ناول . . . . . . . . . سانگھڑ کی ملكہ
رائٹر جن زاد 💕 قسط نمبر 6
ڈیرے پر وڈیرہ سلطان کھوڑو اور امجد کھوڑو آمنے سامنے بیٹھے تھے کہ تبھی سلطان بیٹے سے بولا ؛ ہاں بابا ! بتا کیا کیا تو نے اس چھوری کا ؟؟؟
پہلے تو امجد کھوڑو اس سوال پر گڑ بڑا گیا کیونکہ اس کو امید نہیں تھی کہ سلطان کھوڑو شکو کے متعلق سوال کرے گا۔
پر اگلے ہی لمحے وہ سنبھل کر بولا ؛ ابا سائیں ! میں نے اسے اپنے پاس بلوا لیا ہے۔ ذرا حالات ٹھنڈے ہو جائیں تو اس کو ٹھکانے لگا دوں گا۔
ہیں ہیں کیا بولا تو . . . . سلطان کھوڑو کو لگا جیسے اسے سننے میں غلطی ہوئی ہے۔ ؛ تو نے اس چھوری کو اپنے پاس بلوا لیا ہے ؟ بھلا اس بات کا کیا مطلب ہے _ . . . . . تجھے تو کل ہی اسے کاٹ دینا چاہیے تھا ۔۔۔
امجد کھوڑو بولا ؛ ابا سائیں ! حالات مختلف ہیں، ابھی فصل کی کٹائی کا وقت ہے۔ ان کمیوں اور ہاریوں کو ابھی نہیں چھیڑنا چاہیے ، اس سے ہمارا وقت ضائع ہو گا اگر انھوں نے کوئی اڑی بازی کرنے کی کوش کوشش کی تو ؟؟
سلطان کھوڑو بولا ؛ بابا ! تو کب سے کمیوں کے سامنے دبنے لگا ؟؟؟
عجیب بات ہے۔۔۔۔۔۔۔آج پہلی بار تم نے ان کی اڑی بازی کے خوف سے اپنا کام ہی نہیں کیا۔۔۔۔۔۔ اگر یہ لوگ اڑی بازی کریں تو ایک نہیں بلکہ سو کمیوں کا خون حلال ہے تجھ پہ۔۔۔۔۔۔۔
سلطان کی بات سن کر امجد کھوڑو بولا ابا سائیں ! بات تو سچ ہے آپکی ۔۔ لیکن اگر بات خون کی بجائے مفاہمت اور سیاست سے حل ہوتی ہے تو ہمیں بھلا کیا نقصان ہے۔ چھوری کبھی ہاریوں کو زندہ نہیں ملے گی اور نہ ہی اس کو کبھی کوئی یاد کرے گا۔ ابا سائیں ! فرزند اور مجھ میں یہی تو فرق ہے، وہ ڈنڈا چلاتا ہے اور میں اپنا ذہن چلاتا ہوں ۔۔۔۔۔ اگر ہم دماغ چلائیں تو کمی ہمارے مزید غلام بن جائیں گے ورنہ یا تو کسی دن ہمارے سامنے کھڑے ہو کر کٹ جائیں گے یا پھر ہمارا کوئی نقصان کر جائیں گے۔
اس کے بعد چاہے ہم سبھی کو کاٹ دیں پر ہمارا نقصان تو ہو چکا ہوگا نہ ؟؟
سلطان کھوڑو اس کی بات سمجھ گیا اور سر ہلاتے ہوے بولا ٹھیک ہے جیسا تجھے ٹھیک لگے کر مگر ایک بات کا دھیان رکھنا اس چھوری کا نام دوبارہ کبھی میرے کانوں میں نہ پڑے۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ سن کر امجد نے شکر ادا کیا کہ باپ قائل ہو گیا ہے۔ اور پھر بات بدلتے ہوے بولا ، کل شام کو رئیس بختاور اور مراد لانگڑی کے مقابلے کا کیا بنا ؟؟؟
یہ بات سن کر سلطان کھوڑو مسکرایا اور بولا؛ کسی دور کی بات ہے بختاور کا باپ میرا جگری یار ہوا کرتا تھا اور میرا سب سے بڑا حریف بھی وہی تھا ۔ بیلوں کی ریس ہو یا مرغوں کی لڑائی ہمیشہ مجھ سے مقابلہ کرتا اور اکثر ہار جاتا تھا ۔۔۔۔۔وہ بڑا جی دار آدمی تھا، ہار کر بھی اس کے متھے پہ ایک وٹ نہیں آتا تھا۔۔۔۔ بختاور بھی اسی کی طرح ہے۔ مقابلہ جی داری سے کرتا ہے۔ مگر وہ اپنے باپ سے ایک قدم آگے نکلا اس نے خود کو نا قابل شکست بنا لیا ہے ۔
امجد کھوڑو باپ کی بات پر حیران ہوتے ہوے بولا ؟ کیا مطلب ابا سائیں ؟
سلطان کھوڑو اس کی طرف سنجیدگی سے دیکھ کر بولا ؛ کل میں نے ایک چھوکرا دیکھا۔ در اصل وہ بختاور کا بچہ تھا۔ اس نے اپنے سے دوگنے پہلوان کو ایسے چت کیا کہ میں نے ساری زندگی کبھی ایسا مقابلہ نہیں دیکھا۔ دلیری اور حوصلہ اس بچے پر ختم ہے ۔
یہ سن کر امجد کھوڑو بولا ، وہ اچھے داؤ پیچ جانتا ہو گا نہ ؟؟؟
اس بات پر سلطان کھوڑو ہنس کر بولا ۔۔۔نہ امجد بابا نہ ۔۔۔۔۔ داؤ پیچ والی بات نہیں تھی۔ وہ بڑا جگرے والا بندہ تھا، ایسا جگر کم ہی لوگوں میں ہوتا ہے۔
امجد کھوڑو اپنے باپ کی اس فطرت سے واقف تھا کہ وہ بلا کا گوہر شناس اور حریص ہے ۔۔۔۔۔اس لئے اس نے مزید کچھ بولنے کی بجاے خاموش رہنا ہی بہتر سمجھا ۔۔۔
اسے خاموش دیکھ کر سلطان کھوڑو دوبارہ بولا ؛ بابا تو نے میرا ایک کام کرنا ہے۔ کسی طرح سے اس چھورے سانول کو یہاں لا اور اپنے بندوں میں شامل کر ۔۔۔۔
بابا ! تو اپنے باپ کی یہ بات گانٹھ باندھ لے کہ وہ بندہ تیری پوری پلٹن پہ حاوی ہے اور جس وڈیرے کے ساتھ سانول کھڑا ہو گا، کل کو وہ وڈیرہ دشمنوں پہ پیر رکھ کر چلے گا۔
یہ سن کر امجد کھوڑو پر سوچ انداز میں سر ہلا کر پلان بنانے لگا کہ ۔۔۔۔۔ اگر وڈیرے سلطان کھوڑو کا دھیان شکو سے بٹانا ہے تو اس کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ سانول کو کسی بھی طرح سے بختاور سے ہتھیانا ہی ہو گا۔ ۔
💕💕💕💕💕💕
کالو وڈیرے امجد کے سامنے ہاتھ باندھے کھڑا تھا کہ تبھی وڈیرے نے ہاتھ کے اشارے سے اسے اپنے قریب بلايا اور بولا ؛ بتا کیسی ہے چھوری؟
کالو نے ادھر ادھر دیکھا اور پاس کھسک کر بولا ،،ابھی چھوری کمسن اور کچی ہے مگر اس کی اٹھان بہترین ہے۔
کچھ ہی دنوں میں اچھی خوراک اور دیکھ بھال کے بعد وہ پہچان میں بھی نہیں آئے گی۔
یہ سن کر وڈیرہ بولا ؛ اس بات کی کسی کو بھی خبر نہ ہو کہ وہ میرے کہنے پہ حویلی میں رکھی گئی ہے۔ خاص طور پر فرزند کو تو اس چھوری کی بھنک تک نہ لگے۔
کالو نے سینے پہ ہاتھ رکھ کر یقین دلایا کہ ایسا ہی ہو گا۔۔۔۔اور پھر چند لمحے خاموش رہنے کے بعد بولا ،، لیکن سائیں اس کی بہتر تربیت تو کوئی عورت ہی کر سکتی ہے ۔اور اس کام کے لئے سلیماں سب سے بہتر رہے گی ۔۔۔۔۔
یہ سن کر وڈیرہ بولا؛ ہاں سلیماں ۔۔۔۔۔وہ بلکل ٹھیک رہے گی۔ تم فکر نہ کرو اسے میں سمجھا دوں گا۔
سلیماں کالو کا ہی زنانہ ورژن تھی۔ جس طرح کالو مردوں کا راز دار اور سب سے خاص گرگا تھا، ویسے ہی سلیماں عورتوں کی دائی ہونے کے ساتھ ساتھ حویلی کے تمام راز و نیاز کی امین بھی تھی۔ کسی وڈیری کو پہلا درد کب ہوا اور کس نوکرانی کو کس وڈیرے کی وجہ سے ایام آنے رک گئے سب کا کچا چٹھا سلیماں کے پاس ہوتا تھا۔
💕💕💕💕💕
امجد کھوڑو کے بلانے پر سلیماں دس ہی منٹوں میں ڈیرے پر اس کے سامنے موجود تھی۔
میری بات غور سے سن سلیماں !
سلیماں نے نظریں جھکا کر کہا: ہو سائیں۔
کالو کے پاس ایک لڑکی ہے۔یہ بات کسی کو معلوم نہ ہو اور اس لڑکی کو صرف میری خدمت کے لیے تیار کرو۔ سب سے پہلے اسے ہندنی سے مسلمان بناؤ اور پھر وڈیروں کی خدمت کے طور طریقے سکھاؤ ۔۔۔۔۔۔۔ تم سمجھ گیں نہ میری بات ؟؟؟
سلیماں بولی ؛ سب ہو جائے گا سائیں۔ سب ہو جائے گا۔
یہ سن کر وڈیرے امجد نے اسے جانے کا اشارہ کیا تو وہ فورا سے پہلے وہاں سے روانہ ہوگئی ۔۔۔
💕💕💕💕💕💕
برادری کی عورتیں آپس میں كهسر پهسر کر رہی تھیں کہ کل شکو کو حویلی بلوایا گیا تھا مگر وہ اب تک واپس نہیں آئی۔
چونکہ اس معاملے میں وڈیروں کا نام آرہا تھا تو کسی کی جرات نہیں ہو رہی تھی کہ وہ میشو یا بلونتی سے کوئی سوال کرتا۔
آخر کار ایک عورت نے ہمت کر کے کھیت میں کام کرتی بلونتی سے پوچھ ہی لیا ۔۔۔۔۔اری بلونتی آج تیری شکو کہیں نظر نہیں آ رہی، کہیں گئی ہوئی ہے کیا ؟
یہ سوال سن کر بلونتی کپکپا کر بولی ہاں ہاں۔۔ بس ذرا کام سے گئی ہے۔
یہ جواب سن کر عورت نے دھیمی آواز میں دوبارہ سرگوشی کی اور بولی ؛ کہیں اسے وڈیروں نے کاٹ تو نہیں دیا ؟؟
اتنا سننے کی دیر تھی کہ بلونتی نے تڑپ کر اس کی طرف دیکھا اور کچھ بولنے کے لئے منہ کھولا ہی تھا کہ تبھی اسے دور سے آتی گھوڑوں کی ٹاپوں کی آواز سنائی دی۔۔۔۔۔۔اس آواز کو سن کر تو سمجھو وہاں موجود ہر ہاری کو سانپ سونگھ گیا ہو ۔۔۔۔سبھی لوگ ایک دوسرے سے بے نیاز ہوکر کام میں جت گئے ۔۔۔۔
چند لمحوں بعد ہی ٹاپوں کی آواز ان کے قریب آکر رک گئی۔۔۔بلونتی نے چور نظروں سے اس طرف دیکھا تو پہلے گھوڑے پر وڈیرہ فرزند سوار تھا اور اسکے پیچھے موجود دوسرے گھوڑے پر اس کا خاص کارندہ کلہاڑی تھامے موجود تھا۔
وڈیرہ روب دار آواز میں بلونتی سے مخاتب ہو کر بولا؛ میشو ملی کہاں ہے ؟
بلونتی کپکپاتے ہوئے آگے بڑھی اور خوفزدہ سی ہوکر بولی ؛ سائیں! میشو تو فصل کی وڈائی پہ گیا ہے ، ابھی تک لوٹا ہی نہیں ۔۔۔
یہ سن کر فرزند نے نفرت بھری نظروں سے بلونتی کو دیکھا اور پھر سے بولا؛ کہاں ہے تیری چھوری جس نے چوری کی جرات کی تھی ؟
بلونتی نے سہم کر نظریں جھکا لیں اور بولی ؛ سائیں! وہ تو یہاں نہیں ہے۔ اسے تو کل وڈیرے امجد نے ڈیرے پر بلایا تھا۔
اس بات پر فرزند چونک کر بولا ۔ ؛ تو کیا وہ اب تک واپس نہیں آئی ؟
نہ سائیں نہ !!! بلونتی نفی میں سر ہلا کر بولی ۔۔۔
اتنا سننے کی دیر تھی کہ وڈیرہ فرزند واپسی کے لئے مڑا اور جس تیز رفتاری سے آیا تھا، اسی تیز رفتاری سے گھوڑا دوڑاتے ہوے واپس لوٹ گیا۔
اسے یوں جاتا دیکھ کر بلونتی زمین پر ڈھے گئی اور اپنا سینہ پیٹ کر بین کرنے لگے ، وڈیرے کو یوں جاتا دیکھ کر اسے یقین ہو گیا تھا کہ اب وہ اپنی بیٹی کو دوبارہ کبھی نہیں دیکھ سکے گی ۔۔۔
تحریر جن زاد
Visit our you tube channel 💕