پرانے وقت کی بات ہے، کسی شہر میں دو بھائی رہتے تھے۔ دونوں بہت خوبصورت اور نیک تھے۔ انہیں شکار کا بہت شوق تھا۔ دونوں ایک دوسرے سے اتنا پیار کرتے تھے کہ جہاں بھی جاتے، ساتھ جاتے۔ لوگ ان کی محبت کو دیکھ کر مثالیں دیتے اور کہتے، "پیار ہو تو ایسا ہو۔"
ایک روز کی بات ہے کہ دونوں بھائی شکار کھیلنے کے لیے جنگل میں گئے۔ اتفاق سے انہیں ایک ہرن دکھائی دیا۔ چھوٹے بھائی نے تیر چلایا، مگر نشانہ نہ لگا۔ ہرن وہاں سے چھکّے چوکتے بھاگ نکلا۔ دونوں نے اپنے گھوڑوں کو اس کے پیچھے دوڑا دیا اور برابر اس کا تعاقب کرتے رہے۔
شام کے قریب، جب بڑے بھائی نے تیر مارا تو ہرن ڈگمگا کر گر گیا۔ دونوں فوراً گھوڑوں سے اترے اور ہرن کو ذبح کیا۔ دن بھر دوڑنے کی وجہ سے گھوڑے پسینے پسینے ہو چکے تھے اور دونوں بھائی بھی تھک کر چور ہو گئے تھے۔ بھوک اور پیاس سے بے حال ہو رہے تھے۔
انہوں نے جلدی جلدی لکڑیاں جمع کر کے آگ سلگائی اور ہرن کے گوشت کے کباب بنائے۔ نزدیک ہی ایک چشمہ تھا۔ انہوں نے خود بھی پانی پیا اور اپنے گھوڑوں کو بھی بلایا۔ پانی پیتے ہی سستی سی محسوس ہونے لگی، اور چونکہ رات بھی ہو چکی تھی، اس لیے انہوں نے رات وہیں بسر کرنے کا ارادہ کیا۔
انہوں نے گھوڑوں کی باگ ایک درخت سے باندھ دی اور خود چاندنی رات میں جنگل میں ٹہلنے لگے۔ چھوٹا بھائی اپنی عقل کی وجہ سے مشہور تھا۔ بڑا بھائی کہنے لگا، "لو بھائی، آج تمہاری عقل کا امتحان لیتے ہیں۔ ذرا یہ تو بتاؤ کہ اس وقت ہم اپنے شہر سے کتنے فاصلے پر ہیں اور سمت کون سی ہے؟ دوسری بات یہ بتاؤ کہ ہرن کے کباب ہم نے اس سے پہلے بے شمار بار کھائے ہیں، لیکن جو مزہ آج آیا ہے، وہ پہلے کیوں نہیں آیا؟"
چھوٹا بھائی بڑے بھائی کی بات سن کر ہنسا اور بولا، "یہ تو بہت آسان سوال ہیں جو تم نے مجھ سے پوچھے ہیں۔ اب ان کے جواب سنو۔ ہم اس وقت اپنے شہر سے سو کوس دور ہیں۔ یہ میں نے ایسے حساب لگایا کہ میرا گھوڑا سر پر دوڑے تو دن بھر میں سو کوس کا سفر کرتا ہے۔ ستاروں کو دیکھ کر پتہ چلتا ہے کہ سمت شمال ہے۔
اور رہی ہرن کے کباب کے مزیدار ہونے کی بات، تو بھائی! دن بھر دوڑنے کی وجہ سے ہمیں بھوک لگی تھی، اس لیے ان کبابوں نے بہت مزہ دیا۔ تم جانو تو، بھوک میں چنے بھی بادام معلوم ہوتے ہیں۔"
یہ سن کر بڑا بھائی بولا، "واقعی، تمہاری عقلمندی کا کوئی جواب نہیں!"
چھوٹا بھائی کہنے لگا...
"لو، میں تمہیں ایک اور ایسی بات بتاتا ہوں کہ کل صبح تک غیب سے کوئی ایسا سامان پیدا ہوگا جس سے ہم پہلے کے سارے غم بھول جائیں گے، اور آئندہ زندگی بڑے عیش و آرام سے گزاریں گے۔"
بڑے بھائی نے حیران ہو کر کہا، "یہ بات تم کس وجہ سے کہہ رہے ہو؟"
چھوٹا بھائی یہ سن کر ہنس دیا اور بولا، "بات یہ ہے کہ آج ہم نے سو کوس کا سفر بڑی مشکل سے طے کیا، سارا دن بھوکے پیاسے رہے، مگر اس کے باوجود ہمارا دل بہت خوش ہے۔"
بڑے بھائی نے جواب میں کچھ نہیں کہا۔ دونوں بھائی جنگل کی سیر کرتے رہے اور پھر آرام کرنے کا ارادہ کیا۔
چھوٹے بھائی نے کہا، "دیکھو بھائی، یہ بہت خطرناک جنگل ہے۔ یہاں شیر، چیتے اور نہ جانے کون کون سے موذی جانور رہتے ہوں گے۔ اگر ہم دونوں سو گئے تو نہ جانے کیا ہو۔ ابھی تین پہر رات باقی ہے، ڈیڑھ پہر تم سو جاؤ، میں پہرا دیتا ہوں، پھر ڈیڑھ پہر تم جاگ لینا اور میں آرام کر لوں گا۔"
بڑے بھائی کو یہ تجویز بہت پسند آئی۔ وہ سو گیا اور چھوٹا بھائی اس کی رکھوالی کرنے لگا۔ وہ تھوڑی دیر تو اپنے بھائی کے پاس بیٹھا رہا، پھر تیر کمان ہاتھ میں لے کر ٹہلنے لگا۔ جب آدھی رات کا وقت ہوا تو ایک درخت پر دو جانوروں کے بولنے کی آواز آئی۔ وہ آپس میں باتیں کر رہے تھے۔
چھوٹا بھائی جانوروں کی بولی سمجھتا تھا۔ فوراً ان کی آواز پر کان لگا دیے۔ ایک پرندے نے کہا، "مجھ میں یہ تاثیر ہے کہ جو شخص بھی میرا گوشت کھائے گا، وہ دو لعل اگلے گا، ایک دوپہر سے پہلے اور ایک دوپہر کے بعد۔ پھر ہر مہینے ایک لعل اس کے منہ سے نکلے گا۔"
دوسرے پرندے نے کہا، "جو شخص میرا گوشت کھائے گا، وہ اسی دن بادشاہ بن جائے گا۔"
چھوٹا بھائی پرندوں کی بات سن کر بہت خوش ہوا اور کمان سے دونوں پرندوں کو مار گرایا۔ اسی وقت انہیں ذبح کیا، رات کی بچی کچی لکڑیاں جمع کر کے آگ سلگائی، اور پھر دونوں پرندوں کے گوشت کے کباب بنائے۔ چھوٹا بھائی اتنا خوش تھا کہ رات بھر خود ہی پہرا دیتا رہا، اور بڑے بھائی کو پہرہ دینے کی تکلیف نہ دی۔
صبح کے وقت جب بڑے بھائی کی آنکھ کھلی تو چھوٹے بھائی نے رات کے بچے ہوئے کباب اس کے سامنے رکھ دیے۔ بڑا بھائی بغیر کچھ کہے خاموشی سے انہیں کھا گیا، اور کچھ بھی دریافت نہ کیا کہ یہ کباب کہاں سے آئے اور باری پر تم نے مجھے جگایا کیوں نہیں۔
دن چڑھے جب چھوٹے بھائی نے لعل اگلا، تو اس نے سمجھا کہ میں نے تو اپنی طرف سے بڑی تدبیر کی، لیکن بادشاہ بننا بڑے بھائی کی تقدیر میں لکھا تھا۔ اس نے وہ لعل بڑے بھائی کی خدمت میں پیش کیا اور رات کا سارا واقعہ اسے سنا دیا۔
"مجھے پورا یقین ہے کہ اللہ کی مہربانی سے تمہیں جلد کسی نہ کسی جگہ کی بادشاہت نصیب ہوگی۔ میری طرف سے یہ لعل تمہاری نذر ہے، اسے قبول کرو۔"
بڑا بھائی، چھوٹے بھائی کی سعادت سے بہت متاثر ہوا اور کہنے لگا، "سامنے کوئی آبادی معلوم ہوتی ہے، میں وہاں جاتا ہوں اور اس لعل کو کسی کے ہاتھ فروخت کر کے واپس آتا ہوں۔ اتنی دیر تم گھوڑوں کا خیال رکھنا۔ یہ لعل اگر ہم اپنے شہر لے جا کر بیچیں تو لوگ نہ جانے کیا خیال کریں، ہمیں چور سمجھیں یا جا کر حاکم کو خبر کر دیں، پھر تو بڑی مشکل ہو جائے گی۔"
یہ کہہ کر بڑا بھائی بستی کی طرف چل دیا۔ جب وہ بستی کے قریب پہنچا تو وہاں خلقت کا بڑا ہجوم دیکھا۔ اس سلطنت کا یہ رواج تھا کہ جب بھی بادشاہ فوت ہو جاتا، تو کفن دفن کے بعد شہر کے لوگ صبح سویرے شہر کے دروازے پر پہنچ جاتے اور جو بھی پہلا مسافر دروازے میں داخل ہوتا، اسے اپنا بادشاہ بنا لیتے۔
اتفاق کی بات کہ اس دن بادشاہ فوت ہو چکا تھا اور لوگ رسم و رواج کے مطابق دروازے پر آئے ہوئے تھے، انتظار میں تھے کہ دروازے سے پہلا کون داخل ہوتا ہے۔ بڑا بھائی جیسے ہی وہاں پہنچا، سب نے جھک کر سلام کیا، شاہی تخت پر بٹھایا اور اس کی خدمت میں نذرانے پیش کیے۔ پھر خوشی کے نعرے لگاتے جلوس کی شکل میں اسے شاہی محل لے گئے۔
پہلے روز کے ہنگامے میں بڑے بھائی کو اپنے چھوٹے بھائی کا خیال بالکل نہ رہا۔ دوسرے روز جب وہ تخت پر بیٹھا تو اسے اپنے چھوٹے بھائی کی کہی ہوئی باتیں یاد آئیں۔ اسی وقت ایک سپاہی کو اس جگہ کا پتہ بتایا اور کہا، "ایسی شکل و صورت کا ایک نوجوان اور دو گھوڑے وہاں پر ملیں گے، انہیں فوراً لا کر میرے سامنے حاضر کرو۔"
سپاہی بھاگم بھاگ گیا اور سارا جنگل چھان مارا، لیکن نہ وہ نوجوان ملا، نہ وہ گھوڑے۔ جیسے گیا تھا، ویسے ہی خالی ہاتھ واپس آ گیا۔
چھوٹے بھائی کی کوئی خبر نہ پا کر بڑا بھائی بہت رنجیدہ ہوا اور دل ہی دل میں سوچنے لگا کہ اب میں کیا کروں، اسے کہاں ڈھونڈوں؟ ناچار، بھائی کی جدائی کا داغ اپنے دل میں لیے سلطنت کا کاروبار سنبھالا۔
بھائی تو نہیں ملا، لیکن بھائی کی نشانی، وہ لعل اس کے پاس تھا۔ اسی لعل کی بدولت اسے بادشاہت ملی تھی، اس لیے وہ اسے بہت برکتوں والا سمجھتا تھا۔ وہ ہر روز اسے دربار میں اپنے ساتھ لاتا اور اپنے وزیر و مشیروں کو دکھاتا۔ امیر وزیر بھی بادشاہ کا دل رکھنے کے لیے ایک دوسرے سے بڑھ کر اس لعل کی تعریف کرتے۔
اب ذرا چھوٹے بھائی کا حال سنیے۔
اس کے ساتھ وہ ماجرا پیش آیا جو بڑے بھائی کے ذہن و گمان میں بھی نہیں آ سکتا تھا۔ وہ بیچارہ اپنے بڑے بھائی کے انتظار میں بیٹھا تھا کہ اچانک نہ جانے کہاں سے ایک بڑا خوفناک جانور آیا اور اسے اپنے پنجوں میں لے کر اڑ گیا۔
اس خوفناک جانور کو دیکھ کر گھوڑے ڈر گئے اور اپنی باگیں تڑپا کر جنگل میں دوڑ گئے۔
خدا کی شان کہ بڑا بھائی ایک سلطنت کا بادشاہ بنا، اور چھوٹا بھائی ایک جانور کے پنجوں میں پھنس گیا۔ وہ جانور جب چھوٹے بھائی کو لے کر اڑا تو نہ جانے کتنی دور تک اڑتا رہا۔ جب اڑتے اڑتے تھک گیا تو ایک درخت پر جا بیٹھا۔ یہ درخت ایک کنویں کی منڈیر کے قریب تھا۔
جب جانور درخت پر بیٹھا تو چھوٹا بھائی اس کے پنجوں سے چھوٹ کر کنویں میں جا گرا۔ زندگی باقی تھی، اس لیے نہ جانور کے پنجوں سے کوئی تکلیف آئی، نہ کنویں میں گرنے سے کوئی چوٹ۔ وہ جانور تھوڑی دیر آرام کرنے کے بعد نہ جانے کس طرف اڑ گیا، اور چھوٹا بھائی اسی کنویں میں پڑا رہ گیا۔
اتفاق کی بات دیکھیے کہ اسی دن ایک قافلہ وہاں سے گزرا۔ کنواں دیکھ کر قافلے کے کچھ لوگ رسی اور ڈول لیے وہاں آئے اور ڈول کو کنویں میں ڈالا۔ چھوٹے بھائی نے موقع غنیمت جانا اور اچک کر ڈول میں بیٹھ گیا۔
قافلے کے لوگوں نے رسی کھینچ کر ڈول باہر نکالا تو اس میں پانی کی جگہ ایک نوجوان بیٹھا تھا۔ وہ چھوٹے بھائی کو لے کر قافلے کے سردار کے پاس پہنچ گئے۔ سردار نے اس کا حال دریافت کیا۔
چھوٹے بھائی نے اپنا اصل پتہ تو نہیں بتایا، لیکن موقع کے حالات دیکھ کر اپنی طرف سے ایک کہانی گھڑ سنا دی۔ اس کی بات سن کر سردار کا دل خوش ہو گیا اور اسے اپنی خدمت میں رکھ لیا۔ پھر قافلہ آگے روانہ ہو گیا اور کچھ دنوں بعد اپنی منزل پر جا پہنچا۔ اس سفر میں ایک مہینہ پورا ہو چکا تھا۔
جب چھوٹے بھائی نے ایک لعل اگلا، تو قافلے کے سردار نے اسے دیکھا اور دل میں خیال کیا کہ ایسا لعل ہاتھ آنا مشکل ہے، کوئی تدبیر کرنی چاہیے۔ یہ سوچ کر اس نے چھوٹے بھائی کو قید کیا اور شہر کے کوتوال کے پاس بھیج دیا، اور کہا،
"یہ میرا غلام ہے، آج تک یہ بڑی اچھی طرح میری خدمت کرتا رہا، مگر آج نہ جانے کیوں اس نے میرا لعل چوری کر لیا۔ میں اسے آپ کی خدمت میں اس لیے بھیج رہا ہوں کہ اسے اس کی سزا دی جائے۔"
کوتوال نے چوری کے اس مقدمے کی اطلاع قاضی کو دی۔
قاضی نے کہا، "چور کی سزا یہی ہے کہ اس کے ہاتھ کاٹ دیے جائیں۔"
قافلے کا سردار خوش تھا کہ اب نوجوان کے ہاتھ کاٹ دیے جائیں گے اور لعل میرے ہاتھ آ جائے گا۔
مگر اس شہر کا دستور یہ تھا کہ کسی بھی مجرم کو سزا دینے سے پہلے معاملہ بادشاہ کی بیٹی کے پاس جاتا تھا۔ وہ مجرم کو اپنے پاس بلاتی، اس کا سارا حال دریافت کرتی، اور پھر اپنی عقل و سمجھداری سے فیصلہ سناتی۔
اکثر ایسا ہوتا کہ عدالت میں دی گئی سزا وہی برقرار رہتی، مگر کبھی کبھی شہزادی اپنی رائے سے اسے منسوخ بھی کر دیتی۔
یہ سارا انتظام اس لیے تھا کہ وہاں کا بادشاہ بوڑھا ہو چکا تھا، اور اس کے ایک لڑکی کے سوا کوئی اولاد نہ تھی، جو اس کے تخت و تاج کی وارث بننے والی تھی۔
یہ لڑکی اگرچہ زیادہ عمر کی نہ تھی، اور ابھی اس کی شادی بھی نہیں ہوئی تھی، مگر سب لوگ اس کی عقلمندی اور دانائی دیکھ کر حیران رہ جاتے۔
وہ اپنی خداداد عقل و فہم سے ایسے ایسے فیصلے کرتی کہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جاتا۔ اس کی عقلمندی کے ساتھ ساتھ انصاف پسندی بھی دور دور تک مشہور تھی۔
چھوٹے بھائی کا معاملہ بھی اس کے سامنے پیش آیا۔
شہزادی نے اس کو اور قافلے کے سردار دونوں کو اپنے پاس بلایا۔
شہزادی نے پہلے قافلے کے سردار کی بات سنی۔ اس نے شہزادی کو وہی کہا جو اس نے کوتوال سے کہا تھا۔
اس کے بعد شہزادی نے چھوٹے بھائی سے کہا، "اے نوجوان! تُو نے قافلے کے سردار کی بات سن لی، تو اس کے جواب میں تُو کیا کہتا ہے؟"
چھوٹے بھائی نے بڑی سادگی سے جواب دیا، "اے شہزادیِ صاحبہ، ایک غموں کا مارا ہوا شخص اپنی صفائی میں کیا بیان کرے؟ اس شخص نے جو بھی کہا ہے، سچی بات کہی ہے۔"
شہزادی عقل مند تھی۔ اُس نے کہا کہ آج تک کسی چور نے اپنے چور ہونے کا اقرار نہیں کیا تھا، پھر اس نے اپنے آپ کو مصیبتوں کا مارا ہوا بھی کہا تھا۔ شہزادی اس نتیجے پر پہنچی کہ یہ نوجوان بے گناہ ہے، اور جو اقرار اس نے کیا ہے اس میں بھی کوئی نہ کوئی راز چھپا ہوا ہے۔ شہزادی اس راز کو معلوم کرنا چاہتی تھی۔
اس نے تھوڑی دیر سوچا اور پھر قافلے کے سردار سے کہا، "تم جاؤ اور کل حاضر ہو جانا۔ اس نوجوان کو ہم اپنے پاس ہی رکھیں گے۔"
قافلے کا سردار خوشی خوشی وہاں سے چلا گیا اور شہزادی نے چھوٹے بھائی کو اپنے سپاہیوں کے سپرد کر دیا کہ اسے اپنے پاس رکھیں۔
جب آدھی رات کا وقت ہوا تو شہزادی اس کے پاس آئی اور کہنے لگی، "اے نوجوان، تُو نے یہ جو لال چرایا کا اقرار کیا ہے، اس میں کوئی نہ کوئی راز چھپا ہے۔ مجھے اپنے حالات سے آگاہ کر تاکہ میں انصاف کر سکوں۔"
چھوٹے بھائی نے شروع سے آخر تک سارے حالات سنا ڈالے۔ چھوٹے بھائی کی باتوں سے شہزادی پر بہت اثر ہوا اور وہ وہاں سے چلی گئی۔
دوسرے روز شہزادی نے چھوٹے بھائی کو بادشاہ کے سامنے پیش کیا اور کہا، "ابا حضور! شہر کے قاضی اور کوتوال سچی بات معلوم کیے بغیر مجرم کو سزا دے دیتے ہیں۔ آخر یہ کہاں کا انصاف ہے کہ جسے سزا ملنی چاہیے اسے لعل ملے، اور جسے لعل ملنا چاہیے اسے سزا ملے، اور جو بے قصور ہو اسے سزا ملے، اور چوری کے جرم میں اس کا ہاتھ کاٹا جائے؟"
بادشاہ نے شہزادی کی بات سن کر چھوٹے بھائی اور قافلے کے سردار کو طلب کیا اور ان سے تمام حالات دریافت کیے۔ بادشاہ کی عمر بھی زیادہ ہو چکی تھی اور معاملہ بھی بہت الجھا ہوا تھا، اس کی سمجھ میں کچھ بھی نہ آیا کہ سچا کون ہے اور جھوٹا کون۔ اس پر شہزادی نے کہا، "ابا حضور، اس کا فیصلہ کرنا تو بہت آسان ہے۔
شہزادی نے کہا، "آپ ایک مہینے تک ان دونوں کو قید میں رکھیں۔ اگر یہ نوجوان ایک اور لعل اگلے تو یہ سچا ہے، ورنہ جھوٹا۔ اگر یہ جھوٹا نکلے تو بے شک اسے پھانسی دے دیجیے۔ اس وقت اس بیچارے کا ہاتھ کاٹنے سے کیا حاصل ہوگا؟"
بادشاہ کو شہزادی کی یہ بات بہت پسند آئی، اور اُس نے فوراً حکم دیا کہ قافلے کے سردار اور نوجوان کو الگ الگ قید خانوں میں ڈال دیا جائے۔
مہینہ پورا گزر گیا تو چھوٹے بھائی کو دربار میں سب کے سامنے لایا گیا۔ جب اُس نے سب کے سامنے دوسرا لعل اگلا تو سب حیران رہ گئے۔ شہزادی بے حد خوش ہوئی، کیونکہ اس کی عقلمندی نے ایک بے قصور کو سزا سے بچا لیا تھا۔
بادشاہ نے اسی وقت قافلے کے سردار کا سارا مال و اسباب چھوٹے بھائی کو دلوا دیا اور سردار کو کوڑے مروا کر شہر سے نکال دیا۔ بادشاہ کو چھوٹے بھائی کی باتوں میں دانائی نظر آئی۔ امیروں اور وزیروں نے بھی عرض کیا کہ یہ نوجوان حضور کی خدمت کے لائق ہے۔ بادشاہ نے اسے درباریوں میں شامل کر لیا۔
چھوٹا بھائی درباریوں میں شامل ہوا تو اُس کے جوہر کھل گئے۔ اپنی عقلمندی کی وجہ سے تھوڑے ہی عرصے میں اُس نے بادشاہ کا دل موہ لیا۔ ہر مہینے ایک لعل اگل کر بادشاہ کے سامنے پیش کرتا تھا۔ بادشاہ کا بھی یہ دستور تھا کہ وہ اُسے اپنے پاس سے جدا نہیں کرتا تھا۔
آخرکار بادشاہ نے درباریوں سے مشورہ کر کے اپنی اکلوتی بیٹی کی شادی اس سے کر دی۔
ایک دن شاہی دربار میں جشن تھا۔ اُس میں کئی بادشاہوں کے سفیر شامل ہونے کے لیے آئے تھے۔ ان میں ایک نوجوان سفیر بھی تھا جو چھوٹے بھائی کے بڑے بھائی کے دربار سے آیا تھا۔ باتوں ہی باتوں میں ہیرے جواہرات کا ذکر چل نکلا۔ اُس نوجوان سفیر نے کہا، "ہمارے بادشاہ کے پاس ایک ایسا لعل ہے کہ زمین و آسمان میں آج تک کسی نے ایسا لعل نہیں دیکھا ہوگا۔"
بادشاہ سفیر کی بات سن کر ہنس پڑا، اور جو دس بارہ لعل چھوٹے بھائی نے اگلے تھے، وہ سب منگوا کر اس کے سامنے رکھ دیے۔ سفیر کو جواہرات کی پہچان تھی۔ وہ لعل دیکھ کر کہنے لگا، "عالم پناہ، بڑی حیرانی کی بات ہے، ہمارے بادشاہ کے پاس جو لعل ہے، اُس کا اور ان لعلوں کا رنگ و روپ ایک جیسا ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ وہاں ایک ہے اور یہاں ایک درجن۔ گستاخی نہ ہو تو یہ معلوم کرنا چاہتا ہوں کہ ایسے قیمتی اور نایاب لعل آپ کو کہاں سے ملے؟"
بادشاہ نے چھوٹے بھائی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا، "یہ میرا بیٹا ہے، اور یہ ہر مہینے ایک لعل اگلتا ہے۔"
جب سفیر نے چھوٹے بھائی کی طرف غور سے دیکھا تو اُس نے محسوس کیا کہ اُس کی شکل و صورت اپنے بادشاہ سے بہت ملتی جلتی ہے۔ مگر یہ بات اُس نے ظاہر نہ کی اور خاموش رہا۔
جشن ختم ہونے کے بعد جب وہ سفیر اپنے بادشاہ کے پاس واپس پہنچا تو بادشاہ کا یہ معمول تھا کہ جب بھی تخت پر بیٹھتا تو اس لعل کو اپنے سامنے رکھ لیتا۔ سفیر نے جب وہ لعل دیکھا تو اسے سارا واقعہ یاد آ گیا۔ اُس نے بڑے ادب سے کہا، "حضور، پچھلے مہینے جب میں ایک بادشاہ کے جشن میں گیا تھا تو میں نے دیکھا کہ اُس بادشاہ کا بیٹا ہر مہینے ایسا ہی ایک لعل اگلتا ہے۔"
بادشاہ یہ سنتے ہی فوراً سمجھ گیا کہ وہی اُس کا چھوٹا بھائی ہے۔ اُس نے فوراً اُس بادشاہ کو خط لکھا کہ "ہمیں آپ کے بیٹوں کو دیکھنے کا بہت شوق ہے، انہیں کچھ دنوں کے لیے ہمارے پاس بھیج دیجیے۔"
ساتھ ہی ایک خط اپنے چھوٹے بھائی کو لکھا، جس میں شروع سے آخر تک اپنا سارا حال بیان کیا اور یہ بھی لکھا کہ "بادشاہ بننے کے باوجود تمہاری جدائی دن رات مجھے ستاتی رہتی ہے۔"
اُس نے دونوں خط اسی سفیر کے حوالے کیے، جو دوبارہ اسی بادشاہ کی طرف روانہ ہوا۔ سفیر جلدی ہی سفر کرتا ہوا بادشاہ کے پاس پہنچ گیا، خط پیش کیا اور چھوٹے بھائی کو اس کے بڑے بھائی کا پیغام دیا۔
بڑے بھائی کا خط دیکھتے ہی چھوٹے بھائی کی محبت جاگ اٹھی۔ اُس نے فوراً بادشاہ سے اجازت مانگی۔ سفیر سے راستہ اور نقشہ معلوم کیا اور شہزادی کو ساتھ لے کر ایک جہاز میں سوار ہو گیا جو اُس کے بڑے بھائی کے شہر کی طرف جا رہا تھا۔
اسے بڑے بھائی سے ملنے کا ایسا شوق تھا کہ پل بھر کے لیے بھی اسے چین نہیں آتا تھا۔ مگر تقدیر کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ ابھی وہ شہر سے دس بارہ کوس دور ہی تھا کہ سمندر میں زبردست طوفان آ گیا، اور وہ جہاز طوفان میں تباہ ہو گیا۔ کسی کو کسی کی خبر نہ ملی کہ کون زندہ رہا اور کون ڈوب گیا۔
چھوٹے بھائی کے استقبال کے لیے محل میں تیاریاں ہو رہی تھیں کہ اچانک جہاز کے ڈوبنے کی خبر پہنچ گئی۔ بادشاہ نے فوراً ایک ہزار تیز رفتار سوار دوڑائے کہ جو ڈوبنے والوں کا پتہ لگائیں اور زندہ ملنے والے کو فوراً دربار میں لے آئیں۔
سواروں نے بہت تلاش کی، آخرکار صرف شہزادی ہی ان کے ہاتھ آئی۔ اُنہوں نے عرض کیا کہ نوجوان کا کچھ پتہ نہیں چل سکا، شاید وہ ڈوب گیا ہے۔
ادھر چھوٹے بھائی کا حال سنیے — وہ زندہ تھا، ڈوبنے سے بچ گیا۔ ایک تختے کے سہارے بہتا ہوا، بھوک پیاس سے نڈھال، کئی دنوں بعد کنارے پر پہنچا۔ پھر پوچھتا پوچھتا اُس شہر تک پہنچ گیا جہاں بڑا بھائی حکومت کرتا تھا۔
اُس نے شہر کے دروازے پر اپنا نام اور پتہ بتایا اور کہا کہ بادشاہ کو اطلاع کر دیں۔ سپاہیوں نے اطلاع دی کہ اس نام اور پتے کا ایک نوجوان دروازے پر آیا ہے۔
بادشاہ نے فوراً حکم دیا کہ اسے دربار میں لے آئیں۔ سپاہیوں نے دیر کیے بغیر نوجوان کو دربار میں پہنچا دیا۔
لمبے عرصے کی جدائی اور بھوک پیاس کی وجہ سے چھوٹے بھائی کی حالت بگڑ چکی تھی، اور آسائشوں کی زندگی نے بڑے بھائی کو بھی پہچاننے سے محروم کر دیا تھا۔ جب وہ دربار میں آیا تو بادشاہ نے شہزادی کو بلایا اور کہا، "دیکھو اور پہچانو، کیا یہی شخص تمہارا شوہر ہے؟"
شہزادی نے پردے کے ایک طرف کھڑے ہو کر اس خستہ حال نوجوان کو دیکھا جو خود کو بادشاہ کا چھوٹا بھائی کہہ رہا تھا۔
چھوٹا بھائی سمجھ گیا کہ یہ دونوں ابھی تک مجھے پہچان نہیں سکے۔
چھوٹے بھائی نے کہا، "آج میرا لعل اگلنے کا دن ہے، بس ایک پہر باقی ہے۔ جب میں لعل اگل لوں گا تو آپ خود بخود جان جائیں گے، اور آپ کے دل میں کسی قسم کا کوئی شک نہیں رہے گا۔"
یہ سن کر بادشاہ کو کچھ یقین سا آیا۔ اُس نے سوچا کہ یہ نوجوان ٹھیک کہتا ہے، اگر جھوٹا ہوتا تو کبھی ایسی بات نہ کرتا۔ بادشاہ ابھی کچھ کہہ بھی نہ پایا تھا کہ پردے کے پیچھے سے آواز آئی،
"اے نوجوان! تیری عقل و دانائی مشہور ہے۔ میں ایک پہیلی کہتی ہوں، اگر تم نے بوجھ لی تو میرے دل میں تمہارے لیے کوئی شک نہیں رہے گا۔ ذرا یہ بتاؤ، وہ کون سی چیز ہے جسے ہندو، مسلمان، سکھ، عیسائی — غرض دنیا کے ہر مذہب، ہر قوم، ہر ملک کا شخص کھاتا ہے، مگر اگر اس کا سر کاٹ دیا جائے تو کوئی نہ کھائے، اور اگر کوئی کھائے تو اسی وقت مر جائے؟"
نوجوان نے جواب دیا، "شہزادی صاحبہ، وہ چیز قسم ہے۔"
شہزادی یہ سن کر پردہ ہٹا کر نوجوان کے سامنے آ گئی۔
یہ دیکھ کر بادشاہ نے کہا، "ہم تو کچھ بھی نہیں سمجھے، تم کیا سمجھ کر اس کے سامنے آ گئی ہو؟"
چھوٹے بھائی نے کہا،
"حضور! دنیا کے ہر مذہب کا شخص قسم کھاتا ہے۔ اس کا سر 'ک' ہے۔ اگر سر کاٹ دیا جائے تو 'سم' رہ جاتا ہے، اور 'سم' زہر کو کہتے ہیں۔ اسے کوئی نہیں کھاتا، اگر کوئی کھائے تو اسی وقت مر جاتا ہے۔"
بادشاہ یہ سن کر بہت خوش ہوا، اپنے تخت سے اترا اور نوجوان سے بغلگیر ہو گیا۔
اتنی دیر میں پہر کی مدت بھی پوری ہو چکی تھی۔
نوجوان نے لعل اگل کر بادشاہ کی خدمت میں پیش کر دیا۔
اب تو بادشاہ اور شہزادی کے دل سے شک کا آخری ذرہ بھی ختم ہو گیا۔
محل میں خوشی کے نغمے بجنے لگے، اور صدیوں کے بچھڑے ہوئے بھائی ایک دوسرے سے جا ملے۔
چھوٹے بھائی کے مل جانے کی خوشی میں بڑے بھائی نے فقیروں اور محتاجوں کے لیے اپنے خزانوں کے منہ کھول دیے۔
بہت کچھ صدقہ و خیرات کے طور پر یتیموں، مسکینوں اور بیواؤں میں تقسیم کیا۔
اُس کی سخاوت اور دریا دلی کو دیکھ کر لوگ حاتم طائی کی سخاوت بھول گئے
چھوٹا بھائی ایک مہینے تک اپنے بڑے بھائی کے پاس رہا، اور اس دوران بڑے بھائی نے اس کی بہت خدمت کی۔
اس کے بعد چھوٹا بھائی شہزادی کو لے کر اُس کے باپ کے شہر میں پہنچا، جہاں اس کا باپ اپنی بیٹی سے ملنے کے لیے ہر دن گن رہا تھا۔
ان کے وہاں پہنچنے کے کچھ دن بعد بادشاہ کا انتقال ہو گیا، اور درباریوں نے چھوٹے بھائی کو بادشاہ بنا لیا۔
لعل اگلنے کی وجہ سے لوگ اُسے "لعل بادشاہ" کہنے لگے۔
وہ ایسا کرتا تھا کہ ایک مہینے جو لعل اگلتا، اُسے اپنے خزانے میں رکھوا دیتا،
اور دوسرے مہینے جو لعل اگلتا، وہ اپنے بھائی کے پاس بھجوا دیتا۔
کہتے ہیں کہ لعل بادشاہ نے پچاس سال تک حکومت کی۔
اس کے مرنے کے بعد، اُس کے اور اُس کے بھائی کے خزانے میں سے بے شمار لعل و ہیرے نکلے۔
