ناول . . . . . . . . . سانگھڑ کی ملكہ رائٹر جن زاد 💕 قسط 3
وڈیرہ سلطان کھوڑو حویلی کے ڈیرے میں بیٹھا حقہ پی رہا تھا اور نصف درجن کے قریب محافظ کلہاڑیوں اور لاٹھیوں سے لیس اسکے اردگرد موجود تھے۔ اسی دوران باہر گھوڑوں کی ٹاپیں سنائی دیں اور پھر چند لمحوں بعد ہی فرزند کھوڑو کا سیاہ دبلا پتلا وجود ڈیرے میں داخل ہوا۔
اندر آتے ہی اس نے عادتاً اپنی ٹوپی کو درست کیا اور جھک کر سلطان کھوڑو کو سلام کیا۔
سلطان نے سر کے اشارے سے اس کے سلام کا جواب دیا اور برا سا منہ بنا کر بولا ؛ فرزند ! تجھے گند میں منہ میں مارنے کی کیا عادت ہے ؟
فرزند کھوڑو اس کی بات سمجھ گیا کہ اس کا اشارہ شکو ملہی کے ساتھ زیادتی کی طرف ہے۔ اس نے فورا طیش بھری نظروں سے محافظوں کی طرف دیکھا جو اب گونگے بہرے بنے کھڑے تھے۔ اسے اس بات پر بہت غصہ آیا کہ اتنی جلدی یہ بات تایا سلطان تک کیسے پہنچ گئی ۔
فرزند کھوڑو دھیمے لہجے میں بولا ؟ سائیں ! جب گوبر سے چولہا جلانا ہو تو جانور کا گوں ہاتھ سے ہی اٹھانا پڑتا ہے۔ اسی لئے ہاتھ تو گندے ہوتے ہی ہیں۔
سلطان کھوڑو اس کی بات پہ نا خوش ہوا اور بولا؛ کتنے بندے ہیں تیرے پاس اگر ہاتھ ڈالنا ضروری ہی ہوتا ہے تو ان
بندوں کو بول دیا کر کہ وہ ہاتھ ڈالیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہندو اور نیچ ذاتوں کو ہاتھ لگاتے تجھے گھن محسوس نہیں ہوتی ؟
؛ سائیں ! غصہ آگیا تھا۔ برداشت نہیں ہوا ورنہ اس چھوری پہ اتنے بندے چھوڑتا کہ زندگی بھر بچے دیتی پھرتی۔ اس کی جرات کیسے ہوئی ہماری تھالی سے روٹی اٹھانے کی۔۔۔۔۔
سلطان کھوڑو کی بات سن کر فرزند کھوڑو غصے سے منمنایا ۔۔۔۔۔
سلطان کھوڑو بولا ؛ قصور تو اس کا نا قابل معافی تھا مگر تو نے جو اس کو سزا دی ہے وہ تو اس کے لئے جزا بن جاۓ گی ۔ ایک پلید ذات کی عورت کھوڑو خاندان کے مرد کے نیچے بچھی ہے۔ کل کلاں کو اسے بچہ ہوگیا اور پھر وہ بھونکتی پھری کہ یہ کتے کا پلا کھوڑو خاندان کا ہے تو تب تو کیا کرے گا ؟
؛ اس سے پہلے میں اس چھوری کے ٹکڑے ٹکڑے کردوں گا۔
فرزند کھوڑو دهاڑا ۔۔۔۔
سلطان کھوڑو نا پسندیدگی سے بولا۔۔۔۔۔نہ نہ۔۔ تو اب کچھ نہیں کرے گا۔ میں امجد سے کہتا ہوں وہ دیکھے گا اس معاملے کو۔۔۔۔۔۔۔ تو جا اور اپنا دماغ ٹھنڈا کر۔۔۔۔۔
فرزند کھوڑو غصے سے لبریز گھر میں داخل ہوا اور شدید طیش میں چلایا: صغراں ! کہاں مرگئی ہے تو ؟
اس کی بڑی بیوی پریشانی کے عالم میں بھاگتی ہوئی آئی اور گھبرا کر بولی ؛ کیا ہوا سائیں۔
فرزند کھوڑو بستر پر بیٹھتے ہوئے بولا ؛ سارے کمی کمینوں اور ہاریوں کو دن رات کھینچ کر میں سیدھا رکھتا ہوں تب جا کر اس جاگیر کے کام چلتے ہیں۔ کسی کو میری قدر ہی نہیں۔۔۔۔ میں نہ ہوں تو دو دن بھی حویلی میں کوئی کسی کی چاکری نہ کرے ۔۔۔۔مگر کسی کو میرا خیال ہی نہیں۔
وہ اس کی دس سال پرانی بیوی تھی اور اس کے مزاج کو سمجھتی تھی اسے درست کرنا بھی جانتی تھی۔ اس نے دروازہ پھیرا اور چھاتی سے دوپٹہ ہٹا کر اس کے پیروں میں اس طرح بیٹھ گئی کہ اس کی چھاتیوں کی لکیر اس کے ریشمی کڑاھی والے کرتے میں سے فرزند کو دکھائی دے سکے۔ اس نے فرزند کے پیروں سے اس کی چپل علیحدہ کی اور بولی ؛ سائیں ! دوسروں کو کیا پتا تیری قدر۔ تجھ سے محبت ہو گی تو قدر ہو گی نا۔ ان نیچ ذاتوں کو قابو کرنا ہی تو اصل جاگیر داری ہے۔
فرزند بولا تایا سلطان بولتا ہے کہ تو گوں میں ہاتھ کیوں ڈالتا ہے ؟ میں گوں کی تاپیاں بناؤں گا تبھی چولہے کی آگ جلے گی ناں . . . ۔ کمی کمینوں کو دبانے کے لیے کئی حربے استعمال کرنے پڑتے ہیں تاکہ وہ سر نہ اٹھا سکیں اور ہمیشہ ہمارے غلام رہیں لیکن یہ بات تو کسی کو سمجھ ہی نہیں آتی۔
صغراں نے اس کی ران کو چھوا اور ہلکا ہلکا سا مساج کرتے ہوئے بولی ؛ دفع کر سائیں سب کو ۔۔۔۔۔ تو بس اپنی فکر کیا کر دیکھ دھوپ میں تیرا رنگ کیسا کملا گیا ہے اور تیرے جسم سے ان کمیوں کی بدبو بھی آرہی ہے۔۔۔۔۔۔اگر بندہ دو میل دور سے بھی ان کمیوں کے پاس سے گزر جائے تو جسم گندا ہو جاتا ہے اور تو تو سارا سارا دن ان سے کام لیتا ہے۔
فرزند کھوڑو نے بھی سر جھکا کر جسم کو سونگھا اور بولا ؛ تو ٹھیک کہہ رہی ہے واقعی ان کمیوں کے دور سے بھی گزر جاؤ تو جسم میں بدبو بس جاتی ہے۔ میں تو سارا دن ان کے درمیان رہا ہوں۔ تو میرے کپڑے نکال میں نہاتا ہوں
اور یہ فرزانہ کہاں دفعا ہو گئی ہے ؟
سوکن کا نام سن کر پہلے تو صغراں کے تن بدن میں آگ لگ گئی مگر پھر اس نے اچانک فرزند کی شلوار پر لگی خون کی چند بوندیں دیکھيں تو اسی لمحہ وہ جھٹکے سے ایک قدم پیچھے کو ہٹی اور بولی ؛ میں ابھی اسے بجھواتی ہوں سائیں۔
یہ کہہ کر اس نے اپنا دوپٹہ اٹھایا اور کمرے سے نکل گئی جبکہ وڈیرہ فرزند باتھ روم میں گھس گیا۔
☆☆☆
فرزانہ سمو اپنے کمرے میں شیشے کے سامنے سٹول یہ بیٹھی ہوئی تھی۔ اس کا رنگ گورا تھا اور نین نقش بھی تیکھے تھے۔ ۔ ایک نوکرانی اس کے بال باندھ رہی تھی تو دوسری اس کی ہاتھوں پیروں پر خوشبودار تيل سے مالش کر رہی تھی ۔۔۔
اسی وقت کمرے کا دروازہ بجا اور صغراں اندر داخل ہوتے ہوے بولی ؛ سائیں نے تجھے بلایا ہے ، ہر وقت ان نوکرانیوں کے ساتھ گھسی رہتی ہے کبھی سر کے سائیں کے پاس بھی جایا کر۔ فرزانہ نے اپنی گهنی پلکیں اٹھا کر اس کی طرف دیکھا اور ناک سکیڑ کر بولی ؛ تو بھی تو اس کی بیوی ہے تو کیوں نہیں اس کے پاس گھستی ؟؟
صغراں بولی ؛ میں تو دس سال سے اس کے ساتھ گھس رہی ہوں ، اب تو جو نئی نویلی دلہن بن کے آئی ہے اب تو مزا چکھ۔۔۔۔۔۔
صغراں یہ بات کہہ کر باہر نکل گئی تو فرزانہ بڑ بڑا کر اٹھی۔ اس کے لمبے سیاہ بالوں نے اس کی ساری پشت چھپا لی تھی۔وہ کمرے سے باہر نکلی تو اس کی خاص ملازمہ بختے بھی اس کے پیچھے پیچھے چل پڑی ۔
فرزانہ سمو کولہوں کو مٹکاتی کھوڑو کے کمرے میں داخل ہو گئی تو بختے وهیں باہر رک گئی اور انتظار کرنے لگی کہ کب فرزانہ کی منتوں کی آواز گونجے گی کہ ہائے سائیں ۔۔ نہ
کر سائیں۔۔ پیڑ ۔۔ اے۔۔ ہائے سائیں۔۔ نہ سائیں۔۔ یہ بختے کی پسندیدہ چیخیں تھیں کیونکہ انھیں سن کر بختے کو اس بات کی خوشی ہوتی تھی کہ حویلی کی عورتوں کو بھی بھی وہی درد اور تکلیف ہوتی ہے جو ہم جیسی کمی کمينوں کو وڈیروں کے ہاتھوں بھگتنی پڑتی ہے ۔۔۔
💕💕💕💕💕💕
☆☆☆
وڈیرہ امجد اپنے باپ وڈیرہ سلطان کھوڑو کے پاس بیٹھا تھا۔ سلطان کھوڑو بولا ؛ امجد ! اس بار تو اس نے حد ہی کر دی، ایک ہندنی کے ساتھ منہ کالا کر دیا۔
امجد کھوڑو بد مزا سا ہو کر بولا؛ بابا سائیں ! آپ کو تو پتہ ہی ہے کہ عورت دیکھتے ہی اس کا ناڑا خود بخود کھل جاتا ہے۔۔۔۔ مگر بندہ بھوکا ہو تب بھی کم از کم کتوں کا جھوٹا تو نہیں کھاتا نا؟ اس نے تو گوں میں منہ مار دیا ہے ، اب ہمارے ساتھ بیٹھے گا۔۔ ۔۔۔۔آخ تھو۔
یہ سن کر سلطان کھوڑو بولا ؛ اگر اس چھوری کو سزا دینی تھی تو اس کے ہاتھ توڑ دیتا، اسے نہر میں پھینک دیتا۔ اور اگر اسے ذلیل کرنا تھا تو اپنے بندوں کو اس پر چڑھا دیتا مگر خود ۔۔۔۔ توبہ توبہ ۔۔ کھوڑو کا نطفہ ایک ناپاک ہندنی میں۔۔۔۔۔ چھی چھی۔
امجد کھوڑو بولا ؛ بابا سائیں ! نطفہ پیدا ہونے سے پہلے ہی اس چھوری کو میں کاٹ ڈالوں گا۔
؛ امجد ! بات یہ نہیں ہے کہ وہ نطفہ پروان چڑھتا ہے یا نہیں۔ بات ہے اس زمین کی جس میں اس نے اپنا بیج بویا ہے۔ دو دو زالیں ( بیویاں ) ہیں اس کی۔ ان پر گرمی نکالے نا۔ ایک ہندنی پہ کیوں؟ گھن آرہی ہے مجھے۔ . . ۔۔سلطان کھوڑو ابکائی لیتے ہوے بولا۔۔
بابا سائیں میں سب سمبھال لونگا آپ فکر نہی کرو . . . . .
بیٹے کی بات سن کر سلطان بولا ۔۔۔چل ٹھیک ہے اب تو خود دیکھ لے جو کرنا ہے کر۔۔۔۔۔ اور ہاں اس چھوری کے گھر والوں کو بھی دیکھ لینا۔
امجد بولا ہاں سائیں میں دیکھ لوں گا۔ ابھی اس چھوری کا فیصلہ کرتا ہوں۔
اتنا کہہ کر امجد نے اپنے بندوں میں سے ایک کو آواز دی اور بولا ؛ جا میشو ملہی کو بلا کر لا اور ساتھ میں اس کی چھوری کو بھی اٹھا لا . . .
💕💕💕💕💕
شکو ملہی اپنی ماں اور چچی کو ننگی حالت میں نہر کے کنارے ملی تھی ۔ ان پر قیامت تو ٹوٹ چکی تھی مگر یہ جان کر کسی قدر شکر بھی ادا کیا کہ چلو کم از کم اس کی جان تو بچ گئی ۔ ایک عزت ہی تو لٹی تھی جو ان کمی کمینوں کی تھی ہی نہیں۔ ان کے لیے کسی وڈیرے کے تھپڑ مار لینے یا پھر عزت لوٹ لینے میں کوئی زیادہ فرق نہیں تھا۔ یہی سوچ کر انھوں نے باقی بستی والوں کے آنے سے پہلے ہی شکو کو گھر لے جا کر کپڑے پہنا دیئے اور اس کا جسم بھی صاف کر دیا۔
ہوش میں آتے ہی شکو ماں سے لپٹ گئی اور روتے ہوئے بولی : ماں ۔۔ ماں۔۔ وڈیرے نے میری۔۔ عزت۔۔ لوٹ لی۔
اتنا سنتے ہی اس کی ماں نے اس کے منہ پر ہاتھ رکھا اور بولی ؛ نہ شکو نہ۔ یہ بات اب دوبارہ کبھی منہ سے مت نکالنا۔ کسی نے سن لیا تو ہم پر قیامت ٹوٹ پڑے گی۔ چپ کر اور رونا بند کر۔ وڈیرے پر الزام دھرنے کی سزا نسلوں کو بھگتنی پڑتی ہے . . . چل چپ کر کچھ نہی ہوتا تجھے میں تیرے ساتھ ہوں . . . . یہ کہہ کر ماں نے اسے دلاسا دیا اور بکری کے گرم دودھ میں ہلدی ڈال کر پینے کو دی تاکہ درد میں کمی ہو۔ کچھ گھنٹوں میں شکو گہری نیند سو گئی۔ وہ بھی اپنے ماں باپ کی طرح سخت جان تھی۔ ان کے لیے یہ زندگی کوئی آسان نہ تھی، اس لیے عزت لٹ جانے کا دکھ اور ذلت برداشت کرنے کی سکت قدرت نے پیدا کر ہی دی تھی۔
اصل میں اس کی ماں یہ نہیں چاہتی تھی کہ یہ بات کسی کو معلوم ہو مگر جوں جوں دن ڈھلتا گیا بچوں کے ذریعے یہ بات پوری بستی میں پھیل گئی کہ وڈیرہ فرزند شکو کے ساتھ زیادتی کر گیا ہے۔
اس بات کے پھیلتے ہی پوری بستی میں خوف چھا گیا۔ اصولاً تو بستی کے لوگوں میں غم و غصہ پایا جانا چاہیے تھا کہ ان کی کمسن بچی کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے مگر یھاں تو اس کے بجاے یہ خوف پھیل گیا تھا کہ اب ہندوں کی عورتیں بھی وڈیروں کی زیادتی کا شکار ہو سکتی ہیں کیونکہ اس سے قبل کبھی کسی وڈیرے نے کسی ہندو عورت سے اس قسم کی جنسی زيادتی نہی کی تھی ۔۔۔یہ جو کچھ بھی ہوا تھا ان سب کے لئے خطرے کی گھنٹی تھا ۔۔۔۔
Channel name
@urduanokhekhaniyan