![]() |
جب مارتھا روبینہ بنی قسط نمبر 2 |
قسط نمبر 2
رائیٹر:
پولیس افیسر احمد یار خان
اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا
اس نے کہا___
ہمیں کسی کے مذہب کے ساتھ کوئی دلچسپی اور کوئی عناد نہیں ہم انسان کو کسی اور پیمانے سے ناپا کرتے ہیں میں نے اسے مارتھا اس لیے کہا ہے کہ وہ اسی نام سے جان پہچانی جاتی تھی،،
کیا اپ ہمیں اس کے متعلق کوئی ایسی بات بتا سکتی ہیں جس سے ہمیں کچھ سراغ مل جائے؟__
انسپیکٹر کلارک نے پوچھا_
میں اس کی پرائیویٹ زندگی کے بارے میں کچھ نہیں جانتی؛؛
اس انگریز عورت نے جواب دیا_
میں اپ کے ساتھ چلتی ہوں کیمپ میں اس کی قریبی دو تین دوستوں کو اپ کے پاس بٹھا دوں گی انہیں جو کچھ معلوم ہوا اپ کو بتا دیں گی ،
اپ کے ذہن میں کوئی شک تو ایا ہوگا!
میں نے کہا_
اپ نے ضرور سوچا ہوگا کہ قاتل کون ہو سکتا ہے_
کیا اپ کے ذہن میں ایسا شک ایا تھا کہ قتل کا باعث مقتولہ کے مذہب کی تبدیلی ہو سکتا ہے ؟
ہو سکتا ہے؟
اس نے جواب دیا_
شاید اپ کو معلوم نہ ہو کہ مقتولہ کا منگیتر بھی تھا_
کوئی شخص اپنی اتنی خوبصورت منگیتر سے دستبردار ہونے پر امدہ نہیں ہو سکتا اس منگیتر پر شک کیا جا سکتا ہے
اور کوئی اور انتہا پسند عیسائی بھی قاتل ہو سکتا ہے_
ہم نے محسوس کر لیا کہ اس لیفٹیننٹ کرنل کے پاس کچھ بھی نہیں_
وہ ہمیں ویکائیوں کے کیمپ میں لے گئی اور وہاں ایک لیفٹیننٹ عورت سے ملوایا اور ہمارا تعارف کروایا ہم نے اسے کہا کہ مقتولہ کی جو قریبی اور رازداں دوست تھیں وہ ہمارے پاس بھیج دی جائے_
لیفٹیننٹ کرنل چلی گئی اور کیمپ کی لیفٹیننٹ ہمیں دفتر کے ایک کمرے میں بٹھا کر نکل گئی میں اور انسپیکٹر کلارک اپس میں سلام و مشورہ کرنے لگے کہ تفتیش کا ائندہ پروگرام کیا ہو اور کس کس کو شامل تفتیش کیا جائے ہماری بات ابھی پوری نہیں ہوئی تھی کہ لیفٹیننٹ تین لڑکیوں کو ساتھ لیے کمرے میں داخل ہوئے اور اس نے ہمیں بتایا کہ یہ مقتولہ کی بہت ہی قریبی دوست تھیں ہم نے لیفٹیننٹ کو جانے کے لیے کہا اور ان تینوں کو اکٹھے ہی اپنے پاس بٹھا لیا_ان سے ان کے نام پوچھے تو پتہ چلا کہ دو ہندو ہیں اور ایک عیسائی ہے انسپیکٹر کلارک نے مجھے اشارہ کیا کہ میں ان سے بات شروع کروں میں نے سب سے پہلے تو ان سے یہ پوچھا کہ ان کی مقتولہ کے ساتھ دوستی کس حد تک تھی تینوں نے باری باری اپنا اپنا جواب دیا جو ایک ہی جیسا تھا اور وہ یہ تھا کہ ان کی اپس میں گہری رازداری تھی کہ دل کی کوئی بات ایک دوسرے سے چھپاتی نہیں تھی_
پھر تو تم تینوں کو اس کے مرنے کا بہت ہی دکھ ہوگا''
میں نے کہا_
اور تم یقینا چاہتی ہوگی کہ اس کے قاتل کو بڑی جلدی پکڑ کر پھانسی کے تختے پر پہنچا دیا جائے""
میری یہ بات سن کر دو لڑکیوں کے تو انسو نکل ائے اور تیسری نے سر جھکا لیا پھر ان میں سے ایک نے کہا کہ وہ چاہتی ہے کہ قاتل کو پکڑ کر ان کے حوالے کیا جائے اور وہ اپنے ہاتھوں سے اسے اذیتیں دے دے کر مارے_
تو پھر ہمیں مقتولہ کی چھوٹی چھوٹی سی بات بھی بتائیں میں نے کہا کچھ چھپائیں نہیں ورنہ ہم کسی سراغ تک نہیں پہنچ سکیں گے اور قاتل ازاد گھومتا پھرتا رہے گا_
یہ تینوں روشن خیال لڑکیاں تھی روشن خیالی کوئی بری بات نہیں ہوتی مجھے کہنا یہ چاہیے کہ یہ بالکل یہ ازاد لڑکیاں تھی یہ بھی ذہن میں رکھیں کہ جو لڑکیاں اس زمانہ فورس میں بھرتی ہوئی اور وکائیاں بنی تھیں وہ وہ خاصی بدنام ہوتی تھیں ،
ان میں شاید ہی کوئی کسی شریف خاندان سے تعلق رکھتی ہو یہ بھی مشہور ہو گیا تھا کہ یہ زمانہ فورس افسروں کی تفریح طبع کے لیے بنائی گئی تھی_
اگر یہ بات غلط تھی تو ان لڑکیوں نے خو ہی ایسی پرائیویٹ زندگی اختیار کر لی تھی کہ افسروں اور من پسند ادمیوں کی تفریح کا ذریعہ بنتی تھیں ۔
جسے عام زبان میں یوں کہہ لیں کہ عیش موج کرتی تھیں ۔
کوئی روک ٹوک نہیں تھی ان تینوں لڑکیوں نے ہمیں بہت کچھ بتایا۔
اس دوران کئی ایک سوال میں نے کیے اور کئی باتیں انسپیکٹر کلارک نے پوچھیں اور اس طرح مقتولہ کی ایک واضح تصویر ہمارے سامنے اگئی
میں مقتولہ کی یہ تصویر پیش کرتا ہوں۔
وہ زندہ دل اور ہنس مکھ لڑکی تھی ہنسی مزاق کو زیادہ پسند کرتی تھی اور ہنسی مذاق کا سلیقہ بھی اسے اتا تھا۔رومان پسند بھی تھی لیکن زیادہ دوستیاں لگانا اسے پسند نہیں تھا۔
ایک بات تو اپ جانتے ہی ہوں گے ان میں سے ایک لڑکی نے کہا۔
ہم جب باہر نکلتی ہیں یا کوئی بھی ویکائی باہر نکلتی ہے دل پھینک عاشق ہمیں پھانسنے کی کوشش کرتے ہیں کوئی پکچر لے جانا چاہتا ہے کوئی ہوٹل میں کھانے کی دعوت دیتا ہے اور کوئی دوستی کا ہاتھ بڑھاتا ہے اور کوئی سچے پیار کا جانسہ دیتا ہے۔
عموما یوں ہوتا ہے کہ کوئی نہ کوئی ویکائی کسی ادمی کو پسند کر کے اس کے ساتھ چل پڑتی ہے اور کھا پی کر اور عیش و عشرت کر کے واپس ا جاتی ہے
ایک ویکائی جانتی ہے کہ سچے دل سے ان کا کوئی دوست نہیں یا یہ سب وقتی چکر ہیں۔
لیکن مارتھا اس طرح کسی کے ہاتھ نہیں اتی تھی۔
چونکہ وہ کھانسی خوبصورت اور پرکشش تھی اس لیے اسے زیادہ امیدوار ملتے تھے اور وہ ہر کسی کو ہنس کر ٹال دیتی تھی یا میں ایک وضاحت کرنا چاہوں گا۔
میں نے پہلے کہا ہے کہ ان دنوں کوئی اتنا جذباتی نہیں ہوا کرتا تھا کہ کسی لڑکی کے ساتھ دوستی پکی کر لے۔
دوستیاں لگتی تھیں اور ٹوٹتی تھیں اور یہ ایک معمول تھا اور سب سے پیار وہ محبت عارضی ہوتا تھا میں نے یہ یہ بات صرف وکائیوں کے متعلق کہی ہے کسی کو یہ غلط فہمی نہ ہو کہ ان دنوں معاشرے میں اتنی بے حیائی اور ازادی اگئی تھی معاشرے میں اج والی ازادی اور بے حیائی نہیں تھی پھر ان لڑکیوں نے بتایا کہ مقتولہ سٹنوگرافر تھی۔
ایر ہیڈ کوارٹر کے اس شعبے کا ڈائریکٹر ایک انگریز سکوارڈن لیڈر تھا۔
اس نے مقتولہ کو اپنی پی اے بھی بنا رکھا تھا۔
مقتولہ نے ان دوستوں سے یہ بات بالکل ہی نہیں چھپائی تھی کہ یہ سکوارڈن لیڈر اسے اپنی تفریح کے لیے بھی استعمال کیا کرتا تھا۔
مقتل نے یہ بات شکایت کے رنگ میں نہیں بتائی تھی بلکہ کچھ خوش تھی کہ اس کا افسر اس پر اتنا مہربان ہے لڑکیوں نے بتایا کہ مقتولہ اتنی خوبصورت تھی کہ انگریز اپنی میموں سے نظریں پھیر لیتے تھے یہ سکوارڈن لیڈر مقتولہ کے ساتھ دفتر میں بھی پیار و محبت کی حرکتیں کر لیا کرتا تھا اور کبھی اسے اپنے ساتھ اپنے گھر بھی لے جایا کرتا تھا اس سکواڈ رن لیڈر کی بیوی بچے انگلینڈ میں تھے
ہم نے جو بات واضح طور پر پوچھی تھی وہ ان لڑکیوں نے یقینی انداز میں بتائی وہ یہ تھی کہ مقتولہ ایسے چال چلن کی نہیں تھی کہ کچھ عرصہ ایک کو دوست بنائے رکھتی اور پھر اسے چھوڑ کر کسی اور کی دوستی میں الجھ جاتی اس میں کچھ وقار ضرور تھا اور وہ شاید اپنی قدر و قیمت جانتی تھی وہ اکثر ان مردوں کا مذاق اڑایا کرتی تھی جو عورتوں کے پیچھے گھوم پھر کر زندگی گزار رہے تھے اپنی ڈائریکٹر سکواڈ رن لیڈر کے متعلق اس نے اپنے اپ کو ایسی خوش فہمی میں مبتلا کیا ہی نہیں تھا کہ اس کے ساتھ یہ انگریز سچی محبت کرتا تھا وہ جانتی تھی کہ انگریز سکواڈ رن لیڈر اپنا وقت رومانی انداز میں گزار رہا ہے اور اگر کوئی اور لڑکی مقتولہ کی جگہ ا جائے تو وہ اس کے ساتھ بھی ایسی ہی حرکتیں اور ایسا ہی رویہ اختیار کر لے گا
پہلی بار روحانی محبت کا ذائقہ چکھا لیکن۔۔۔۔۔
ہم ان لڑکیوں کو مقتولہ کے منگیتر کی طرف لے ائے۔
یہ تو ہمیں پتہ چل گیا تھا کہ مقتولہ کے خیالات انداز اور اس کی سوچیں کیا تھیں اور وہ کس قسم کی اخلاق اور چال چلن کی لڑکی تھی اس کی عمر ابھی 23 24 سال ہی ہوئی تھی ۔
منگیتر کی بات ائی تو لڑکیوں نے بتایا کہ دلی محبت کرنے والی بات تھی
قتل سے اٹھ نو مہینے پہلے مقتولہ کی دوستی اس جواں سال ادمی کے ساتھ ہو گئی تھی یہ بھی عیسائی تھا میری ڈائری میں اس کا نام نہیں لکھا ہوا اور میں نام بھول چکا ہوں اس لیے اس کا فرضی نام ولسن لکھ دیتا ہوں ولسن کی مقتولہ کے ساتھ دوستی کے متعلق ان لڑکیوں نے بتایا کہ تیسرے چوتھے روز شام کے وقت ولسن یہاں ایا کرتا تھا وہ کسی بڑی پرائیویٹ فرم میں سیلز مینیجر یہاں کسی ایسے ہی رتبے کا ادمی تھا اس نوکری میں اسے زیادہ تر گھومنا پھرنا پڑتا تھا اور اس کی سواری موٹر سائیکل تھا جو اسے غالبا کمپنی نے دے رکھا تھا۔
لڑکیوں نے یہ بھی بتایا کہ بڑا اچھا موٹا ساکل تھا اور یہ TRIUMPH تھا ۔۔۔۔۔
میں یہ بتا دینا ضروری سمجھتا ہوں کہ اس دور کی موٹر سائیکل اج کل کے موٹر سائیکلوں سے بالکل ہی مختلف تھے اج کل موٹر سائیکل کے انجن کی طاقت cc کے پیمانے سے سمجھی جاتی ہے اس دور میں موٹر سائیکل کی طاقت ہارس پاور کے حساب سے ہوتی تھی مثلا یہی موٹر سائیکل تین ہارس پاور کا بھی ہوتا تھا چار کا اور پانچ ہارس پاور کا بھی ان کی اواز پھٹ پھٹ جیسی ہوتی تھی اس لیے لوگ موٹر سائیکل کم ہی کہتے بلکہ اسے پھٹ پھٹا کہتے تھے ۔
اس دور میں عام لوگوں کے پاس کار یں نہ ہونے کے برابر تھیں
۔
موٹر سائیکل بھی کسی بڑے ہی امیر ادمی کے پاس ہوتا تھا۔
ولسن اتا اور مقتولہ کو موٹر سائیکل پر بٹھا کر ساتھ لے جاتا تھا۔مقتولہ نے ان تینوں دوستوں کو بتایا تھا کہ یہ سچی محبت ہے اور اسے وہ کورٹ شپ سمجھیں۔
مقتولہ بہت خوش تھی کہ اسے ایسا دوست مل گیا ہے جس کی دوستی کا تعلق جسم کے ساتھ نہیں بلکہ دل کے ساتھ ہے تقریبا چار مہینوں بعد وقت اللہ نے بڑی خوشی سے اپنی ان دوستوں کو خوشخبری سنائی کہ ولسن کے ساتھ اس کی باقاعدہ منگنی ہو گئی ہے اور کچھ عرصے بعد شادی ہو جائے گی دو اڑھائی میں نے گزرے تو مقتولہ کچھ اداس ہی نظر انے لگی ان دوستوں نے اس سے پوچھا تو پہلے وہ ٹالتی رہی اخر ایک روز اس نے انہیں بتایا کہ اس منگیتر کو صرف اس لیے پسند کرتی تھی کہ اس کی نظر اس کے جسم پر نہیں تھی اور وہ پاک محبت کا قائل تھا لیکن وہ محبت کو اسی مقام پر لے ایا ہے جس مقام پر عام لوگ ہمیں لانے کی کوشش کیا کرتے ہیں اور ہم پر روپیہ پیسہ بھی خرچ کرتے ہیں۔
مقتولہ نے منگیتر سے صاف کہہ دیا تھا کہ وہ ایسی دوستی نہیں چاہتی اور جسموں کا ملاپ شادی کے بعد ہی ہوگا لیکن ولسن اس میں کوئی حرج نہیں سمجھتا تھا وہ کہتا تھا کہ منگنی ہو جانے کا بھی مطلب یہ ہو سکتا ہے کہ وہ میاں بیوی بن گئے ہیں میں مقتولہ کی یہ بات سن کر کچھ حیران ہوا کہ ایسے مادر پدر ازاد ماحول میں مقتولہ ایسے پاک کردار کا مظاہرہ کر رہی تھی۔۔۔
اس طرح کی کرائم سچی سٹوری سننے کے لیے اس پیج کو فالو ضرور کر دیں اور اپ سے معذرت کرتا ہوں کہ میں مصروف ہونے کی وجہ سے یہ سٹوری اپلوڈ کرنے میں دیر کرتا ہوں۔۔
یہ پوری سٹوری اور اس کے علاوہ احمد یار خان صاحب کی اور بھی کئی سٹوریز ہم اپنے یوٹیوب چینل پر اپلوڈ کر چکے ہیں اور ابھی اپلوڈ بھی کر رہے ہیں اگر یہ سٹوری اپ مکمل وائز میں سننا چاہتے ہیں تو نیچے چینل کا لنک اور احمد یار خان صاحب کی اسٹوریز کی پلے لسٹ کا لنک بھی میں دے رہا ہوں اگر اپ وہاں سننا چاہیں تو بھی سن سکتے ہیں شکریہ۔۔۔
ہمارا چینل
https://youtube.com/@urduanokhekhaniyan?si=DKoMqkx3eTrHsJoy