ناول . . . . . . . . . سانگھڑ کی ملكہ
رائٹر جن زاد 💕 قسط 4
شکو کا باپ رمیش ملہی گھر کے صحن میں سر پکڑ کر بیٹھا تھا۔ اچانک اس نے غصے میں لاٹھی اٹھائی اور سوئی ہوئی شکو کی پشت پر دے ماری، لاٹھی لگتے ہی شکو درد سے چیخ کر اٹھ بیٹھی اور چلائی : باپو۔۔ نہیں۔۔
میشو نے دوبارہ وار کیا تو اس کی بیوی بلونتی سامنے آگئی۔ اس نے لاٹھی کا وار اپنے جسم پر وصول کیا اور منت کرتے ہوئے بولی ؛ نہ نہ بھگوان کے واسطے اس کو نہ مار میشو پہلے ہی اس کو وڈیرے نے چیر دیا ہے۔
میشو غصے سے بولا؛ کیوں نہ ماروں ، یہی ساری مصیبت کی جڑ ہے، نہ یہ پیدا ہوتی اور نہ وڈیرہ اس کی عزت لوٹتا ۔
اتنا کہہ کر مشو نے مزید دو چار لاٹھیاں چلا دیں اور ہانپ کر وهیں ڈھے گیا۔
مشو زمین پر لیٹے لیٹے دونوں کو گالیاں بکنے لگا، بلونتی کو اس بات کی کہ اس نے شکو کو پیدا کیا اور شکو کو اس بات کی کہ وہ پیدا کیوں ہوئی۔
مشو کو یوں کوستا دیکھ کر شکو اور بلونتی بھی پھوٹ پھوٹ کر رونے لگیں۔ اسی وقت دروازے کے پٹ دھڑام کی آواز سے کھلے اور وڈیرے امجد کے گرگے اندر داخل ہوگیے ۔۔
ان میں سے ایک بندہ آگے بڑھا اور میشو سے بولا ، اٹھ اوئے کمی۔۔ سالے۔۔ تجھے وڈیرے نے بلایا ہے۔
اتنا سنتے ہی میشو کار نگ فک سے اڑ گیا اور اسے یقین ہو گیا کہ اب وڈیرے شکو کو زندہ نہیں چھوڑیں گے ۔۔۔یہ بھی ہو سکتا تھا کہ شکو کے ساتھ ساتھ اس کا پورا خاندان ہی قتل کر دیا جائے ۔
دل میں یہ خیال آتے ہی وہ اپنے کانپتے ہاتھ جوڑ کر گڑگڑتے ہوے بولا؛ مجھے معاف کردو۔۔ وڈیرے کو کہو میں کہیں اور چلا جاؤں گا ، اپنی دھی کا گلا خود کلہاڑی سے کاٹ دوں گا۔ پر مجھے معاف کر دو۔
اتنا سنتے ہی وڈیرہ کا گرگا تپ گیا اور مشو کو گریبان سے پکڑ کر بولا ، حرامزادے تجھے بس اتنا کہا ہے کہ وڈیرے نے بلوایا ہے۔ زیادہ ٹر ٹر مت کر ۔۔۔۔ اٹھ اور اپنی بیٹی کو بھی ساتھ لے لے۔
بلونتی نے خوف سے شکو کی طرف دیکھا اور ممتا سے مجبور ہو کر بولی ۔۔۔۔بھگوان کے لئے میری دھی کو تو بخش دو۔ وہ تو پہلے ہی نڈھال ہے۔
بلونتی کے اتنا کہنے کی دیر تھی کہ میشو تیزی سے اٹھا اور اسے ایک زور دار ٹھڈا مارتے ہوے بولا ؛ بھونک مت کتیا۔ یہ سب تیرا ہی کیا دھرا ہے اور اب بھگتنا مجھے پڑے گا ۔۔۔
اتنا کہہ کر مشو نے شکو کے بال پکڑے اور بولا ؛ چل اٹھ چھوری۔
شکو خوف اور درد سے تھر تھر کانپتے ہوے بولی ، آہ . . چلتی ہوں باپو۔۔ چلتی ہوں۔
یہ دیکھ کر بلونتی اچانک ہی میشو کے پیروں میں گرگئی اور منت سمآجت کرتے ہوے بولی ؛ میشو ! میری دھی کو کاٹنا مت۔۔۔۔۔اسے زندہ واپس لانا، تجھے بھگوان کی قسم۔ ۔۔۔۔۔مجھے اس کی شکل دکھائے بغیر اسے کچھ نہ کہنا۔۔ تجھے بھگوان کی قسم۔۔۔۔۔۔ میشو۔
میشو نے بلونتی کی بات کو نظر انداز کرتے ہوے شکو کو بازو سے پکڑا اور باہر کی طرف دھکیلا۔۔۔۔۔شکو جونہی آگے بڑھی اچانک ہی ایک گرگے نے لپک کر اس کی کلائی تھام لی اور غضبناک لہجے میں بولا ؛ چل چپ چاپ ادھر چل چھوری۔
💕💕💕💕
آدھے گھنٹے بعد ہی دونوں باپ بیٹی ڈیرے کے کچے فرش پہ بیٹھے تھے۔ شکو کو اپنے جسم میں ابھی بھی شدید درد ہو رہا تھا اور اس کا دل کسی چڑیا کی طرح کانپ رہا تھا۔ ایک ہی دن میں اس پر کتنے عذاب گزرے چکے تھے۔
اسے فقط روٹی کا ایک ٹکڑا چوری کرنے کے الزام میں پکڑا گیا تھا ۔ پھر نجانے کتنی دیر تپتی زمین پہ جلایا گیا، مارا پیٹا گیا اور پھر سب کی سامنے آبروریزی کی گئی ۔۔۔ اور اب بس اس کے ٹکرے ٹکرے کرنے کا فرمان جاری ہونا باقی تھا۔ موت سے بڑھ کر تکلیف ده تو موت کا انتظار ہوتا ہے۔
قسط 3
مشو ملہی کے آنے کی اطلاع ملتے ہی وڈیرہ امجد کھوڑ فوراً ڈیرے میں داخل ہوا اور مشو ملہی کو گڑگڑاتا
دیکھ کر براسامنہ بنا کر بولا۔۔۔۔۔ بکواس بند کر۔۔۔ کیا نحوست پھیلا رکھی ہے تو نے؟
وڈیرے کو آتا دیکھ کر وہ اسکے پیروں میں گرنے کی نیت سے آگے بڑھا تو عقب سے ایک پہرہ دار نے اسے گدی سے پکڑ کر زمین پہ پٹک دیا اور بولا ؛ دور دور سے بات کر ۔۔ سائیں کو کتوں اور کمیوں سے بڑی بو آتی ہے۔
اتنے میں وڈیرہ امجد رنگیلی چار پائی پہ بیٹھتے ہوئے بولا ؛ او میشو حرامزادے ، نیچ ذات کے کیڑے۔۔ تو نے یہ کیا
کنجر خانہ کھول رکھا ہے۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔
وڈیرے کی بات پوری ہوتے ہی ایک محافظ نے مشو ملہی کی گدی پر پوری طاقت سے ایک چپیڑ رسید کی، جس کی آواز پورے ڈیرے میں گونج گئی۔ اس چپیڑ کے رد عمل میں میشو درد سے بلبلا کر چیخا تو تمام گرگوں کی ہنسی نکل گئی . . . .
گرگوں کو ہنستا دیکھ کر وڈیرے نے سب کو گھور کر دیکھا اور بولا ، اوئے بس اوئے۔۔
تو بول میشو۔۔۔۔۔
بڑھا گدی سہلاتے ہوئے بولا ؟ سائیں ! وڈیرہ فرزند میری بستی میں آیا اور میری دھی کے ساتھ۔۔
مشو نے اتنا ہی بولا تھا کہ وڈیرہ امجد طیش میں اٹھ کر کھڑا ہوگیا اور میشو کے منہ پہ زور دار ٹھڈا دے مارا۔
، بکواس نہ کر ، بھونکتا ہے کتے۔ تو نے ہی اپنی بیٹی کو یہ سیکھ دی ہو گی کہ وڈیروں کو شلواریں اتار اتار کر اکساے ۔۔ تیرے جیسے کمی بیٹی کو پیدا ہی اس لیے کرتے ہیں کہ کسی دن کسی وڈیرے کے نیچے لیٹ جائے۔۔۔ حرامخور کہیں کے ۔۔۔۔
ٹھڈا لگتے ہی مشو کے منہ سے خون ابل پڑا اور وہ ایک سائیڈ پر لڑھک کر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا۔
مشو کو نظر انداز کر کے وڈیرہ چادر میں لپٹی لڑکی کی طرف متوجہ ہوا اور بولا ؟
اوئے ۔۔۔۔ گند کی پوٹلی . . . حرام کی جنی۔۔ بڑا شوق ہے تجھے۔۔ اونچی ذات کے مردوں کے نیچے لیٹنے کا۔۔ ؟؟؟
وڈیرے کی بات مکمل ہونے کے باوجود لڑکی نے کوئی جواب نہ دیا اور نیچے منہ کیے زمین کو تکتی رہی ۔۔۔۔۔
وڈیرے نے ایک اچٹتی سی نگاہ اس لڑکی پر ڈالی اور پھر آگے بڑھ کر تھر تھر کانپتی شکو کے دوپٹے کو بالوں سمیت کھینچا اور زمین پہ سیدھا لٹا دیا۔
غصے سے بپھرے ہوے وڈیرے نے فورا اپنی دائیں ٹانگ کو اسکے چہرے پر ٹھڈا مارنے کے لیے اٹھایا ہی تھا کہ اچانک اسکی نظر خوف اور دہشت کے مارے تھر تھر کانپتی اس لڑکی کے معصومانہ چہرے پر پڑی جسکی موٹی موٹی آنکھیں آنسووں سے لبریز تھیں . . . نجانے اس بے بس لڑکی کے بہتے آنسوؤں میں ایسا کیا تھا کہ جنہیں دیکھ کر وڈیرے بلکل ساکت ہوگیا ۔ اچانک سے اس پر کپکپی طاری ہونے لگی اور اس کا اٹھا ہوا پیر خود بخود واپس زمین پہ آگیا۔ وہ شکو کے چہرے پر موجود ان موٹی موٹی آنکھوں پر نظریں ٹکائے جیسے سن ہو گیا تھا۔
چند لمحوں تک ماحول پر یونہی سکوت طاری رہا اور وڈیرہ الٹے قدموں اپنی چارپائی پر جا بیٹھا ۔۔۔۔
چارپائی پر بیٹھتے ہی وہ دور کہیں سوچوں کے بھنور میں غوطے کھانے لگا ۔۔۔۔۔۔اسکے چہرے پر عجیب سی مردنی چھائی تھی اور لب کپکپاہٹ کا شکار تھے ۔۔۔
، اسکا سکتہ تب ٹوٹا جب مشو ملہی اپنی جگہہ سے کھسکا اور شکو کے پاس بیٹھ کر دونوں ہاتھوں سے اسے اندھا دھندہ پیٹتے ہوے بولا . . . .
۔ سائیں ! میں خود اس کے ٹکڑے ٹکڑے کر دوں گا۔۔۔۔۔ مگر مجھے بخش دو، میری کوئی غلطی نہیں ہے ۔۔۔۔
اسی اثنا میں وڈیرے کے گرگے مشو کو گریبان سے پکڑ کر لڑکی سے دور گھسیٹنے لگے تو وڈیرہ گرجدار آواز میں چلا کر بولا ۔۔۔۔۔۔ اوئے چھوڑ دو اسے۔
اتنا کہہ کر وڈیرے نے شکو کی طرف دیکھا اور قدرے آرام سے بولا ؛ ادھر آ او چھوری۔
تھر تھر کانپتی شکو ملہی اپنی جگہہ سے اٹھی اور چُنی درست کر کے وڈیرے سے چند قدم دور رک گئی۔
یہ دیکھ کر وڈیرہ اپنی بھنووں کو اوپر چڑھاتے ہوے بولا ؛ او میرے پاس مر ۔
حکم سنتے ہی شکو دو قدم مزید قریبی آگئی۔
وڈیرے نے اسکی آنکھوں میں جھانکتے ہوے زمین کی طرف اشارہ کیا اور پہلے کی نسبت قدرے نارمل انداز میں بولا ؛ بیٹھ جا۔
اس کے انداز سے شکو کو کچھ حوصلہ ملا اور وہ فوراً سے زمین پر بیٹھ گئی ۔۔۔
چل پوری بات بتا کیا ہوا تھا ؟
وڈیرے کے اتنا کہنے کی دیر تھی کہ شکو بلک بلک کر رونے لگی اور رندھی ہوئی آواز میں بولی ؛ سائیں ! میں ماں اور باپو کے ساتھ وڈائی (کٹائی) پہ گئی تھی۔ واپسی پر میں اس درخت کے نیچے سے گزری جہاں سائیں فرزند نے چارپائی پر بیٹھ کر کھانا کھایا تھا ۔۔۔ . وہیں چارپائی کے نیچے مجھے گھی لگی روٹی کا ٹکڑا نظر آیا جو شاید کتوں کے منہ سے بچ گیا تھا . . . سائیں اس پہ گھی لگا ہوا تھا، میں نے اٹھا لیا کہ اپنے بھائی کو دوں گی۔ بس میری اتنی سی غلطی ہے سائیں۔ کسی نے وڈیرے کو جھوٹی شکایت لگا دی کہ میں نے اس کے برتن کو ہاتھ لگایا ہے۔ سائیں ! بھگوان کی قسم سائیں۔ میں نے تو سائیں فرزند کے برتن دیکھے تک نہیں۔ سائیں !
اسی جرم کی سزا دینے کے لئے وڈیرہ فرزند اور اس کے بندے آئے اور مجھے زمین پہ لٹادیا . . . پھر سائیں نے۔۔۔۔۔۔
سائیں ! میرا کوئی قصور نہیں ہے، میں نے فرزند سائیں کو کچھ نہیں کہا اور اس نے جو کیا، خود کیا، میں تو بس روتی رہی۔ میں نے منتیں کی تو الٹا سائیں نے مجھے ہی مارا ، سائیں نے میری ایک نہ سنی۔۔۔۔۔۔۔۔میری ماں اور چچی مجھے گھر واپس لے گئیں تو باپو نے بھی مجھے ہی مارا اور پھر یہ لوگ مجھے اور باپو کو یھاں لے آے ۔۔۔اتنا کہہ کر وہ پھر سے رونے لگی ۔۔۔
؛ اچھا چل چپ کر ۔ وڈیرے امجد نے اسے ڈپٹ دیا
اور چند لمحے سوچ کر بولا ۔۔۔۔۔ اوئے میشو جا . . . . . ۔تو دفع ہو جا یھاں سے ۔ اس چھوری کو میں بعد میں بجھوادوں گا۔
اتنا سنتے ہی میشو کا منہ حیرت سے کھلا کا کھلا رہ گیا۔ وہ جان بخشی پر اتنا حیران نہیں تھا جتنا وڈیرے کے لہجے پہ حیران ہوا تھا۔ وڈیرے کا لہجہ تحکمانہ ضرور تھا مگر اس میں پہلے جیسی نفرت اور حقارت نہیں تھی۔
،سنا نہی چل دفع ہوجا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور چھوری تو اٹھ ۔ ادھر باڑے میں چل۔۔۔۔۔وڈیرہ ہاتھ کے اشارے سے شکو کو باڑے کا راستہ دکھاتے ہوے بولا . . . . .
میشو کی اتنی جرات نہیں تھی کہ وہ پوچھ سکتا کہ وڈیرہ اس کی بیٹی کے ساتھ کیا کرنا چاہتا ہے۔ اس کو قتل کرنا چاہتا ہے یا اس کی جان بخشی کرنا چاہتا ہے۔ اس کے لیے یہی بہت تھا کہ اسے جانے کا کہہ دیا گیا تھا اور اس کی بیٹی کے متعلق کہا تھا کہ اسے بعد میں بھجوادوں گا۔ وڈیرہ چاہتا تو ابھی اس کی بیٹی کو ننگا کر کے اپنے بندے اس کے پر چھوڑ دیتا یا پھر ان دونوں کے ٹکڑے ٹکڑے کر کے کتوں کو کھلا دیتا ۔۔۔ میشو نے اسی میں عافیت جانی اور چپ چاپ وہاں سے نکل گیا ۔۔۔۔
وڈیرے کا حکم سنتے ہی شکو بھینسوں کے باڑے میں پہنچی اور چارے کے ڈھیر کے پاس زمین پہ بیٹھ گئی۔