمان کیا ہوگا اور پھر مقتولہ واپس اپنے مذہب کی اس عیسائیت میں انا چاہتی ہوگی اور اس امجد نے اسے قتل کروایا یا کردیا ہوگا ۔شنکرداس بڑی ہی غلط بات کر رہا تھا ۔ھمنے مقتولہ کا سروس کارڈ دیکھا تو اس پر اس کا نام روبینہ مریم لکھا ہوا تھا ۔اس کا مطلب یہ تھا کہ وہ سچے دل سے مسلمان ہو چکی تھی ۔
اور اس نے اپنے کارڈ میں بھی اپنا نام تبدیل کروالیا تھا ۔یہ ہمیں ایئر ہیڈکوارٹر میں پولیس کے ونگ کمانڈر نے بتا دیا تھا کہ فلائٹ لیفٹیننٹ امجد کو ایئر فورس پولیس نے تھانے سے رہائی دلوائی تھی ۔۔۔
"وہ کسی کے ہاتھ نہیں اتی تھی"
لاش کی تفصیلات یہ تھی کہ مقتولہ کے سر میں دائیں کن پٹی سے گولی ماری گئی جو بائیں طرف سے نکل گئی تھی یہ اشاریہ 22 پستول کی گولی تھی بالوں میں خون جمع ہوا تھا اور بال جھڑ گئے تھے بلاؤز بھی خون سے بھرا ہوا تھا۔جسم پر بھی خون تھا لیکن بوری کے ساتھ کوئی نہیں تھا اس سے پتہ چلتا تھا کہ مقتولہ کو کہیں اور گولی ماری گئی اور پھر اسے بوری میں بند کر کے ریس کورس کے میدان میں پھینک گئے۔پوسٹ مارٹم رپورٹ میں ابرو ریزی صاف لکھی تھی اور موت کا وقت ساڑھے اور 11 بجے رات کے درمیان لکھا گیا تھا۔مجھے خیال ایا کہ قتل کا باعث ابرو ریزی ہی ہو سکتا ہے مقتولہ کے ساتھ یہ جرم جبری طور پر کیا گیا ہوگا اور مجرم نے قتل کر دینا مناسب سمجھا ہوگا انسپیکٹر کلاک نے اس شک کا اظہار کیا کہ مقتولہ کے ساتھ جبری زیادتی نہیں ہوئی یہ اپنے کسی اشنا کے ساتھ پکڑی گئی اور پکڑنے والا اس کا منگیتر ہوگا یا کوئی دوست حس نے فوری اشتعال میں ا کر اسے گولی مار دی۔میں نے کنارے کے ساتھ اتفاق نہ کیا کیونکہ مقتولہ جس کلاس سے تعلق رکھتی تھی اور ان دونوں جو ماحول بنا ہوا تھا اس میں عورت کے معاملے میں اتنا جذباتی کوئی نہیں ہوتا تھا ویکائیوں کی دوستیاں لگتی اور ٹوٹتی رہتی "تھی تم نہیں اور صحیح"والی دوستیاں چلتی تھیں ایک لڑکی کے ایک سے زیادہ دوست ہوا کرتے تھے سب سے اچھا دوست وہ ہوتا تھا جو سب سے زیادہ عشق کرواتا تھا زیادہ قیمتی تحفے دیتا تھا۔پھر یوں ہوا کی شنکر داس نے ایئر ہیڈ کوارٹر کو فون کیا کہ فلاں نامی لڑکی کی لاش فلاں جگہ سے ملی ہے اور اس گھر کے گھر والوں کو اطلاع دی جائے۔تھانے کی اس اطلاع پر ایئر فورس پولیس کا ایک افسر اور دو سار جنٹ تھانے پہنچ گئے جس شعبے میں مقتولہ کام کرتی تھی وہاں اس کے گھر کا ایڈریس تو تھا لیکن اس کے گھر فون نہیں تھا کسی کو وہاں مبتلا کے منگیتر کے دفتر کا فون نمبر معلوم تھا اس نے منگیتر کو اطلاع دی اور مانگے تر مقتل کے گھر دوڑا وہاں یہ خبر سنائی اس طرح مقتل کا باپ ماں اور منگیتر تھانے پہنچ گئے۔ان لوگوں نے لاش اس وقت دیکھی جب پوسٹ مارٹم کے بعد تھانے واپس گئی تھی اگر مقتل کے ماں باپ لاش کو پوسٹ مارٹم سے پہلے دیکھ لیتے تو وہ بے ہوش ہو جاتے کیونکہ لاش کو لہو سے دوہری کی ہوئی تھی یہ نہیں لاش کی ٹانگیں اوپر والے دھڑ کے ساتھ ملی ہوئی تھی اور پاؤں سر کے ساتھ تھے اس کے علاوہ نیچے سے لاش برہنہ تھی پوسٹ مارٹم میں ڈاکٹر نے ٹانگیں کولھوں سے کاٹ کر سیدھی رکھ دی تھی اور اوپر چادر ڈال دی تھی اس طرح لگتا تھا جس سے مقتولہ کے جسمانی پوزیشن قدرتی ہو یہ پتہ چلتا ہی نہیں تھا کہ لاش دو ٹکڑوں میں کاٹی ہوئی ہے۔
انہوں نے لاش شناخت کر لی باپ نے سب انسپیکٹر شنکر داس کو بتایا کہ اس کی بیٹی کا اثر نام تو مار تھا تھا ۔مارتا ولیم لیکن 12 14 روز پہلے وہ مسلمان ہو گئی تھی اور اس نے اپنا نام روبینہ مریم رکھ لیا تھا باپ نے یہ بھی بتایا کہ مارتا گھر نہیں رہتی تھی بلکہ اس نے اپنی رائےش ویکائیوں کی بارک میں رکھی ہوئی تھیں ۔
ہفتے کی شام گھر اتی اور اتوار کی شام چلی جاتی تھی اس ہفتے شام بھی وہ ائی تھی اور اتوار کی شام چلی گئی تھی وہ یعنی باپ سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ اس کی بیٹی اپنے ٹھکانے پر پہنچی ہی نہیں ہوگی اگلے روز یعنی سوموار کے دن جس دن وہ تھانے میں یہ بیان دے رہا تھا اس کی بیٹی کا منگیتر سخت گھبراہٹ کی کیفیت میں اس کے گھر ایا اور بتایا کہ مارتا کی لاش تھانے پڑی ہے اسے کسی نے قتل کر دیا ہے اس اطلاع پر باپ تھانے پہنچ گیا۔یہ کہانی پڑھتے وقت یہ خیال رکھیں کہ مقتولہ کا باپ یا کوئی بھی عیسائی اس کے متعلق کوئی بھی بات بتاتا یہاں بیان کرتا تو اسے وہ مارتا کہتا تھا لیکن میں اسے ربنا ہی لکھوں گا ایف ائی ار میں بھی اس کا نام مارتا ولیم لکھوایا گیا تھا میں نے اس کا سروس کارڈ یا شناختی کارڈ دیکھا تھا جس پر اس کا نام روبینہ مریم لکھا ہوا تھا اس طرح یہ اس کا سرکاری نام بن گیا تھا اور میں چونکہ مسلمان تھا اور پہلے بھی تفتیش کے دوران جہاں بھی اس کا نام لکھتا یا بولنا پڑتا تو میں ربنا ہی لگتا اور بولتا رہا تھا۔یہ تو ہوئی واردات کی وہ تفصیل جو ہمیں سب انسپیکٹر پنڈت شنکر داس نے سنائی تھی میں نے اور انسپیکٹر کلارک نے تفتیش از سر نو کرنے کا فیصلہ کر لیا تھا
ہمارے لیے سب سے بڑی مشکل یہ تھی کہ واردات کو 15 16 دن گزر گئے تھے ہم نے شنکر داس سے کہا کہ مقتولہ کے باپ اور منگیتر کو کل صبح سی ائی اے ہیڈ کوارٹر میں بھیج دے ہم تھانے سے نکلے تو چار بج چکے تھے انسپیکٹر کلارک نے کہا کہ اس وقت تمام وکائیاں اپنی بارک میں ہو گی بہتر ہے وہاں سے مقتولہ کے متعلق کچھ معلومات لی جائیں ۔تجویز اچھی تھی ہم وقت ضائع نہیں کرنا چاہتے تھے جیپ میں بیٹھے اور وہاں جا پہنچے میں جسے بارک کہہ رہا ہوں اسے فوجی زبان میں ڈومسٹک کیمپ کہا جاتا تھا وہاں جا کر دیکھا ارد گرد دیوار تھی اور اس کے اندر ایک دوسری سے دور دور تین بارکیں اور ایک قطار کمروں کی تھی وسیع لان ٹینس کورٹ اور ہے بیڈ مینٹن کورٹ بھی بنے ہوئے تھے۔
گیٹ بند تھا ہمیں بتایا گیا کہ قریب ہی ایک بنگلے میں ایک انگریز عورت رہتی ہے جس کا رینک لیفٹیننٹ کرنل تھا کیمپ کے اندر جانے کے لیے اس عورت کے اجازت ضروری تھی ہم اس بنگلے میں چلے گئے انگریز لیفٹیننٹ کرنل نے بڑی خندہ پیشانی سے ہمارا استقبال کیا اور جب ہم نے اپنا تعارف کرایا تو وہ اور زیادہ عزت و احترام سے پیش ائی میں اس لڑکی کے قاتل کو پھانسی کے راستے سے لٹکتا دیکھنا چاہتی ہوں اس لیفٹینیٹ کرنل نے کہا بڑی پیاری اور اپنے کام میں ماہر لڑکی تھی میں مارتھا کو کبھی نہیں بھول سکوں گی میں نے انگریز عورت کا ذہن پڑنے کے لیے کہا سنا ہے مقتولہ مسلمان ہو گئی تھی!.
جاری ہے ۔۔۔۔
نوٹ : اس کے سارے ایپیسوڈ ہمارے یوٹیوب چینل پر موجود ہیں آپ ہمارا یوٹیوب چینل وزٹ کریں ۔۔
Channel link 🔗
https://www.youtube.com/@Urduanokhekhaniya