ناول . . . . . . . . . سانگھڑ کی ملكہ
رائٹر جن زاد 💕 قسط 1
وڈیرے فرزند کھوڑو کے دونوں گرگوں کے ہاتھوں میں لاٹھیاں تھیں اور انہوں نے گرم زمین پر چت لیٹی لڑکی کے دونوں بازوں پر اپنے پاؤں رکھے ہوے تھے ۔۔
تبھی دور کھڑے فرزند کھوڑو نے ان دونوں سے چلا کر پوچھا؛ اس کم بخت نے اقرار کیا یا نہیں ؟
یہ سن کر لاٹھی بردار بولا . . . . نہ سائیں نہ ۔۔۔ ہک نمبر ڈی چور ہے۔۔۔۔ نہ منی۔۔۔۔
فرزند کھوڑو ذرا قریب آیا اور لڑکی کا جائزہ لینے لگا . . لڑکی کا رنگ گورا اور عمر پندرا سولہ سال تھی۔ اس کے کپڑے پرانے اور پھٹے ہوئے تھےجنہیں کئی جگہوں سے رفو کیا گیا تھا۔ بال لمبے اور چہرے پہ آئے ہوئے تھے اسی لئے وڈیرے کو اس کا چہرا صاف دکھائی نہی دے رہا تھا۔ وڈیرے نے دونوں گرگوں کو اشارہ کیا تو انھوں نے لڑکی کے بازوؤں پر سے اپنے پیر اٹھا لیے، لڑکی تڑپ کر اٹھ بیٹھی اور روتے ہوئے اپنے بازوؤں کو پیچھے موڑ کر کمر کو ایسے چھوا جیسے جھلستی ہوئی پیٹھ کو سہلانے کی کوشش کر رہی ہو۔اسی دوران اس کے چہرے سے یکلخت بال ہٹ گئے۔ جہاں اس کی پیٹھ کو تپتی زمین سے چھٹکارا ملا تھا اب وہیں اس کا چہرا وڈیرے فرزند کی آنکھوں میں آجانے سے اس کی مصیبت میں مزید اضافہ ہو گیا۔
اس کی فراغ پیشانی پر چھوٹی سی بندیا سجی ہوئی تھی اور گلے میں ایک دھاگہ بھی تھا۔ دھاگے پر نظر پڑتے ہی وڈیرے کی نظریں اس کی بھری بھری چھاتیوں تک پہنچیں اور وہیں ٹک گئی ۔ وڈیرہ چند سانیوں تک اسکی چھاتیوں کو بڑی غور سے تكتا رہا اور پھر اچانک آگے بڑھ کر وڈیرے نے اسے بالوں سے پکڑا اور بولا : کیا ناں ہے تیرا چھوکری؟
لڑکی نے تکلیف سے وڈیرے کی طرف دیکھا اور آنکھوں سے بہتے آنسووں سے رندھی آواز میں بولی ۔۔۔۔۔۔سائیں شکو ملہی۔
یہ سن کر وڈیرے نے اسے بالوں سے پکڑ کر آگے گھسیٹا اور نہر کے کنارے لا پٹخا۔۔۔۔۔ اس کھینچا تانی کے دوران لڑکی نے کسی قسم کی کوئی مزاحمت نہ کی۔
وڈیرہ بولا؛ کیوں کی تو نے چوری؟
لڑکی دونوں ہاتھ جوڑ کر بولی ؛ سائیں! میں نے چوری نہیں کی۔ روٹی کا ایک ٹکرا زمین پر گرا تھا، وہ میں نے اٹھالیا اور اپنے بھوکے بھائی کو دے دیا۔
اتنا کہتے ہی وڈیرے کا زور دار تھپڑ اس کے گال پر پڑا تو اس کا ہونٹ پھٹ گیا۔
تھپڑ لگتےہی اس نے لبوں سے رستے لہو کو پونچھے بغیر اپنا چکراتا سر اوپر اٹھایا اور گہری نظروں سے وڈیرے کو تکنے لگی ۔
حرام زادی تیری یہ جرت . . . . . . وڈیرے نے دانتوں کو پیستے ہوے اسے بالوں سے پکڑا اور گھسیٹ کر نہر کے اندر ہی پھینک دیا۔ لڑکی پانی میں گری اور اس نے ہاتھ پیر مار کر کھڑی ہونے کی کوشش کی لیکن وڈیرے نے ایک بار پھر اس کے بال پکڑ کر اسے اپنی طرف گھسیٹا اور دوبارہ دھکا دے دیا ۔ لڑکی کے گیلے کپڑوں اور کیچڑ کے چھینٹوں سے وڈیرے کا اجلا جوڑا بھی کیچڑ زدہ ہو چکا تھا ۔ اس نے ایک بار پھر لڑکی کو بالوں سے پکڑا اور ڈبکی لگوا کر باہر کھینچ لیا ۔
باہر آتے ہی لڑکی پورا منہ کھول کر کسی مچھلی کی طرح سانس لینے لگی۔ وڈیرے نے اسے کھینچا اور پھر نہر کے کنارے گھاس پر منہ کے بل لا پھینکا ۔۔۔لڑکی گری اور فٹ سے اٹھ کر سیدھی ہوگئی تبھی اچانک وڈیرے نے اس کی قمیض کے گریبان کو دونوں کندھوں کے بیچ سے پکڑ کر ایسا زور دار جھٹکا دیا کہ اس کی قمیض چرر کی آواز سے پھٹ گئی۔ اور اس کے ساتھ ہی لڑکی کے کہر ڈھاتے نوخیز پستان سب کے سامنے ابل پڑے ۔۔ جیسے ہی ان کی نظر لڑکی کے کمسن پستانوں پر پڑی وہاں موجود دونوں گرگے اور وڈیرہ فرزند ہجانی انداز میں مشتعل ہوگیے ۔۔
انھیں اپنی جانب گھورتا دیکھ کر لڑکی نے اپنے ننگے بدن کو بازوؤں سے چھپانے کی کوشش کی تو تبھی وڈیرے نے اس کی چھاتی پہ پیر رکھ کر پیچھے کو دھکیل دیا ۔۔۔ وہ پھر سے کمر کے بل جھکتی جھگتی زمین پر جا گری۔
وڈیرے نے اپنی اجرک کندھے سے اتاری اور گھاس پر پهینک دی ۔ پھر اس کے اوپر جھکتے ہوے ہاتھ اسکی ٹانگیں کی طرف بڑھا کر شلوار کا ازار بند نوچ ڈالا اور جھٹکے سے شلوار گھٹنوں تک سرکا دی . . لڑکی نے اپنے تھر تھر کانپتے ہاتھوں کو تیزی سے حرکت دی اور ایک بازو سے اپنا سينہ جبکہ دوسرے ہاتھ سے ٹانگوں کے بیچ کا خم چھپانے کی ناکام کوشش کرنے لگی ۔