ناول . . . . . . . . . سانگھڑ کی ملكہ رائٹر جن زاد 💕 قسط 2
وڈیرے نے اپنی اجرک کندھے سے اتاری اور گھاس پر پهینک دی ۔ پھر اس کے اوپر جھکتے ہوے ہاتھ اسکی ٹانگیں کی طرف بڑھا کر شلوار کا ازار بند نوچ ڈالا اور جھٹکے سے شلوار گھٹنوں تک سرکا دی . . لڑکی نے اپنے تھر تھر کانپتے ہاتھوں کو تیزی سے حرکت دی اور ایک بازو سے اپنا سينہ جبکہ دوسرے ہاتھ سے ٹانگوں کے بیچ کا خم چھپانے کی ناکام کوشش کرنے لگی ۔
وڈیرہ فرزند سیدھا ہوا اور پھر اچانک اپنا نالہ کھولانے لگا . . لڑکی نے اپنے ننگے ہونے پہ اتنی شرمندگی اور خوف محسوس نہیں کیا تھا مگر وڈیرے کی یہ حرکت دیکھ کر تو وہ شرم سے پانی پانی ہوگئی اور اس کے ہوش ہی اڑ گیے ۔ وہ کمسن ضرور تھی مگر ، اسے اتنی خبر تو تھی کہ وڈیرا اب اسکی عزت پامال کر کے ہی دم لے گا . . . . خوف کے مارے اسکی آواز حلق میں پھنس کر رہ گئی اور وہ پھٹی پھٹی آنکھوں سے اپنی اتری شلوار کو گھورے جا رہی تھی . . .
وڈیرے فرزند نے اسکے جرم کی سزا کے طور پر اسے مارنے پیٹے کی بجائے اسکی عزت تار تار کر دینا بہتر سمجھا تھا ۔۔۔۔اسی سوچ کے زیر اثر وہ اس کم سن دوشیزہ پر چڑھ دوڑا . . . جیسے ہی وڈیرے نے سر عام شکو ملہی کی عزت پر ہاتھ ڈالا اسکے گرگے دوسری طرف منہ موڑے ایسے کھڑے ہوگیے جیسے انہیں معلوم ہی نہ ہو کہ وہاں ہو کیا رہا ہے .
بستی کے وہ تمام کمسن بچے اور بچیاں جو اس وقت وہاں موجود تھے دیدے پھاڑے یہ منظر دیکھ رہے تھے۔ اس مجمع میں اکثریت کو تو ٹھیک سے یہ معلوم بھی نہیں تھا کہ آخر وڈیرہ شکو کے ساتھ کر کیا رہا ہے ،
پہلے تو شکو ملہی کافی دیر تک اپنی بے بسی اور وڈیرے کی زيادتی پر چیختی رہی۔ مگر پھر رفتہ رفتہ اس کی چیخیں مدہم ہوتی گئیں اور پھر بلکل ہی ختم ہو گئیں،
شکو نیم غشی کی حالت تک پہنچی تو وڈیرہ بھی اس کے اوپر سے ہٹ گیا۔ تبھی اس نے ایک طنزیہ نگاہ لڑکی پر ڈالی اور شلوار کا ازار بند باندھتے ہوئے بولا ؛ جا تیرا قصور معاف کیو۔
چلو اب یھاں سے ،،، وڈیرے نے اپنے گرگوں کی طرف خوفناک نظروں سے دیکھا اور جھٹ سے گھوڑے پر بیٹھتے ہی اسے ایڑ لگا کر دوبارہ فصلوں کی کٹائی کی جانب چل پڑا۔
راستے میں اسے دوپٹے اور جوتوں سے بے نیاز دو عورتیں بستی کی طرف بھاگتی دکھائی دیں۔ ان میں سے ایک شکو کی ماں تھیں اور دوسری چاچی ، شاید انھیں اطلاع مل چکی تھی کہ شکو کو وڈیرے کے کھانے سے روٹی چرانے کے الزام میں اس کے گرگوں نے پکڑ لیا ہے۔
مگر جتنی دیر میں وہ دونوں وہاں پہنچیں اس سے پہلے ہی شکو کو اسکے جرم کی سزا مل چکی تھی اور وڈیرے نے کمال مہربانی کا مظاہرہ کرتے ہوئے شکو ملہی کو معاف بھی کر دیا تھا۔ ایسا پہلی بار ہوا تھا کہ اس قدر بھیانک جرم کے باوجود بھی کسی وڈیرے نے کسی ہندو کو معاف کر دیا ہو ۔ ہلاںکہ اسکا گناہ تو نا قابل معافی تھا، ایک ہندو لڑکی کے ہاتھ میں گھی لگی روٹی کا ٹکرا دیکھا گیا تھا اور اس کا صاف صاف مطلب یہ تھا کہ اس نے یہ ٹکڑا وڈیرے کی تھالی سے چرایا تھا۔ ایک تو اس نے وڈیرے کی تھالی پلید کر دی تھی اور اوپر سے چوری جیسے سنگین جرم کا ارتکاب بھی کیا تھا۔
یہ تو شکو کی خوش قسمتی تھی کہ اس کا چہرا وڈیرے کو بھا گیا اور اس نے اسکی سزامعاف بھی کر دی ورنہ پھر شاید شکو عمر بھر کے لئے ایک ہاتھ سے معذور ہو جاتی ۔
💕💕💕💕💕💕💕💕
کھپرو ضلع سانگھڑ کا بارڈر کے پاس کا علاقہ تھا یہاں کی ساٹھ فیصد آبادی مسلمان تھی اور باقی سب ہندو ۔۔۔ یہاں کے وڈیرے ہی یہاں کے بے تاج بادشاہ تھے اور ان وڈیروں کے ظلم و ستم کی داستانوں سے یھاں کا بچہ بچہ واقف تھا ۔۔
اس وسیع و عریض علاقے کی جاگیر کھوڑو خاندان کے وڈیرے سلطان کھوڑو کی ملکیت تھی۔ ۔۔۔ویسے تو اس تمام زمین اور جائداد کا اكلوتا مالک سلطان کھوڑو ہی تھا لیکن اس کے بعد اس تمام جائداد کے چار جانشین اور بھی تھے۔ ان جانشینوں میں سلطان کھوڑو کا بیٹا امجد ، بھتیجا فر زند اور امجد کھوڑو کے دو بیٹے نواز اور نوشاد شامل تھے ۔۔۔
وڈیرے سلطان کھوڑو نے انتظامی امور کو اپنے چاروں جانشینوں میں بانٹا ہوا تھا . . اس کا ایک فائدہ تو یہ تھا کہ ساتھ رہتے ہوئے بھی تمام جانشین ایک دوسرے سے دور رہتے تھے اور کوئی کسی دوسرے کے کام میں ٹانگ نہیں اڑاتا تھا۔ یوں ان سب کی اپنی اپنی جاگیر داری بھی چل رہی تھی اور ایک دوسرے سے حسن و سلوک بھی قائم تھا۔
سلطان کھوڑو بوڑھا شیر تھا مگر اس کی دہشت ابھی بھی برقرار تھی۔ وہ اس پورے علاقے کا منصف اور سر پینج بھی تھا۔ اس کا فیصلہ پتھر کی لکیر ہوا کرتا تھا اور وہ خود کو اکبر اعظم سے بھی بڑا انصاف پسند سمجھتا تھا۔
سلطان کھوڑو کا بیٹا جسکا نام امجد تھا وہ زراعت کے تمام معاملات کی نگرانی کرنے کے ساتھ ساتھ تھانے اور کورٹ کچہری کے معملات بھی دیکھتا تھا۔ امجد کھوڑو بلا کا شاطر اور مطلب پرست انسان تھا۔
پورے خاندان کا سب سے زیادہ پڑھا لکھا اور سلجھا ہوا شخص اگر کسی کو کہا جائے تو وہ سلطان کھوڑو کا پوتا اور امجد کھوڑو کا بڑا بیٹا نواز کھوڑو تھا۔ نواز کھوڑو چار جماعتیں پاس تھا اسی لئے روپے پیسے اور فصل بیچنے خریدنے کا سارا کام نواز کے ذمے تھا۔ اپنے باپ اور چچا کی نسبت اس کے مزاج میں دھیما پن ضرور تھا مگر وڈیروں والی تمام خوبیاں اس میں بھی پائی جاتی تھیں۔ یہ بھی شادی شدہ تھا اور اسکی بیوی کا نام زرتاج سومرو تھا ۔۔۔نواز کھوڑو ساتھ والے گاؤں میں موجود کھوڑو خاندان کی دوسری حویلی میں رہائش پزیر تھا اور اس گاؤں کی جاگیر بھی دیکھتا تھا ۔۔
سلطان کھوڑو کے دوسرے یعنی چھوٹے پوتے کا نام نوشاد تھا جوکہ ابھی تک بچہ شمار ہوتا تھا ۔۔۔ اس کا کام شہر میں پڑھنا اور آوارہ گردی کرنا تھا۔ وہ اکثر شہر میں ہی رہتا اور ہفتے میں ایک دو بار حویلی کا چکر لگا جاتا تھا۔ اسے دیہاتی ماحول اور دیہاتی لوگوں سے قطعی کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ وہ تو بس شہری حسیناؤں کا دیوانہ تھا۔
چوتھے جانشین یعنی بھتیجے کا نام فرزند کھوڑو تھا اور اسکے ذمے ہاریوں اور مزدوروں کی دیکھ بھال تھی ۔۔۔۔ ان کے مسلئے مسائل حل کرنا اور ان پہ حکومت قائم رکھنا فرزند کی ذمہ داری تھی ۔ بلا کا شراب نوش اور چرسی ہونے کی وجہ سے اس کی طبیعت میں شدید قسم کی اذیت پسندی تھی۔ وہ بولتا کم اور مارتا زیادہ تھا ۔۔۔ فرزند کی دو بیویاں تھیں ، ایک خاندانی بیوی جو سگے ماموں کی بیٹی تھی اور دوسری اس کے ایک دوست ، وڈیرے فریاد سمو کی بہن تھی ۔۔ اس کی پہلی بیوی اسکی ہم عمر جبکہ دوسری بیوی فرزانہ سمو کی عمر فرزند کھوڑو سے نصف تھی۔۔۔ یہ دونوں بیویاں ایک ہی حویلی میں تھیں اور دونوں ہی اس کی اذیت پسند طبیعت سے خائف تھیں۔ بستر میں درندگی کی انتہا کی وجہ سے دونوں بیویوں کو ہی فرزند سے نفرت تھی اور اسی لئے بیویاں اس کے پاس ہی نہی بھٹکتی تھیں۔ یہاں عام سوکنوں سے مختلف معاملہ تھا۔ اسکی دونوں بیویوں کی یہی کوشش ہوتی تھی کہ فرزند کھوڑو اسکے نہی بلکہ دوسری بیوی کے ساتھ رات گزارے ۔۔ ☆☆☆
وڈیرہ سلطان کھوڑو حویلی کے ڈیرے میں بیٹھا حقہ پی رہا تھا اور نصف درجن کے قریب محافظ کلہاڑیوں اور لاٹھیوں سے لیس اسکے اردگرد موجود تھے۔ اسی دوران باہر گھوڑوں کی ٹاپیں سنائی دیں اور پھر چند لمحوں بعد ہی فرزند کھوڑو کا سیاہ دبلا پتلا وجود ڈیرے میں داخل ہوا۔
اندر آتے ہی اس نے عادتاً اپنی ٹوپی کو درست کیا اور جھک کر سلطان کھوڑو کو سلام کیا۔
سلطان نے سر کے اشارے سے اس کے سلام کا جواب دیا اور برا سا منہ بنا کر بولا ؛ فرزند ! تجھے گند میں منہ میں مارنے کی کیا عادت ہے ؟
فرزند کھوڑو اس کی بات سمجھ گیا کہ اس کا اشارہ شکو ملہی کے ساتھ زیادتی کی طرف ہے۔ اس نے فورا طیش بھری نظروں سے محافظوں کی طرف دیکھا جو اب گونگے بہرے بنے کھڑے تھے۔ اسے اس بات پر بہت غصہ آیا کہ اتنی جلدی یہ بات تایا سلطان تک کیسے پہنچ گئی ۔
نوٹ 💕 اگر اپ کو یہ ناول سننی ہے تو ہمارے چینل کو لازمی سبسکرائب کر دینا تاکہ ہر ہماری نیو اپڈیٹ اپ تک پہنچ سکے ناول کے اغاز میں ہی بتاتا چلوں کہ یہ کہانی بلکل سچی اور سسپین سے بھرپور ہے میرا دعوی ہے کہ آج سے پہلے اتنی مزیدار کہانی آپ لوگوں نہ کبھی پڑھی ہوگی اور نہ آیندہ کبھی پڑھ سکیں گے ۔۔۔۔۔۔۔ کمنٹ میں بتائیں کہ اج کی قسط اپ لوگوں کو کیسی لگی ۔۔
میری پیاری یوٹیوب فیملی اگر اپ یہ ناول سننا چاہتے ہیں تو کمنٹ کرکے ضرور بتائیے گا پھر یہ ناول ہم اپنے چینل پر اپ لوڈ کریں گے بہت شکریہ۔۔۔ Channel name ha 👇 @urduanokhekhaniyan
کمرہ نمبر 302 اور 500 سال پرانی قبر کا خوفناک راز – دو سچی ہارر کہانیاں" --- 2 خوفناک کہانیاں ☠️ "کمرہ نمبر 3…
byNest of Novels June 23, 2025
JSON Variables
Welcome to Nest of Novels! Here, you'll find a collection of captivating Urdu novels, stories, horror tales, and moral stories. Stay tuned for the latest updates and new releases!